Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: To dismount between 'Arafat and Jam')
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1670.
حضرت کریب کہتے ہیں کہ مجھے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے حضرت فضل بن عباس ؓ کے حوالے سے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ تلبیہ کہتے رہے تا آنکہ آپ جمرہ عقبہ پر پہنچ گئے (وہاں آپ نے کنکریاں ماریں)۔
تشریح:
(1) ان احادیث سے معلوم ہوا کہ میدان عرفات میں مزدلفہ آتے وقت اگر راستے میں کوئی ضرورت پیش آ جائے تو اتر کر اسے پورا کیا جا سکتا ہے، لیکن یہ اترنا مناسک حج سے نہیں ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو ایک گھاٹی میں اپنی بشری ضرورت پوری کرنے کے لیے اترے تھے۔ ایسا کرنا ارکان حج سے نہیں تھا مگر حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ افعال رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کا شدید جذبہ رکھنے کی وجہ سے وہاں ٹھہرتے، قضائے حاجت کرتے، پھر وضو کر لیتے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں یہ تمام امور سرانجام دیے تھے۔ خلفائے بنو امیہ وہاں مغرب کی نماز پڑھتے تھے، حالانکہ ایسا کرنا خلاف سنت ہے۔ (2) مسنون یہ ہے کہ مزدلفہ میں مغرب اور عشاء کو جمع کر کے پڑھا جائے۔ خلفائے بنو امیہ نے اس سنت کو ترک کر دیا تھا۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد صرف یہ ہے کہ عرفات سے واپسی کے وقت اگر راستے میں کوئی ضرورت درپیش ہو تو اسے اتر کر پورا کیا جا سکتا ہے، اس میں کوئی حرج نہیں۔ (فتح الباري:656/3)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1624
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1670
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1670
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1670
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
حضرت کریب کہتے ہیں کہ مجھے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے حضرت فضل بن عباس ؓ کے حوالے سے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ تلبیہ کہتے رہے تا آنکہ آپ جمرہ عقبہ پر پہنچ گئے (وہاں آپ نے کنکریاں ماریں)۔
حدیث حاشیہ:
(1) ان احادیث سے معلوم ہوا کہ میدان عرفات میں مزدلفہ آتے وقت اگر راستے میں کوئی ضرورت پیش آ جائے تو اتر کر اسے پورا کیا جا سکتا ہے، لیکن یہ اترنا مناسک حج سے نہیں ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو ایک گھاٹی میں اپنی بشری ضرورت پوری کرنے کے لیے اترے تھے۔ ایسا کرنا ارکان حج سے نہیں تھا مگر حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ افعال رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کا شدید جذبہ رکھنے کی وجہ سے وہاں ٹھہرتے، قضائے حاجت کرتے، پھر وضو کر لیتے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں یہ تمام امور سرانجام دیے تھے۔ خلفائے بنو امیہ وہاں مغرب کی نماز پڑھتے تھے، حالانکہ ایسا کرنا خلاف سنت ہے۔ (2) مسنون یہ ہے کہ مزدلفہ میں مغرب اور عشاء کو جمع کر کے پڑھا جائے۔ خلفائے بنو امیہ نے اس سنت کو ترک کر دیا تھا۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد صرف یہ ہے کہ عرفات سے واپسی کے وقت اگر راستے میں کوئی ضرورت درپیش ہو تو اسے اتر کر پورا کیا جا سکتا ہے، اس میں کوئی حرج نہیں۔ (فتح الباري:656/3)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
کریب نے کہا کہ مجھے عبداللہ بن عباس ؓ نے فضل ؓ کے ذریعہ سے خبر دی کہ آنحضرت ﷺ برابر لبیک کہتے رہے تا آنکہ جمرہ عقبہ پر پہنچ گئے (اور وہاں آپ ﷺ نے کنکریاں ماریں )
حدیث حاشیہ:
ہلکا وضو یہ کہ اعضاءوضو کو ایک ایک بار دھویا یا پانی کم ڈالا۔ اس حدیث سے یہ بھی نکلا کہ وضو کرنے میں دوسرے آدمی سے مدد لینا بھی درست ہے نیز اس حدیث سے یہ مسئلہ بھی ظاہر ہوا کہ حاجی جب رمی جمار کے لیے جمرہ عقبہ پر پہنچے اس وقت سے لبیک پکارنا موقوف کرے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Kuraib, (a sub-narrator) said that ' Abdullah bin Abbas (RA) narrated from Al-Fadl, "Allah's Apostle (ﷺ) kept on reciting Talbiya (during the journey) till he reached the Jamra." (Jamrat-al-Aqabah)