باب : احرام والے مرد اور عورت کو خوشبو لگانا منع ہے
)
Sahi-Bukhari:
Penalty of Hunting while on Pilgrimage
(Chapter: What is forbidden for a Muhrim as regards perfumes)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور حضرت عائشہؓ نے فرمایا کہ محرم عورت ورس یا زعفران میں رنگا ہوا کپڑا نہ پہنے۔
1838.
حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ سے ایک مرد نے کھڑے ہو کر عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ !حالت احرام میں آپ کون سا کپڑا پہننے کا حکم دیتے ہیں؟نبی ﷺ نے فرمایا: ’’تم قمیص، شلوار، پگڑی اور ٹوپی والا لمبا کوٹ نہیں پہن سکتے (اورنہ پاؤں میں موزے پہنو) ہاں !اگر کسی کے پاس پہننے کے لیے چپل جوتا نہ ہوتو وہ مجبوراًپاؤں کی حفاظت کے لیے موزے پہن لے لیکن انھیں ٹخنوں کے نیچے سے کاٹ کر جوتا سابنالے، نیز حالت احرام میں ایسا کوئی کپڑا نہ پہنو جسےزعفران یا ورس لگی ہو۔ اور محرم عورت نقاب اور دستانے بھی نہ پہنے۔‘‘ نقاب اور دستانوں کے متعلق نافع سے روایت کرنے میں لیث کی، موسی بن عقبہ، اسماعیل بن ابراہیم، جویریہ اور ابن اسحاق نے متابعت کی ہے۔ اور عبیداللہ نے لاورس کے الفاظ بیان کیے ہیں۔ وہ کہتے تھے کہ عورت بحالت احرام نقاب اور دستانے نہ پہنے۔ امام مالک نے بواسطہ نافع حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کی کہ محرم عورت نقاب نہ پہنے۔ امام مالک کی لیث بن ابو سلیم نے متابعت کی ہے۔
تشریح:
(1) اس حدیث سے امام بخاری ؒ نے یہ ثابت کیا ہے کہ محرم مرد یا عورت کسی قسم کی خوشبو کسی صورت میں استعمال نہ کرے کیونکہ اس کا تعلق زینت سے ہے جبکہ حج میں مطلوب اللہ کے حضور نیاز مندی، عجز و انکسار اور ترک زینت کے جذبات پیش کرنا ہے، نیز خوشبو کا استعمال جنسی جذبات کو ابھارتا ہے جو حج و عمرہ جیسی عبادت کے منافی ہے۔ اس بات میں کسی کو اختلاف نہیں کہ احرام کی حالت میں مرد و عورت کے لیے خوشبو کا استعمال منع ہے۔ امام احمد نے ایک حدیث بایں الفاظ بیان کی ہے: ’’رسول اللہ ﷺ منع فرمایا کرتے تھے کہ عورت احرام کی حالت میں دستانے پہنے یا چہرے پر نقاب ڈالے یا ایسے کپڑے استعمال کرے جنہیں زعفران یا ورس لگی ہو، ان کے علاوہ جو رنگین کپڑے چاہے پہن سکتی ہے۔‘‘(مسندأحمد:2/22، و فتح الباري:69/4) (2) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قمیص، شلوار وغیرہ کی ممانعت صرف مردوں کے لیے ہے عورتوں کو پردے کی وجہ سے ان سب کپڑوں کے استعمال کی اجازت ہے، البتہ دستانے پہننے اور منہ پر نقاب باندھنے کی ممانعت ہے لیکن جب اجنبی مرد (غیر محرم) سامنے آئے تو اپنی چادر یا کسی اور چیز سے انہیں پردہ کر لینا چاہیے۔ (3) حدیث کے آخر میں چند متابعات کا ذکر ہے جنہیں حافظ ابن حجر ؒ نے تفصیل سے بیان کیا ہے۔ (فتح الباري:70/4)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1786
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1838
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1838
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1838
تمہید کتاب
