Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: The visit (of the Ka'bah) to perform (Tawaf-al-Ifada) on the Day of Nahr)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور ابوالزبیر نے حضرت عائشہ اور ابن عباسؓ سے روایت کیا کہ رسول للہﷺنے طواف الزیارۃ میں اتنی دیر کی کہ رات ہو گئی اور ابوحسان سے منقول ہے انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا کہ آنحضرتﷺ طواف الزیارۃ منی کے دنوں میں کرتے۔ابوالزبیر والی روایت کو ترمذی اور ابوداؤد اور امام احمد بن حنبل نے وصل کیا ہے۔ مذکورہ ابوحسان کا نام مسلم بن عبداللہ عدی ہے، اس کو طبرانی نے معجم کبیر میں اور بیہقی نے وصل کیا ہے۔
1733.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ ہم نے نبی ﷺ کے ہمراہ حج کیا۔ جب ہم نے دسویں تاریخ کو طواف افاضہ کیا تو حضرت صفیہ ؓ کو حیض آگیا۔ نبی ﷺ نے جب ان سے اس چیز کا ارادہ کیاجوشوہر اپنی بیوی سے کرتا ہے تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ !اسے تو حیض آگیا ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’یہ ہمیں مدینہ واپس جانے سے روک دے گی؟‘‘ انھوں نے عرض کیا کہ انھوں (صفیہ ؓ) نے قربانی کے دن طواف زیارت کر لیاتھا۔ آپ نے فرمایا: ’’پھر کوچ کرو۔‘‘ حضرت قاسم عروہ اور اسود سے ذکر کیا جاتا ہے، وہ حضرت عائشہ ؓ سے بیان کرتے ہیں کہ سیدہ صفیہ ؓ نے قربانی کے دن طواف زیارت کر لیا تھا۔
تشریح:
(1) رسول اللہ ﷺ کا خیال تھا کہ حضرت صفیہ ؓ نے طواف زیارت نہیں کیا اور وہ پاک ہونے تک ہمیں روکے رکھے گی کیونکہ طواف زیارت فرض ہے، اس کے بغیر حج نہیں ہوتا، اس کے بعد ہمیں مدینہ طیبہ روانہ ہونا ہے لیکن جب آپ کو بتایا گیا کہ انہوں نے دسویں تاریخ کو طواف زیارت کر لیا تھا تو آپ نے فرمایا کہ اب ٹھہرنے کی ضرورت نہیں بلکہ کوچ کرو اور طواف وداع ترک کرنے کی رخصت دی کیونکہ وہ حائضہ عورت سے ساقط ہے۔ (2) واضح رہے کہ ابو سلمہ بن عبدالرحمٰن حضرت عائشہ ؓ سے بیان کرنے میں متفرد نہیں ہیں بلکہ حضرت عروہ، قاسم اور حضرت اسود نے بھی حضرت عائشہ ؓ سے اس روایت کو بیان کیا ہے۔ قاسم کی روایت کو امام مسلم نے اور عروہ و اسود کی روایات کو امام بخاری ؒ نے اپنی متصل اسانید سے بیان کیا ہے۔ (فتح الباري:717/3)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1685
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1733
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1733
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1733
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
تمہید باب
طواف زیارت حج کا رکن ہے، اسے طواف افاضہ، طواف صدر اور طواف رکن بھی کہا جاتا ہے۔ ابو زبیر کی اس روایت کو ابوداود، ترمذی اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ نے متصل سند سے بیان کیا ہے (سنن ابی داؤد،المناسک،حدیث:2000،وجامع الترمذی،الحج،حدیث:920) اور ابو حسان کی تعلیق کو امام طبرانی نے بیان کیا ہے۔ (المعجم الکبیرللطبرانی:12/159،والسنن الکبرٰی للبیھقی:5/146) پہلی روایت کا تقاضا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کے وقت طواف زیارت کیا جبکہ حضرت ابن عمر اور حضرت جابر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دن کے وقت طواف زیارت کیا تھا۔ ان دونوں روایات میں بظاہر تعارض ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس تعارض کو دور کرنے کے لیے ابو حسان کی روایت کو ذکر کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دسویں تاریخ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسم نے دن کے وقت طواف زیارت کیا جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت جابر رضی اللہ عنہما نے ذکر کیا ہے اور باقی ایام منیٰ، یعنی گیارہویں، بارہویں اور تیرہویں کے دن آپ نے رات کے وقت بیت اللہ کا طواف کیا جیسا کہ ابو حسان نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہے۔ (فتح الباری:3/716) ابو حاتم ابن حبان رحمہ اللہ نے یوں تطبیق دی ہے کہ ایک دفعہ آپ نے رمی جمار اور قربانی کے بعد طواف زیارت کیا اور پھر منیٰ تشریف لے گئے، وہاں ظہر، عصر، مغرب اور عشاء کی نماز پڑھی اور تھوڑی دیر آرام کرنے کے بعد دوبارہ ایک اور طواف کیا۔ (صحیح ابن حبان بترتیب ابن بلبان:9/195)
