باب : جس نے کہا کہ ہر نماز کے لیے اذان اور تکبیر کہنا چاہئے اس کی دلیل
)
Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: Adhan and Iqama for each of them)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1675.
حضرت عبدالرحمان بن یزید سے روایت ہے، انھوں نے کہا: حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے حج کیا تو ہم اذان عشاء کے وقت یا اس کے قریب مزدلفہ پہنچے۔ انھوں نے ایک آدمی کوحکم دیا اس نے اذان اور اقامت کہی، پھر انھوں نے نماز مغرب اداکی۔ اسکے بعد دو رکعت پڑھیں۔ پھر رات کاکھانا منگوا کرتناول فرمایا، پھر انھوں نے ایک آدمی کو حکم دیا تو اس نے اذان اور اقامت کہی۔ اس کے بعد انھوں نے نماز عشاء کی دو رکعتیں ادا کیں۔ جب فجر طلوع ہوئی تو فرمایا کہ نبی کریم ﷺ آج کے دن اس نماز کے علاوہ اس مقام پر اس وقت کوئی نماز نہیں پڑھتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے مزید فرمایا کہ یہ دو نمازیں ہیں جو اپنے وقت سے پھیر دی گئی ہیں: ایک مغرب کی نماز لوگوں کے مزدلفہ پہنچے پر، دوسری فجر کی نماز جبکہ فجر ظاہر ہو۔ میں نے نبی کریم ﷺ کو اسی طرح کرتے دیکھا ہے۔
تشریح:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مزدلفہ میں جب مغرب اور عشاء کی نمازیں جمع کر کے پڑھی جائیں تو ہر ایک کے لیے الگ اذان اور الگ اقامت مشروع ہے۔ حضرت عمر ؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے مزدلفہ میں دو نمازیں پڑھیں تو ہر نماز کے لیے اذان اور اقامت کہ، درمیان میں کھانا تناول فرمایا۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت عمر ؓ نے دوسری نماز کے لیے اذان اور اقامت اس لیے کہی تھی کہ نماز مغرب کے بعد لوگ کھانا کھانے کے بعد ادھر ادھر چلے گئے تھے، انہیں اکٹھا کرنے کے لیے اذان اور اقامت کہی تھی۔ حافظ ابن حجر ؒ نے اس تاویل کو تکلف قرار دیا ہے۔ اس حدیث کے ظاہری مفہوم کے پیش نظر امام مالک ؒ نے مزدلفہ میں مغرب و عشاء کے لیے الگ الگ اذان اور اقامت کو مشروع قرار دیا ہے۔ امام بخاری ؒ نے بھی اس موقف کو اختیار کیا ہے لیکن صحیح مسلم میں حضرت جابر ؓ سے ایک حدیث مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مغرب اور عشاء کو ایک اذان اور دو اقامتوں کے ساتھ جمع کیا تھا۔ (فتح الباري:663/3) ہمارے نزدیک اسی کو ترجیح ہے، البتہ جائز ہے کہ ہر نماز کے لیے الگ اذان اور الگ تکبیر کہی جائے۔ (2) اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے مغرب کے بعد دو رکعت پڑھیں لیکن رسول اللہ ﷺ سے نہ پڑھنا ثابت ہے جیسا کہ ہم پہلے بیان کر آئے ہیں۔ اس بنا پر رسول اللہ ﷺ کا عمل افضل اور راجح ہے۔ ہاں، اگر کوئی مغرب کے بعد سنت پڑھ لے گا تو اسے گناہ گار نہیں کہا جا سکتا۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1629
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1675
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1675
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1675
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