احرام پہننے کے بعد انسان جب حج یا عمرے کی نیت کرتا ہے تو اسے محرم کہتے ہیں۔ اس محرم پر احرام اور حرم کے حوالے سے کچھ پابندیاں ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے حج اور عمرے کے مسائل و احکام اور آداب و شرائط بیان کرنے کے بعد احرام اور حرم کی پابندیاں بیان کرنے کے لیے مذکورہ عنوان قائم کیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے خانہ کعبہ کو اپنا مقدس گھر قرار دیا ہے، اسی طرح شہر مکہ کو جس میں یہ گھر بیت اللہ واقع ہے، بلد اللہ الحرام قرار دیا ہے۔ گویا دنیا بھر کے گھروں میں جس طرح کعبہ مکرمہ کو اللہ تعالیٰ سے خاص نسبت ہے اسی طرح دنیا بھر کے شہروں میں مکہ مکرمہ کو اللہ تعالیٰ سے خاص نسبت کا شرف حاصل ہے، پھر اس نسبت سے اس کی سمت میں کئی کئی میل کے علاقے کو حرم، یعنی واجب الاحترام قرار دیا گیا ہے اور اس کے خاص آداب و احکام مقرر کیے گئے ہیں۔ اس ادب و احترام کے حوالے سے بہت سے کاموں اور باتوں کی وہاں ممانعت ہے جن کی باقی ساری دنیا میں اجازت ہے، مثلا: ان حدود میں کسی جانور کا شکار کرنے کی اجازت نہیں۔ درخت کاٹنے اور پتے چھاڑنے کی اجازت نہیں۔ اس محترم علاقے میں ان سب چیزوں کو ادب و احترام کے خلاف گناہ گارانہ جسارت قرار دیا گیا ہے۔ گویا پورے علاقۂ حرم کی تعظیم و حرمت اللہ تعالیٰ کے ساتھ بندگی کے صحیح تعلق اور سچی وفاداری کی علامت ہے۔ اسی طرح بیت اللہ میں حاضری کے لیے فقیرانہ لباس، احرام سے متعلق بھی کچھ پابندیاں ہیں جو اسے پہنتے وقت عائد ہو جاتی ہیں، خواہ وہ حدود حرم میں داخل نہ ہوا ہو، جن میں سے ایک شکار کرنے کی ممانعت بھی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَيَبْلُوَنَّكُمُ اللَّـهُ بِشَيْءٍ مِّنَ الصَّيْدِ تَنَالُهُ أَيْدِيكُمْ وَرِمَاحُكُمْ لِيَعْلَمَ اللَّـهُ مَن يَخَافُهُ بِالْغَيْبِ ۚ فَمَنِ اعْتَدَىٰ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَلَهُ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴿٩٤﴾) "اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ ایسے شکار کے ذریعے سے تمہاری آزمائش کرے گا جو تمہارے ہاتھوں اور نیزوں کی زد میں ہوں، یہ دیکھنے کے لیے کہ کون غائبانہ طور پر اللہ سے ڈرتا ہے، پھر اس کے بعد جو حد سے گزر گیا، اس کے لیے دردناک عذاب ہے۔" (المآئدۃ94:5) اس کے بعد اس پابندی کو واضح الفاظ میں بیان فرمایا کہ ایمان والو! تم حالت احرام میں شکار نہ کرو۔امام بخاری رحمہ اللہ نے احرام اور حرم کی پابندیوں کو بیان کرنے کے لیے چھیالیس مرفوع متصل احادیث کا انتخاب کیا ہے، پھر ان پر پابندیوں کے حوالے سے ستائیس چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں، جن سے امام بخاری رحمہ اللہ کی فقہی بصیرت اور اجتہادی قوت کا اندازہ ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ یہ پابندیاں دو حصوں پر مشتمل ہیں: (1) احرام کی پابندیاں: ان میں میدانی شکار کی ممانعت سرفہرست ہے۔ اس حوالے سے امام بخاری رحمہ اللہ نے کچھ تفصیل بیان کی ہے جسے ہم جستہ جستہ بیان کریں گے۔ (2) حرم کی پابندیاں: ان میں حرم کے درخت نہ کاٹے جائیں۔ حرم میں شکار کو خوفزدہ نہ کیا جائے، وہاں جنگ و قتال اور لڑائی جھگڑا نہ کیا جائے۔کچھ جانور ایسے ہیں جنہیں حدود حرم اور حالتِ احرام میں مارنے کی اجازت ہے کیونکہ وہ نقصان دہ اور ضرر رساں ہیں۔ ان کی تفصیل بھی بیان کی گئی ہے۔ عنوان کی مناسبت سے کچھ مسائل کا تذکرہ ہے جن کے متعلق معلومات حاصل کرنا ضروری تھا: مثلا: محرم اگر دوران احرام میں مر جائے تو کیا کیا جائے؟ اگر کسی نے حج بیت اللہ کی نذر مانی ہے لیکن اسے پورا کیے بغیر مر گیا تو اس کے متعلق کیا حکم ہے؟ ایک آدمی پر حج فرض ہے لیکن وہ سواری پر نہیں بیٹھ سکتا اس کے متعلق شرعی حکم کیا ہے؟ بچوں اور عورتوں کے حج کی کیا حیثیت ہے؟ اسی طرح جو ننگے پاؤں پیدل بیت اللہ جانے کی نذر مانتا ہے اسے کس حد تک نذر پوری کرنے کی اجازت ہے؟ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان کے علاوہ دیگر اسنادی مباحث بھی بیان کی ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ان گزارشات کو مدنظر رکھتے ہوئے مطالعہ کریں اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے۔ آمین
