Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: The visit (of the Ka'bah) to perform (Tawaf-al-Ifada) on the Day of Nahr)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور ابوالزبیر نے حضرت عائشہ اور ابن عباسؓ سے روایت کیا کہ رسول للہﷺنے طواف الزیارۃ میں اتنی دیر کی کہ رات ہو گئی اور ابوحسان سے منقول ہے انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا کہ آنحضرتﷺ طواف الزیارۃ منی کے دنوں میں کرتے۔ابوالزبیر والی روایت کو ترمذی اور ابوداؤد اور امام احمد بن حنبل نے وصل کیا ہے۔ مذکورہ ابوحسان کا نام مسلم بن عبداللہ عدی ہے، اس کو طبرانی نے معجم کبیر میں اور بیہقی نے وصل کیا ہے۔
1732.
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نےدسویں ذوالحجہ کو ایک طواف کیا، اس کے بعد قیلولہ فرمایا پھر منیٰ آئے۔ عبدالرزاق نے اس روایت کو مرفوع ذکر کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہمیں عبید اللہ نے خبردی تھی۔
تشریح:
(1) یہ روایت سیدنا ابن عمر ؓ سے موقوفا اور مرفوعا دونوں طرح ثابت ہے۔ گویا ابن عمر نے خود بھی ایسے کیا اور رسول اکرم ﷺ کا عمل بھی ذکر کیا، تاہم مرفوع روایت میں ہے کہ پھر آپ وہاں سے لوٹے تو نماز ظہر منیٰ میں ادا فرمائی۔ صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نماز ظہر مکہ مکرمہ میں ادا کی تھی۔ محب الدین طبری نے ان کے درمیان ایسے تطبیق دی ہے: ممکن ہے کہ آپ نے مکہ مکرمہ یا منیٰ میں اکیلے نماز ظہر ادا کی ہو، پھر دوسرے مقام پر اپنے صحابہ کرام ؓ کو باجماعت پڑھائی ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ آپ ﷺ نے منیٰ میں اپنے صحابہ کرام ؓ کو ظہر کی نماز پڑھائی ہو، پھر آپ نے بیت اللہ کا طواف زیارت کیا ہو اور وہاں پھر اپنے ان صحابہ کرام کو نماز ظہر باجماعت پڑھائی ہو جنہوں نے ابھی تک نماز نہ پڑھی ہو۔ (عمدةالقاري:347/7)واللہ اعلم۔ (2) واضح رہے کہ دسویں تاریخ کو کنکریاں مارنے کے بعد احرام کی پابندیاں کچھ نرم ہو جاتی ہیں بشرطیکہ غروب آفتاب سے پہلے پہلے طواف زیارت کر لیا جائے۔ اگر دن غروب ہونے سے قبل طواف نہ کر سکا تو احرام کی پابندی دوبارہ لوٹ آئے گی، پھر طواف زیارت کے بعد احرام کھولنا ہو گا۔ (سنن أبي داود، المناسك، حدیث:1999) حضرت ام سلمہ ؓ کہتی ہیں کہ دسویں ذوالحجہ کو رسول اللہ ﷺ میرے ہاں تشریف لائے تو وہب بن زمعہ نے قمیص پہن رکھی تھی۔ آپ ﷺنے پوچھا:’’ کیا تم نے طواف افاضہ کر لیا ہے؟" اس نے کہا: نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’قمیص اتار کر احرام پہن لو،یہ رخصت اس صورت میں ہے جب شام سے پہلے پہلے طواف کر لیا جائے۔‘‘(سنن أبي داود، المناسك، حدیث:1999)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1684
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1732
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1732
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1732
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
تمہید باب
طواف زیارت حج کا رکن ہے، اسے طواف افاضہ، طواف صدر اور طواف رکن بھی کہا جاتا ہے۔ ابو زبیر کی اس روایت کو ابوداود، ترمذی اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ نے متصل سند سے بیان کیا ہے (سنن ابی داؤد،المناسک،حدیث:2000،وجامع الترمذی،الحج،حدیث:920) اور ابو حسان کی تعلیق کو امام طبرانی نے بیان کیا ہے۔ (المعجم الکبیرللطبرانی:12/159،والسنن الکبرٰی للبیھقی:5/146) پہلی روایت کا تقاضا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کے وقت طواف زیارت کیا جبکہ حضرت ابن عمر اور حضرت جابر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دن کے وقت طواف زیارت کیا تھا۔ ان دونوں روایات میں بظاہر تعارض ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس تعارض کو دور کرنے کے لیے ابو حسان کی روایت کو ذکر کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دسویں تاریخ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسم نے دن کے وقت طواف زیارت کیا جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت جابر رضی اللہ عنہما نے ذکر کیا ہے اور باقی ایام منیٰ، یعنی گیارہویں، بارہویں اور تیرہویں کے دن آپ نے رات کے وقت بیت اللہ کا طواف کیا جیسا کہ ابو حسان نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہے۔ (فتح الباری:3/716) ابو حاتم ابن حبان رحمہ اللہ نے یوں تطبیق دی ہے کہ ایک دفعہ آپ نے رمی جمار اور قربانی کے بعد طواف زیارت کیا اور پھر منیٰ تشریف لے گئے، وہاں ظہر، عصر، مغرب اور عشاء کی نماز پڑھی اور تھوڑی دیر آرام کرنے کے بعد دوبارہ ایک اور طواف کیا۔ (صحیح ابن حبان بترتیب ابن بلبان:9/195)
اور ابوالزبیر نے حضرت عائشہ اور ابن عباسؓ سے روایت کیا کہ رسول للہﷺنے طواف الزیارۃ میں اتنی دیر کی کہ رات ہو گئی اور ابوحسان سے منقول ہے انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا کہ آنحضرتﷺ طواف الزیارۃ منی کے دنوں میں کرتے۔ابوالزبیر والی روایت کو ترمذی اور ابوداؤد اور امام احمد بن حنبل نے وصل کیا ہے۔ مذکورہ ابوحسان کا نام مسلم بن عبداللہ عدی ہے، اس کو طبرانی نے معجم کبیر میں اور بیہقی نے وصل کیا ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نےدسویں ذوالحجہ کو ایک طواف کیا، اس کے بعد قیلولہ فرمایا پھر منیٰ آئے۔ عبدالرزاق نے اس روایت کو مرفوع ذکر کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہمیں عبید اللہ نے خبردی تھی۔
حدیث حاشیہ:
(1) یہ روایت سیدنا ابن عمر ؓ سے موقوفا اور مرفوعا دونوں طرح ثابت ہے۔ گویا ابن عمر نے خود بھی ایسے کیا اور رسول اکرم ﷺ کا عمل بھی ذکر کیا، تاہم مرفوع روایت میں ہے کہ پھر آپ وہاں سے لوٹے تو نماز ظہر منیٰ میں ادا فرمائی۔ صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نماز ظہر مکہ مکرمہ میں ادا کی تھی۔ محب الدین طبری نے ان کے درمیان ایسے تطبیق دی ہے: ممکن ہے کہ آپ نے مکہ مکرمہ یا منیٰ میں اکیلے نماز ظہر ادا کی ہو، پھر دوسرے مقام پر اپنے صحابہ کرام ؓ کو باجماعت پڑھائی ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ آپ ﷺ نے منیٰ میں اپنے صحابہ کرام ؓ کو ظہر کی نماز پڑھائی ہو، پھر آپ نے بیت اللہ کا طواف زیارت کیا ہو اور وہاں پھر اپنے ان صحابہ کرام کو نماز ظہر باجماعت پڑھائی ہو جنہوں نے ابھی تک نماز نہ پڑھی ہو۔ (عمدةالقاري:347/7)واللہ اعلم۔ (2) واضح رہے کہ دسویں تاریخ کو کنکریاں مارنے کے بعد احرام کی پابندیاں کچھ نرم ہو جاتی ہیں بشرطیکہ غروب آفتاب سے پہلے پہلے طواف زیارت کر لیا جائے۔ اگر دن غروب ہونے سے قبل طواف نہ کر سکا تو احرام کی پابندی دوبارہ لوٹ آئے گی، پھر طواف زیارت کے بعد احرام کھولنا ہو گا۔ (سنن أبي داود، المناسك، حدیث:1999) حضرت ام سلمہ ؓ کہتی ہیں کہ دسویں ذوالحجہ کو رسول اللہ ﷺ میرے ہاں تشریف لائے تو وہب بن زمعہ نے قمیص پہن رکھی تھی۔ آپ ﷺنے پوچھا:’’ کیا تم نے طواف افاضہ کر لیا ہے؟" اس نے کہا: نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’قمیص اتار کر احرام پہن لو،یہ رخصت اس صورت میں ہے جب شام سے پہلے پہلے طواف کر لیا جائے۔‘‘(سنن أبي داود، المناسك، حدیث:1999)
ترجمۃ الباب:
حضرت ابو زبیر نے اُم المومنین حضرت عائشہ ؓ اور حضرت ابن عباس ؓسے بیان کیا ہے کہ نبی ﷺ نے طواف زیارت کو رات تک مؤخر کیا تھا۔
ابو حسان کے حوالے سے بیان کیا جاتاہے کہ انھوں نے سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ ایام منیٰ میں طواف زیارت کیا کرتے تھے۔
حدیث ترجمہ:
اور ہم سے ابو نعیم نے بیان کیا، ان سے سفیان نے بیان کیا، ان سے عبید اللہ نے، ان سے نافع نے کہ ابن عمر ؓ نے صرف ایک طواف الزیارۃ کیا پھر سویرے سے منیٰ کو آئے، ان کی مراد دسویں تاریخ سے تھی، عبدالرزاق نے اس حدیث کا رفع (رسول اللہ ﷺ تک ) بھی کیا ہے۔ انہیں عبید اللہ نے خبر دی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Nafi' that Ibn 'Umar (RA) performed only one Tawaf. He would take an afternoon nap and then return to Mina. That was on the day of Nahr (slaughtering).