باب : دونوں جمروں کے پاس دعا کرنے کے بیان میں (دنوں جمروں سے جمرہ اولی اور جمرہ وسطی مرادہیں )
)
Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: Invoking (Allah) near the two Jamrat)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1753.
حضرت ابن شہاب زہری سے روایت ہے انھوں نے (بواسطہ سالم بن عبداللہ عن ابن عمر) کہا کہ رسول اللہ ﷺ جب اس جمرے کو رمی کرتے جو مسجد منیٰ کے قریب ہے تو اسے سات کنکریاں مارتے۔ جب بھی کنکری مارتے تو اللہ أکبر کہتے۔ پھر آگے بڑھ جاتے اور قبلہ روہوکر ٹھہرتے، پھر دونوں ہاتھ اٹھا کر دعاکرتے، اس طرح دیر تک وہاں ٹھہرتے۔ پھر دوسرے جمرے کے پاس آتے اور اس کوسات کنکریاں مارتے۔ جب بھی کنکری مارتے تو اللہ أکبر کہتے۔ پھر بائیں جانب وادی کے قریب اترجاتے، وہاں بھی قبلہ رو کھڑے ہوتے اور دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے رہتے، پھر جمرہ عقبہ کے پاس آتے، اسے بھی سا ت کنکریاں مارتے اور ہر کنکری کے ساتھ اللہ أکبر کہتے۔ اس کے بعد واپس ہوجاتے اور اس کے پاس دعا کے لیے نہ ٹھہرتے۔ ابن شہاب زہری نے کہا: میں نے حضرت سالم سے سنا، وہ اپنے باپ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے، وہ نبی کریم ﷺ سے اسی طرح بیان کرتے تھے، نیز حضرت عبداللہ بن عمر ؓ خود بھی اس طرح کیاکرتے تھے۔
تشریح:
(1) اس حدیث میں پہلے اور دوسرے جمرے کے پاس ہاتھ اٹھا کر تادیر دعا کرنے کا ذکر ہے۔ امام بخاری ؒ بھی یہی بات ثابت کرنا چاہتے ہیں، لیکن تیسرے جمرے کے پاس کھڑے ہو کر دعا کرنا ثابت نہیں۔ حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ اس حدیث میں ہر کنکری مارتے وقت اللہ أکبر کہنے کی مشروعیت کا بیان ہے۔ اور اس بات پر اجماع ہے کہ اگر کسی نے اسے ترک کر دیا تو اس پر کچھ لازم نہیں آئے گا، البتہ امام ثوری کہتے ہیں کہ وہ مساکین کو کھانا کھلائے اور اگر بطور فدیہ دم دے تو زیادہ بہتر ہے۔ (2) امام بخاری ؒ نے رمی کرنے والے کے متعلق کوئی عنوان قائم نہیں کیا کہ وہ رمی کرنے کے لیے پیدل جائے یا سوار ہو کر، البتہ امام ابن ابی شیبہ نے بیان کیا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ پیدل جایا کرتے تھے اور حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ وہ سواری کو بقدر ضرورت ہی استعمال کرتے تھے۔ (فتح الباري:738/3) (3) واضح رہے کہ مذکورہ حدیث مرسل نہیں کیونکہ اس کی مکمل سند متن کے آخر میں بیان کر دی گئی ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس کا متن سند کے کچھ حصے سے پہلے بیان کر دیا گیا ہے۔ (فتح الباري:737/3)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1705
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1753
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1753
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1753
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
