Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: The riding over the Budn)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ حجر میں فرمایا ” ہم نے قربانیوں کو تمہارے لیے اللہ کے نام کی نشانی بنایا ہے، تمہارے واسطے ان میں بھلائی ہے سو پڑھو ان پر اللہ کا نام قطار باندھ کر، پھر وہ جب گر پڑیں اپنی کروٹ پر (یعنی ذبح ہو جائیں ) تو کھاؤ ان میں سے اور کھلاؤ صبر سے بیٹھنے والے اور مانگنے والے دونوں طرح کے فقیروں کو، اسی طرح تمہارے لیے حلال کردیا ہم نے ان جانوروں کو تاکہ تم شکر کرو۔ اللہ کو نہیں پہنچتا ان کا گوشت اور نہ ان کا خون، لیکن اس کو پہنچتا ہے تمہارا تقویٰ، اس طرح ان کو بس میں کر دیا تمہارے کہ اللہ کی بڑائی کرو اس بات پر کہ تم کو اس نے راہ دکھائی اور بشارت سنا دے نیکی کرنے والوں کو۔ مجاہد نے کہا کہ قربانی کے جانور کو بدنہ اس کے موٹا تازہ ہونے کی وجہ سے کہا جاتا ہے، قانع سائل کو کہتے ہیں اور معتر جو قربانی کے جانور کے سامنے سائل کی صورت بنا کر آجائے خواہ غنی ہو یا فقیر، شعائر کے معنی قربانی کے جانور کی عظمت کو ملحوظ رکھنا اور اسے موٹا بنانا ہے۔ عتیق (خانہ کعبہ کو کہتے ہیں ) بوجہ ظالموں اور جابروں سے آزاد ہونے کے، جب کوئی چیز زمین پر گرجائے تو کہتے ہیں : وجبت، اسی سے وجبت الشّمس آتا ہے یعنی سورج ڈوب گیا۔ تشریح : حافظ ابن حجر فرماتے ہیں قولہ و القانع السائل الذی یعتر بالبدن من غنی او فقیر ای یطیف بہا متعرضا لہا و ہذا التعلیق اخرجہ ایضا عبد بن حمید من طریق عثمان بن الاسود قلت لمجاہد ما القانع؟ قال جارک الذی ینظر ما دخل بیتک و المعتر الذی یعتر بباک و یریک نفسہ و لا یسلک شیئا و اخرج ابن ابی حاتم من طریق سفیان بن عیینۃ عن ابن ابی نجیح عن مجاہد قال القانع ہو الطامع و قال مرۃ ہو السائل و من یسئلک و من طریق الثوری عن فرا ت عن سعید بن جبیر المعتر الذی یعتریک یزورک و لا یسئالک و من طریق ابن جریع عن مجاہد المعتر الذی یعتر بالبدن من غنی او فقیر و قال الخلیل فی العین القنوع المعتزل للسالۃ قنع لہ مال و خضع و ہو السائل و المعتر الذی یعترض و لا یسال و یقال قنع بکسر النون اذا رضی وقنع بفتحہا اذا سال و قرا الحسن المعتری وہو بمعنی المعتر ( فتح الباری ) یعنی قانع سے سائل مرا دہے اور ( لغا ت الحدیث ) میں قنوع کے ایک معنی مانگنا بھی نکلتا ہے اور معتر وہ غنی یا فقیر جو دل سے طالب ہو کر وہاں گھومتا رہے تاکہ اس کو گوشت حاصل ہو جائے زبان سے سوال نہ کرے معتر وہ فقیر جو سامنے آئے اس کی صورت سوالی ہو لیکن سوال نہ کرے لغات الحدیث اس تعلیق کو عبد بن حمید نے طریق عثمان بن اسود سے نکالا ہے میں نے مجاہد رحمۃ اللہ علیہ سے قانع کی تحقیق کی کہا قانع وہ ہے جو انتظار کرتا رہے کہ تیرے گھر میں کیا کیا چیزیں آئی ہیں۔ ( اور کاش ان میں سے مجھ کو بھی کچھ مل جائے ) معتر وہ ہے جو وہاں گھومتا رہے اور تیرے دروازے پر امید وار بن کر آئے جائے مگر کسی چیز کا سوال نہ کرے، اور مجاہد سے قانع کے معنی طامع یعنی لالچی کے بھی آئے ہیں اور ایک دفعہ بتلایا کہ سائل مراد ہے اسے ابن ابی حاتم نے روایت کیا ہے اور سعید بن جبیر سے معتر کے وہی معنی نقل ہوئے جو اوپر بیان ہوئے اور مجاہد نے کہا کہ معتر وہ جوغنی ہو یا فقیر خواہش کی وجہ سے قربانی کے جانور کے ارد گرد پھرتا رہے اور خلیل نے قنوع کے معنی بتایاوہ جو ذلیل ہو کر سوال کرے، قنع الیہ کے معنی ” مال“ وہ اس کی طرف جھکا ”وشفع الیہ“ اور اس نے اس کی طرف جس سے کچھ چاہتا ہے چاپلوسی کی، مراد آگے سائل ہے اور قنع بکسر نون رضی کے معنی کے ہے اور قنع فتح نون کے ساتھ ”اذا سال“ کے معنی میں اور حسن کی قرات میں یہاں لفظ معتری پڑھا گیا ہے وہ بھی معتر ہی کے معنی میں ہے۔
1690.
حضرت انس ؓسے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ایک شخص کو دیکھا وہ قربانی کا جانور ہانکے جارہا ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’تو اس پر سوار ہوجا۔‘‘ اس نے عرض کیا: یہ تو قربانی کااونٹ ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’‘تو اس پر سواری کر۔‘‘ اس نے پھر عرض کیا: یہ تو قربانی کا اونٹ ہے۔ آپ نے تیسری مرتبہ فرمایا: ’’تو اس پر سوار ہوجا۔‘‘
تشریح:
: (1) ان احادیث سے معلوم ہوا کہ قربانی کے جانور پر سواری کرنا جائز ہے، خواہ وہ قربانی فرض ہو یا نفل کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے قربانی کے مالک سے اس قسم کی تفصیل دریافت نہیں کی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ فرض یا نفل قربانی کا ایک ہی حکم ہے۔ حضرت علی ؓ سے سوال ہوا کہ قربانی کے جانور پر سواری کرنا کیسا ہے؟ انہوں نے فرمایا: اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ جب پیدل چلنے والے لوگوں کے پاس سے گزرتے تو انہیں قربانی کے جانوروں پر سوار ہونے کا حکم دیتے۔ اس معاملے میں ضرورت کو پیش نظر ضرور رکھنا چاہیے اور جب ضرورت ختم ہو جائے تو انہیں سواری کے لیے استعمال نہ کیا جائے جیسا کہ صحیح مسلم کی حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’قربانی کے جانور پر اچھے انداز میں سواری کی جائے جبکہ تجھے اس کی ضرورت ہو یہاں تک کہ دوسری سواری مل جائے۔‘‘ (صحیح مسلم، الحج، حدیث:3214(1324)) اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اگر اور سواری دستیاب ہو تو قربانی کے جانور کو آزاد چھوڑ دیا جائے، چنانچہ امام بیہقی ؒ نے ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے: (يركب إذا اضطر ركوبا غير قادح)’’جب سواری کی ضرورت ہو تو قربانی کے جانور پر سواری کی جا سکتی ہے۔‘‘ لیکن ان جانوروں کو بطور اجرت سواری کے لیے نہ دیا جائے۔ (فتح الباري:679/3) (2) دراصل دور جاہلیت میں لوگ کچھ جانوروں کو مذہبی نذرونیاز کے طور پر چھوڑ دیتے تھے۔ ان پر سواری کرنا ان کے ہاں معیوب تھا۔ قربانی کے جانوروں کے متعلق بھی یہی تصور تھا۔ اسلام نے اسے غلط قرار دیا کیونکہ قربانی کے جانور ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ انہیں بالکل معطل کر دیا جائے۔ رسول اللہ ﷺ نے اصرار کے ساتھ بار بار حکم دیا کہ اس پر سواری کرو تاکہ راستے میں تھکاوٹ سے محفوظ رہو۔ اسلام دین فطرت ہے اور اس نے قدم قدم پر انسانی ضروریات کو ملحوظ رکھا ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1643
