کتاب: محرم کے روکے جانے اور شکار کا بدلہ دینے کے بیان میں
(
باب: حج سے روکے جانے کا بیان
)
Sahi-Bukhari:
Pilgrims Prevented from Completing the Pilgrimage
(Chapter: One who is prevented from performing the Hajj)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1810.
حضرت سالم سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ حضرت ابن عمر ؓ فرمایا کرتے تھے۔ کیا تمھیں رسول اللہ ﷺ کی سنت کافی نہیں ہے؟تم میں سے اگر کوئی حج سے روک دیا جائے تو اسے چاہیے کہ وہ بیت اللہ کا طواف کرے، پھر صفاو مروہ کی سعی کرے۔ اس کے بعد وہ ہر چیز سے حلال ہوجائے۔ آئندہ سال حج کرے اور قربانی دے۔ اگر قربانی میسر نہ ہو تو روزے رکھے۔ عبد اللہ (بن مبارک) نے یہ روایت یونس کے علاوہ معمر عن زہری کے طریق سے بھی اسی طرح بیان کی ہے۔
تشریح:
(1) حج میں رکاوٹ کا مطلب یہ ہے کہ وقوف عرفہ نہ ہو سکتا ہو جو حج کا رکن اعظم ہے۔ حضرت ابن عمر ؓ نے حج کی رکاوٹ کو عمرے کی رکاوٹ پر قیاس کیا ہے۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ کے نزدیک حج یا عمرے کا مشروط احرام باندھنا درست نہیں، حالانکہ دیگر حضرات نے اسے جائز رکھا ہے، چنانچہ امام ترمذی ؒ نے روایت بیان کی ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ مشروط احرام کا انکار کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے: کیا تمہارے لیے رسول اللہ ﷺ کی سنت کافی نہیں؟ (جامع الترمذي، الحج، حدیث:942) لیکن امام بخاری ؒ نے اس حصے کو روایت سے حذف کر دیا ہے۔ (2) امام بیہقی ؒ کہتے ہیں کہ اگر حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کو ضباعہ بنت زبیر کی حدیث معلوم ہوتی تو مشروط احرام کا انکار نہ کرتے۔ حضرت ضباعہ کی حدیث یہ ہے: ضباعہ کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کی: اللہ کے رسول! میرا حج کرنے کا ارادہ ہے لیکن میں بیمار ہوں، ایسی صورت میں کیا کروں؟ آپ نے فرمایا: ’’حج کرو اور اللہ سے شرط کر لو: اے اللہ! میں اسی جگہ احرام کھول دوں گی جہاں تو مجھے روک دے گا۔‘‘(صحیح مسلم، الحج، حدیث:2902(1207)) امام بخاری ؒ نے اس روایت کو کتاب النکاح میں بیان کیا ہے، جس سے متعلق مکمل بحث آئندہ آئے گی۔ امام ابن حزم ؒ نے اس مسئلے پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ (فتح الباري:13/4)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1758
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1810
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1810
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1810
تمہید کتاب
ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’اگر تمہیں حج یا عمرے سے روک دیا جائے تو جو بھی بدی میسر ہو (کرو)اور اپنے سر نہ منڈاؤتا آنکہ بدی (قربانی) اپنی جگہ پہنچ جائے ۔‘‘
حضرت عطا بن ابی رباح نے کہا کہ احصار ہر چیز اس چیز سے ہے جو اسے روک دے۔ ابو عبداللہ امام بخاری نے فرمایا قرآن کریم میں حصورًا کے معنی ہیں وہ آدمی جو عورتوں کے پاس نہ آئے۔