حضرت ابن شہاب زہری سے روایت ہے انھوں نے (بواسطہ سالم بن عبداللہ عن ابن عمر) کہا کہ رسول اللہ ﷺ جب اس جمرے کو رمی کرتے جو مسجد منیٰ کے قریب ہے تو اسے سات کنکریاں مارتے۔ جب بھی کنکری مارتے تو اللہ أکبر کہتے۔ پھر آگے بڑھ جاتے اور قبلہ روہوکر ٹھہرتے، پھر دونوں ہاتھ اٹھا کر دعاکرتے، اس طرح دیر تک وہاں ٹھہرتے۔ پھر دوسرے جمرے کے پاس آتے اور اس کوسات کنکریاں مارتے۔ جب بھی کنکری مارتے تو اللہ أکبر کہتے۔ پھر بائیں جانب وادی کے قریب اترجاتے، وہاں بھی قبلہ رو کھڑے ہوتے اور دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے رہتے، پھر جمرہ عقبہ کے پاس آتے، اسے بھی سا ت کنکریاں مارتے اور ہر کنکری کے ساتھ اللہ أکبر کہتے۔ اس کے بعد واپس ہوجاتے اور اس کے پاس دعا کے لیے نہ ٹھہرتے۔ ابن شہاب زہری نے کہا: میں نے حضرت سالم سے سنا، وہ اپنے باپ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے، وہ نبی کریم ﷺ سے اسی طرح بیان کرتے تھے، نیز حضرت عبداللہ بن عمر ؓ خود بھی اس طرح کیاکرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث میں پہلے اور دوسرے جمرے کے پاس ہاتھ اٹھا کر تادیر دعا کرنے کا ذکر ہے۔ امام بخاری ؒ بھی یہی بات ثابت کرنا چاہتے ہیں، لیکن تیسرے جمرے کے پاس کھڑے ہو کر دعا کرنا ثابت نہیں۔ حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ اس حدیث میں ہر کنکری مارتے وقت اللہ أکبر کہنے کی مشروعیت کا بیان ہے۔ اور اس بات پر اجماع ہے کہ اگر کسی نے اسے ترک کر دیا تو اس پر کچھ لازم نہیں آئے گا، البتہ امام ثوری کہتے ہیں کہ وہ مساکین کو کھانا کھلائے اور اگر بطور فدیہ دم دے تو زیادہ بہتر ہے۔ (2) امام بخاری ؒ نے رمی کرنے والے کے متعلق کوئی عنوان قائم نہیں کیا کہ وہ رمی کرنے کے لیے پیدل جائے یا سوار ہو کر، البتہ امام ابن ابی شیبہ نے بیان کیا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ پیدل جایا کرتے تھے اور حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ وہ سواری کو بقدر ضرورت ہی استعمال کرتے تھے۔ (فتح الباري:738/3) (3) واضح رہے کہ مذکورہ حدیث مرسل نہیں کیونکہ اس کی مکمل سند متن کے آخر میں بیان کر دی گئی ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس کا متن سند کے کچھ حصے سے پہلے بیان کر دیا گیا ہے۔ (فتح الباري:737/3)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
اور محمد بن بشار نے کہا کہ ہم سے عثمان بن عمر نے بیان کیا، انہیں یونس نے خبر دی اور انہیں زہری نے کہ رسول کریم ﷺ جب اس جمرہ کی رمی کرتے جو منی کی مسجد کے نزدیک ہے تو سات کنکریوں سے رمی کرتے اور ہر کنکری کے ساتھ تکبیر کہتے، پھر آگے بڑھتے اور قبلہ رخ کھڑے ہو کر دونوں ہاتھ اٹھا کر دعائیں کرتے تھے، یہاں آپ ﷺ بہت دیر تک کھڑے رہتے تھے پھر جمرہ ثانیہ (وسطی ) کے پاس آتے یہاں بھی سات کنکریوں سے رمی کرتے اور ہر کنکری کے ساتھ اللہ أکبر کہتے، پھر بائیں طرف نالے کے قریب اتر جاتے اور وہاں بھی قبلہ رخ کھڑے ہوتے اور ہاتھوں کو اٹھا کر دعا کرتے رہتے، پھر جمرہ عقبہ کے پاس آتے اور یہاں بھی سات کنکریوں سے رمی کرتے اور ہر کنکری کے ساتھ اللہ أکبر کہتے، اس کے بعد واپس ہوجاتے یہاں آپ دعا کے لیے ٹھہرتے نہیں تھے۔ زہری نے کہا کہ میں نے سالم سے سنا وہ بھی اسی طرح اپنے والد (ابن عمر ؓ ) سے نبی کریم ﷺ کی حدیث بیان کرتے تھے او ریہ کہ عبداللہ بن عمر ؓ خود بھی اسی طرح کیا کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
