باب : عرفات سے لوٹتے وقت رسول اللہ کریم ﷺ کا لوگوں کو سکون و اطمینان کی ہدایت کرنا اور کوڑے سے اشارہ کرنا
)
Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: People should be calm and patient on proceeding (from 'Arafat))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1671.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ کے ہمراہ عرفہ کے دن واپس ہوئے تو نبی کریم ﷺ نے اپنے پیچھے شور و غل اوراونٹوں کومارنے پیٹنے کی آوازسنی۔ آپ نے اپنے کوڑے سے ان کی طرف اشارہ فرمایا اورحکم دیا: ’’لوگو!سکون قائم رکھو۔ اونٹوں کودوڑانے میں کوئی نیکی نہیں ہے۔‘‘ أَوْضَعُوا کے معنی تیز دوڑنے کے ہیں خِلَالَكُمْ کے معنی ہیں: ’’تمہارے درمیان‘‘ وَفَجَّرْنَا خِلَالَهُمَا کے معنی ہیں۔ ہم نے ان کے درمیان (نہر کو) جاری کیا۔
تشریح:
(1) جب ایک کام سے فراغت کے بعد دوسرا کام شروع کرنا ہوتا ہے تو پہلے کام سے فراغت کے بعد بھگڈر مچ جاتی ہے اور لوگ شوروغل کرتے ہوئے دوسرے کام کی طرف دوڑتے ہیں، چنانچہ غروب آفتاب کے بعد جب لوگ وقوف عرفات سے فارغ ہوئے تو مزدلفہ پہنچنے کے لیے اپنے اونٹوں کو تیز دوڑانا شروع کر دیا اور شوروغل کرنے لگے۔ رسول اللہ ﷺ نے انہیں تنبیہ فرمائی کہ عرفات سے نکلتے وقت بے تحاشانہ بھاگیں اور نہ اونٹوں کو دوڑائیں کیونکہ ایسے موقع پر انہیں دوڑانا کوئی اچھا کام نہیں بلکہ ایسا کرنے سے نقصان کا اندیشہ ہے۔ (2) امام بخاری ؒ کی عادت ہے کہ حدیث میں جو الفاظ قرآنی مصادر سے آتے ہیں، ان کی قرآنی آیات سے وضاحت کر دیتے ہیں تاکہ مطالعہ کرنے والوں کو قرآن و حدیث پر بیک وقت عبور حاصل ہو، چنانچہ حدیث میں لفظ إيضاع آیا ہے۔ اس مناسبت سے آپ کا ذہن سورہ توبہ کی اس آیت کی طرف منتقل ہوا: ﴿وَلَأَوْضَعُوا خِلَالَكُمْ يَبْغُونَكُمُ الْفِتْنَةَ﴾(التوبة:47:9)’’اور تمہارے درمیان فتنہ برپا کرنے کے لیے ضرور ادھر ادھر دوڑتے پھرتے۔‘‘ چونکہ اس آیت میں (خِلَالَكُمْ) کا لفظ آیا ہے اس مناسبت سے سورۃ الکہف کی آیت کو زیر بحث لائے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَفَجَّرْنَا خِلَالَھُمَا نَھرًا ﴿٣٣﴾) (الکھف33:18)’’اور ہم نے ان کے درمیان ایک نہر جاری کر دی تھی۔‘‘ مقصد یہ ہے کہ خلال کے معنی درمیان کے ہیں۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1625
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1671
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1671
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1671
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ کے ہمراہ عرفہ کے دن واپس ہوئے تو نبی کریم ﷺ نے اپنے پیچھے شور و غل اوراونٹوں کومارنے پیٹنے کی آوازسنی۔ آپ نے اپنے کوڑے سے ان کی طرف اشارہ فرمایا اورحکم دیا: ’’لوگو!سکون قائم رکھو۔ اونٹوں کودوڑانے میں کوئی نیکی نہیں ہے۔‘‘ أَوْضَعُوا کے معنی تیز دوڑنے کے ہیں خِلَالَكُمْ کے معنی ہیں: ’’تمہارے درمیان‘‘ وَفَجَّرْنَا خِلَالَهُمَا کے معنی ہیں۔ ہم نے ان کے درمیان (نہر کو) جاری کیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) جب ایک کام سے فراغت کے بعد دوسرا کام شروع کرنا ہوتا ہے تو پہلے کام سے فراغت کے بعد بھگڈر مچ جاتی ہے اور لوگ شوروغل کرتے ہوئے دوسرے کام کی طرف دوڑتے ہیں، چنانچہ غروب آفتاب کے بعد جب لوگ وقوف عرفات سے فارغ ہوئے تو مزدلفہ پہنچنے کے لیے اپنے اونٹوں کو تیز دوڑانا شروع کر دیا اور شوروغل کرنے لگے۔ رسول اللہ ﷺ نے انہیں تنبیہ فرمائی کہ عرفات سے نکلتے وقت بے تحاشانہ بھاگیں اور نہ اونٹوں کو دوڑائیں کیونکہ ایسے موقع پر انہیں دوڑانا کوئی اچھا کام نہیں بلکہ ایسا کرنے سے نقصان کا اندیشہ ہے۔ (2) امام بخاری ؒ کی عادت ہے کہ حدیث میں جو الفاظ قرآنی مصادر سے آتے ہیں، ان کی قرآنی آیات سے وضاحت کر دیتے ہیں تاکہ مطالعہ کرنے والوں کو قرآن و حدیث پر بیک وقت عبور حاصل ہو، چنانچہ حدیث میں لفظ إيضاع آیا ہے۔ اس مناسبت سے آپ کا ذہن سورہ توبہ کی اس آیت کی طرف منتقل ہوا: ﴿وَلَأَوْضَعُوا خِلَالَكُمْ يَبْغُونَكُمُ الْفِتْنَةَ﴾(التوبة:47:9)’’اور تمہارے درمیان فتنہ برپا کرنے کے لیے ضرور ادھر ادھر دوڑتے پھرتے۔‘‘ چونکہ اس آیت میں (خِلَالَكُمْ) کا لفظ آیا ہے اس مناسبت سے سورۃ الکہف کی آیت کو زیر بحث لائے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَفَجَّرْنَا خِلَالَھُمَا نَھرًا ﴿٣٣﴾) (الکھف33:18)’’اور ہم نے ان کے درمیان ایک نہر جاری کر دی تھی۔‘‘ مقصد یہ ہے کہ خلال کے معنی درمیان کے ہیں۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابراہیم بن سوید نے بیان کیا، کہا مجھ سے مطلب کے غلام عمرو بن ابی عمرو نے بیان کیا، انہیں والیہ کوفی کے غلام سعید بن جبیر نے خبر دی، ان سے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے بیان کیا کہ عرفہ کے دن (میدان عرفات سے ) وہ نبی کریم ﷺ کے ساتھ آرہے تھے آنحضرت ﷺ نے پیچھے سخت شور (اونٹ ہانکنے کا ) اور اونٹوں کی مار دھاڑ کی آواز سنی تو آپ نے ان کی طرف اپنے کوڑے سے اشارہ کیا اور فرمایا کہ لوگو ! آہستگی و وقار اپنے اوپر لازم کرلو، (اونٹوں کو ) تیز دوڑانا کوئی نیکی نہیں ہے۔ امام بخاری فرماتے ہیں کہ ( سورۃ بقرہ میں ) ''أوضعوا '' کے معنی : ریشہ دوانیاں کریں،''خلالکم '' کا معنی تمہارے بیچ میں، اسی سے (سورہ کہف ) میں آیا ہے فجرنا خلالھما یعنی ان کے بیچ میں۔
حدیث حاشیہ:
چونکہ حدیث میں ’’ایضاع‘‘ کا لفظ آیا ہے تو امام بخاری نے اپنی عادت کے موافق قرآن کی اس آیت کی تفسیر کردی جس میں ﴿وَلَأَوْضَعُوا خِلَالَكُمْ﴾ آیا ہے۔ اور اس کے ساتھ ہی خلالکم کے بھی معنی بیان کر دیئے پھر سورۃ کہف میں بھی خلالکم کا لفظ آیا تھا اس کی بھی تفسیر کردی ( وحیدی ) حضرت امام بخاری ؒ چاہتے ہیں کہ احادیث میں جو الفاظ قرآنی مصادر سے آئیں ساتھ ہی آیات قرآنی سے ان کی وضاحت فرما دیں تاکہ مطالعہ کرنے والوں کو حدیث اور قرآن پر پورا پورا عبور حاصل ہو سکے۔ جزا اللہ خیرا عن سائر المسلمین۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn Abbas (RA) . : I proceeded along with the Prophet (ﷺ) on the day of 'Arafat (9th Dhul-Hijja). The Prophet (ﷺ) heard a great hue and cry and the beating of camels behind him. So he beckoned to the people with his lash, "O people! Be quiet. Hastening is not a sign of righteousness."