باب: عرفہ کے دن عین گرمی میں ٹھک دوپہر کو روانہ ہونا
)
Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: To proceed at noon on the Day of 'Arafa)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1660.
حضرت سالم سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ خلیفہ عبدالملک بن مروان نے حجاج بن یوسف کو خط لکھا کہ وہ احکام حج میں حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کی مخالفت نہ کرے، چنانچہ عبداللہ بن عمر ؓ عرفہ کے دن زوال آفتاب کے بعدتشریف لائے جبکہ میں بھی آپ کے ہمراہ تھا۔ انھوں نے حجاج کے ڈیرے کے پاس پہنچ کر زور سے آواز دی تو حجاج کسم میں رنگی ہوئی چادر اوڑھے باہر نکلا اور کہنے لگا ابو عبدالرحمان!کیا بات ہے؟حضرت ابن عمر ؓ نے فرمایا: اگر تمھیں سنت کی پیروی مطلوب ہے توا بھی چلناچاہیے۔ حجاج بولا: بالکل اسی وقت؟انھوں نے فرمایا: ہاں۔ حجاج نے کہا: مجھے اتنی مہلت دیں کہ میں اپنے سر پر پانی بہالوں پھر چلتا ہوں۔ حضرت ابن عمر ؓ اپنی سواری سے نیچے اتر پڑے، یہاں تک کہ حجاج فارغ ہوکر نکلا۔ جب وہ میرے اور والد گرامی کے درمیان چلنے لگا تو میں نے کہا کہ اگر تو سنت کی پیروی چاہتا ہے تو خطبہ مختصر پڑھنا اور وقوف میں جلدی کرنا۔ یہ سن کر حجاج حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کی طرف دیکھنےلگا۔ جب حضرت عبداللہ بن عمر نے اسے دیکھا تو فرمایا کہ سالم سچ کہتا ہے۔
تشریح:
(1) مقصد یہ ہے کہ مقام نمرہ میں وقوف کی جگہ جلدی پہنچنا چاہیے۔ نمرہ ایک جگہ کا نام ہے جو حرم کے بیرونی کنارے اور عرفات کے کنارے کے درمیان ہے۔ یہاں امام قیام کرتا ہے، اسی جگہ پر رسول الله ﷺ کا خیمہ نصب کیا گیا تھا۔ اس دن رسول اللہ ﷺ نے ظہر اول وقت میں ادا کی، پھر نماز عصر اس کے متصل بعد پڑھا دی۔ اس کے بعد غروب آفتاب تک آپ نے وہاں وقوف فرمایا۔ (2) یہ وقوف حج کا رکن ہے۔ اس کے بغیر حج نہیں ہوتا۔ یہ وقوف عین گرمی کے وقت دوپہر کے بعد ہی شروع کر دینا چاہیے، نیز وقوف سے پہلے غسل کرنا مستحب ہے۔ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نویں ذوالحجہ کو نماز فجر منیٰ میں ادا فرمائی، طلوع آفتاب کے بعد میدان عرفات کو روانہ ہوئے۔ آپ کے لیے مقام نمرہ میں خیمہ لگا دیا گیا تھا، وہاں قیام فرمایا، زوال آفتاب کے بعد آپ نے ظہر اور عصر کو جمع کر کے ادا فرمایا، پھر لوگوں کو خطبہ دیا اور وقوف عرفہ کے لیے بطن وادی میں تشریف لے آئے۔ (سنن أبي داود، المناسك، حدیث:1913) حضرت سالم بن عبداللہ ؒ نے بھی حجاج بن یوسف کو اس پر مجبور کیا کہ اگر سنت کی پیروری کا ارادہ ہے تو جلدی چلو۔ (فتح الباري:645/3)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1614
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1660
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1660
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1660
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
تمہید باب
