باب : جس نے ذو الحلیفہ میں اشعار کیا اور قلادہ پہنایا پھر احرام باندھا
)
Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: Marking and garlanding (the Hadi) at Dhul-Hulaifa and then assuming Ihram)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور نافع نے کہا کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓجب مدینہ سے قربانی کا جانور اپنے ساتھ لے کر جاتے تو ذو الحلیفہ سے اسے ہار پہنا دیتے اور اشعار کردیتے اس طرح کہ جب اونٹ اپنا منہ قبلہ کی طرف کئے بیٹھا ہوتا تو اس کے داہنے کوہان میں نیزے سے زخم لگا دیتے۔
1694.
حضرت مسور بن مخرمہ اور مروان ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ زمانہ حدیبیہ میں ایک ہزار صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے ساتھ مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے۔ جب ذوالحلیفہ پہنچے تو نبی ﷺ نے اپنی قربانیوں کو قلادہ پہنایا اور ان کا اشعار کیا، پھر عمرے کا احرام باندھا۔
تشریح:
(1) امام بخاری ؒ یہ عنوان قائم کر کے اور حدیث لا کر حضرت مجاہد کے موقف کی تردید کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ احرام باندھنے کے بعد قربانی کا اشعار کرنا چاہیے۔ حدیث میں ہے کہ نبی ﷺ نے پہلے اپنی قربانی کو قلادہ پہنایا، پھر احرام باندھا۔ (2) اس تقلید و اشعار کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اس کے ذریعے سے لوگوں کو خبردار کیا جاتا ہے کہ ان جانوروں کو کچھ نہ کہا جائے، نیز اگر وہ جانور دوسرے جانوروں سے گھل مل جائے تو اس کی تمیز ہو سکے۔ اگر گم ہو جائے تو اسے پہچانا جا سکے۔ جن حضرات نے ایسا کرنے سے منع کیا ہے وہ بہت دور کی کوڑی لائے ہیں۔ (فتح الباري:686/3)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1647
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1694
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1694
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1694
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
تمہید باب
اشعار کے لغوی معنی خبردار کرنا ہے۔ شریعت کی اصطلاح میں قربانی کے اونٹ کی کوہان کو زخم لگانا تاکہ وہ خون آلود ہو جائے اشعار کہلاتا ہے۔ یہ قربانی کا جانور ہونے کی علامت ہے تاکہ عرب لوگ اس سے چھیڑ چھاڑ نہ کریں اور عزت و احترام کی نظر سے دیکھیں۔ اس طرح اس کے گلے میں قلادہ، یعنی ہار ڈالنا تقلید کہلاتا ہے۔ ایسا کرنا سنت ہے۔ اس اثر کو امام مالک نے اپنی مؤطا میں متصل سند سے بیان کیا ہے۔ اس میں ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کوہان کو بائیں جانب سے اشعار کرتے۔ جب وہ کوہان کو زخمی کرتے تو بسم اللہ واللہ اکبر کہتے۔ (المؤطا للامام مالک:1/349) بیہقی کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر بائیں جانب سے کوہان کو زخمی کرنا ممکن نہ ہوتا تو ابن عمر رضی اللہ عنہ دائیں جانب سے زخمی کرتے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں جانب اشعار کرنا ناجائز ہے۔ (السنن الکبرٰی للبیھقی،باب الاختیار فی التقلیدوالاشعار:5/232،وفتح الباری:3/286) ابن عمر رضی اللہ عنہ کے اثر میں (زمن الحديبية) کی جگہ پر اکثر نسخوں میں (مِنَ المدينة) ہے اور مؤطا میں بھی یہی الفاظ ہیں اور یہی زیادہ قرین قیاس معلوم ہوتا ہے۔ ترجمہ بھی اسی کے مطابق کیا گیا ہے۔
