Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: Al-Khutba during the Days of Mina)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1741.
حضرت ابو بکر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے ہمیں قربانی کے دن خطبہ دیا اور فرمایا: ’’تم جانتے ہو یہ دن کون سا ہے؟‘‘ ہم نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول ہی جانتے ہیں۔ آپ تھوڑی دیر خاموش رہے۔ ہم نے خیال کیا کہ آپ اس کا کوئی اور نام تجویز کریں گے تاہم آپ ﷺ نے فرمایا: ’’کیا یہ قربانی کا دن نہیں ہے؟‘‘ ہم نے عرض کیا: کیوں نہیں !اس کے بعد آپ نے فرمایا: ’’یہ کون سا مہینہ ہے؟‘‘ ہم نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول ﷺ ہی جانتے ہیں۔ آپ تھوڑی دیر چپ رہے۔ ہم نے خیال کیا کہ آپ اس کا کوئی اور نام تجویز کریں گے۔ آپ نے فرمایا: ’’کیا یہ ذوالحجہ نہیں ہے؟‘‘ ہم نے عرض: کیوں نہیں، یہ ذوالحجہ ہے۔ پھر آپ نے فرمایا: ’’یہ کون سا شہر ہے؟‘‘ ہم نے کہا: اللہ اور اس کے رسول اللہ ﷺ ہی جانتے ہیں آپ تھوڑی دیر خاموش رہے، ہم نے خیال کیا کہ آپ اس کا کوئی اور نام ذکر کریں گے۔ آپ نے فرمایا: ’’کیا یہ مکہ مکرمہ نہیں ہے؟‘‘ ہم نے عرض کیا: کیوں نہیں، یہ مکہ مکرمہ ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’بے شک تمھارے خون اور تمھارے مال تم پر حرام ہیں جیسے اس دن کی حرمت تمھارے اس مہینے میں اور اس شہر میں ہے تاآنکہ تم اپنے رب سے جاملو۔ خبردار!کیا میں نے حکم پہنچادیا ہے؟‘‘ لوگوں نے عرض کیا: جی ہاں!آپ نے فرمایا: ’’اے اللہ!توگواہ رہ، اب چاہیے کہ حاضرشخص یہ تعلیمات غیر موجود کو پہنچا دے کیونکہ بسااوقات براہ راست سننے والےسے وہ شخص زیادہ یاد رکھتاہے جسے بعد میں حکم پہنچایا جائے۔ لوگو!میرے بعد کافروں کی طرح نہ بن جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں اڑانے لگو۔‘‘
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1693
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1741
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1741
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1741
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
حضرت ابو بکر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے ہمیں قربانی کے دن خطبہ دیا اور فرمایا: ’’تم جانتے ہو یہ دن کون سا ہے؟‘‘ ہم نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول ہی جانتے ہیں۔ آپ تھوڑی دیر خاموش رہے۔ ہم نے خیال کیا کہ آپ اس کا کوئی اور نام تجویز کریں گے تاہم آپ ﷺ نے فرمایا: ’’کیا یہ قربانی کا دن نہیں ہے؟‘‘ ہم نے عرض کیا: کیوں نہیں !اس کے بعد آپ نے فرمایا: ’’یہ کون سا مہینہ ہے؟‘‘ ہم نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول ﷺ ہی جانتے ہیں۔ آپ تھوڑی دیر چپ رہے۔ ہم نے خیال کیا کہ آپ اس کا کوئی اور نام تجویز کریں گے۔ آپ نے فرمایا: ’’کیا یہ ذوالحجہ نہیں ہے؟‘‘ ہم نے عرض: کیوں نہیں، یہ ذوالحجہ ہے۔ پھر آپ نے فرمایا: ’’یہ کون سا شہر ہے؟‘‘ ہم نے کہا: اللہ اور اس کے رسول اللہ ﷺ ہی جانتے ہیں آپ تھوڑی دیر خاموش رہے، ہم نے خیال کیا کہ آپ اس کا کوئی اور نام ذکر کریں گے۔ آپ نے فرمایا: ’’کیا یہ مکہ مکرمہ نہیں ہے؟‘‘ ہم نے عرض کیا: کیوں نہیں، یہ مکہ مکرمہ ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’بے شک تمھارے خون اور تمھارے مال تم پر حرام ہیں جیسے اس دن کی حرمت تمھارے اس مہینے میں اور اس شہر میں ہے تاآنکہ تم اپنے رب سے جاملو۔ خبردار!کیا میں نے حکم پہنچادیا ہے؟‘‘ لوگوں نے عرض کیا: جی ہاں!آپ نے فرمایا: ’’اے اللہ!توگواہ رہ، اب چاہیے کہ حاضرشخص یہ تعلیمات غیر موجود کو پہنچا دے کیونکہ بسااوقات براہ راست سننے والےسے وہ شخص زیادہ یاد رکھتاہے جسے بعد میں حکم پہنچایا جائے۔ لوگو!میرے بعد کافروں کی طرح نہ بن جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں اڑانے لگو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعامر نے بیان کیا، ان سے قرہ نے بیان کیا، ان سے محمد بن سیرین نے کہا کہ مجھے عبدالرحمن بن ابی بکرہ نے اور ایک اور شخص نے جو میرے نزدیک عبدالرحمن سے بھی افضل ہے یعنی حمید بن عبدالرحمن نے خبر دی کہ ابوبکر ؓ نے بتلایا کہ نبی کریم ﷺ نے دسویں تاریخ کو منیٰ میں خطبہ سنایا، آپ ﷺ نے پوچھا لوگو ! معلوم ہے آج یہ کونسا دن ہے؟ ہم نے عرض کی اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں، آپ ﷺ اس پر خاموش ہو گئے اور ہم نے سمجھا کہ آپ ﷺ اس دن کا کوئی اور نام رکھیں گے لیکن آپ ﷺ نے فرمایا : کیا یہ قربانی کا دن نہیں۔ ہم بولے ہاں ضرور ہے، پھر آپ ﷺ نے پوچھا یہ مہینہ کون سا ہے؟ ہم نے کہا اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں۔ آپ اس مرتبہ بھی خاموش ہو گئے او رہمیں خیال ہوا کہ آپ ﷺ اس مہینہ کا کوئی اور نام رکھیں گے، لیکن آپ نے فرمایا کیا یہ ذی الحجہ کا مہینہ نہیں ہے؟ ہم بولے کیوں نہیں، پھر آپ ﷺ نے پوچھا یہ شہر کون سا ہے؟ ہم نے عرض کی اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں، اس مرتبہ بھی آپ ﷺ اس طرح خاموش ہو گئے کہ ہم نے سمجھا کہ آپ ﷺ اس کا کوئی اور نام رکھیں گے، لیکن آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ حرمت کا شہر نہیں ہے؟ ہم نے عر ض کی کیوں نہیں ضرور ہے، اس کے بعد آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا بس تمہارا خون اور تمہارے مال تم پر اسی طرح حرام ہیں جیسے اس دن کی حرمت اس مہینہ اور اس شہر میں ہے، تاآنکہ تم اپنے رب سے جاملو۔ کہو کیا میں نے تم کو اللہ کا پیغام پہنچا دیا؟ لوگوں نے کہا کہ ہاں۔ آپ ﷺ نے فرمایا اے اللہ ! تو گواہ رہنا اور ہاں ! یہاں موجود غائب کو پہنچا دیں کیوں کہ بہت سے لوگ جن تک یہ پیغام پہنچے گا سننے والوں سے زیادہ (پیغام کو ) یاد رکھنے والے ثابت ہوں گے اور میرے بعد کافر نہ بن جانا کہ ایک دوسرے کی (ناحق ) گردنیں مارنے لگو۔
حدیث حاشیہ:
یہ حجۃ الوداع میں آپ ﷺ کا وہ عظیم الشان خطبہ ہے جسے اساس الاسلام ہونے کی سند حاصل ہے اور یہ کافی طویل ہے جسے مختلف راویوں نے مختلف الفاظ میں نقل کیا ہے۔ حضرت امام بخاری ؒ نے ترجمۃ الباب کے تحت یہ روایات یہاں نقل کی ہیں، پورے خطبے کا احصار مقصد نہیں ہے۔ و أراد البخاري الرد علی من زعم أن یوم النحر لا خطبة فیه للحاج و أن المذکور في هذا الحدیث من قبیل الوصایا العامة لا علی أنه من شعار الحج فأراد البخاري أن یبین أن الراوي سماها خطبة کما سمی التي وقعت في عرفات خطبة۔ (فتح) یعنی کچھ لوگ یوم نحر کے خطبہ کے قائل نہیں ہیں اور اس خطبہ کووصایا سے تعبیر کرتے ہیں، امام بخاری نے ان کا رد کیا اور بتلایا کہ راوی نے اسے لفظ خطبہ سے ذکر کیا ہے جیسے عرفات کے خطبہ کو خطبہ کہا ایسا ہی اسے بھی، لہٰذا یوم النحر کو بھی خطبہ سنت نبوی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Bakra (RA): The Prophet (ﷺ) delivered to us a sermon on the Day of Nahr. He said, "Do you know what is the day today?" We said, "Allah and His Apostle (ﷺ) know better." He remained silent till we thought that he might give that day another name. He said, "Isn't it the Day of Nahr?" We said, "It is." He further asked, "Which month is this?" We said, "Allah and His Apostle (ﷺ) know better." He remained silent till we thought that he might give it another name. He then said, "Isn't it the month of Dhul-Hijja?" We replied: "Yes! It is." He further asked, "What town is this?" We replied, "Allah and His Apostle (ﷺ) know it better." He remained silent till we thought that he might give it another name. He then said, "Isn't it the forbidden (Sacred) town (of Makkah)?" We said, "Yes. It is." He said, "No doubt, your blood and your properties are sacred to one another like the sanctity of this day of yours, in this month of yours, in this town of yours, till the day you meet your Lord. No doubt! Haven't I conveyed Allah's message to you? They said, "Yes." He said, "O Allah! Be witness. So it is incumbent upon those who are present to convey it (this information) to those who are absent because the informed one might comprehend it (what I have said) better than the present audience, who will convey it to him. Beware! Do not renegade (as) disbelievers after me by striking the necks (cutting the throats) of one another." ________