لفظ مُحصر اسم مفعول کا صیغہ ہے جس کا مصدر احصار ہے جو لغت میں رکاوٹ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ شرعی اصطلاح میں محصر وہ شخص ہے جو حج یا عمرے کو جاتے ہوئے راستے ہی میں کسی بیماری یا طوفان و سیلاب یا دشمن یا کسی بھی وجہ سے روک دیا جائے۔ امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک احصار صرف دشمن کے ذریعے سے رکاوٹ پڑنے کی صورت ہی میں ہو سکتا ہے، لیکن یہ موقف مرجوح ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں کو مقام حدیبیہ پر بیت اللہ جانے سے روک دیا گیا تھا جبکہ آپ عمرے کی نیت سے آئے تھے، اس وقت احصار کے احکام نازل ہوئے جن کی آئندہ وضاحت کی جائے گی۔ بعض دفعہ دورانِ سفر حج میں موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔ ایسے حاجی صاحبان قیامت کے دن لبیک کہتے ہوئے کھڑے ہوں گے اور انہیں اللہ کے ہاں حاجیوں کے گروہ میں شامل کیا جائے گا۔ احصار کی صورت میں اسی جگہ پر احرام کھول دیا جائے اور اپنا سر منڈوا کر قربانی کر دی جائے۔ ایسے لوگوں کو آئندہ سال حج یا عمرہ کرنا ہو گا جیسا کہ حدیث میں ہے: "جس شخص کا پاؤں توڑ دیا جائے یا وہ لنگڑا ہو جائے تو وہ احرام سے باہر آ جائے گا، تاہم اسے آئندہ سال حج کرنا ہو گا۔" (سنن ابی داؤد،المناسک،حدیث:1862)اگر کسی کو رکاوٹ پیش آنے کا اندیشہ ہو تو وہ مشروط احرام بھی باندھ سکتا ہے۔ ایسی صورت میں اگر کوئی رکاوٹ پیش آ جائے تو محصر کی طرح اس پر قربانی وغیرہ واجب نہیں ہو گی جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ حضرت ضباعہ بنت زبیر رضی اللہ عنہا کے ہاں تشریف لے گئے، اس نے عرض کی: اللہ کے رسول! میں حج کا ارادہ رکھتی ہوں مگر میں بیمار ہوں؟ آپ نے فرمایا: "مشروط طور پر حج کا احرام باندھ لو کہ میرے احرام کھولنے کی جگہ وہی ہو گی جہاں اے اللہ! تو نے مجھے روک دیا۔" (صحیح البخاری،النکاح،حدیث:5089)امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل احصار سے ہمیں آگاہ کرنے کے لیے مذکورہ عنوان قائم کیا ہے۔ اس میں انہوں نے تقریبا سولہ مرفوع احادیث پیش کی ہیں اور تین معلق آثار کا بھی حوالہ دیا ہے، پھر ان احادیث و آثار پر دس چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمہ اللہ کی فقہی بصیرت اور اجتہادی قوت کا اندازہ ہوتا ہے۔ ان عناوین کی تفصیل حسب ذیل ہے:٭ جب عمرہ کرنے کے لیے کوئی رکاوٹ پیدا ہو جائے٭ حج میں رکاوٹ کا پیدا کرنا٭ رکاوٹ پڑ جانے کی صورت میں سر منڈوانے سے پہلے قربانی کرنا٭ محصر پر بدل ہے یا نہیں؟٭ إحصار کے متعلق آیت کریمہ کی تفسیر٭ صدقه سے مراد چھ مساکین کو کھانا کھلانا ہے٭ کفارہ ادا کرنے کی صورت میں نصف صاع گندم دینی ہو گی٭ نسك سے مراد ایک بکری ہے٭ فَلَا رَفَثَ کا کیا مطلب ہے؟٭ ارشاد باری تعالیٰ: "دوران حج میں گناہ یا کسی سے جھگڑا نہ کرے۔" کی تشریح:اس کے علاوہ کئی ایک اسنادی مباحث ہیں جو پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔ قارئین سے گزارش ہے کہ وہ دوران مطالعہ ہماری پیش کردہ گزارشات کو ضرور مدنظر رکھیں تاکہ انہیں امام بخاری رحمہ اللہ کے اسرارورموز سمجھنے میں آسانی رہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل احصار کی بنیاد مذکورہ آیت کریمہ کو قرار دیا ہے، چنانچہ حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیبیہ کے زمانے میں نکلے۔ بدیل بن ورقاء خزاعی آیا اور کہنے لگا: قریش آپ سے لڑیں گے اور آپ کو بیت اللہ جانے سے روکیں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہم لڑنے نہیں آئے۔ ہمارا مقصد صرف عمرہ کرنا ہے۔" اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ سے فرمایا: "اٹھو! قربانی کرو اور اپنے سر منڈوا دو۔" آپ نے اپنی قربانی ذبح کی، پھر حجام کو بلایا اس نے آپ کا سر مونڈا۔ (صحیح البخاری،الشروط،حدیث:2731) مذکورہ بالا آیت کریمہ اسی تناظر میں نازل ہوئی۔ احصار کے لیے کوئی چیز بھی سبب بن سکتی ہے، ضروری نہیں کہ دشمن ہی کا اندیشہ ہو۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنے رجحان کے پیش نظر حضرت عطاء کا قول پیش کیا ہے جسے عبد بن حمید نے اپنی متصل سند سے بیان کیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اگر کسی کو سانپ یا بچھو ڈس جائے اور وہ چلنے سے معذور ہو جائے تو وہ بھی محصر ہے لیکن اہل کوفہ نے کہا ہے کہ احصار صرف ہڈی ٹوٹنے، دشمن کا خوف اور بیماری وغیرہ کی وجہ سے ہو گا، جبکہ بعض حضرات صرف دشمن کے خطرے کو احصار کا باعث قرار دیتے ہیں۔ بہرحال ہمارے نزدیک احصار عام ہے۔ جو چیز بھی بیت اللہ جانے سے رکاوٹ بن جائے وہ احصار کا سبب ہو سکتی ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اشتقاق کی مناسبت سے حصورا کے معنی اپنے نفس کو روکنا بتائے ہیں۔ یہ لفظ سورۂ آل عمران 39:3 میں ہے۔ اس لفظ کے معنی اور شرعی احصار میں "منع" کے معنی قدر مشترک ہے۔ (فتح الباری:4/6)
تمہید باب
آنحضرتﷺ کا احصار صرف عمرہ سے تھا، لیکن علماء نے حج کو بھی عمرہ پر قیاس کرلیا اور عبد اللہ بن عمرؓ کا یہی مطلب ہے کہ آپ نے جیسا عمرے سے احصار کی صورت میں عمل کیا تم حج سے احصار ہونے میں بھی اسی پر چلو۔
حضرت سالم سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ حضرت ابن عمر ؓ فرمایا کرتے تھے۔ کیا تمھیں رسول اللہ ﷺ کی سنت کافی نہیں ہے؟تم میں سے اگر کوئی حج سے روک دیا جائے تو اسے چاہیے کہ وہ بیت اللہ کا طواف کرے، پھر صفاو مروہ کی سعی کرے۔ اس کے بعد وہ ہر چیز سے حلال ہوجائے۔ آئندہ سال حج کرے اور قربانی دے۔ اگر قربانی میسر نہ ہو تو روزے رکھے۔ عبد اللہ (بن مبارک) نے یہ روایت یونس کے علاوہ معمر عن زہری کے طریق سے بھی اسی طرح بیان کی ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) حج میں رکاوٹ کا مطلب یہ ہے کہ وقوف عرفہ نہ ہو سکتا ہو جو حج کا رکن اعظم ہے۔ حضرت ابن عمر ؓ نے حج کی رکاوٹ کو عمرے کی رکاوٹ پر قیاس کیا ہے۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ کے نزدیک حج یا عمرے کا مشروط احرام باندھنا درست نہیں، حالانکہ دیگر حضرات نے اسے جائز رکھا ہے، چنانچہ امام ترمذی ؒ نے روایت بیان کی ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ مشروط احرام کا انکار کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے: کیا تمہارے لیے رسول اللہ ﷺ کی سنت کافی نہیں؟ (جامع الترمذي، الحج، حدیث:942) لیکن امام بخاری ؒ نے اس حصے کو روایت سے حذف کر دیا ہے۔ (2) امام بیہقی ؒ کہتے ہیں کہ اگر حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کو ضباعہ بنت زبیر کی حدیث معلوم ہوتی تو مشروط احرام کا انکار نہ کرتے۔ حضرت ضباعہ کی حدیث یہ ہے: ضباعہ کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کی: اللہ کے رسول! میرا حج کرنے کا ارادہ ہے لیکن میں بیمار ہوں، ایسی صورت میں کیا کروں؟ آپ نے فرمایا: ’’حج کرو اور اللہ سے شرط کر لو: اے اللہ! میں اسی جگہ احرام کھول دوں گی جہاں تو مجھے روک دے گا۔‘‘(صحیح مسلم، الحج، حدیث:2902(1207)) امام بخاری ؒ نے اس روایت کو کتاب النکاح میں بیان کیا ہے، جس سے متعلق مکمل بحث آئندہ آئے گی۔ امام ابن حزم ؒ نے اس مسئلے پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ (فتح الباري:13/4)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے احمد بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ نے خبر دی، کہا کہ ہم کو یونس نے خبر دی، ان سے زہری نے کہا کہ مجھے سالم نے خبر دی، کہا کہ ابن عمر ؓ فرمایا کرتے تھے کیا تمہارے لیے رسول اللہ ﷺ کی سنت کافی نہیں ہے کہ اگر کسی کو حج سے روک دیا جائے تو ہوسکے تو وہ بیت اللہ کا طواف کر لے اور صفا اور مروہ کی سعی، پھر وہ ہر چیز سے حلال ہو جائے، یہاں تک کہ وہ دوسرے سال حج کرلے پھر قربانی کرے، اگر قربانی نہ ملے تو روزہ رکھے، عبداللہ سے روایت ہے کہ ہمیں معمر نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا کہ مجھ سے سالم نے بیان کیا، ان سے ابن عمر ؓ نے اسی پہلی روایت کی طرح بیان کیا۔
حدیث حاشیہ:
بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کے نزدیک حج یا عمرہ کے احرام میں شرط لگانا درست نہ تھا، شرط لگانا یہ ہے کہ احرام باندھتے وقت یوں کہہ لے کہ یا اللہ ! میں جہاں رک جاؤں تو میرا احرام وہیں کھولا جائے گا، جمہور صحابہ اور تابعین نے اسے جائز رکھا ہے اور امام احمد اور اہل حدیث کا یہی قول ہے۔ ( وحیدی ) اور ایسی حالت میں مثال سامنے ہے آج بھی ایسے حالات پیدا ہو سکتے ہیں پس شارع ؑ کی سنت مستقبل میں آنے والی امت مسلمہ کے لیے اسوہ حسنہ ہے۔ احصار کی تفصیل ( پیچھے بھی گزر چکی ہے ) حضرت محمد بن شہاب زہری زہرہ بن کلاب کی طرف منسوب ہیں، کنیت ابوبکرہے، ان کا نام محمد ہے، عبداللہ بن شہاب کے بیٹے ہیں۔ یہ بڑے فقیہ اور محدث ہوئے ہیں اور تابعین سے بڑے جلیل القدر تابعی ہیں، مدینہ کے زبردست فقیہ اور عالم ہیں، علوم شریعت کے مختلف فنون میں ان کی طرف رجو ع کیا جاتا تھا۔ ان سے ایک بڑی جماعت روایت کرتی ہے جن میں سے قتادہ اور امام مالک بن انس ہیں، حضرت عمر بن عبدالعزیز ؑ فرماتے ہیں کہ میں ان سے زیادہ عالم جو اس زمانہ میں گزرا ہے ان کے سوا اور کسی کو نہیں پاتا۔ مکحول سے دریافت کیا گیا کہ ان علماء میں سے جن کو آپ نے دیکھا ہے کون زیادہ عالم ہے فرمایا کہ ابن شہاب ہیں، پھر دریافت کیا گیا کہ ان کے بعد کون ہے، فرمایا کہ ابن شہاب ہیں، پھر کہا گیا کہ ابن شہاب کے بعد، فرمایا کہ ابن شہاب ہی ہیں۔ 124ھ میں ماہ رمضان المبارک میں وفات پائی ، رحمه اللہ رحمة واسعة ( امین )
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Salim: (Abdullah) bin 'Umar used to say, "Is not (the following of) the tradition of Allah's Apostle (ﷺ) sufficient for you? If anyone of you is prevented from performing Hajj, he should perform the Tawaf of the Ka’bah and between As-Safa and Al-Marwa and then finish the Ihram and everything will become legal for him which was illegal for him (during the state of Ihram) and he can perform Hajj in a following year and he should slaughter a Hadi or fast in case he cannot afford the Hadi."