کتاب: محرم کے روکے جانے اور شکار کا بدلہ دینے کے بیان میں
(
باب: اگر عمرہ کرنے والے کو راستے میں روک دیا گیا تو وہ کیا کرے
)
Sahi-Bukhari:
Pilgrims Prevented from Completing the Pilgrimage
(Chapter: If one is prevented from 'Umra)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1806.
حضرت نافع بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ فتنہ ابن زبیر کے زمانے میں عمرہ کرنے کی نیت سے مکہ روانہ ہوئے تو کہا: اگر مجھے بیت اللہ کا طواف کرنے سے روکا گیا تو میں وہی کچھ کروں گا جو ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ کیا تھا، چنانچہ انھوں نے اس بناپر احرام باندھ لیا جیسا رسول اللہ ﷺ نے حدیبیہ کے سال احرام باندھا تھا۔
تشریح:
(1) رسول اللہ ﷺ نے چھ ہجری میں عمرے کا ارادہ کیا تو مشرکین نے آپ کو بیت اللہ پہنچنے سے روک دیا۔ اس موقع پر سورۂ فتح نازل ہوئی۔ صحابۂ کرام ؓ کو اجازت دی گئی کہ وہ اپنے قربانی کے جانور ذبح کر دیں، سر منڈوا کر احرام کھول دیں۔ حضرت ابن عمر ؓ نے اسی واقعۂ حدیبیہ کی طرف اشارہ کیا ہے۔ (2) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رکاوٹ کے وقت عمرے کا احرام بھی کھولا جا سکتا ہے جبکہ بعض حضرات احصار کو صرف حج کے ساتھ خاص کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حج کا وقت مقرر ہے جبکہ عمرہ تو کسی وقت بھی کیا جا سکتا ہے لیکن ان کا موقف متعدد احادیث کے خلاف ہے۔ امام بخاری ؒ نے انہی حضرات کی تردید کے لیے یہ احادیث پیش کی ہیں۔ پھر احصار کسی معین امر سے نہیں ہوتا بلکہ جو بیمار ہو جائے یا دشمن کا خطرہ ہو یا خرچہ ختم ہو جائے، بہرحال جس صورت میں بھی بیت اللہ تک نہ پہنچ سکتا ہو وہ محصر ہو گا اور اس پر احصار کے احکام لاگو ہوں گے۔ (3) حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کا مقصد یہ تھا کہ اگر مجھے عمرہ کرنے سے روک دیا گیا تو میں وہی کروں گا جو ایسے حالات میں رسول اللہ ﷺ نے کیا تھا، یعنی عمرے کا احرام کھول دوں گا جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے احرام کھول دیا تھا۔ (4) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس طرح حج میں احصار ممکن ہے عمرے میں بھی ہو سکتا ہے۔ امام بخاری ؒ بھی اسی موقف کو ثابت کرنا چاہتے ہیں، چنانچہ اس کی تفصیل درج ذیل حدیث میں ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1755
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1806
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1806
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1806
تمہید کتاب
ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’اگر تمہیں حج یا عمرے سے روک دیا جائے تو جو بھی بدی میسر ہو (کرو)اور اپنے سر نہ منڈاؤتا آنکہ بدی (قربانی) اپنی جگہ پہنچ جائے ۔‘‘
حضرت عطا بن ابی رباح نے کہا کہ احصار ہر چیز اس چیز سے ہے جو اسے روک دے۔ ابو عبداللہ امام بخاری نے فرمایا قرآن کریم میں حصورًا کے معنی ہیں وہ آدمی جو عورتوں کے پاس نہ آئے۔
لفظ مُحصر اسم مفعول کا صیغہ ہے جس کا مصدر احصار ہے جو لغت میں رکاوٹ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ شرعی اصطلاح میں محصر وہ شخص ہے جو حج یا عمرے کو جاتے ہوئے راستے ہی میں کسی بیماری یا طوفان و سیلاب یا دشمن یا کسی بھی وجہ سے روک دیا جائے۔ امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک احصار صرف دشمن کے ذریعے سے رکاوٹ پڑنے کی صورت ہی میں ہو سکتا ہے، لیکن یہ موقف مرجوح ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں کو مقام حدیبیہ پر بیت اللہ جانے سے روک دیا گیا تھا جبکہ آپ عمرے کی نیت سے آئے تھے، اس وقت احصار کے احکام نازل ہوئے جن کی آئندہ وضاحت کی جائے گی۔ بعض دفعہ دورانِ سفر حج میں موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔ ایسے حاجی صاحبان قیامت کے دن لبیک کہتے ہوئے کھڑے ہوں گے اور انہیں اللہ کے ہاں حاجیوں کے گروہ میں شامل کیا جائے گا۔ احصار کی صورت میں اسی جگہ پر احرام کھول دیا جائے اور اپنا سر منڈوا کر قربانی کر دی جائے۔ ایسے لوگوں کو آئندہ سال حج یا عمرہ کرنا ہو گا جیسا کہ حدیث میں ہے: "جس شخص کا پاؤں توڑ دیا جائے یا وہ لنگڑا ہو جائے تو وہ احرام سے باہر آ جائے گا، تاہم اسے آئندہ سال حج کرنا ہو گا۔" (سنن ابی داؤد،المناسک،حدیث:1862)اگر کسی کو رکاوٹ پیش آنے کا اندیشہ ہو تو وہ مشروط احرام بھی باندھ سکتا ہے۔ ایسی صورت میں اگر کوئی رکاوٹ پیش آ جائے تو محصر کی طرح اس پر قربانی وغیرہ واجب نہیں ہو گی جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ حضرت ضباعہ بنت زبیر رضی اللہ عنہا کے ہاں تشریف لے گئے، اس نے عرض کی: اللہ کے رسول! میں حج کا ارادہ رکھتی ہوں مگر میں بیمار ہوں؟ آپ نے فرمایا: "مشروط طور پر حج کا احرام باندھ لو کہ میرے احرام کھولنے کی جگہ وہی ہو گی جہاں اے اللہ! تو نے مجھے روک دیا۔" (صحیح البخاری،النکاح،حدیث:5089)امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل احصار سے ہمیں آگاہ کرنے کے لیے مذکورہ عنوان قائم کیا ہے۔ اس میں انہوں نے تقریبا سولہ مرفوع احادیث پیش کی ہیں اور تین معلق آثار کا بھی حوالہ دیا ہے، پھر ان احادیث و آثار پر دس چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمہ اللہ کی فقہی بصیرت اور اجتہادی قوت کا اندازہ ہوتا ہے۔ ان عناوین کی تفصیل حسب ذیل ہے:٭ جب عمرہ کرنے کے لیے کوئی رکاوٹ پیدا ہو جائے٭ حج میں رکاوٹ کا پیدا کرنا٭ رکاوٹ پڑ جانے کی صورت میں سر منڈوانے سے پہلے قربانی کرنا٭ محصر پر بدل ہے یا نہیں؟٭ إحصار کے متعلق آیت کریمہ کی تفسیر٭ صدقه سے مراد چھ مساکین کو کھانا کھلانا ہے٭ کفارہ ادا کرنے کی صورت میں نصف صاع گندم دینی ہو گی٭ نسك سے مراد ایک بکری ہے٭ فَلَا رَفَثَ کا کیا مطلب ہے؟٭ ارشاد باری تعالیٰ: "دوران حج میں گناہ یا کسی سے جھگڑا نہ کرے۔" کی تشریح:اس کے علاوہ کئی ایک اسنادی مباحث ہیں جو پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔ قارئین سے گزارش ہے کہ وہ دوران مطالعہ ہماری پیش کردہ گزارشات کو ضرور مدنظر رکھیں تاکہ انہیں امام بخاری رحمہ اللہ کے اسرارورموز سمجھنے میں آسانی رہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل احصار کی بنیاد مذکورہ آیت کریمہ کو قرار دیا ہے، چنانچہ حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیبیہ کے زمانے میں نکلے۔ بدیل بن ورقاء خزاعی آیا اور کہنے لگا: قریش آپ سے لڑیں گے اور آپ کو بیت اللہ جانے سے روکیں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہم لڑنے نہیں آئے۔ ہمارا مقصد صرف عمرہ کرنا ہے۔" اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ سے فرمایا: "اٹھو! قربانی کرو اور اپنے سر منڈوا دو۔" آپ نے اپنی قربانی ذبح کی، پھر حجام کو بلایا اس نے آپ کا سر مونڈا۔ (صحیح البخاری،الشروط،حدیث:2731) مذکورہ بالا آیت کریمہ اسی تناظر میں نازل ہوئی۔ احصار کے لیے کوئی چیز بھی سبب بن سکتی ہے، ضروری نہیں کہ دشمن ہی کا اندیشہ ہو۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنے رجحان کے پیش نظر حضرت عطاء کا قول پیش کیا ہے جسے عبد بن حمید نے اپنی متصل سند سے بیان کیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اگر کسی کو سانپ یا بچھو ڈس جائے اور وہ چلنے سے معذور ہو جائے تو وہ بھی محصر ہے لیکن اہل کوفہ نے کہا ہے کہ احصار صرف ہڈی ٹوٹنے، دشمن کا خوف اور بیماری وغیرہ کی وجہ سے ہو گا، جبکہ بعض حضرات صرف دشمن کے خطرے کو احصار کا باعث قرار دیتے ہیں۔ بہرحال ہمارے نزدیک احصار عام ہے۔ جو چیز بھی بیت اللہ جانے سے رکاوٹ بن جائے وہ احصار کا سبب ہو سکتی ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اشتقاق کی مناسبت سے حصورا کے معنی اپنے نفس کو روکنا بتائے ہیں۔ یہ لفظ سورۂ آل عمران 39:3 میں ہے۔ اس لفظ کے معنی اور شرعی احصار میں "منع" کے معنی قدر مشترک ہے۔ (فتح الباری:4/6)