حضرت عبدالرحمان بن یزید سے روایت ہے، انھوں نے کہا: حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے حج کیا تو ہم اذان عشاء کے وقت یا اس کے قریب مزدلفہ پہنچے۔ انھوں نے ایک آدمی کوحکم دیا اس نے اذان اور اقامت کہی، پھر انھوں نے نماز مغرب اداکی۔ اسکے بعد دو رکعت پڑھیں۔ پھر رات کاکھانا منگوا کرتناول فرمایا، پھر انھوں نے ایک آدمی کو حکم دیا تو اس نے اذان اور اقامت کہی۔ اس کے بعد انھوں نے نماز عشاء کی دو رکعتیں ادا کیں۔ جب فجر طلوع ہوئی تو فرمایا کہ نبی کریم ﷺ آج کے دن اس نماز کے علاوہ اس مقام پر اس وقت کوئی نماز نہیں پڑھتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے مزید فرمایا کہ یہ دو نمازیں ہیں جو اپنے وقت سے پھیر دی گئی ہیں: ایک مغرب کی نماز لوگوں کے مزدلفہ پہنچے پر، دوسری فجر کی نماز جبکہ فجر ظاہر ہو۔ میں نے نبی کریم ﷺ کو اسی طرح کرتے دیکھا ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مزدلفہ میں جب مغرب اور عشاء کی نمازیں جمع کر کے پڑھی جائیں تو ہر ایک کے لیے الگ اذان اور الگ اقامت مشروع ہے۔ حضرت عمر ؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے مزدلفہ میں دو نمازیں پڑھیں تو ہر نماز کے لیے اذان اور اقامت کہ، درمیان میں کھانا تناول فرمایا۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت عمر ؓ نے دوسری نماز کے لیے اذان اور اقامت اس لیے کہی تھی کہ نماز مغرب کے بعد لوگ کھانا کھانے کے بعد ادھر ادھر چلے گئے تھے، انہیں اکٹھا کرنے کے لیے اذان اور اقامت کہی تھی۔ حافظ ابن حجر ؒ نے اس تاویل کو تکلف قرار دیا ہے۔ اس حدیث کے ظاہری مفہوم کے پیش نظر امام مالک ؒ نے مزدلفہ میں مغرب و عشاء کے لیے الگ الگ اذان اور اقامت کو مشروع قرار دیا ہے۔ امام بخاری ؒ نے بھی اس موقف کو اختیار کیا ہے لیکن صحیح مسلم میں حضرت جابر ؓ سے ایک حدیث مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مغرب اور عشاء کو ایک اذان اور دو اقامتوں کے ساتھ جمع کیا تھا۔ (فتح الباري:663/3) ہمارے نزدیک اسی کو ترجیح ہے، البتہ جائز ہے کہ ہر نماز کے لیے الگ اذان اور الگ تکبیر کہی جائے۔ (2) اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے مغرب کے بعد دو رکعت پڑھیں لیکن رسول اللہ ﷺ سے نہ پڑھنا ثابت ہے جیسا کہ ہم پہلے بیان کر آئے ہیں۔ اس بنا پر رسول اللہ ﷺ کا عمل افضل اور راجح ہے۔ ہاں، اگر کوئی مغرب کے بعد سنت پڑھ لے گا تو اسے گناہ گار نہیں کہا جا سکتا۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عمرو بن خالد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے زہیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابو اسحق عمرو بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا کہ میں نے عبدالرحمن بن یزید سے سنا کہ عبداللہ بن مسعود ؓ نے حج کیا، آپ کے ساتھ تقریباً عشاءکی اذان کے وقت ہم مزدلفہ میں بھی آئے، آپ نے ایک شخص کو حکم دیا اس نے اذان اورتکبیر کہی اور آپ نے مغرب کی نماز پڑھی، پھر دو رکعت (سنت ) اور پڑھی اور شام کا کھانا منگوا کر کھایا۔ میرا خیال ہے (راوی حدیث زہیر کا ) کہ پھر آپ نے حکم دیا اور اس شخص نے اذان دی اور تکبیر کہی عمرو (راوی حدیث ) نے کہا میں یہی سمجھتا ہوں کہ شک زہیر (عمرو کے شیخ ) کو تھا، اس کے بعد عشاءکی نماز دو رکعت پڑھی۔ جب صبح صادق ہوئی تو آپ نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ اس نماز (فجر ) کو اس مقام اور اس دن کے سوا اور کبھی اس وقت (طلوع فجر ہوتے ہی ) نہیں پڑھتے تھے، عبداللہ بن مسعود ؓ نے یہ بھی فرمایا کہ یہ صرف دو نمازیں (آج کے دن ) اپنے معمولی وقت سے ہٹا دی جاتی ہیں۔ جب لوگ مزدلفہ آتے ہیں تو مغرب کی نماز (عشاءکے ساتھ ملا کر ) پڑھی جاتی ہے اور فجر کی نماز طلوع فجر کے ساتھ ہی۔ انہوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو اسی طرح کرتے دیکھا تھا۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے یہ بھی نکلا کہ نمازوں کا جمع کرنے والا دونوں نمازوں کے بیچ میں کھانا کھاسکتا ہے یا کچھ کام کرسکتا ہے۔ اس حدیث میں جمع کے ساتھ نفل پڑھنا بھی مذکور ہے۔ فجر کے بارے میں یہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کا خیال تھا کہ آنحضرت ﷺ نے صبح کی نماز اسی دن تاریکی میں پڑھی اور شاید مراد ان کی یہ ہو کہ اس دن بہت تاریکی میں پڑھی یعنی صبح صادق ہوتے ہی، ورنہ دوسرے بہت سے صحابہ رضی اللہ عنہم نے راویت کیا ہے کہ حضور ﷺ کی عادت بہت یہی تھی کہ آپ ﷺ فجر کی نماز اندھیرے میں پڑھا کرتے تھے اور حضرت عمر ؓ نے اپنے عاملوں کو پروانہ لکھا کہ صبح کی نماز اس وقت پڑھا کرو جب تارے گہنے ہوں یعنی اندھیری ہو۔ اور یہ بھی صرف ابن مسعود کا خیال ہے کہ آنحضرت ﷺ نے سوا اس مقام کے اور کہیں جمع نہیں کیا اور دوسرے صحابہ ؓ نے سفر میں آپ ﷺ سے جمع کرنا نقل کیا ہے۔ ( وحیدی ) آپ ( ابن مسعود رضی اللہ عنہ ) نے نماز مغرب اور عشاءکے درمیان نفل بھی پڑھے مگر رسول کریم ﷺ سے نہ پڑھنا ثابت ہے، لہٰذا ترجیح فعل نبوی ہی کو ہوگی۔ ہاں کوئی شحص حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کی طرح پڑھ بھی لے تو غالباً وہ گنہگار نہ ہوگا اگرچہ یہ سنت نبوی کے مطابق نہ ہو گا۔ إِنما الأعمالُ بالنیاتِ۔ دین میں اصل الاصول یہی ہے کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی رضا بہرحال مقدم رکھی جائے۔ جہاں جس کام کے لیے حکم فرمایا جائے اس کام کو کیا جائے اور جہاں اس کام سے روک دیا جائے وہاں رک جائے، اطاعت کا یہی مفہوم ہے، اسی میں خیر اور بھلائی ہے۔ اللہ سب کو دین پر قائم رکھے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdur-Rahman bin Yazid (RA): 'Abdullah;- performed the Hajj and we reached Al-Muzdalifa at or about the time of the 'Isha' prayer. He ordered a man to pronounce the Adhan and Iqama and then he offered the Maghrib prayer and offered two Rakat after it. Then he asked for his supper and took it, and then, I think, he ordered a man to pronounce the Adhan and Iqama (for the 'isha' prayer). ('Amr, a sub-narrator said: The intervening statement 'I think', was said by the sub-narrator Zuhair) (i.e. not by 'Abdu-Rahman). Then 'Abdullah offered two Rakat of 'Isha' prayer. When the day dawned, 'Abdullah said, "The Prophet (ﷺ) never offered any prayer at this hour except this prayer at this time and at this place and on this day." 'Abdullah added, "These two prayers are shifted from their actual times -- the Maghrib prayer (is offered) when the people reached Al-Muzdalifa and the Fajr (morning) prayer at the early dawn." 'Abdullah added, "I saw the Prophet (ﷺ) doing that."