باب : اس بیان میں کہ حرم شریف کے درخت نہ کاٹے جائیں
)
Sahi-Bukhari:
Penalty of Hunting while on Pilgrimage
(Chapter: It is not permissible to cut the trees of the Haram)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
(اور ) ابن عباسؓ نے نبی کریم ﷺسے نقل کیا کہ حرم کے کانٹے نہ کاٹے جائیں
1832.
حضرت ابو شریح عدوی ؓ سے روایت ہے، انھوں نے عمرو بن سعید سے کہا جبکہ وہ مکہ مکرمہ کی طرف لشکر بھیج رہا تھا، اے امیر!اگر مجھے اجازت ہوتو میں تمھیں ایک بات کی خبردوں جسے رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ کے اگلے دن بیان فرمایا۔ اس بات کو میرے کانوں نے سنا، میرے دل نے یاد کیا اور میری آنکھوں نے دیکھا جب آپ وہ بات کہہ رہے تھے۔ آپ نے پہلے اللہ تعالیٰ کی حمدو ثنابیان کی پھر فرمایا: ’’بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے مکہ مکرمہ کو حرام قراردیا ہے، لوگوں نے اسے قابل احترام قرارنہیں دیا۔ کوئی انسان جس کا اللہ پر ایمان اور قیامت پر یقین ہے۔ اس کے لیے جائز نہیں کہ وہ مکہ مکرمہ میں خونریزی کرے اور اس کا درخت کاٹے۔ اگر کوئی رسول اللہ ﷺ کے جنگ کرنے کی وجہ سے اجازت چاہے تو اسے کہہ دو کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو اجازت دی تھی اور تمھیں اجازت نہیں دی۔ میرے لیے بھی دن کی ایک گھڑی کے لیے اجازت دی تھی جبکہ اس کی حرمت آج کے دن اسی طرح لوٹ آئی ہے جس طرح کل اس کی حرمت برقرارتھی۔ حاضر شخص کو چاہیے کہ وہ غائب کو یہ پیغام پہنچادے۔‘‘ ابو شریح سے کہا گیا کہ آپ کو عمرو نے کیا جواب دیا تھا؟حضرت ابو شریح ى نے فرمایا: (اس نے مجھے کہا تھا: )ابو شریح !میں اس مسئلے کو تجھ سے زیادہ جانتا ہوں۔ ابو شریح !حرم کسی نافرمان، تحزیب کار اور خون خرابہ کر کے بھاگنے والے کو پناہ نہیں دیتا۔ (امام بخاری نے کہا کہ)خربہ کے معنی فتنہ و فساد ہیں۔
تشریح:
(1) مسند احمد میں ہے کہ حضرت ابو شریح ؓ نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ کے ارشادات کے وقت میں وہاں موجود تھا اور تم اس وقت موجود نہیں تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں یہ پیغام آگے پہنچانے کا حکم دیا جو میں نے تجھے پہنچا دیا۔ (مسندأحمد:32/4) اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت ابو شریح ؓ نے عمرو بن سعید کے اقدام کی موافقت نہیں کی بلکہ بآواز بلند اسے روکنے کی کوشش کی لیکن عمرو بن سعید نے چالاکی سے کام لیتے ہوئے ایک صحیح بات کو غلط مقصد کے لیے استعمال کیا کیونکہ حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کسی صورت میں نافرمان، تخریب کار یا خون خرابا کر کے بھاگنے والے نہیں تھے۔ (2) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حرم کے درختوں کو کاٹنا نہیں چاہیے، لیکن اس سے مراد وہ درخت ہیں جو خود بخود وہاں اُگے ہوں۔ اس میں تمام علماء کا اتفاق ہے، البتہ شاخوں سے مسواک وغیرہ بنانا بعض علماء نے جائز قرار دیا ہے۔ اسی طرح حرم کا درخت خود بخود گر گیا ہو تو اس سے فائدہ اٹھانا بھی جائز ہے، نیز پھل دار درخت سے پھل اتارنا جبکہ اس سے درخت کا نقصان نہ ہو یہ بھی جائز ہے۔ اگر حرم میں لوگ درخت اُگائیں یا باغ وغیرہ کاشت کریں تو ان کے استعمال میں بھی کوئی حرج نہیں۔ (فتح الباري:58/4)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1780
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1832
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1832
