Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: When to depart from Jam' (i.e., Al-Muzdalifa))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1684.
حضرت عمرو بن میمون سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ جب حضر ت عمر ؓ نے مزدلفہ میں نماز فجر ادا کی تو میں بھی موجود تھا۔ نماز کے بعد آپ ٹھہرے اور فرمایا: ، مشرکین طلوع آفتاب کے بعد یہاں سے کوچ کرتے اور طلوع آفتاب کے انتظار میں یہ کہتے تھے: اے ثبیر!تو چمک جا، یعنی آفتاب تجھ پر ظاہر ہو۔ لیکن نبی کریم ﷺ نے ان کی مخالفت کی اور طلوع آفتاب سے پہلے وہاں سے روانہ ہوئے۔
تشریح:
(1) ثبير، مزدلفہ میں ایک بہت بڑا پہاڑ ہے جو عرفات کو جاتے وقت دائیں جانب اور منیٰ کو جاتے وقت بائیں جانب پڑتا ہے۔ یہ پہاڑ قبیلہ ہذیل کے ایک آدمی کے نام سے مشہور ہوا جو وہاں مدفون ہے اور اس کا نام ثبیر تھا۔ (2) اس حدیث سے ثابت ہوا کہ مزدلفہ سے منیٰ جانے کے لیے صبح سورج نکلنے سے پہلے روانہ ہونا چاہیے۔ صحیح مسلم میں اس کی تفصیل اس طرح ہے کہ رسول اللہ ﷺ عرفات سے لوٹتے وقت اپنی اونٹنی قصواء پر سوار ہوئے یہاں تک کہ آپ مزدلفہ میں مشعر حرام کے پاس آئے، وہاں قبلہ رو ہو کر تکبیر و تہلیل میں مصروف ہوئے، خوب اجالا ہونے تک آپ نے وہاں موقوف فرمایا، پھر طلوع آفتاب سے پہلے وہاں سے منیٰ کے لیے روانہ ہو گئے۔ (صحیح مسلم، الحج، حدیث:2950(1218)) جبکہ دور جاہلیت میں مشرکین کا طریقہ اس کے خلاف تھا۔ وہ طلوع آفتاب کے بعد وہاں سے روانہ ہوتے تھے۔ وقوف مزدلفہ کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿فَإِذَا أَفَضْتُم مِّنْ عَرَفَاتٍ فَاذْكُرُوا اللَّـهَ عِندَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ ۖ وَاذْكُرُوهُ كَمَا هَدَاكُمْ﴾(البقرة:198:2)’’پھر جب تم عرفات سے واپس آؤ تو مشعر حرام پہنچ کر اللہ کو اس طرح یاد کرو جیسے اس نے تمہیں ہدایت کی ہے۔‘‘ (3) مزدلفہ میں جہاں کہیں جگہ ملے وقوف کر لیا جائے لیکن وادی محسر میں نہیں ٹھہرنا چاہیے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1638
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1684
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1684
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1684
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
حضرت عمرو بن میمون سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ جب حضر ت عمر ؓ نے مزدلفہ میں نماز فجر ادا کی تو میں بھی موجود تھا۔ نماز کے بعد آپ ٹھہرے اور فرمایا: ، مشرکین طلوع آفتاب کے بعد یہاں سے کوچ کرتے اور طلوع آفتاب کے انتظار میں یہ کہتے تھے: اے ثبیر!تو چمک جا، یعنی آفتاب تجھ پر ظاہر ہو۔ لیکن نبی کریم ﷺ نے ان کی مخالفت کی اور طلوع آفتاب سے پہلے وہاں سے روانہ ہوئے۔
حدیث حاشیہ:
