Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: The riding over the Budn)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ حجر میں فرمایا ” ہم نے قربانیوں کو تمہارے لیے اللہ کے نام کی نشانی بنایا ہے، تمہارے واسطے ان میں بھلائی ہے سو پڑھو ان پر اللہ کا نام قطار باندھ کر، پھر وہ جب گر پڑیں اپنی کروٹ پر (یعنی ذبح ہو جائیں ) تو کھاؤ ان میں سے اور کھلاؤ صبر سے بیٹھنے والے اور مانگنے والے دونوں طرح کے فقیروں کو، اسی طرح تمہارے لیے حلال کردیا ہم نے ان جانوروں کو تاکہ تم شکر کرو۔ اللہ کو نہیں پہنچتا ان کا گوشت اور نہ ان کا خون، لیکن اس کو پہنچتا ہے تمہارا تقویٰ، اس طرح ان کو بس میں کر دیا تمہارے کہ اللہ کی بڑائی کرو اس بات پر کہ تم کو اس نے راہ دکھائی اور بشارت سنا دے نیکی کرنے والوں کو۔ مجاہد نے کہا کہ قربانی کے جانور کو بدنہ اس کے موٹا تازہ ہونے کی وجہ سے کہا جاتا ہے، قانع سائل کو کہتے ہیں اور معتر جو قربانی کے جانور کے سامنے سائل کی صورت بنا کر آجائے خواہ غنی ہو یا فقیر، شعائر کے معنی قربانی کے جانور کی عظمت کو ملحوظ رکھنا اور اسے موٹا بنانا ہے۔ عتیق (خانہ کعبہ کو کہتے ہیں ) بوجہ ظالموں اور جابروں سے آزاد ہونے کے، جب کوئی چیز زمین پر گرجائے تو کہتے ہیں : وجبت، اسی سے وجبت الشّمس آتا ہے یعنی سورج ڈوب گیا۔ تشریح : حافظ ابن حجر فرماتے ہیں قولہ و القانع السائل الذی یعتر بالبدن من غنی او فقیر ای یطیف بہا متعرضا لہا و ہذا التعلیق اخرجہ ایضا عبد بن حمید من طریق عثمان بن الاسود قلت لمجاہد ما القانع؟ قال جارک الذی ینظر ما دخل بیتک و المعتر الذی یعتر بباک و یریک نفسہ و لا یسلک شیئا و اخرج ابن ابی حاتم من طریق سفیان بن عیینۃ عن ابن ابی نجیح عن مجاہد قال القانع ہو الطامع و قال مرۃ ہو السائل و من یسئلک و من طریق الثوری عن فرا ت عن سعید بن جبیر المعتر الذی یعتریک یزورک و لا یسئالک و من طریق ابن جریع عن مجاہد المعتر الذی یعتر بالبدن من غنی او فقیر و قال الخلیل فی العین القنوع المعتزل للسالۃ قنع لہ مال و خضع و ہو السائل و المعتر الذی یعترض و لا یسال و یقال قنع بکسر النون اذا رضی وقنع بفتحہا اذا سال و قرا الحسن المعتری وہو بمعنی المعتر ( فتح الباری ) یعنی قانع سے سائل مرا دہے اور ( لغا ت الحدیث ) میں قنوع کے ایک معنی مانگنا بھی نکلتا ہے اور معتر وہ غنی یا فقیر جو دل سے طالب ہو کر وہاں گھومتا رہے تاکہ اس کو گوشت حاصل ہو جائے زبان سے سوال نہ کرے معتر وہ فقیر جو سامنے آئے اس کی صورت سوالی ہو لیکن سوال نہ کرے لغات الحدیث اس تعلیق کو عبد بن حمید نے طریق عثمان بن اسود سے نکالا ہے میں نے مجاہد رحمۃ اللہ علیہ سے قانع کی تحقیق کی کہا قانع وہ ہے جو انتظار کرتا رہے کہ تیرے گھر میں کیا کیا چیزیں آئی ہیں۔ ( اور کاش ان میں سے مجھ کو بھی کچھ مل جائے ) معتر وہ ہے جو وہاں گھومتا رہے اور تیرے دروازے پر امید وار بن کر آئے جائے مگر کسی چیز کا سوال نہ کرے، اور مجاہد سے قانع کے معنی طامع یعنی لالچی کے بھی آئے ہیں اور ایک دفعہ بتلایا کہ سائل مراد ہے اسے ابن ابی حاتم نے روایت کیا ہے اور سعید بن جبیر سے معتر کے وہی معنی نقل ہوئے جو اوپر بیان ہوئے اور مجاہد نے کہا کہ معتر وہ جوغنی ہو یا فقیر خواہش کی وجہ سے قربانی کے جانور کے ارد گرد پھرتا رہے اور خلیل نے قنوع کے معنی بتایاوہ جو ذلیل ہو کر سوال کرے، قنع الیہ کے معنی ” مال“ وہ اس کی طرف جھکا ”وشفع الیہ“ اور اس نے اس کی طرف جس سے کچھ چاہتا ہے چاپلوسی کی، مراد آگے سائل ہے اور قنع بکسر نون رضی کے معنی کے ہے اور قنع فتح نون کے ساتھ ”اذا سال“ کے معنی میں اور حسن کی قرات میں یہاں لفظ معتری پڑھا گیا ہے وہ بھی معتر ہی کے معنی میں ہے۔
1689.
حضرت ابوہریرۃ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو دیکھا وہ قربانی کے جانور کو ہانک رہاتھا۔ آپ نے فرمایا: ’’اس پر سوار ہوجا۔‘‘ اس نے عرض کیا: یہ تو قربانی کا اونٹ ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تجھ پر افسوس ہو!اس پر سوار ہوجا۔‘‘ دوسری یا تیسری مرتبہ یہ الفاظ استعمال فرمائے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1642
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1689
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1689
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1689
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
تمہید باب
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس آیت کریمہ سے قربانی کے جانور پر سوار ہونا ثابت کیا ہے کیونکہ انہیں اللہ تعالیٰ نے ہمارے نفع اور ہماری فلاح و بہبود کے لیے بنایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "ان میں تمہارے لیے بہتری ہے" یعنی ان پر سواری کرنے اور دودھ حاصل کرنے میں تمہارا فائدہ ہے، چنانچہ امام ابراہیم نخعی اس کے معنی بایں الفاظ بیان کرتے ہیں: "جو چاہے سوار ہو جائے اور جو چاہے ان کا دودھ حاصل کرے۔" (فتح الباری:3/677)
کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ حجر میں فرمایا ” ہم نے قربانیوں کو تمہارے لیے اللہ کے نام کی نشانی بنایا ہے، تمہارے واسطے ان میں بھلائی ہے سو پڑھو ان پر اللہ کا نام قطار باندھ کر، پھر وہ جب گر پڑیں اپنی کروٹ پر (یعنی ذبح ہو جائیں ) تو کھاؤ ان میں سے اور کھلاؤ صبر سے بیٹھنے والے اور مانگنے والے دونوں طرح کے فقیروں کو، اسی طرح تمہارے لیے حلال کردیا ہم نے ان جانوروں کو تاکہ تم شکر کرو۔ اللہ کو نہیں پہنچتا ان کا گوشت اور نہ ان کا خون، لیکن اس کو پہنچتا ہے تمہارا تقویٰ، اس طرح ان کو بس میں کر دیا تمہارے کہ اللہ کی بڑائی کرو اس بات پر کہ تم کو اس نے راہ دکھائی اور بشارت سنا دے نیکی کرنے والوں کو۔ مجاہد نے کہا کہ قربانی کے جانور کو بدنہ اس کے موٹا تازہ ہونے کی وجہ سے کہا جاتا ہے، قانع سائل کو کہتے ہیں اور معتر جو قربانی کے جانور کے سامنے سائل کی صورت بنا کر آجائے خواہ غنی ہو یا فقیر، شعائر کے معنی قربانی کے جانور کی عظمت کو ملحوظ رکھنا اور اسے موٹا بنانا ہے۔ عتیق (خانہ کعبہ کو کہتے ہیں ) بوجہ ظالموں اور جابروں سے آزاد ہونے کے، جب کوئی چیز زمین پر گرجائے تو کہتے ہیں : وجبت، اسی سے وجبت الشّمس آتا ہے یعنی سورج ڈوب گیا۔ تشریح : حافظ ابن حجر فرماتے ہیں قولہ و القانع السائل الذی یعتر بالبدن من غنی او فقیر ای یطیف بہا متعرضا لہا و ہذا التعلیق اخرجہ ایضا عبد بن حمید من طریق عثمان بن الاسود قلت لمجاہد ما القانع؟ قال جارک الذی ینظر ما دخل بیتک و المعتر الذی یعتر بباک و یریک نفسہ و لا یسلک شیئا و اخرج ابن ابی حاتم من طریق سفیان بن عیینۃ عن ابن ابی نجیح عن مجاہد قال القانع ہو الطامع و قال مرۃ ہو السائل و من یسئلک و من طریق الثوری عن فرا ت عن سعید بن جبیر المعتر الذی یعتریک یزورک و لا یسئالک و من طریق ابن جریع عن مجاہد المعتر الذی یعتر بالبدن من غنی او فقیر و قال الخلیل فی العین القنوع المعتزل للسالۃ قنع لہ مال و خضع و ہو السائل و المعتر الذی یعترض و لا یسال و یقال قنع بکسر النون اذا رضی وقنع بفتحہا اذا سال و قرا الحسن المعتری وہو بمعنی المعتر ( فتح الباری ) یعنی قانع سے سائل مرا دہے اور ( لغا ت الحدیث ) میں قنوع کے ایک معنی مانگنا بھی نکلتا ہے اور معتر وہ غنی یا فقیر جو دل سے طالب ہو کر وہاں گھومتا رہے تاکہ اس کو گوشت حاصل ہو جائے زبان سے سوال نہ کرے معتر وہ فقیر جو سامنے آئے اس کی صورت سوالی ہو لیکن سوال نہ کرے لغات الحدیث اس تعلیق کو عبد بن حمید نے طریق عثمان بن اسود سے نکالا ہے میں نے مجاہد رحمۃ اللہ علیہ سے قانع کی تحقیق کی کہا قانع وہ ہے جو انتظار کرتا رہے کہ تیرے گھر میں کیا کیا چیزیں آئی ہیں۔ ( اور کاش ان میں سے مجھ کو بھی کچھ مل جائے ) معتر وہ ہے جو وہاں گھومتا رہے اور تیرے دروازے پر امید وار بن کر آئے جائے مگر کسی چیز کا سوال نہ کرے، اور مجاہد سے قانع کے معنی طامع یعنی لالچی کے بھی آئے ہیں اور ایک دفعہ بتلایا کہ سائل مراد ہے اسے ابن ابی حاتم نے روایت کیا ہے اور سعید بن جبیر سے معتر کے وہی معنی نقل ہوئے جو اوپر بیان ہوئے اور مجاہد نے کہا کہ معتر وہ جوغنی ہو یا فقیر خواہش کی وجہ سے قربانی کے جانور کے ارد گرد پھرتا رہے اور خلیل نے قنوع کے معنی بتایاوہ جو ذلیل ہو کر سوال کرے، قنع الیہ کے معنی ” مال“ وہ اس کی طرف جھکا ”وشفع الیہ“ اور اس نے اس کی طرف جس سے کچھ چاہتا ہے چاپلوسی کی، مراد آگے سائل ہے اور قنع بکسر نون رضی کے معنی کے ہے اور قنع فتح نون کے ساتھ ”اذا سال“ کے معنی میں اور حسن کی قرات میں یہاں لفظ معتری پڑھا گیا ہے وہ بھی معتر ہی کے معنی میں ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابوہریرۃ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو دیکھا وہ قربانی کے جانور کو ہانک رہاتھا۔ آپ نے فرمایا: ’’اس پر سوار ہوجا۔‘‘ اس نے عرض کیا: یہ تو قربانی کا اونٹ ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تجھ پر افسوس ہو!اس پر سوار ہوجا۔‘‘ دوسری یا تیسری مرتبہ یہ الفاظ استعمال فرمائے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اورقربانی کے اونٹوں کوہم نے تمہارے لیے شعائر اللہ بنایا ہے، تمہارے لیے ان میں بہتری ہے۔ لہذا(نحر کے وقت) جب وہ پاؤں بندھے کھڑےہوں تو تم ان پر اللہ کا نام لو، پھر جب وہ پہلو کے بل زمین پر گرجائیں۔۔۔ اور نیکی کرنے والوں کو بشارت دیجئے۔