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1690
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1690
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1690
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
تمہید باب
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس آیت کریمہ سے قربانی کے جانور پر سوار ہونا ثابت کیا ہے کیونکہ انہیں اللہ تعالیٰ نے ہمارے نفع اور ہماری فلاح و بہبود کے لیے بنایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "ان میں تمہارے لیے بہتری ہے" یعنی ان پر سواری کرنے اور دودھ حاصل کرنے میں تمہارا فائدہ ہے، چنانچہ امام ابراہیم نخعی اس کے معنی بایں الفاظ بیان کرتے ہیں: "جو چاہے سوار ہو جائے اور جو چاہے ان کا دودھ حاصل کرے۔" (فتح الباری:3/677)
کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ حجر میں فرمایا ” ہم نے قربانیوں کو تمہارے لیے اللہ کے نام کی نشانی بنایا ہے، تمہارے واسطے ان میں بھلائی ہے سو پڑھو ان پر اللہ کا نام قطار باندھ کر، پھر وہ جب گر پڑیں اپنی کروٹ پر (یعنی ذبح ہو جائیں ) تو کھاؤ ان میں سے اور کھلاؤ صبر سے بیٹھنے والے اور مانگنے والے دونوں طرح کے فقیروں کو، اسی طرح تمہارے لیے حلال کردیا ہم نے ان جانوروں کو تاکہ تم شکر کرو۔ اللہ کو نہیں پہنچتا ان کا گوشت اور نہ ان کا خون، لیکن اس کو پہنچتا ہے تمہارا تقویٰ، اس طرح ان کو بس میں کر دیا تمہارے کہ اللہ کی بڑائی کرو اس بات پر کہ تم کو اس نے راہ دکھائی اور بشارت سنا دے نیکی کرنے والوں کو۔ مجاہد نے کہا کہ قربانی کے جانور کو بدنہ اس کے موٹا تازہ ہونے کی وجہ سے کہا جاتا ہے، قانع سائل کو کہتے ہیں اور معتر جو قربانی کے جانور کے سامنے سائل کی صورت بنا کر آجائے خواہ غنی ہو یا فقیر، شعائر کے معنی قربانی کے جانور کی عظمت کو ملحوظ رکھنا اور اسے موٹا بنانا ہے۔ عتیق (خانہ کعبہ کو کہتے ہیں ) بوجہ ظالموں اور جابروں سے آزاد ہونے کے، جب کوئی چیز زمین پر گرجائے تو کہتے ہیں : وجبت، اسی سے وجبت الشّمس آتا ہے یعنی سورج ڈوب گیا۔ تشریح : حافظ ابن حجر فرماتے ہیں قولہ و القانع السائل الذی یعتر بالبدن من غنی او فقیر ای یطیف بہا متعرضا لہا و ہذا التعلیق اخرجہ ایضا عبد بن حمید من طریق عثمان بن الاسود قلت لمجاہد ما القانع؟ قال جارک الذی ینظر ما دخل بیتک و المعتر الذی یعتر بباک و یریک نفسہ و لا یسلک شیئا و اخرج ابن ابی حاتم من طریق سفیان بن عیینۃ عن ابن ابی نجیح عن مجاہد قال القانع ہو الطامع و قال مرۃ ہو السائل و من یسئلک و من طریق الثوری عن فرا ت عن سعید بن جبیر المعتر الذی یعتریک یزورک و لا یسئالک و من طریق ابن جریع عن مجاہد المعتر الذی یعتر بالبدن من غنی او فقیر و قال الخلیل فی العین القنوع المعتزل للسالۃ قنع لہ مال و خضع و ہو السائل و المعتر الذی یعترض و لا یسال و یقال قنع بکسر النون اذا رضی وقنع