باب: عرفات میں دو نمازوں (ظہر اور عصر ) کو ملا کر پڑھنا
)
Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: To offer the two Salat together at 'Arafat)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور عبداللہ بن عمر ؓ کی اگر نماز امام کے ساتھ چھوٹ جاتی تو بھی جمع کرتے۔
1662.
حضرت سالم بن عبداللہ سے روایت ہے کہ حجاج بن یوسف جس سال حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ سے جنگ کرنے (مکے) آیاتو اس نے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے دریافت کیا کہ آپ عرفہ کے دن موقف میں کیا کر تے ہیں؟ حضرت سالم نے کہا: اگرتو سنت کی پیروی کرنا چاہتا ہے تو عرفہ کے دن نماز ظہر دوپہر کے وقت جلدی پڑھنا۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے فرمایا: اس(سالم) نے سچ کہا ہے یقیناً صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سنت کے مطابق ظہر اور عصر کی نماز جمع کرتے تھے۔ ابن شہاب کہتے ہیں: میں نے حضرت سالم سے دریافت کیا: آیا رسول اللہ ﷺ نے بھی ایسا کیا تھا؟حضرت سالم نے جواب دیا کہ تم اس مسئلے میں رسول اللہ ﷺ کی سنت ہی پر چلتے ہو۔
تشریح:
(1) اختلاف کی بنا پر امام بخاری ؒ نے جزم و وثوق کے ساتھ کوئی فیصلہ نہیں کیا کہ عرفہ میں نمازوں کو جمع کرنے کا کیا سبب ہے؟ انہیں سفر کی وجہ سے جمع کرنا ہے یا مناسک حج کی وجہ سے ایسا کرنا ہے۔ اگر مناسک حج کی وجہ سے ہے تو مسافر اور غیر مسافر دونوں حضرات جمع کریں گے اور اگر سفر کی وجہ سے ایسا کرنا ہے تو اہل مکہ کے لیے نمازیں جمع کر کے ادا کرنا جائز نہیں اور نہ وہ شخص ہی جمع کر سکتا ہے جس نے مکے میں اقامت اختیار کر لی ہو۔ ہمارے نزدیک قصر اور جمع کرنا مناسک حج سے ہے، چنانچہ حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ فرماتے ہیں کہ حج کی سنت سے ہے کہ امام زوال آفتاب کے بعد خطبہ دے گا اور خطبے سے فراغت کے بعد ظہر اور عصر جمع کر کے ادا کرے گا۔ (فتح الباري:648/3) (2) اس امر میں اختلاف ہے کہ اگر کوئی اکیلا نماز پڑھے تو وہ کیا کرے؟ دونوں نمازیں جمع کرے یا انہیں الگ الگ اپنے وقت پر ادا کرے! حضرت ابن عمر ؓ کے عمل سے معلوم ہوتا ہے کہ منفرد بھی نمازیں جمع کر کے ہی ادا کرے گا۔ بہرحال ہمارے نزدیک میدان عرفات اور مزدلفہ میں نمازوں کو مطلق طور پر جمع کر کے ادا کرنا چاہیے، خواہ مسافر ہو یا مقیم، امام کے ساتھ پڑھے یا اکیلا ادا کرے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1616
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1662
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1662
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1662
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
تمہید باب
اس اثر کو امام ابراہیم بن اسحاق حربی نے اپنی کتاب "المناسک" میں بیان کیا ہے۔ حضرت نافع بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ اگر عرفہ کے دن امام کے ساتھ نماز نہ پڑھ سکتے تو اپنے گھر واپس آ کر دونوں نمازوں (ظہر اور عصر) کو جمع کر کے ادا کرتے۔ (فتح الباری:3/648)
اور عبداللہ بن عمر ؓ کی اگر نماز امام کے ساتھ چھوٹ جاتی تو بھی جمع کرتے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت سالم بن عبداللہ سے روایت ہے کہ حجاج بن یوسف جس سال حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ سے جنگ کرنے (مکے) آیاتو اس نے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے دریافت کیا کہ آپ عرفہ کے دن موقف میں کیا کر تے ہیں؟ حضرت سالم نے کہا: اگرتو سنت کی پیروی کرنا چاہتا ہے تو عرفہ کے دن نماز ظہر دوپہر کے وقت جلدی پڑھنا۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے فرمایا: اس(سالم) نے سچ کہا ہے یقیناً صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سنت کے مطابق ظہر اور عصر کی نماز جمع کرتے تھے۔ ابن شہاب کہتے ہیں: میں نے حضرت سالم سے دریافت کیا: آیا رسول اللہ ﷺ نے بھی ایسا کیا تھا؟حضرت سالم نے جواب دیا کہ تم اس مسئلے میں رسول اللہ ﷺ کی سنت ہی پر چلتے ہو۔