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1832
تمہید کتاب
احرام پہننے کے بعد انسان جب حج یا عمرے کی نیت کرتا ہے تو اسے محرم کہتے ہیں۔ اس محرم پر احرام اور حرم کے حوالے سے کچھ پابندیاں ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے حج اور عمرے کے مسائل و احکام اور آداب و شرائط بیان کرنے کے بعد احرام اور حرم کی پابندیاں بیان کرنے کے لیے مذکورہ عنوان قائم کیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے خانہ کعبہ کو اپنا مقدس گھر قرار دیا ہے، اسی طرح شہر مکہ کو جس میں یہ گھر بیت اللہ واقع ہے، بلد اللہ الحرام قرار دیا ہے۔ گویا دنیا بھر کے گھروں میں جس طرح کعبہ مکرمہ کو اللہ تعالیٰ سے خاص نسبت ہے اسی طرح دنیا بھر کے شہروں میں مکہ مکرمہ کو اللہ تعالیٰ سے خاص نسبت کا شرف حاصل ہے، پھر اس نسبت سے اس کی سمت میں کئی کئی میل کے علاقے کو حرم، یعنی واجب الاحترام قرار دیا گیا ہے اور اس کے خاص آداب و احکام مقرر کیے گئے ہیں۔ اس ادب و احترام کے حوالے سے بہت سے کاموں اور باتوں کی وہاں ممانعت ہے جن کی باقی ساری دنیا میں اجازت ہے، مثلا: ان حدود میں کسی جانور کا شکار کرنے کی اجازت نہیں۔ درخت کاٹنے اور پتے چھاڑنے کی اجازت نہیں۔ اس محترم علاقے میں ان سب چیزوں کو ادب و احترام کے خلاف گناہ گارانہ جسارت قرار دیا گیا ہے۔ گویا پورے علاقۂ حرم کی تعظیم و حرمت اللہ تعالیٰ کے ساتھ بندگی کے صحیح تعلق اور سچی وفاداری کی علامت ہے۔ اسی طرح بیت اللہ میں حاضری کے لیے فقیرانہ لباس، احرام سے متعلق بھی کچھ پابندیاں ہیں جو اسے پہنتے وقت عائد ہو جاتی ہیں، خواہ وہ حدود حرم میں داخل نہ ہوا ہو، جن میں سے ایک شکار کرنے کی ممانعت بھی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَيَبْلُوَنَّكُمُ اللَّـهُ بِشَيْءٍ مِّنَ الصَّيْدِ تَنَالُهُ أَيْدِيكُمْ وَرِمَاحُكُمْ لِيَعْلَمَ اللَّـهُ مَن يَخَافُهُ بِالْغَيْبِ ۚ فَمَنِ اعْتَدَىٰ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَلَهُ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴿٩٤﴾) "اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ ایسے شکار کے ذریعے سے تمہاری آزمائش کرے گا جو تمہارے ہاتھوں اور نیزوں کی زد میں ہوں، یہ دیکھنے کے لیے کہ کون غائبانہ طور پر اللہ سے ڈرتا ہے، پھر اس کے بعد جو حد سے گزر گیا، اس کے لیے دردناک عذاب ہے۔" (المآئدۃ94:5) اس کے بعد اس پابندی کو واضح الفاظ میں بیان فرمایا کہ ایمان والو! تم حالت احرام میں شکار نہ کرو۔امام بخاری رحمہ اللہ نے احرام اور حرم کی پابندیوں کو بیان کرنے کے لیے چھیالیس مرفوع متصل احادیث کا انتخاب کیا ہے، پھر ان پر پابندیوں کے حوالے سے ستائیس چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں، جن سے امام بخاری رحمہ اللہ کی فقہی بصیرت اور اجتہادی قوت کا اندازہ ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ یہ پابندیاں دو حصوں پر مشتمل ہیں: (1) احرام کی پابندیاں: ان میں میدانی شکار کی ممانعت سرفہرست ہے۔ اس حوالے سے امام بخاری رحمہ اللہ نے کچھ تفصیل بیان کی ہے جسے ہم جستہ جستہ بیان کریں گے۔ (2) حرم کی پابندیاں: ان میں حرم کے درخت نہ کاٹے جائیں۔ حرم میں شکار کو خوفزدہ نہ کیا جائے، وہاں جنگ و قتال اور لڑائی جھگڑا نہ کیا جائے۔کچھ جانور ایسے ہیں جنہیں حدود حرم اور حالتِ احرام میں مارنے کی اجازت ہے کیونکہ وہ نقصان دہ اور ضرر رساں ہیں۔ ان کی تفصیل بھی بیان کی گئی ہے۔ عنوان کی مناسبت سے کچھ مسائل کا تذکرہ ہے جن کے متعلق معلومات حاصل کرنا ضروری تھا: مثلا: محرم اگر دوران احرام میں مر جائے تو کیا کیا جائے؟ اگر کسی نے حج بیت اللہ کی نذر مانی ہے لیکن اسے پورا کیے بغیر مر گیا تو اس کے متعلق کیا حکم ہے؟ ایک آدمی پر حج فرض ہے لیکن وہ سواری پر نہیں بیٹھ سکتا اس کے متعلق شرعی حکم کیا ہے؟ بچوں اور عورتوں کے حج کی کیا حیثیت ہے؟ اسی طرح جو ننگے پاؤں پیدل بیت اللہ جانے کی نذر مانتا ہے اسے کس حد تک نذر پوری کرنے کی اجازت ہے؟ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان کے علاوہ دیگر اسنادی مباحث بھی بیان کی ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ان گزارشات کو مدنظر رکھتے ہوئے مطالعہ کریں اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے۔ آمین
تمہید باب
اس روایت کو امام بخاری رحمہ اللہ نے خود ہی جزاء الصید، حدیث: 1834 کے تحت متصل سند سے بیان کیا ہے۔
(اور ) ابن عباسؓ نے نبی کریم ﷺسے نقل کیا کہ حرم کے کانٹے نہ کاٹے جائیں
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو شریح عدوی ؓ سے روایت ہے، انھوں نے عمرو بن سعید سے کہا جبکہ وہ مکہ مکرمہ کی طرف لشکر بھیج رہا تھا، اے امیر!اگر مجھے اجازت ہوتو میں تمھیں ایک بات کی خبردوں جسے رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ کے اگلے دن بیان فرمایا۔ اس بات کو میرے کانوں نے سنا، میرے دل نے یاد کیا اور میری آنکھوں نے دیکھا جب آپ وہ بات کہہ رہے تھے۔ آپ نے پہلے اللہ تعالیٰ کی حمدو ثنابیان کی پھر فرمایا: ’’بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے مکہ مکرمہ کو حرام قراردیا ہے، لوگوں نے اسے قابل احترام قرارنہیں دیا۔ کوئی انسان جس کا اللہ پر ایمان اور قیامت پر یقین ہے۔ اس کے لیے جائز نہیں کہ وہ مکہ مکرمہ میں خونریزی کرے اور اس کا درخت کاٹے۔ اگر کوئی رسول اللہ ﷺ کے جنگ کرنے کی وجہ سے اجازت چاہے تو اسے کہہ دو کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو اجازت دی تھی اور تمھیں اجازت نہیں دی۔ میرے لیے بھی دن کی ایک گھڑی کے لیے اجازت دی تھی جبکہ اس کی حرمت آج کے دن اسی طرح لوٹ آئی ہے جس طرح کل اس کی حرمت برقرارتھی۔ حاضر شخص کو چاہیے کہ وہ غائب کو یہ پیغام پہنچادے۔‘‘ ابو شریح سے کہا گیا کہ آپ کو عمرو نے کیا جواب دیا تھا؟حضرت ابو شریح ى نے فرمایا: (اس نے مجھے کہا تھا: )ابو شریح !میں اس مسئلے کو تجھ سے زیادہ جانتا ہوں۔ ابو شریح !حرم کسی نافرمان، تحزیب کار اور خون خرابہ کر کے بھاگنے والے کو پناہ نہیں دیتا۔ (امام بخاری نے کہا کہ)خربہ کے معنی فتنہ و فساد ہیں۔
حدیث حاشیہ:
(1) مسند احمد میں ہے کہ حضرت ابو شریح ؓ نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ کے ارشادات کے وقت میں وہاں موجود تھا اور تم اس وقت موجود نہیں تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں یہ پیغام آگے پہنچانے کا حکم دیا جو میں نے تجھے پہنچا دیا۔ (مسندأحمد:32/4) اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت ابو شریح ؓ نے عمرو بن سعید کے اقدام کی موافقت نہیں کی بلکہ بآواز بلند اسے روکنے کی کوشش کی لیکن عمرو بن سعید نے چالاکی سے کام لیتے ہوئے ایک صحیح بات کو غلط مقصد کے لیے استعمال کیا کیونکہ حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کسی صورت میں نافرمان، تخریب کار یا خون خرابا کر کے بھاگنے والے نہیں تھے۔ (2) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حرم کے درختوں کو کاٹنا نہیں چاہیے، لیکن اس سے مراد وہ درخت ہیں جو خود بخود وہاں اُگے ہوں۔ اس میں تمام علماء کا اتفاق ہے، البتہ شاخوں سے مسواک وغیرہ بنانا بعض علماء نے جائز قرار دیا ہے۔ اسی طرح حرم کا درخت خود بخود گر گیا ہو تو اس سے فائدہ اٹھانا بھی جائز ہے، نیز پھل دار درخت سے پھل اتارنا جبکہ اس سے درخت کا نقصان نہ ہو یہ بھی جائز ہے۔ اگر حرم میں لوگ درخت اُگائیں یا باغ وغیرہ کاشت کریں تو ان کے استعمال میں بھی کوئی حرج نہیں۔ (فتح الباري:58/4)
ترجمۃ الباب:
حضرت ابن عباس ؓ نے نبی ﷺ سے بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس کے کانٹے نہ توڑے جائیں۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے سعید بن ابی سعید مقبری نے، ان سے ابوشریح عدوی نے کہ جب عمرو بن سعید مکہ پر لشکر کشی کر رہا تھا تو انہوں نے کہا امیر اجازت دے تو میں ایک ایسی حدیث سناؤں جو رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ کے دوسرے دن ارشاد فرمائی تھی، اس حدیث مبارک کو میرے ان کانوں نے سنا، اور میرے دل نے پوری طرح اسے یاد کر لیا تھا اور جب آپ ارشاد فرما رہے تھے تو میری آنکھیں آپ کو دیکھ رہی تھیں۔ آپ ﷺ نے اللہ کی حمد اور اس کی ثنا بیان کی، پھر فرمایا کہ مکہ کی حرمت اللہ نے قائم کی ہے لوگوں نے نہیں ! اس لیے کسی ایسے شخص کے لیے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو یہ جائز اور حلال نہیں کہ یہاں خون بہائے اور کوئی یہاں کا ایک درخت بھی نہ کاٹے لیکن اگر کوئی شخص رسول اللہ ﷺ کے قتال (فتح مکہ کے موقع پر ) سے اس کا جواز نکالے تو اس سے یہ کہہ دو کہ رسول اللہ ﷺ کو اللہ نے اجازت دی تھی، لیکن تمہیں اجازت نہیں ہے اور مجھے بھی تھوڑی سی دیر کے لیے اجازت ملی تھی پھر دوبارہ آج اس کی حرمت ایسی ہی قائم ہو گئی جیسے پہلے تھی اور ہاں جو موجود ہیں وہ غائب کو (اللہ کا یہ پیغام ) پہنچا دیں، ابوشریح سے کسی نے پوچھا کہ پھر عمرو بن سعید نے (یہ حدیث سن کر ) آپ کو کیا جواب دیا تھا؟ انہوں نے بتایا کہ عمرو نے کہا ابوشریح ! میں یہ حدیث تم سے بھی زیادہ جانتا ہوں مگر حرم کسی مجرم کو پناہ نہیں دیتا اور نہ خون کرکے اور نہ کسی جرم کرکے بھاگنے والے کو پناہ دیتا ہے۔ خربہ سے مراد خربہ بلیہ ہے۔
حدیث حاشیہ:
حدیث ہذا میں عمرو بن سعید کی فوج کشی کا ذکر ہے جو خلافت اموی کا ایک حاکم تھا اور حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کے مقابلہ پر مکہ شریف میں جنگ کرنے کے لیے فوج بھیج رہا تھا اس موقع پر کلمہ حق بلند کرنے کے لیے حضرت ابوشریح ؓ نے یہ حدیث بیان کی کہ اسے سن کر شاید عمرو بن سعید اپنے اس اقدام سے رک جائے مگر وہ رکنے والا کہاں تھا۔ الٹا حدیث کی تاویل کرنے لگا اور الٹی سیدھی باتوں سے اپنے فعل کا جواز ثابت کرنے لگا جو سراسر اس کا فریب نفس تھا۔ آخر اس نے مکہ شریف پر فوج کشی کی اور حرمت کعبہ کو پامال کرکے رکھ دیا۔ ابوشریح نے اس لیے سکوت نہیں کیا کہ عمرو بن سعید کا جواب معقول تھا بلکہ اس کا جواب سراسر نامعقول تھا بحث تو یہ تھی کہ مکہ پر لشکر کشی اور جنگ جائز نہیں لیکن عمرو بن سعید نے دوسرا مسئلہ چھیڑدیا کہ کوئی حدی جرم کا مرتکب ہو کر حرم میں بھاگ جائے تو اس کو حرم میں پناہ نہیں ملتی۔ اس مسئلہ میں علماءکا اختلاف ہے مگر عبداللہ بن زبیر ؓ نے تو کوئی حدی جرم بھی نہیں کیا تھا۔ حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کی کنیت ابوبکر ہے، یہ اسدی قریشی ہیں ان کی یہ کنیت ان کے نانا جان حضرت سیدنا ابوبکر صدیق ؓ کی کنیت پر خود آنحضرت ﷺ نے رکھی تھی۔ مدینہ میں مہاجرین میں یہ سب سے پہلے بچے تھے جو1ھ میں پیدا ہوئے۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے ان کے کان میں اذان کہی، مقام قبا میں پیدا ہوئے اور ان کی والدہ ماجدہ حضرت اسماءبنت ابی بکر صدیق ؓ ان کو آنحضرت ﷺ کی خدمت میں دعائے برکت کے واسطے لے کر حاضر ہوئیں، آپ ﷺ نے ان کو اپنی گود میں بٹھایا اور دہن مبارک میں ایک کھجور چپا کر اس کا لعاب ان کے منہ میں ڈالا اور ان کے تالو سے لگایا، گویا سب سے پہلے چیز جو ان کے پیٹ میں داخل ہوئی وہ آنحضرت ﷺ کا لعاب مبارک تھا۔ پھر آپ ﷺ نے ان کے لیے دعاءبرکت فرمائی، بالغ ہونے پر یہ بہت ہی بھاری بھرکم بارعب شخصیت کے مالک تھے۔ بکثرت روزہ رکھنے والے، نوافل پڑھنے والے اور حق و صداقت کے علم بردار تھے، تعلقات اور رشتہ کے قائم رکھنے والے، لحاظ و مروت کے پیکر، مجسمہ اخلاق حسنہ تھے۔ ان کی خوبیوں میں سے یہ ہے کہ ان کی والدہ ماجدہ حضرت اسماء ؓ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی صاحبزادی تھیں۔ ان کے نانا ابوبکر صدیق ؓ تھے۔ ان کی دادی صفیہ آنحضرت ﷺ کی سگی پھوپھی ہوئی ہیں اور حضرت عائشہ صدیقہ ان کی خالہ ہیں۔ آٹھ سال کی عمر میں آنحضرت ﷺ کے دست مبارک پر بیعت کی۔ اس جنگ میں جس کا یہاں ذکر ہے حجاج بن یوسف نے ان کو مکہ شریف میں قتل کیا اور 17جمادی الثانی بروز منگل 73ھ میں ان کی لاش کو سولی پر لٹکایا، جس کے کچھ دنوں بعد حجاج بھی بڑی ذلت و خواری کی موت مرا۔ حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کے لیے 64ھ میں بیعت لی گئی، جس پر بیشتر اہل حجاز، یمن، عراق اور خراسان والوں کا اتفاق تھا۔ حضرت عبداللہ نے اپنی عمر میں آٹھ مرتبہ حج کیا ان سے ایک بڑی جماعت روایت حدیث کرتی ہے۔ مختلف مسائل کا استنباط کے لیے حضرت امام بخاری ؒ اپنی جامع الصحیح میں بہت سے مقامات پر اس حدیث کو لائے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Said bin Abu Said Al-Maqburi: Abu Shuraih, Al-'Adawi said that he had said to 'Amr bin Sa'id when he was sending the troops to Makkah (to fight 'Abdullah bin Az-Zubair), "O Chief! Allow me to tell you what Allah's Apostle (ﷺ) said on the day following the Conquest of Makkah. My ears heard that and my heart understood it thoroughly and I saw with my own eyes the Prophet (ﷺ) when he, after Glorifying and Praising Allah, started saying, 'Allah, not the people, made Makkah a sanctuary, so anybody who has belief in Allah and the Last Day should neither shed blood in it, nor should he cut down its trees. If anybody tells (argues) that fighting in it is permissible on the basis that Allah's Apostle (ﷺ) did fight in Makkah, say to him, 'Allah allowed His Apostle (ﷺ) and did not allow you.' "Allah allowed me only for a few hours on that day (of the conquest) and today its sanctity is valid as it was before. So, those who are present should inform those who are absent (concerning this fact." Abu Shuraih was asked, "What did 'Amr reply?" He said, ('Amr said) 'O Abu Shuraih! I know better than you in this respect Makkah does not give protection to a sinner, a murderer or a thief."