امام مجاہد نے کہا کہ اونٹوں کے فربہ ہونے کی وجہ سے انھیں الْبُدْنَ کہا جاتاہے۔ قَانِعَ سے مراد سوال کرنے والا اورمُعْتَرَّ وہ ہے۔ جو قربانی کے پاس گھومتا پھرے۔ خواہ مالدار ہو یاتنگ دست۔ شَعَائِرِ اللَّـهِ سے مراد قربانی کے جانوروں کو موٹے کرنا اور اچھے بنانا ہے۔ بیت اللہ کو عتيق اس لیے کہا جاتا ہے کہ اسے ظالم بادشاہوں کی دست برد سے آزاد رکھا گیا ہے وَجَبَتْ کے معنی زمین پر گرپڑنا ہیں۔ اسی وجہ سے وَجَبَتْ الشَّمْسَ کامحاورہ بنا ہے۔ جس کے معنی سورج کا غروب ہونا ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے امام مالک نے خبر دی، انہیں ابوالزناد نے، انہیں اعرج اور انہیں حضرت ابوہریرہ ؓ نے کہ رسول کریم ﷺ نے ایک شخص کو قربانی کاجانور لے جاتے دیکھا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس پر سوار ہوجا۔ اس شخص نے کہا کہ یہ تو قربانی کا جانور ہے، آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس پر سوار ہوجانا۔ اس نے کہا کہ یہ تو قربانی کا جانور ہے تو آپ ﷺ نے پھر فرمایا افسوس ! سوار بھی ہو جاؤ ('' ویلك'' آپ ﷺ نے ) دوسری یا تیسری مرتبہ فرمایا۔
حدیث حاشیہ:
زمانہ جاہلیت میں عرب لوگ سائبہ وغیرہ جو جانور مذہبی نیاز و نذر کے طور پر چھوڑ دیتے ان پر سوار ہونا معیوب جانا کرتے تھے، قربانی کے جانوروں کے متعلق بھی جو کعبہ میں لے جائے جائیں ان کا ایسا ہی تصور تھا۔ اسلام نے اس غلط تصور کو ختم کیا اور آنحضرت ﷺ نے باصرار حکم دیا کہ اس پر سواری کرو تاکہ راستہ کی تھکن سے بچ سکو۔ قربانی کے جانور ہونے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ اسے معطل کرکے چھوڑ دیا جائے۔ اسلام اسی لیے دین فطرت ہے کہ اس نے قدم قدم پر انسانی ضروریات کو ملحوظ نظر رکھا ہے اور ہر جگہ عین ضروریات انسانی کے تحت احکامات صادر کئے ہیں، خود عرب میں اطراف مکہ سے جو لاکھوں حاجی آج کل بھی حج کے لیے مکہ شریف آتے ہیں ان کے لیے یہی احکام ہیں باقی دور دراز ممالک اسلامیہ سے آنے والوں کے لیے قدرت نے ریل، موٹر، جہاز وجود پذیر کرد ئیے ہیں۔ یہ محض اللہ کا فضل ہے کہ آج کل سفر حج بے حد آسان ہو گیا پھر بھی کوئی دولت مند مسلمان حج کو نہ جائے تو اس کی بدبختی میں کیا شبہ ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA) ' : Allah's Apostle (ﷺ) saw a man driving his Badana (sacrificial camel). He said, "Ride on it." The man said, "It is a Badana." The Prophet (ﷺ) said, "Ride on it." He (the man) said, "It is a Badana." The Prophet (ﷺ) said, "Ride on it." And on the second or the third time he (the Prophet) added, "Woe to you." ________