اور ابوالزبیر نے حضرت عائشہ اور ابن عباسؓ سے روایت کیا کہ رسول للہﷺنے طواف الزیارۃ میں اتنی دیر کی کہ رات ہو گئی اور ابوحسان سے منقول ہے انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا کہ آنحضرتﷺ طواف الزیارۃ منی کے دنوں میں کرتے۔ابوالزبیر والی روایت کو ترمذی اور ابوداؤد اور امام احمد بن حنبل نے وصل کیا ہے۔ مذکورہ ابوحسان کا نام مسلم بن عبداللہ عدی ہے، اس کو طبرانی نے معجم کبیر میں اور بیہقی نے وصل کیا ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ ہم نے نبی ﷺ کے ہمراہ حج کیا۔ جب ہم نے دسویں تاریخ کو طواف افاضہ کیا تو حضرت صفیہ ؓ کو حیض آگیا۔ نبی ﷺ نے جب ان سے اس چیز کا ارادہ کیاجوشوہر اپنی بیوی سے کرتا ہے تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ !اسے تو حیض آگیا ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’یہ ہمیں مدینہ واپس جانے سے روک دے گی؟‘‘ انھوں نے عرض کیا کہ انھوں (صفیہ ؓ) نے قربانی کے دن طواف زیارت کر لیاتھا۔ آپ نے فرمایا: ’’پھر کوچ کرو۔‘‘ حضرت قاسم عروہ اور اسود سے ذکر کیا جاتا ہے، وہ حضرت عائشہ ؓ سے بیان کرتے ہیں کہ سیدہ صفیہ ؓ نے قربانی کے دن طواف زیارت کر لیا تھا۔
حدیث حاشیہ:
(1) رسول اللہ ﷺ کا خیال تھا کہ حضرت صفیہ ؓ نے طواف زیارت نہیں کیا اور وہ پاک ہونے تک ہمیں روکے رکھے گی کیونکہ طواف زیارت فرض ہے، اس کے بغیر حج نہیں ہوتا، اس کے بعد ہمیں مدینہ طیبہ روانہ ہونا ہے لیکن جب آپ کو بتایا گیا کہ انہوں نے دسویں تاریخ کو طواف زیارت کر لیا تھا تو آپ نے فرمایا کہ اب ٹھہرنے کی ضرورت نہیں بلکہ کوچ کرو اور طواف وداع ترک کرنے کی رخصت دی کیونکہ وہ حائضہ عورت سے ساقط ہے۔ (2) واضح رہے کہ ابو سلمہ بن عبدالرحمٰن حضرت عائشہ ؓ سے بیان کرنے میں متفرد نہیں ہیں بلکہ حضرت عروہ، قاسم اور حضرت اسود نے بھی حضرت عائشہ ؓ سے اس روایت کو بیان کیا ہے۔ قاسم کی روایت کو امام مسلم نے اور عروہ و اسود کی روایات کو امام بخاری ؒ نے اپنی متصل اسانید سے بیان کیا ہے۔ (فتح الباري:717/3)
ترجمۃ الباب:
حضرت ابو زبیر نے اُم المومنین حضرت عائشہ ؓ اور حضرت ابن عباس ؓسے بیان کیا ہے کہ نبی ﷺ نے طواف زیارت کو رات تک مؤخر کیا تھا۔
ابو حسان کے حوالے سے بیان کیا جاتاہے کہ انھوں نے سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ ایام منیٰ میں طواف زیارت کیا کرتے تھے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، ان سے لیث نے بیان کیا، ان سے جعفر بن ربیعہ نے، ان سے اعرج نے انھوں نے کہاکہ مجھ سے ابوسلمہ بن عبدالرحمن نے بیان کیا اور ان سے حضرت عائشہ ؓ نے کہ ہم نے جب رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حج کیا تو دسویں تاریخ کو طواف الزیارۃ کیا لیکن صفیہ ؓ حائضہ ہوگئیں پھر آنحضرت ﷺ نے ان سے وہی چاہا جو شوہر اپنی بیوی سے چاہتا ہے، تو میں نے کہا یا رسول اللہ ! وہ حائضہ ہیں، آپ ﷺ نے اس پر فرمایا کہ اس نے تو ہمیں روک دیا پھر جب لوگوں نے کہا کہ یا رسول اللہ ! انہوں نے دسویں تاریخ کو طواف الزیارۃ کر لیا تھا، آپ ﷺ نے فرمایا پھر چلے چلو۔ قاسم، عروہ اور اسود سے بواسطہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ روایت ہے کہ ام المومنین صفیہ ؓ نے دسویں تاریخ کو طواف الزیارۃ کیا تھا۔
حدیث حاشیہ:
اس کو طواف الافاضہ اور طواف الصدر اور طواف الرکن بھی کہا گیا ہے، بعض روایتوں میں ہے کہ آپ ﷺ نے یہ طواف دن میں کیا تھا۔ حضرت امام بخاری ؒ نے حضرت ابوحسان کی حدیث لا کر احادیث مختلفہ میں اس طرح تطبیق دی کہ جابر اور عبداللہ بن عمر ؓ کا بیان یوم اول سے متعلق ہے اور حضرت ابن عباس کی حدیث کاتعلق بقایا دنوں سے ہے، یہاں تک بھی مروی ہے کہ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَزُورُ الْبَيْتَ كُلَّ لَيْلَةٍ مَا أَقَامَ بِمِنًىیعنی ایام منیٰ میں آپ ﷺ ہر رات مکہ شریف آکر طواف الزیارۃ کیا کرتے تھے۔(فتح الباري)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA): We performed Hajj with the Prophet (ﷺ) and performed Tawaf-al-ifada on the Day of Nahr (slaughtering). Safiya got her menses and the Prophets desired from her what a husband desires from his wife. I said to him, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! She is having her menses." He said, "Is she going to detain us?" We informed him that she had performed Tawaf-al-Ifada on the Day of Nahr. He said, "(Then you can) depart." ________