Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: If a woman gets her menses after Tawaf-al-Ifada)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1762.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ہمراہ روانہ ہوئے۔ ہمارا صرف حج کرنے کاارادہ تھا۔ نبی کریم ﷺ جب مکہ مکرمہ آئے تو آپ نے بیت اللہ کا طواف اور صفا مروہ کے درمیان سعی کی لیکن آپ نے احرام نہ کھولا کیونکہ آپ کے ہمراہ قربانی تھی۔ آپ کے ساتھ آپ کی بیویاں اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین تھے۔ انھوں نے بھی طواف کیا۔ جن کے پاس قربانی نہ تھی انھوں نے احرام کھول دیا۔ دریں اثناء اسے(حضرت عائشہ ؓ کو) حیض آگیا چنانچہ ہم نے مناسک حج ادا کیے۔ جب روانگی کی رات آئی تو اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ ! میرے علاوہ آپ کے تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین حج اور عمرہ کرکے واپس جارہے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’جن راتوں ہم مکہ مکرمہ آئے تھے کیا تم نے اس وقت بیت اللہ کا طواف نہیں کیا تھا؟‘‘ میں نے عرض کیا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’اپنے بھائی کے ساتھ مقام تنعیم جاؤ اور وہاں سے احرام باندھ کر عمرہ کرلو، فراغت کےبعد فلاں جگہ پر آجاؤ۔‘‘ چنانچہ میں حضرت عبدالرحمان کے ہمراہ تنعیم چلی گئی۔ وہاں سے عمرے کا احرام باندھا۔ اورحضرت صفیہ ؓ کو حیض آگیا تو نبی کریم ﷺ نے اسے فرمایا: ’’عقریٰ حلقی!کیا تو ہمیں روک لے گی۔ کیا تو نے قربانی کے دن بیت اللہ کا طواف نہیں کیا تھا؟‘‘ انھوں نے جواب دیا: کیوں نہیں، یعنی طواف کیا تھا۔ آپ نے فرمایا: ’’پھر کوئی حرج نہیں، رخت سفر باندھو۔‘‘ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ عمرے سے فراغت کے بعد میری جب آپ سے ملاقات ہوئی تو مکہ کے بالائی علاقے پر آپ چڑھ رہے تھے اور میں نشیب میں اتر رہی تھی یا اس کے برعکس میں اوپر چڑھ رہی تھی اور آپ نے نیچے اتر رہے تھے۔ راوی حدیث مسدد نے کہا کہ روایت مذکورہ میں لفظ لا ہے۔ جریر نے منصور سے لفظ لا روایت کرنے میں مسدود کی متابعت کی ہے۔
تشریح:
(1) اس روایت سے معلوم ہوا کہ حائضہ عورت سے طواف وداع ساقط ہے بشرطیکہ اس نے قربانی کے دن طواف زیارت کر لیا ہو۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو جب حضرت صفیہ ؓ کے حائضہ ہونے کی خبر ملی تو آپ نے فرمایا: ’’اب ہمیں اس کی وجہ سے رکنا پڑے گا۔‘‘ جب آپ کو بتایا گیا کہ انہوں نے قربانی کے دن طواف زیارت کر لیا تھا تو آپ نے فرمایا: ’’رخت سفر باندھو، اب ہمیں یہاں رکنے کی ضرورت نہیں کیونکہ اس نے وہ طواف کر لیا ہے جو حج کا رکن ہے۔‘‘ (2) جریر کی متابعت کو امام بخاری ؒ نے خود ہی حدیث: 1561 کے تحت متصل سند سے بیان کیا ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1713
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1762
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1762
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1762
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ہمراہ روانہ ہوئے۔ ہمارا صرف حج کرنے کاارادہ تھا۔ نبی کریم ﷺ جب مکہ مکرمہ آئے تو آپ نے بیت اللہ کا طواف اور صفا مروہ کے درمیان سعی کی لیکن آپ نے احرام نہ کھولا کیونکہ آپ کے ہمراہ قربانی تھی۔ آپ کے ساتھ آپ کی بیویاں اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین تھے۔ انھوں نے بھی طواف کیا۔ جن کے پاس قربانی نہ تھی انھوں نے احرام کھول دیا۔ دریں اثناء اسے(حضرت عائشہ ؓ کو) حیض آگیا چنانچہ ہم نے مناسک حج ادا کیے۔ جب روانگی کی رات آئی تو اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ ! میرے علاوہ آپ کے تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین حج اور عمرہ کرکے واپس جارہے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’جن راتوں ہم مکہ مکرمہ آئے تھے کیا تم نے اس وقت بیت اللہ کا طواف نہیں کیا تھا؟‘‘ میں نے عرض کیا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’اپنے بھائی کے ساتھ مقام تنعیم جاؤ اور وہاں سے احرام باندھ کر عمرہ کرلو، فراغت کےبعد فلاں جگہ پر آجاؤ۔‘‘ چنانچہ میں حضرت عبدالرحمان کے ہمراہ تنعیم چلی گئی۔ وہاں سے عمرے کا احرام باندھا۔ اورحضرت صفیہ ؓ کو حیض آگیا تو نبی کریم ﷺ نے اسے فرمایا: ’’عقریٰ حلقی!کیا تو ہمیں روک لے گی۔ کیا تو نے قربانی کے دن بیت اللہ کا طواف نہیں کیا تھا؟‘‘ انھوں نے جواب دیا: کیوں نہیں، یعنی طواف کیا تھا۔ آپ نے فرمایا: ’’پھر کوئی حرج نہیں، رخت سفر باندھو۔