باب : (آرام کرلینے کے بعد ) وادی محصب سے آخری رات میں چل دینا
)
Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: To depart from Al-Muhassab in the night)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1772.
حضرت عائشہ ؓ ہی سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ مدینہ سے نکلے تو ہماری زبانوں پر صرف حج کا ذکر تھا۔ جب ہم مکہ پہنچ گئے تو آپ نے ہمیں احرام کھول دینے کاحکم دیا۔ اور جب روانگی کی رات تھی تو حضرت صفیہ بنت حیی ؓ کو حیض آگیا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’حلقیٰ عقریٰ! میرا خیال ہے کہ وہ تمھیں سفر سے روک دے گی۔‘‘ پھر آپ نے فرمایا: ’’ کیا تو نے قربانی کے دن طواف زیارت کیا تھا؟‘‘ صفیہ نے کہا: جی ہاں!تو آپ نے فرمایا: ’’پھر سفر پر روانہ ہوجاؤ۔‘‘ حضرت عائشہ نے کہا کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ !میں حلال نہیں ہوئی (میں نے حج کا احرام نہیں کھولا ہے۔ ) آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تم مقام تنعیم سے احرام باندھ کر عمرہ کرلو۔‘‘ چنانچہ ان کے ساتھ ان کے بھائی حضرت عبدالرحمان ؓ گئے۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایاہم آپ کو رات کے آخری حصے میں ملے تو آپ نے فرمایا: ’’ہم تمہارا انتظار فلاں جگہ پر کریں گے۔‘‘
تشریح:
(1) اِدلاج اگر دال پر تشدید ہو تو اس کے معنی رات کے آخری حصے میں سفر کرنا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ وادئ محصب میں جہاں رات بسر کی ہو وہاں سے سحری کے وقت روانگی ہو جائے۔ (2) امام بخاری ؒ نے یہاں دو روایات ذکر کی ہیں۔ چونکہ دونوں ایک ہی قصے پر مشتمل ہیں، اس لیے ان کی عنوان سے مطابقت واضح ہے کیونکہ دوسری روایت میں اس کی صراحت ہے کہ ہم آپ کو رات کے آخری حصے میں ملے۔ اگرچہ پہلی روایت میں صراحت نہیں، تاہم واقعہ ایک ہونے کی وجہ سے پہلی روایت بھی عنوان کے مطابق ہی خیال کی جائے گی۔ (عمدةالقاري:397/7) (3) رسول اللہ ﷺ نے ازراہ محبت حضرت صفیہ ؓ کے لیے یہ الفاظ استعمال فرمائے کہ عقریٰ، حلقیٰ، بانجھ، سرمنڈی۔ ان الفاظ سے رحمت و شفقت ٹپکتی ہے جیسا کہ ایسے موقع پر حضرت عائشہ ؓ سے فرمایا تھا: ’’حیض ایک معاملہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے بنات آدم پر لکھ دیا ہے۔‘‘ ان الفاظ سے بددعا دینا مراد نہیں اور نہ اظہار خفگی مقصود ہے۔ (فتح الباري:744/3) (4) رسول اللہ ﷺ نے حضرت عائشہ ؓ کی تالیف قلبی کے لیے فرمایا: ’’اپنے بھائی عبدالرحمٰن بن ابی بکر ؓ کے ہمراہ جا کر مقام تنعیم سے عمرے کا احرام باندھ لو اور عمرہ کر لو‘‘ کیونکہ انہوں نے دوسری امہات المومنین ؓ کی طرح مستقل عمرہ کرنے کی خواہش کا اظہار فرمایا تھا۔ چونکہ عورتوں کے لیے تنہا سفر کرنا مناسب نہیں، اس لیے ان کے بھائی کو ساتھ روانہ فرمایا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1723
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1772
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1772