تمہید باب
امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد ان لوگوں پر رد کرنا ہے جو محصر کے لیے حلال ہونا حج کے ساتھ خاص کرتے ہیں، حدیث باب میں صاف موجود ہے کہ آنحضرت ﷺ نے عمرہ کا احرام باندھا تھا اور آپ ﷺ نے حدیبیہ میں احصار کی وجہ سے ایسے کھول دیا۔
حضرت نافع بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ فتنہ ابن زبیر کے زمانے میں عمرہ کرنے کی نیت سے مکہ روانہ ہوئے تو کہا: اگر مجھے بیت اللہ کا طواف کرنے سے روکا گیا تو میں وہی کچھ کروں گا جو ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ کیا تھا، چنانچہ انھوں نے اس بناپر احرام باندھ لیا جیسا رسول اللہ ﷺ نے حدیبیہ کے سال احرام باندھا تھا۔
حدیث حاشیہ:
(1) رسول اللہ ﷺ نے چھ ہجری میں عمرے کا ارادہ کیا تو مشرکین نے آپ کو بیت اللہ پہنچنے سے روک دیا۔ اس موقع پر سورۂ فتح نازل ہوئی۔ صحابۂ کرام ؓ کو اجازت دی گئی کہ وہ اپنے قربانی کے جانور ذبح کر دیں، سر منڈوا کر احرام کھول دیں۔ حضرت ابن عمر ؓ نے اسی واقعۂ حدیبیہ کی طرف اشارہ کیا ہے۔ (2) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رکاوٹ کے وقت عمرے کا احرام بھی کھولا جا سکتا ہے جبکہ بعض حضرات احصار کو صرف حج کے ساتھ خاص کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حج کا وقت مقرر ہے جبکہ عمرہ تو کسی وقت بھی کیا جا سکتا ہے لیکن ان کا موقف متعدد احادیث کے خلاف ہے۔ امام بخاری ؒ نے انہی حضرات کی تردید کے لیے یہ احادیث پیش کی ہیں۔ پھر احصار کسی معین امر سے نہیں ہوتا بلکہ جو بیمار ہو جائے یا دشمن کا خطرہ ہو یا خرچہ ختم ہو جائے، بہرحال جس صورت میں بھی بیت اللہ تک نہ پہنچ سکتا ہو وہ محصر ہو گا اور اس پر احصار کے احکام لاگو ہوں گے۔ (3) حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کا مقصد یہ تھا کہ اگر مجھے عمرہ کرنے سے روک دیا گیا تو میں وہی کروں گا جو ایسے حالات میں رسول اللہ ﷺ نے کیا تھا، یعنی عمرے کا احرام کھول دوں گا جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے احرام کھول دیا تھا۔ (4) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس طرح حج میں احصار ممکن ہے عمرے میں بھی ہو سکتا ہے۔ امام بخاری ؒ بھی اسی موقف کو ثابت کرنا چاہتے ہیں، چنانچہ اس کی تفصیل درج ذیل حدیث میں ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں نافع نے کہ عبداللہ بن عمر ؓ فساد کے زمانہ میں عمرہ کرنے کے لیے جب مکہ جانے لگے تو آپ نے فرمایا کہ اگر مجھے کعبہ شریف پہنچنے سے روک دیا گیا تو میں بھی وہی کام کروں گا جو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہم لوگوں نے کیا تھا، چنانچہ آپ نے بھی صرف عمرہ کا احرام باندھا کیوں کہ رسول اللہ ﷺ نے بھی حدیبیہ کے سال صرف عمرہ کا احرام باندھا تھا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Nafi (RA): When Abdullah bin Umar (RA) set out for Makkah intending to perform Umra, at the time of afflictions, he said, "If I should be prevented from reaching the Kaba, then I would do the same as Allah's Apostle (ﷺ) did, so I assume the lhram for Umra as Allah's Apostle (ﷺ) assumed the Ihram for Umra in the year of Hudaibiya."