حدیث حاشیہ:
(1) اختلاف کی بنا پر امام بخاری ؒ نے جزم و وثوق کے ساتھ کوئی فیصلہ نہیں کیا کہ عرفہ میں نمازوں کو جمع کرنے کا کیا سبب ہے؟ انہیں سفر کی وجہ سے جمع کرنا ہے یا مناسک حج کی وجہ سے ایسا کرنا ہے۔ اگر مناسک حج کی وجہ سے ہے تو مسافر اور غیر مسافر دونوں حضرات جمع کریں گے اور اگر سفر کی وجہ سے ایسا کرنا ہے تو اہل مکہ کے لیے نمازیں جمع کر کے ادا کرنا جائز نہیں اور نہ وہ شخص ہی جمع کر سکتا ہے جس نے مکے میں اقامت اختیار کر لی ہو۔ ہمارے نزدیک قصر اور جمع کرنا مناسک حج سے ہے، چنانچہ حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ فرماتے ہیں کہ حج کی سنت سے ہے کہ امام زوال آفتاب کے بعد خطبہ دے گا اور خطبے سے فراغت کے بعد ظہر اور عصر جمع کر کے ادا کرے گا۔ (فتح الباري:648/3) (2) اس امر میں اختلاف ہے کہ اگر کوئی اکیلا نماز پڑھے تو وہ کیا کرے؟ دونوں نمازیں جمع کرے یا انہیں الگ الگ اپنے وقت پر ادا کرے! حضرت ابن عمر ؓ کے عمل سے معلوم ہوتا ہے کہ منفرد بھی نمازیں جمع کر کے ہی ادا کرے گا۔ بہرحال ہمارے نزدیک میدان عرفات اور مزدلفہ میں نمازوں کو مطلق طور پر جمع کر کے ادا کرنا چاہیے، خواہ مسافر ہو یا مقیم، امام کے ساتھ پڑھے یا اکیلا ادا کرے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کی نماز باجماعت فوت ہوجاتی تو دونوں نمازوں کو جمع کرکے پڑھتے تھے۔
حدیث ترجمہ:
لیث نے بیان کیا کہ مجھ سے عقیل نے ابن شہاب سے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھے سالم نے خبر دی کہ حجاج بن یوسف جس سال عبداللہ بن زبیر ؓ سے لڑنے کے لیے مکہ میں اترا تو اس موقع پر اس نے عبداللہ بن عمر ؓ سے پوچھا کہ عرفہ کے دن وقوف میں آپ کیا کرتے تھے؟ اس پر سالم ؒ بولے کہ اگر تو سنت پر چلنا چاہتا ہے تو عرفہ کے دن نماز دوپہر ڈھلتے ہی پڑھ لینا۔ عبداللہ بن عمر ؓ نے فرمایا کہ سالم نے سچ کہا، صحابہ ؓ آنحضرت ﷺ کی سنت کے مطابق ظہر اور عصر ایک ہی ساتھ پڑھتے تھے۔ میں نے سالم سے پوچھا کہ کیا رسول اللہ ﷺ نے بھی اسی طرح کیا تھا؟ سالم نے فرمایا اور کس کی سنت پر اس مسئلہ میں چلتے ہو۔
حدیث حاشیہ:
یعنی عرفات میں ظہر اور عصر میں جمع کرنا آنحضرت ﷺ ہی کی سنت ہے، آپ ﷺ کے سوا اور کس کا فعل سنت ہو سکتا ہے اور آپ کی سنت کے سوا اور کس سنت پر تم چل سکتے ہو، بعض نسخوں میں ''تتبعون'' کے بدل ''یتبعون'' ہے۔ یعنی آپ کے سوا اور کس کا طریقہ ڈھونڈتے ہیں (وحیدی) محققین اہل حدیث کا یہی قول ہے کہ عرفات میں اور مزدلفہ میں مطلقاً جمع کرنا چاہئے خواہ آدمی مسافر ہو یا نہ ہو، امام کے ساتھ نماز پڑھے یا اکیلے پڑھے۔ چنانچہ علامہ شوکانی ؒ فرماتے ہیں : أجمع أهل العلم علی أن الإمام یجمع بین الظهر و العصر بعرفة و کذلك من صلی مع الإمام۔یعنی اہل علم کا اس پر اجماع ہے کہ عرفات میں امام ظہر اور عصر میں جمع کرے گا اور جو بھی امام کے ساتھ نمازی ہوں گے سب کو جمع کرنا ہوگا۔(نیل الأوطار)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Salim said, "In the year when Al-Hajjaj bin Yusuf attacked Ibn Az-Zubair, the former asked 'Abdullah (Ibn 'Umar) what to do during the stay on the Day of 'Arafa (9th of Dhul-Hajjah). I said to him, "If you want to follow the Sunna (the legal way of the Prophet (ﷺ)) you should offer the Salat just after midday on the Day of the 'Arafa. 'Abdullah bin 'Umar said, 'He (Salim) has spoken the truth.' " They (the Companions of the Prophet (ﷺ)) used to offer the Zuhr and Asr prayer together according to the Sunna, I asked Salim, "Did Allah's Messenger (ﷺ) do that ?" Salim said, "And in doing that do you (people) follow anything else except his (ﷺ) Sunna?"