حافظ صاحب ؒ فرماتے ہیں :وَفِي الْحَدِيثِ مَشْرُوعِيَّةُ التَّكْبِيرِ عِنْدِ رَمْيِ كُلِّ حَصَاةٍ وَقَدْ أَجْمَعُوا عَلَى أَنَّ مَنْ تَرَكَهُ لَا يَلْزَمهُ شَيْءٌ إِلَّا الثَّوْرِيَّ فَقَالَ يُطْعِمُ وَإِنْ جَبَرَهُ بِدَمٍ أَحَبُّ إِلَيَّ وَعَلَى الرَّمْيِ بِسَبْعٍ وَقَدْ تَقَدَّمَ مَا فِيهِ وَعَلَى اسْتِقْبَالِ الْقِبْلَةِ بَعْدَ الرَّمْيِ وَالْقِيَامِ طَوِيلًا وَقَدْ وَقَعَ تَفْسِيره فِيمَا رَوَاهُ بن أَبِي شَيْبَةَ بِإِسْنَادٍ صَحِيحٍ عَنْ عَطَاءٍ كَانَ بن عُمَرَ يَقُومُ عِنْدَ الْجَمْرَتَيْنِ مِقْدَارَ مَا يَقْرَأُ سُورَةَ الْبَقَرَةِ وَفِيهِ التَّبَاعُدُ مِنْ مَوْضِعِ الرَّمْيِ عِنْدَ الْقِيَامِ لِلدُّعَاءِ حَتَّى لَا يُصِيبَ رَمْيَ غَيْرِهِ وَفِيهِ مَشْرُوعِيَّةُ رَفْعِ الْيَدَيْنِ فِي الدُّعَاءِ وَتَرْكِ الدُّعَاءِ وَالْقِيَامِ عَنْدِ جَمْرَةِ الْعَقَبَةِ ( فتح الباری ) یعنی اس حدیث میں ہر کنکری کو مارتے وقت تکبیر کہنے کی مشروعیت کا ذکر ہے اور اس پر اجماع ہے کہ اگر کسی نے اسے ترک کردیا تو اس پر کچھ لازم نہیں آئے گا مگر ثوری کہتے ہیں کہ وہ مسکینوں کو کھانا کھلائے گا اور اگر دم دے تو زیادہ بہتر ہے اور اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سات کنکریوں سے رمی کرنا مشروع ہے اور وہ بھی ثابت ہوا کہ رمی کے بعد قبلہ رخ ہو کر کافی دیر تک کھڑے کھڑے دعا مانگنا بھی مشروع ہے۔ یہاں تک کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ جمرتین کے نزدیک اتنی دیر تک قیام فرماتے جتنی دیر میں سورۃ بقرہ ختم کی جاتی ہے۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مقام رمی سے ذرا دور ہو کر دعا کے لیے قیام کرنا مشروع ہے تاکہ کسی کی کنکری اس کو نہ لگ سکے اور اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اس وقت دعاؤں میں ہاتھ اٹھانا بھی مشروع ہے اور یہ بھی کہ جمرہ عقبہ کے پاس نہ تو قیام کرنا ہے نہ دعا کرنا، وہاں سے کنکریاں مارتے ہی واپس ہو جانا چاہئے۔
مزید ہدایات : گیارہ ذی الحجہ تک یہ تاریخیں ایام تشریق کہلاتی ہیں، طواف افاضہ جو دس کو کیاجاتا ہے اس کے بعد کی تاریخوں میں منیٰ کے میدان میں مستقل پڑاؤ رکھنا چاہئے۔ یہ دن کھانے پینے کے ہیں، ان میں روزہ رکھنا بھی منع ہے۔ ان دنوں میں ہر روز زوال کے بعد ظہر کی نماز سے پہلے تینوں شیطانوں کو کنکریاں مارنی ہوں گی جیسا کہ حضرت عائشہ ؓ روایت کرتی ہیں قَالَتْ: «أَفَاضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ آخِرِ يَوْمِهِ حِينَ صَلَّى الظُّهْرَ، ثُمَّ رَجَعَ إِلَى مِنًى، فَمَكَثَ بِهَا لَيَالِيَ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ يَرْمِي الْجَمْرَةَ، إِذَا زَالَتِ الشَّمْسُ كُلُّ جَمْرَةٍ بِسَبْعِ حَصَيَاتٍ، يُكَبِّرُ مَعَ كُلِّ حَصَاةٍ، وَيَقِفُ عِنْدَ الْأُولَى، وَالثَّانِيَةِ فَيُطِيلُ الْقِيَامَ، وَيَتَضَرَّعُ، وَيَرْمِي الثَّالِثَةَ وَلَا يَقِفُ عِنْدَهَا»(رواہ أبوداود) یعنی نبی کریم ﷺ ظہر کی نماز تک طواف افاضہ سے فارغ ہو گئے پھر آپ ﷺ منی واپس تشریف لے گئے اور ایام تشریق میں آپ ﷺ نے منیٰ میں ہی شب کو قیام فرمایا۔ زوال شمس کے بعد آپ ﷺ روزانہ رمی جمار کرتے ہر جمرہ پر سات سات کنکریاں مارتے اور ہر کنکری پر نعرہ تکبیر بلند کرتے۔ جمرہ اولی جمرہ ثانیہ کے پاس بہت دیر تک آپ ﷺ قیام فرماتے اور باری تعالیٰ کے سامنے گریہ و زاری فرماتے۔ جمرہ ثالثہ پر کنکری مارتے وقت یہاں قیام نہیں فرماتے تھے۔ پس تیرہ ذی الحجہ کے وقت زوال تک منیٰ میں رہنا ہوگا۔ ان ایام میں تکبیرات بھی پڑھنی ضروری ہیں، کنکریاں بعد نماز ظہر بھی ماری جاسکتی ہیں۔
رمی جمار کیا ہے؟ : کنکریاں مارنا، صفا و مروہ کی سعی کرنا، یہ عمل ذکر اللہ کو قائم رکھنے کے لیے ہیں جیسا کہ ترمذی میں حضرت عائشہ ؓ سے مرفوعاً مروی ہے۔ کنکریاں مارنا شیطان کو رجم کرنا ہے، یہ حضرت ابراہیم ؑ کی سنت کی پیروی ہے آپ ﷺ جب مناسک حج ادا کرچکے تو جمرہ عقبہ پر آپ کے سامنے شیطان آیا آپ ؑ نے اس پر سات کنکریاں ماریں جس سے وہ زمین میں دھنسنے لگا۔ پھر جمرہ ثانیہ پر وہ آپ ؑ کے سامنے آیاتو آپ نے وہاں بھی سات کنکریاں ماریں جس سے وہ زمین میں دھنسنے لگا، پھر جمرہ ثالثہ پر آپ ؑکے سامنے آیا تو بھی آپ نے سات کنکریاں ماریں جس سے وہ زمین میں دھنسنے لگا۔ یہ اسی واقعہ کی یادگار ہیں۔ کنکریاں مارنے سے مہلک ترین گناہوں میں سے ایک گناہ معاف ہوتا ہے نیز کنکریاں مارنے واے کے لیے قیامت کے روز وہ کنکریاں باعث روشنی ہوگی۔ جو کنکریاں باری تعالیٰ کے دربار میں درجہ قبولیت کو پہنچتی ہیں، وہ وہاں سے اٹھ جاتی ہیں اگر یہ بات نہ ہوتی تو پہاڑوں کے ڈھیر لگ جاتے (مشکوٰة، مجمع الزاوائد) اب ہر سہ جمرات کی تفصیل علیحدہ علیحدہ لکھی جاتی ہے۔
جمرہ اولی : یہ پہلا منارہ ہے جس کو پہلا شیطان کہا جاتا ہے۔ یہ مسجد خیف کی طرف بازار میں ہے۔ گیارہ تاریخ کو اسی سے کنکریاں مارنی شروع کریں، کنکریاں مارتے وقت قبلہ شریف کو بائیں طرف اور منیٰ دائیں ہاتھ کرنا چاہئے۔ اللہ أکبر کہہ کر ایک ایک کنکری پیچھے بتلائے طریقے سے پھینکیں۔ جب ساتوں کنکریاں مار چکیں تو قبلہ کی طرف چند قدم بڑھ جائیں اور قبلہ رخ ہو کر دونوں ہاتھ اٹھا کر تسبیح، تحمید اور تہلیل و تکبیر پکاریں اور خوب دعائیں مانگیں۔ سنت طریقہ یہ ہے کہ اتنی دیر تک یہاں دعا مانگیں اور ذکر اذکار کریں جتنی دیر سورۃ بقرہ کی تلاوت میں لگتی ہے اتنا نہ ہو سکے تو جو کچھ ہو سکے اس کو غنیمت جانیں۔
جمرہ وسطی : یہ درمیانی منارہ ہے جس طرح جمرہ اولی کو کنکریاں ماری تھیں اسی طرح اس کو بھی ماریں اور چند قدم بائیں طرف ہٹ کر نشیب میں قبلہ رو کھڑے ہو کر مثل سابق کے دعائیں مانگیں اور بقدر تلاوت سورۃ بقرہ کے حمد و ثنائے الٰہی میں مشغول رہیں۔ (بخاری)