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1772
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
حضرت عائشہ ؓ ہی سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ مدینہ سے نکلے تو ہماری زبانوں پر صرف حج کا ذکر تھا۔ جب ہم مکہ پہنچ گئے تو آپ نے ہمیں احرام کھول دینے کاحکم دیا۔ اور جب روانگی کی رات تھی تو حضرت صفیہ بنت حیی ؓ کو حیض آگیا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’حلقیٰ عقریٰ! میرا خیال ہے کہ وہ تمھیں سفر سے روک دے گی۔‘‘ پھر آپ نے فرمایا: ’’ کیا تو نے قربانی کے دن طواف زیارت کیا تھا؟‘‘ صفیہ نے کہا: جی ہاں!تو آپ نے فرمایا: ’’پھر سفر پر روانہ ہوجاؤ۔‘‘ حضرت عائشہ نے کہا کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ !میں حلال نہیں ہوئی (میں نے حج کا احرام نہیں کھولا ہے۔ ) آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تم مقام تنعیم سے احرام باندھ کر عمرہ کرلو۔‘‘ چنانچہ ان کے ساتھ ان کے بھائی حضرت عبدالرحمان ؓ گئے۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایاہم آپ کو رات کے آخری حصے میں ملے تو آپ نے فرمایا: ’’ہم تمہارا انتظار فلاں جگہ پر کریں گے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) اِدلاج اگر دال پر تشدید ہو تو اس کے معنی رات کے آخری حصے میں سفر کرنا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ وادئ محصب میں جہاں رات بسر کی ہو وہاں سے سحری کے وقت روانگی ہو جائے۔ (2) امام بخاری ؒ نے یہاں دو روایات ذکر کی ہیں۔ چونکہ دونوں ایک ہی قصے پر مشتمل ہیں، اس لیے ان کی عنوان سے مطابقت واضح ہے کیونکہ دوسری روایت میں اس کی صراحت ہے کہ ہم آپ کو رات کے آخری حصے میں ملے۔ اگرچہ پہلی روایت میں صراحت نہیں، تاہم واقعہ ایک ہونے کی وجہ سے پہلی روایت بھی عنوان کے مطابق ہی خیال کی جائے گی۔ (عمدةالقاري:397/7) (3) رسول اللہ ﷺ نے ازراہ محبت حضرت صفیہ ؓ کے لیے یہ الفاظ استعمال فرمائے کہ عقریٰ، حلقیٰ، بانجھ، سرمنڈی۔ ان الفاظ سے رحمت و شفقت ٹپکتی ہے جیسا کہ ایسے موقع پر حضرت عائشہ ؓ سے فرمایا تھا: ’’حیض ایک معاملہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے بنات آدم پر لکھ دیا ہے۔‘‘ ان الفاظ سے بددعا دینا مراد نہیں اور نہ اظہار خفگی مقصود ہے۔ (فتح الباري:744/3) (4) رسول اللہ ﷺ نے حضرت عائشہ ؓ کی تالیف قلبی کے لیے فرمایا: ’’اپنے بھائی عبدالرحمٰن بن ابی بکر ؓ کے ہمراہ جا کر مقام تنعیم سے عمرے کا احرام باندھ لو اور عمرہ کر لو‘‘ کیونکہ انہوں نے دوسری امہات المومنین ؓ کی طرح مستقل عمرہ کرنے کی خواہش کا اظہار فرمایا تھا۔ چونکہ عورتوں کے لیے تنہا سفر کرنا مناسب نہیں، اس لیے ان کے بھائی کو ساتھ روانہ فرمایا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوعبداللہ امام بخاری نے کہا، محمد بن سلام نے (اپنی روایت میں ) یہ زیادتی کی ہے کہ ہم سے محاضر نے بیان کیا، ان سے اعمش نے بیان کیا، ان سے ابراہیم نخعی نے، ان نے اسود نے اور ان سے عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ (حجۃ الوادع ) میں مدینہ سے نکلے تو ہماری زبانوں پر صر ف حج کا ذکر تھا۔ جب ہم مکہ پہنچ گئے تو آپ ﷺ نے ہمیں احرام کھول دینے کا حکم دیا (افعال عمرہ کے بعد جن کے ساتھ قربانی نہیں تھی ) روانگی کی رات صفیہ بنت حی ؓ حائضہ ہو گئیں، آنحضرت ﷺ نے اس پر فرمایا عقری، حلقی ایسا معلوم ہوتا کہ تم ہمیں روکنے کا باعث بنو گی، پھر آپ ﷺ نے پوچھا کیا قربانی کے دن تم نے طواف الزیارۃ کر لیا تھا؟ انہوں نے کہا کہ ہاں، اس پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ پھر چلی چلو ! (عائشہ ؓ نے اپنے متعلق کہا کہ ) میں نے کہا کہ یا رسول اللہ ! میں نے احرام نہیں کھولا ہے آپ نے فرمایا کہ تم تنعیم سے عمرہ کا احرام باندھ لو (اور عمرہ کرلو ) چنانچہ عائشہ ؓ کے ساتھ ان کے بھائی گئے (عائشہ ؓنے ) فرمایا کہ ہم رات کے آخر میں واپس لوٹ رہے تھے کہ آپ ﷺ سے ملاقات ہوئی، آپ ﷺ نے فرمایا تھا کہ ہم تمہار انتظار فلاں جگہ کریں گے۔
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ محصب سے آخر رات میں کوچ کرنا مستحب ہے۔ عقری کا لفظی ترجمہ بانجھ اور حلقی کا سرمنڈی، آپ ﷺ نے از راہ محبت یہ لفظ استعمال فرمائے جیسا کہہ دیا کرتے ہیں سرمنڈی، یہ بول چال کا عام محاورہ ہے۔ یہ حدیث بھی بہت سے فوائد پر مشتمل ہے، خاص طور پر صنف نازک کے لیے پیغمبر ﷺ کے قلب مبارک میں کس قدر رافت اور رحمت تھی کہ ام المومنین حضرت عائشہ ؓ کی ذرا سی دل شکنی بھی گوار نہیں فرمائی بلکہ ان کی دل جوئی کے لیے ان کو تنعیم جاکر وہاں سے عمرہ کا احرام باندھنے کا حکم فرمایا اور ان کے بھائی عبدالرحمن ؓ کو ساتھ کر دیا، جس سے ظاہر ہے کہ صنف نازک کو تنہا چھوڑنا مناسب نہیں ہے۔ بلکہ ان کے ساتھ بہرحال کوئی ذمہ دار نگران ہونا ضروری ہے۔ ام المومنین حضرت صفیہ ؓ کے حائضہ ہوجانے کی خبر سن کر آپ ﷺ نے ازراہ محبت ان کے لیے عقری حلقی کے الفاظ استعمال فرمائے اس سے بھی صنف نازک کے لیے آپ ﷺ کی شفقت ٹپکتی ہے، نیز یہ بھی کہ مفتی حضرات کو اسوہ حسنہ کی پیروی ضروری ہے کہ حدود شرعیہ میں ہر ممکن نرمی اختیار کرنا اسوہ نبوت ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
(Different narrators mentioned that) 'Aisha (RA) said, "We set out with Allah's Apostle (ﷺ) (from Medina) with the intention of performing Hajj only. When we reached Makkah, he ordered us to finish the Ihram. When it was the night of Nafr (departure), Safiya bint Huyay got her menses. The Prophet (ﷺ) said, "Halqa Aqra! I think that she will detain you," and added, "Did you perform the Tawaf (Al-Ifada) on the Day of Nahr (slaughtering)?" She replied, "Yes." He said, "Then depart." I said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! I have not (done the Umra)." He replied, "Perform 'Umra from Tan'im." My brother went with me and we came across the Prophet (ﷺ) in the last part of the night. He said, "Wait at such and such a place."