بفتحہا اذا سال و قرا الحسن المعتری وہو بمعنی المعتر ( فتح الباری ) یعنی قانع سے سائل مرا دہے اور ( لغا ت الحدیث ) میں قنوع کے ایک معنی مانگنا بھی نکلتا ہے اور معتر وہ غنی یا فقیر جو دل سے طالب ہو کر وہاں گھومتا رہے تاکہ اس کو گوشت حاصل ہو جائے زبان سے سوال نہ کرے معتر وہ فقیر جو سامنے آئے اس کی صورت سوالی ہو لیکن سوال نہ کرے لغات الحدیث اس تعلیق کو عبد بن حمید نے طریق عثمان بن اسود سے نکالا ہے میں نے مجاہد رحمۃ اللہ علیہ سے قانع کی تحقیق کی کہا قانع وہ ہے جو انتظار کرتا رہے کہ تیرے گھر میں کیا کیا چیزیں آئی ہیں۔ ( اور کاش ان میں سے مجھ کو بھی کچھ مل جائے ) معتر وہ ہے جو وہاں گھومتا رہے اور تیرے دروازے پر امید وار بن کر آئے جائے مگر کسی چیز کا سوال نہ کرے، اور مجاہد سے قانع کے معنی طامع یعنی لالچی کے بھی آئے ہیں اور ایک دفعہ بتلایا کہ سائل مراد ہے اسے ابن ابی حاتم نے روایت کیا ہے اور سعید بن جبیر سے معتر کے وہی معنی نقل ہوئے جو اوپر بیان ہوئے اور مجاہد نے کہا کہ معتر وہ جوغنی ہو یا فقیر خواہش کی وجہ سے قربانی کے جانور کے ارد گرد پھرتا رہے اور خلیل نے قنوع کے معنی بتایاوہ جو ذلیل ہو کر سوال کرے، قنع الیہ کے معنی ” مال“ وہ اس کی طرف جھکا ”وشفع الیہ“ اور اس نے اس کی طرف جس سے کچھ چاہتا ہے چاپلوسی کی، مراد آگے سائل ہے اور قنع بکسر نون رضی کے معنی کے ہے اور قنع فتح نون کے ساتھ ”اذا سال“ کے معنی میں اور حسن کی قرات میں یہاں لفظ معتری پڑھا گیا ہے وہ بھی معتر ہی کے معنی میں ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت انس ؓسے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ایک شخص کو دیکھا وہ قربانی کا جانور ہانکے جارہا ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’تو اس پر سوار ہوجا۔‘‘ اس نے عرض کیا: یہ تو قربانی کااونٹ ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’‘تو اس پر سواری کر۔‘‘ اس نے پھر عرض کیا: یہ تو قربانی کا اونٹ ہے۔ آپ نے تیسری مرتبہ فرمایا: ’’تو اس پر سوار ہوجا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
: (1) ان احادیث سے معلوم ہوا کہ قربانی کے جانور پر سواری کرنا جائز ہے، خواہ وہ قربانی فرض ہو یا نفل کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے قربانی کے مالک سے اس قسم کی تفصیل دریافت نہیں کی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ فرض یا نفل قربانی کا ایک ہی حکم ہے۔ حضرت علی ؓ سے سوال ہوا کہ قربانی کے جانور پر سواری کرنا کیسا ہے؟ انہوں نے فرمایا: اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ جب پیدل چلنے والے لوگوں کے پاس سے گزرتے تو انہیں قربانی کے جانوروں پر سوار ہونے کا حکم دیتے۔ اس معاملے میں ضرورت کو پیش نظر ضرور رکھنا چاہیے اور جب ضرورت ختم ہو جائے تو انہیں سواری کے لیے استعمال نہ کیا جائے جیسا کہ صحیح مسلم کی حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’قربانی کے جانور پر اچھے انداز میں سواری کی جائے جبکہ تجھے اس کی ضرورت ہو یہاں تک کہ دوسری سواری مل جائے۔‘‘ (صحیح مسلم، الحج، حدیث:3214(1324)) اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اگر اور سواری دستیاب ہو تو قربانی کے جانور کو آزاد چھوڑ دیا جائے، چنانچہ امام بیہقی ؒ نے ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے: (يركب إذا اضطر ركوبا غير قادح)’’جب سواری کی ضرورت ہو تو قربانی کے جانور پر سواری کی جا سکتی ہے۔‘‘ لیکن ان جانوروں کو بطور اجرت سواری کے لیے نہ دیا جائے۔ (فتح الباري:679/3) (2) دراصل دور جاہلیت میں لوگ کچھ جانوروں کو مذہبی نذرونیاز کے طور پر چھوڑ دیتے تھے۔ ان پر سواری کرنا ان کے ہاں معیوب تھا۔ قربانی کے جانوروں کے متعلق بھی یہی تصور تھا۔ اسلام نے اسے غلط قرار دیا کیونکہ قربانی کے جانور ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ انہیں بالکل معطل کر دیا جائے۔ رسول اللہ ﷺ نے اصرار کے ساتھ بار بار حکم دیا کہ اس پر سواری کرو تاکہ راستے میں تھکاوٹ سے محفوظ رہو۔ اسلام دین فطرت ہے اور اس نے قدم قدم پر انسانی ضروریات کو ملحوظ رکھا ہے۔
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اورقربانی کے اونٹوں کوہم نے تمہارے لیے شعائر اللہ بنایا ہے، تمہارے لیے ان میں بہتری ہے۔ لہذا(نحر کے وقت) جب وہ پاؤں بندھے کھڑےہوں تو تم ان پر اللہ کا نام لو، پھر جب وہ پہلو کے بل زمین پر گرجائیں۔۔۔ اور نیکی کرنے والوں کو بشارت دیجئے۔
امام مجاہد نے کہا کہ اونٹوں کے فربہ ہونے کی وجہ سے انھیں الْبُدْنَ کہا جاتاہے۔ قَانِعَ سے مراد سوال کرنے والا اورمُعْتَرَّ وہ ہے۔ جو قربانی کے پاس گھومتا پھرے۔ خواہ مالدار ہو یاتنگ دست۔ شَعَائِرِ اللَّـهِ سے مراد قربانی کے جانوروں کو موٹے کرنا اور اچھے بنانا ہے۔ بیت اللہ کو عتيق اس لیے کہا جاتا ہے کہ اسے ظالم بادشاہوں کی دست برد سے آزاد رکھا گیا ہے وَجَبَتْ کے معنی زمین پر گرپڑنا ہیں۔ اسی وجہ سے وَجَبَتْ الشَّمْسَ کامحاورہ بنا ہے۔ جس کے معنی سورج کا غروب ہونا ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ہشام اور شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے قتادہ نے بیان کیا اور ان سے انس ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ نے ایک شخص کو دیکھا کہ قربانی کا جانور لیے جارہا ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس پر سوار ہو جا اس نے کہا کہ یہ تو قربانی کا جانور ہے آپ ﷺ نے فرمایا کہ سوا ر ہو جا اس نے پھر عرض کیا کہ یہ تو قربانی کا جانور ہے، لیکن آپ ﷺ نے تیسری مرتبہ پھر فرمایا کہ سوار ہو جا۔
حدیث حاشیہ:
آپ ﷺ کے بار بار فرمانے کا مقصد یہ ہے کہ قربانی کے اونٹ پر سوار ہونا اس کے شعائر اسلام ہونے کے منافی نہیں ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas (RA): The Prophet (ﷺ) saw a man driving a Badana. He said, "Ride on it." The man replied, "It is a Badana." The Prophet (ﷺ) said (again), "Ride on it." He (the man) said, "It is a Badana." The Prophet (ﷺ) said thrice, "Ride on it."