اور نافع نے کہا کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓجب مدینہ سے قربانی کا جانور اپنے ساتھ لے کر جاتے تو ذو الحلیفہ سے اسے ہار پہنا دیتے اور اشعار کردیتے اس طرح کہ جب اونٹ اپنا منہ قبلہ کی طرف کئے بیٹھا ہوتا تو اس کے داہنے کوہان میں نیزے سے زخم لگا دیتے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت مسور بن مخرمہ اور مروان ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ زمانہ حدیبیہ میں ایک ہزار صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے ساتھ مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے۔ جب ذوالحلیفہ پہنچے تو نبی ﷺ نے اپنی قربانیوں کو قلادہ پہنایا اور ان کا اشعار کیا، پھر عمرے کا احرام باندھا۔
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری ؒ یہ عنوان قائم کر کے اور حدیث لا کر حضرت مجاہد کے موقف کی تردید کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ احرام باندھنے کے بعد قربانی کا اشعار کرنا چاہیے۔ حدیث میں ہے کہ نبی ﷺ نے پہلے اپنی قربانی کو قلادہ پہنایا، پھر احرام باندھا۔ (2) اس تقلید و اشعار کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اس کے ذریعے سے لوگوں کو خبردار کیا جاتا ہے کہ ان جانوروں کو کچھ نہ کہا جائے، نیز اگر وہ جانور دوسرے جانوروں سے گھل مل جائے تو اس کی تمیز ہو سکے۔ اگر گم ہو جائے تو اسے پہچانا جا سکے۔ جن حضرات نے ایسا کرنے سے منع کیا ہے وہ بہت دور کی کوڑی لائے ہیں۔ (فتح الباري:686/3)
ترجمۃ الباب:
حضرت نافع بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ صلح حدیبیہ کے زمانے میں جب (مدینہ طیبہ سے)قربانی کا جانور لے جاتے تو ذوالحلیفہ پہنچ کر اس کے گلے میں قلادہ یعنی ہار پہناتے اور اس کا اشعار کرتے، جب وہ قبلہ رو بیٹھا ہوتا تو اس کی کوہان کی دائیں جانب کو چھری سے چیرتے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے احمد بن محمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو عبداللہ نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں عروہ بن زبیر نے، اور ان سے مسور بن مخرمہ ؓ اور مروان نے بیان کیا کہ نبی ﷺ مدینہ سے تقریباً اپنے ایک ہزار ساتھیوں کے ساتھ (حج کے لیے نکلے ) جب ذی الحلیفہ پہنچے تو نبی ﷺ نے ہدی کو ہار پہنایا اور اشعار کیا پھر عمرہ کا احرام باندھا۔
حدیث حاشیہ:
اشعار کے معنی قربانی کے اونٹ کے دائیں کوہان میں نیزے سے ایک زخم کردینا، اب یہ جانور بیت اللہ میں قربانی کے لیے نشان زدہ ہوجاتا تھا اور کوئی بھی ڈاکو چور اس پر ہاتھ نہیں ڈال سکتا تھا۔ اب بھی یہ اشعار رسول کریم ﷺ کی سنت ہے۔ بعض لوگوں نے اسے مکروہ قرار دیا ہے جو سخت غلطی اور سنت نبوی کى بے ادبی ہے۔ امام ابن حزم نے کہا کہ حضرت امام ابوحنیفہ ؒ کے سوا اور کسی سے اس کی کراہیت منقول نہیں، طحاوی نے کہا کہ حضرت امام ابوحنیفہ نے اصل اشعار کو مکروہ نہیں کہا بلکہ اس میں مبالغہ کرنے کو مکروہ کہا ہے جس سے اونٹ کی ہلاکت کا ڈر ہو، اورحضرت امام ابوحنیفہ سے جو مسلمانوں کے پیشوا ہیں، ہمارا یہی گمان ہے۔ اصل اشعار کو وہ کیسے مکروہ کہہ سکتے ہیں اس کا سنت ہونا احادیث صحیحہ سے ثابت ہے۔ ( وحیدی ) قلادہ جوتیوں کا ہار جو قربانی کے جانوروں کے گلے میں ڈال کر گویا اسے بیت اللہ میں قربانی کے لیے نشان لگا دیا جاتا تھا، قلادہ اونٹ بکری گائے سب کے لیے ہے اور اشعار کے بارے میں حضرت علامہ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں:وفيه مشروعية الإشعار وهو أن يكشط جلد البدنة حتى يسيل دم ثم يسلته فيكون ذلك علامة على كونها هديا وبذلك قال الجمهور من السلف والخلف وذكر الطحاوي في اختلاف العلماء كراهته عن أبي حنيفة وذهب غيره إلى استحبابه للاتباع حتى صاحباه أبو يوسف ومحمد فقالا هو حسن قال وقال مالك يختص الإشعار بمن لها سنام قال الطحاوي ثبت عن عائشة وبن عباس التخيير في الإشعار وتركه فدل على أنه ليس بنسك لكنه غير مكروه لثبوت فعله عن النبي صلى الله عليه وسلم إلی آخرہ۔ (فتح الباري)یعنی اس حدیث سے اشعار کی مشروعیت ثابت ہے وہ یہ کہ ہدی کے چمڑے کو ذرا سا زخمی کرکے اس سے خون بہاد دیا جائے بس وہ اس کے ہدی ہونے کی علامت ہے اور سلف اور خلف سے تمام جمہور نے اس کی مشروعیت کا اقرار کیا ہے اور امام طحاوی نے اس بارے میں علماء کا اختلاف ذکر کرتے ہوئے کہا کہ امام ابوحنیفہ ؒ نے اسے مکروہ قرار دیا ہے اور دوسرے لوگ اس کے مستحب ہونے کے قائل ہیں حتی کہ امام ابوحنیفہ ؒ کے ہر دو شاگردان رشید حضرت امام ابویوسف اور حضرت امام محمد ؒ بھی اس کے بہتر ہونے کے قائل ہیں۔ حضرت امام مالک ؒ کا قول ہے کہ اشعار ان جانوروں کے ساتھ خاص ہے جن کے کوہان ہیں۔ طحاوی نے کہا کہ حضرت عائشہ ؓ اور حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے ثابت ہے کہ اس کے یے اختیار ہے کہ یا تو اشعار کرے یا نہ کرے، یہ اسی امر کی دلیل ہے کہ اشعار کوئی حج کے مناسک سے نہیں ہے لیکن وہ غیر مکروہ ہے اس لیے کہ اس کا کرنا آنحضرت ﷺ سے ثابت ہے۔ مطلقاً اشعار کو مکروہ کہنے پر بہت سے متقدمین نے حضرت ابوحنیفہ پر جو اعتراضات کئے ہیں ان کے جوابات امام طحاوی نے دیئے ہیں، ان میں سے یہ بھی کہ حضرت امام ابوحنیفہ نے مطلق اشعار کا انکار نہیں کیا بلکہ ایسے مبالغہ کے ساتھ اشعار کرنے کو مکروہ بتلایا ہے جس سے جانور ضعیف ہو کر ہلاکت کے قریب ہو جائے۔ جن لوگوں نے اشعار کو مثلہ سے تشبیہ دی ہے ان کا قول بھی غلط ہے۔ اشعار صرف ایسا ہی ہے جیسے کہ ختنہ اور حجامت اور نشانی کے لیے بعض جانوروں کے کان چیر دینا ہے، ظاہر ہے کہ یہ سب مثلہ کے ذیل میں نہیں آسکتے، پھر اشعار کیوں کر آسکتا ہے۔ اسی لیے ابوصائب کہتے ہیں کہ ہم ایک مجلس میں امام وکیع کے پاس تھے۔ ایک شخص نے کہا کہ امام نخعی سے اشعار کا مثلہ ہونا منقول ہے۔ امام وکیع نے خفگی کے لہجہ میں فرمایا کہ میں کہتا ہوں کہ رسول کریم ﷺ نے اشعار کیا اور تو کہتا ہے کہ ابراہیم نخعی نے ایسا کہا، حق تو یہ ہے کہ تجھ کو قید کر دیا جائے۔ ( فتح ) قرآن مجید کی آیت شریفہ: ﴿يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ....﴾(الحجرات : 1) کا مفہوم بھی یہی ہے کہ جہاں اللہ اور اس کے رسول سے کوئی امر صحیح طور پر ثابت ہو وہاں ہرگرز قیل و قال و أقوال و آراء کو داخل نہ کیا جائے کہ یہ خدا و رسول ﷺ کی سخت بے ادبی ہے۔ مگر صد افسوس ہے کہ امت کا جم غفیر اسی بیماری میں مبتلا ہے، اللہ پاک سب کو تقلید جامد سے شفائے کامل عطا فرمائے آمین۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ جب کسی ہدی کا اشعار کرتے تو اسے قبلہ رخ کر لیتے اور بسم اللہ و اللہ أکبر کہہ کر اس کے کوہان کو زخمی کیا کرتے تھے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Al-Miswar bin Makhrama and Marwan (RA): The Prophet (ﷺ) set out from Madinah with over one thousand of his companions (at the time of the Treaty of Hudaibiya) and when they reached Dhul-Hulaifa, the Prophet (ﷺ) garlanded his Hadi and marked it and assumed Ihram for'Umra.