‘‘ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ عمرے سے فراغت کے بعد میری جب آپ سے ملاقات ہوئی تو مکہ کے بالائی علاقے پر آپ چڑھ رہے تھے اور میں نشیب میں اتر رہی تھی یا اس کے برعکس میں اوپر چڑھ رہی تھی اور آپ نے نیچے اتر رہے تھے۔ راوی حدیث مسدد نے کہا کہ روایت مذکورہ میں لفظ لا ہے۔ جریر نے منصور سے لفظ لا روایت کرنے میں مسدود کی متابعت کی ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس روایت سے معلوم ہوا کہ حائضہ عورت سے طواف وداع ساقط ہے بشرطیکہ اس نے قربانی کے دن طواف زیارت کر لیا ہو۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو جب حضرت صفیہ ؓ کے حائضہ ہونے کی خبر ملی تو آپ نے فرمایا: ’’اب ہمیں اس کی وجہ سے رکنا پڑے گا۔‘‘ جب آپ کو بتایا گیا کہ انہوں نے قربانی کے دن طواف زیارت کر لیا تھا تو آپ نے فرمایا: ’’رخت سفر باندھو، اب ہمیں یہاں رکنے کی ضرورت نہیں کیونکہ اس نے وہ طواف کر لیا ہے جو حج کا رکن ہے۔‘‘ (2) جریر کی متابعت کو امام بخاری ؒ نے خود ہی حدیث: 1561 کے تحت متصل سند سے بیان کیا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے منصور نے، ان سے ابراہیم نخعی نے، ان سے اسود نے اور ان سے حضرت عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ نکلے، ہماری نیت حج کے سوا اور کچھ نہ تھی۔ پھر جب نبی کریم ﷺ (مکہ ) پہنچے تو آپ ﷺ نے بیت اللہ کا طواف اور صفا اور مروہ کی سعی کی، لیکن آپ ﷺ نے احرام نہیں کھولا کیوں کہ آپ کے ساتھ قربانی تھی۔ آپ ﷺ کے ساتھ آپ ﷺ کی بیویوں نے اور دیگر اصحاب نے بھی طواف کیا اور جن کے ساتھ قربانی نہیں تھیں انہوں نے (اس طواف و سعی کے بعد ) احرام کھول دیا لیکن حضرت عائشہ ؓ حائضہ ہو گئی تھیں، سب نے اپنے حج کے تمام مناسک ادا کر لیئے تھے، پھر جب لیلۃ حصبہ یعنی روانگی کی رات آئی تو عائشہ ؓ نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ آپ ﷺ کے تمام ساتھی حج اور عمرہ دونوں کرکے جارہے ہیں صرف میں عمرہ سے محروم ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا کے اچھا جب ہم آئے تھے تو تم (حیض کی وجہ سے ) بیت اللہ کا طوا ف نہیں کرسکی تھیں؟ میں نے کہا کہ نہیں، آپ ﷺ نے فرمایا کہ پھر اپنے بھائی کے ساتھ تنعیم چلی جا اور وہاں سے عمرہ کا احرام باندھ (اور عمرہ کر ) ہم تمہارا فلاں جگہ انتظار کریں گے، چنانچہ میں اپنے بھائی (عبدالرحمن ؓ ) کے ساتھ تنعیم گئی اور وہاں سے احرام باندھا۔ اسی طرح صفیہ بنت حی ؓ بھی حائضہ ہو گئی تھیں نبی کریم ﷺ نے انہیں (ازراہ محبت ) فرمایا عقری حلقی، تو تو ہمیں روک لے گی، کیا تو نے قربانی کے دن طواف زیارت نہیں کیا تھا؟ وہ بولیں کہ کیا تھا، اس پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ پھر کوئی حرج نہیں، چلی چلو۔ میں جب آپ تک پہنچی تو آپ ﷺ مکہ کے بالائی علاقہ پر چڑھ رہے تھے اور میں اتر رہی تھی یا یہ کہا کہ میں چڑھ رہی تھی اور حضور ﷺ اتر رہے تھے۔ مسدد کی روایت میں (رسول الله ﷺ کے کہنے پر ) ہاں کے بجائے نہیں ہے، اس کی متابعت جریر نے منصور کے واسطہ سے ’’نہیں ‘‘ کے ذکر میں کی ہے۔
حدیث حاشیہ:
عقریٰ کے لفظی ترجمہ بانجھ اور حلقی کا ترجمہ سر منڈی ہے، یہ الفاظ آپ ﷺ نے محبت میں استعمال فرمائے، معلوم ہوا کہ ایسے مواقع پر ایسے لفظوں میں خطاب کرنا جائز ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA): We set out with the Prophet (ﷺ) with the intention of performing Hajj only. The Prophet (ﷺ) reached Makkah and performed Tawaf of the Ka’bah and between Safa and Marwa and did not finish the Ihram, because he had the Hadi with him. His companions and his wives performed Tawaf (of the Ka’bah and between Safa and Marwa), and those who had no Hadi with them finished their Ihram. I got the menses and performed all the ceremonies of Hajj. So, when the Night of Hasba (night of departure) came, I said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! All your companions are returning with Hajj and 'Umra except me." He asked me, "Didn't you perform Tawaf of the Ka’bah (Umra) when you reached Makkah?" I said, "No." He said, "Go to Tan'im with your brother 'Abdur-Rahman, and assume Ihram for 'Umra and I will wait for you at such and such a place." So I went with 'Abdur-Rahman to Tan'im and assumed Ihram for 'Umra. Then Safiya bint Huyay got menses. The Prophet (ﷺ) said, " 'Aqra Halqa! You will detain us! Didn't you perform Tawaf-al-Ifada on the Day of Nahr (slaughtering)?" She said, "Yes, I did." He said, "Then there is no harm, depart." So I met the Prophet (ﷺ) when he was ascending the heights towards Makkah and I was descending, or vice-versa.