جمرہ عقبی: یہ منارہ بیت اللہ کی جانب ہے اس کوبڑے شیطان کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ اس کو بھی اسی طرح کنکریاں ماریں۔ ہاں اس کو کنکریاں مار کر یہاں ٹھہرنا نہیں چاہئے اور نہ یہاں ذکر و اذکار اور دعائیں ہونی چاہئیں۔ (بخاری) یہ تیرہ ذی الحجہ کے زوال تک کا پروگرام ہے یعنی 13 کی زوال تک منی میں رہ کر روزانہ وقت مقررہ پر رمی جمار کرنا چاہئے۔ ہاں ضرورت مندوں مثلاً اونٹ چرانے والوں اور آب زمزم کے خادموں اور ضروری کام کاج کرنے والوں کے لیے اجازت ہے کہ گیارہ تاریخ ہی کو گیارہ کے ساتھ بارہ تاریخ کی بھی اکٹھی چودہ کنکریاں مار کر چلے جائیں، پھر تیرہ کو تیرہ کی کنکریاں مار کر منیٰ سے رخصت ہونا چاہئے، اگر کوئی بارہ ہی کو 13 کی بھی مار کر منیٰ سے رخصت ہو جائے تو درجہ جواز میں ہے مگر بہتر نہیں ہے۔ دوران قیام منیٰ میں نماز باجماعت مسجد خیف میں ادا کرنی چاہئے۔ یہاں نماز جمع نہیں کرسکتے ہاں قصر کرسکتے ہیں۔ جمروں کے پاس والی مسجد کی داخلی اور ان کا طواف کرنا بدعت ہے، منیٰ سے تیرہویں تاریخ کو زوال کے بعد تینوں شیطانوں کو کنکریاں مار کر مکہ شریف کو واپسی ہے، کنکریاں مارتے ہوئے سیدھے وادی محصب کو چلے جائیں یہ مکہ شریف کے قریب ایک گھاٹی ہے جو ایک سنگریزہ زمین ہے حصیب البطح اور بطحاءاور خیف بنی کنانہ بھی اسی کے نام ہیں، یہاں اتر کر نماز ظہر، عصر، مغرب اور عشاءادا کریں اور سو رہیں۔ صبح سویرے مکہ شریف میں14کی فجر کے بعد داخل ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے ایسا ہی کیا تھا اگر کوئی اس وادی میں نہ ٹھہرے تو بھی کوئی حرج نہیں ہے، مگر سنت سے محرومی رہے گی یہاں ٹھہرنا ارکان حج میں سے نہیں ہے لیکن ہماری کوشش ہمیشہ یہ ہونی چاہئے کہ جہاں تک ہو سکے سنت ترک نہ ہو، جیسا کہ ایک شاعر سنت فرماتے ہیں :
مسلک سنت پہ اسے سالک چلا جا بے دھڑک جنت الفردوس کو سیدھی گئی ہے یہ سڑک
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Whenever Allah's Messenger (ﷺ) stoned the Jamra near Mina Mosque, he would do Ramy of it with seven small pebbles and say Takbir on throwing each pebble. Then he would go ahead and stand facing the Qiblah with his hands raised, and invoke (Allah) and he sued to stand for a long period. Then he would come to the second Jamra (Al-Wusta) and stone it will seven small stones, reciting Takbir on throwing each stone. Then he would stand facing the Qiblah with raised hands to invoke (Allah). Then he would come to the Jamra near the 'Aqaba (Jamrat-ul-'Aqaba) and do Ramy of it with seven small pebbles, reciting Takbir on throwing each stone. he then would leave and not stay by it. Narrated Az-Zuhri: I heard Salim bin 'Abdullah saying the same that his father said on the authority of the Prophet (ﷺ). And Ibn 'Umar used to do the same.