یعنی وقوف کے لیے نمرہ سے نکلنا۔ نمرہ وہ مقام ہے جہاں حاجی نویں تاریخ کو ٹھہرتے ہیں وہ حد حرم سے باہر اور عرفات سے متصل ہے۔
حضرت سالم سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ خلیفہ عبدالملک بن مروان نے حجاج بن یوسف کو خط لکھا کہ وہ احکام حج میں حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کی مخالفت نہ کرے، چنانچہ عبداللہ بن عمر ؓ عرفہ کے دن زوال آفتاب کے بعدتشریف لائے جبکہ میں بھی آپ کے ہمراہ تھا۔ انھوں نے حجاج کے ڈیرے کے پاس پہنچ کر زور سے آواز دی تو حجاج کسم میں رنگی ہوئی چادر اوڑھے باہر نکلا اور کہنے لگا ابو عبدالرحمان!کیا بات ہے؟حضرت ابن عمر ؓ نے فرمایا: اگر تمھیں سنت کی پیروی مطلوب ہے توا بھی چلناچاہیے۔ حجاج بولا: بالکل اسی وقت؟انھوں نے فرمایا: ہاں۔ حجاج نے کہا: مجھے اتنی مہلت دیں کہ میں اپنے سر پر پانی بہالوں پھر چلتا ہوں۔ حضرت ابن عمر ؓ اپنی سواری سے نیچے اتر پڑے، یہاں تک کہ حجاج فارغ ہوکر نکلا۔ جب وہ میرے اور والد گرامی کے درمیان چلنے لگا تو میں نے کہا کہ اگر تو سنت کی پیروی چاہتا ہے تو خطبہ مختصر پڑھنا اور وقوف میں جلدی کرنا۔ یہ سن کر حجاج حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کی طرف دیکھنےلگا۔ جب حضرت عبداللہ بن عمر نے اسے دیکھا تو فرمایا کہ سالم سچ کہتا ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) مقصد یہ ہے کہ مقام نمرہ میں وقوف کی جگہ جلدی پہنچنا چاہیے۔ نمرہ ایک جگہ کا نام ہے جو حرم کے بیرونی کنارے اور عرفات کے کنارے کے درمیان ہے۔ یہاں امام قیام کرتا ہے، اسی جگہ پر رسول الله ﷺ کا خیمہ نصب کیا گیا تھا۔ اس دن رسول اللہ ﷺ نے ظہر اول وقت میں ادا کی، پھر نماز عصر اس کے متصل بعد پڑھا دی۔ اس کے بعد غروب آفتاب تک آپ نے وہاں وقوف فرمایا۔ (2) یہ وقوف حج کا رکن ہے۔ اس کے بغیر حج نہیں ہوتا۔ یہ وقوف عین گرمی کے وقت دوپہر کے بعد ہی شروع کر دینا چاہیے، نیز وقوف سے پہلے غسل کرنا مستحب ہے۔ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نویں ذوالحجہ کو نماز فجر منیٰ میں ادا فرمائی، طلوع آفتاب کے بعد میدان عرفات کو روانہ ہوئے۔ آپ کے لیے مقام نمرہ میں خیمہ لگا دیا گیا تھا، وہاں قیام فرمایا، زوال آفتاب کے بعد آپ نے ظہر اور عصر کو جمع کر کے ادا فرمایا، پھر لوگوں کو خطبہ دیا اور وقوف عرفہ کے لیے بطن وادی میں تشریف لے آئے۔ (سنن أبي داود، المناسك، حدیث:1913) حضرت سالم بن عبداللہ ؒ نے بھی حجاج بن یوسف کو اس پر مجبور کیا کہ اگر سنت کی پیروری کا ارادہ ہے تو جلدی چلو۔ (فتح الباري:645/3)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے اور ان سے سالم نے بیان کیا کہ عبدالملک بن مروان نے حجاج بن یوسف کو لکھا کہ حج کے احکام میں عبداللہ بن عمر ؓ کے خلاف نہ کرے۔ سالم نے کہا کہ عبداللہ بن عمر ؓ عرفہ کے دن سورج ڈھلتے ہی تشریف لائے میں بھی ان کے ساتھ تھا۔ آپ نے حجاج کے خیمہ کے پاس بلند آواز سے پکارا۔ حجاج باہر نکلا اس کے بدن میں ایک کسم میں رنگی ہوئی چادر تھی۔ اس نے پوچھا ابوعبدالرحمن ! کیا بات ہے؟ آپ نے فرمایا اگر سنت کے مطابق عمل چاہتے ہو تو جلدی اٹھ کر چل کھڑے ہو جاؤ۔ اس نے کہا کیا اسی وقت؟ عبداللہ نے فرمایا کہ ہاں اسی وقت۔ حجاج نے کہا کہ پھر تھوڑی سی مہلت دیجئے کہ میں اپنے سر پر پانی ڈال لوں یعنی غسل کرلوں پھر نکلتا ہوں۔ اس کے بعد عبداللہ بن عمر ؓ (سواری سے ) اتر گئے اور جب حجاج باہر آیا تو میرے اور والد (ابن عمر ) کے درمیان چلنے لگا تو میں نے کہا کہ اگر سنت پر عمل کا ارادہ ہے تو خطبہ میں اختصار اور وقوف (عرفات ) میں جلدی کرنا۔ اس بات پر وہ عبداللہ بن عمر ؓ کی طرف دیکھنے لگا حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے کہا کہ یہ سچ کہتا ہے۔
حدیث حاشیہ:
تشریح : حجاج عبدالملک کی طرف سے حجاز کا حاکم تھا، جب عبداللہ بن زبیر ؓ پر فتح پائی تو عبدالملک نے اسی کو حاکم بنادیا۔ ابوعبدالرحمن حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کی کنیت ہے اور سالم ان کے بیٹے ہیں۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ وقوف عرفہ عین گرمی کے وقت دوپہر کے بعد ہی شروع کردینا چاہئے۔ اس وقت وقوف کے لیے غسل کرنا مستحب ہے اور وقوف میں کسم میں رنگا ہوا کپڑا پہننا منع ہے۔ حجاج نے یہ بھی غلطی کی، جہاں اور بہت سی غلطیاں اس سے ہوئی ہیں، خاص طور پر کتنے ہی مسلمانوں کا خون ناحق اس کی گردن پر ہے۔ اسی سلسلے میں ایک کڑی عبداللہ بن زبیر ؓ کا قتل ناحق بھی ہے جس کے بعد حجاج بیما رہو گیا تھا۔ اور اسے اکثر خواب میں نظر آیا کرتا تھا کہ حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کا خون ناحق اس کی گردن پر سوار ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Salim (RA): 'Abdul Malik wrote to Al-Hajjaj that he should not differ from Ibn 'Umar (RA) during Hajj. On the Day of 'Arafat, when the sun declined at midday, Ibn 'Umar (RA) came along with me and shouted near Al-Hajjaj's cotton (cloth) tent. Al-Hajjaj came Out, wrapping himself with a waist-sheet dyed with safflower, and said, "O Abu Abdur-Rahman! What is the matter?" He said, If you want to follow the Sunna (the tradition of the Prophet (ﷺ) ) then proceed (to 'Arafat)." Al-Hajjaj asked, "At this very hour?" Ibn 'Umar (RA) said, "Yes." He replied, "Please wait for me till I pour some water over my head (i.e. take a bath) and come out." Then Ibn 'Umar (RA) dismounted and waited till Al-Hajjaj came out. So, he (Al-Hajjaj) walked in between me and my father (Ibn 'Umar). I said to him, "If you want to follow the Sunna then deliver a brief sermon and hurry up for the stay at 'Arafat." He started looking at 'Abdullah (Ibn 'Umar (RA)) (inquiringly), and when 'Abdullah noticed that, he said that he had told the truth. ________