(1) ثبير، مزدلفہ میں ایک بہت بڑا پہاڑ ہے جو عرفات کو جاتے وقت دائیں جانب اور منیٰ کو جاتے وقت بائیں جانب پڑتا ہے۔ یہ پہاڑ قبیلہ ہذیل کے ایک آدمی کے نام سے مشہور ہوا جو وہاں مدفون ہے اور اس کا نام ثبیر تھا۔ (2) اس حدیث سے ثابت ہوا کہ مزدلفہ سے منیٰ جانے کے لیے صبح سورج نکلنے سے پہلے روانہ ہونا چاہیے۔ صحیح مسلم میں اس کی تفصیل اس طرح ہے کہ رسول اللہ ﷺ عرفات سے لوٹتے وقت اپنی اونٹنی قصواء پر سوار ہوئے یہاں تک کہ آپ مزدلفہ میں مشعر حرام کے پاس آئے، وہاں قبلہ رو ہو کر تکبیر و تہلیل میں مصروف ہوئے، خوب اجالا ہونے تک آپ نے وہاں موقوف فرمایا، پھر طلوع آفتاب سے پہلے وہاں سے منیٰ کے لیے روانہ ہو گئے۔ (صحیح مسلم، الحج، حدیث:2950(1218)) جبکہ دور جاہلیت میں مشرکین کا طریقہ اس کے خلاف تھا۔ وہ طلوع آفتاب کے بعد وہاں سے روانہ ہوتے تھے۔ وقوف مزدلفہ کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿فَإِذَا أَفَضْتُم مِّنْ عَرَفَاتٍ فَاذْكُرُوا اللَّـهَ عِندَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ ۖ وَاذْكُرُوهُ كَمَا هَدَاكُمْ﴾(البقرة:198:2)’’پھر جب تم عرفات سے واپس آؤ تو مشعر حرام پہنچ کر اللہ کو اس طرح یاد کرو جیسے اس نے تمہیں ہدایت کی ہے۔‘‘ (3) مزدلفہ میں جہاں کہیں جگہ ملے وقوف کر لیا جائے لیکن وادی محسر میں نہیں ٹھہرنا چاہیے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے حجاج بن منہال نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے ابو اسحق نے، انہوں نے عمرو بن میمون کو یہ کہتے سنا کہ جب عمر بن خطاب ؓ نے مزدلفہ میں فجر کی نماز پڑھی تو میں بھی موجود تھا، نماز کے بعد آپ ٹھہرے اور فرمایا کہ مشرکین (جاہلیت میں یہاں سے ) سورج نکلنے سے پہلے نہیں جاتے تھے کہتے تھے اے ثبیر ! تو چمک جا۔ نبی کریم ﷺ نے مشرکوں کی مخالفت کی اور سورج نکلنے سے پہلے وہاں سے روانہ ہو گئے۔
حدیث حاشیہ:
ثبیر ایک پہاڑ کا نام ہے مزدلفہ میں جو منیٰ کو آتے ہوئے بائیں جانب پڑتا ہے۔ حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں جبل معروف ھناك و هو علی یسار الذاهب إلی منیٰ وهو أعظم جبال مکة عرف به جبل من هذیل اسمه ثبیر دفن فیه۔ یعنی ثبیر مکہ کا ایک عظیم پہاڑ ہے جو منی جاتے ہوئے بائیں طرف پڑتا ہے اور یہ ہذیل کے ایک آدمی ثبیر نامی کے نام پر مشہور ہے جو وہاں دفن ہوا تھا۔ مزدلفہ سے صبح سورج نکلنے سے پہلے منی کے لیے چل دینا سنت ہے۔ مسلم شریف میں حدیث جابر ؓ سے مزید تفصیل یوں ہے:ثُمَّ رَكِبَ الْقَصْوَاءَ، حَتَّى أَتَى الْمَشْعَرَ الْحَرَامَ، فَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ، فَدَعَاهُ وَكَبَّرَهُ وَهَلَّلَهُ وَوَحَّدَهُ، فَلَمْ يَزَلْ وَاقِفًا حَتَّى أَسْفَرَ جِدًّا، فَدَفَعَ قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُیعنی عرفات سے لوٹتے وقت آپ ﷺ اپنی اونٹنی قصواءپر سوار ہوئے، یہاں سے مزدلفہ میں مشعر الحرام میں آئے اور وہاں آکر قبلہ رو ہو کر تکبیر و تہلیل کہی اور آپ ﷺ خوب اجالا ہونے تک ٹھہرے رہے، مگر سورج طلوع ہونے سے پہلے آپ ﷺ وہاں سے روانہ ہو گئے۔ عہد جاہلیت میں مکہ والے سورج نکلنے کے بعد یہاں سے چلا کرتے تھے، اسلام میں سورج نکلنے سے پہلے چلنا قرار پایا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Amr bin Maimun (RA): I saw 'Umar, offering the Fajr (morning) prayer at Jam'; then he got up and said, "The pagans did not use to depart (from Jam') till the sun had risen, and they used to say, 'Let the sun shine on Thabir (a mountain).' But the Prophet (ﷺ) contradicted them and departed from Jam' before sunrise." ________