تمہید باب
اس تعلیق کو امام بیہقی رحمہ اللہ نے متصل سند سے بیان کیا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں: محرم عورت کو ہر قسم کے کپڑے پہننے کی اجازت ہے مگر ایسے کپڑے جو ورس بوٹی یا زعفران میں رنگے ہوئے ہوں انہیں پہننا درست نہیں۔ علاوہ ازیں برقع پہننا، نقاب باندھنا بھی جائز نہیں۔ اگر چاہے تو چہرے کے اوپر کپڑا لٹکا سکتی ہے۔ (السنن الکبرٰی للبیھقی:5/47) زعفران تو معروف ہے، ورس بھی ایک خوشبودار زرد رنگ کی پتی ہے۔ یہ دونوں چیزیں خوشبو کے لیے استعمال ہوتی ہیں، اس لیے حالت احرام میں ایسے کپڑے کے استعمال کی بھی ممانعت کر دی گئی ہے جسے زعفران یا ورس لگی ہو یا ان میں اسے رنگا گیا ہو۔
اور حضرت عائشہؓ نے فرمایا کہ محرم عورت ورس یا زعفران میں رنگا ہوا کپڑا نہ پہنے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ سے ایک مرد نے کھڑے ہو کر عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ !حالت احرام میں آپ کون سا کپڑا پہننے کا حکم دیتے ہیں؟نبی ﷺ نے فرمایا: ’’تم قمیص، شلوار، پگڑی اور ٹوپی والا لمبا کوٹ نہیں پہن سکتے (اورنہ پاؤں میں موزے پہنو) ہاں !اگر کسی کے پاس پہننے کے لیے چپل جوتا نہ ہوتو وہ مجبوراًپاؤں کی حفاظت کے لیے موزے پہن لے لیکن انھیں ٹخنوں کے نیچے سے کاٹ کر جوتا سابنالے، نیز حالت احرام میں ایسا کوئی کپڑا نہ پہنو جسےزعفران یا ورس لگی ہو۔ اور محرم عورت نقاب اور دستانے بھی نہ پہنے۔‘‘ نقاب اور دستانوں کے متعلق نافع سے روایت کرنے میں لیث کی، موسی بن عقبہ، اسماعیل بن ابراہیم، جویریہ اور ابن اسحاق نے متابعت کی ہے۔ اور عبیداللہ نے لاورس کے الفاظ بیان کیے ہیں۔ وہ کہتے تھے کہ عورت بحالت احرام نقاب اور دستانے نہ پہنے۔ امام مالک نے بواسطہ نافع حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کی کہ محرم عورت نقاب نہ پہنے۔ امام مالک کی لیث بن ابو سلیم نے متابعت کی ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے امام بخاری ؒ نے یہ ثابت کیا ہے کہ محرم مرد یا عورت کسی قسم کی خوشبو کسی صورت میں استعمال نہ کرے کیونکہ اس کا تعلق زینت سے ہے جبکہ حج میں مطلوب اللہ کے حضور نیاز مندی، عجز و انکسار اور ترک زینت کے جذبات پیش کرنا ہے، نیز خوشبو کا استعمال جنسی جذبات کو ابھارتا ہے جو حج و عمرہ جیسی عبادت کے منافی ہے۔ اس بات میں کسی کو اختلاف نہیں کہ احرام کی حالت میں مرد و عورت کے لیے خوشبو کا استعمال منع ہے۔ امام احمد نے ایک حدیث بایں الفاظ بیان کی ہے: ’’رسول اللہ ﷺ منع فرمایا کرتے تھے کہ عورت احرام کی حالت میں دستانے پہنے یا چہرے پر نقاب ڈالے یا ایسے کپڑے استعمال کرے جنہیں زعفران یا ورس لگی ہو، ان کے علاوہ جو رنگین کپڑے چاہے پہن سکتی ہے۔‘‘(مسندأحمد:2/22، و فتح الباري:69/4) (2) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قمیص، شلوار وغیرہ کی ممانعت صرف مردوں کے لیے ہے عورتوں کو پردے کی وجہ سے ان سب کپڑوں کے استعمال کی اجازت ہے، البتہ دستانے پہننے اور منہ پر نقاب باندھنے کی ممانعت ہے لیکن جب اجنبی مرد (غیر محرم) سامنے آئے تو اپنی چادر یا کسی اور چیز سے انہیں پردہ کر لینا چاہیے۔ (3) حدیث کے آخر میں چند متابعات کا ذکر ہے جنہیں حافظ ابن حجر ؒ نے تفصیل سے بیان کیا ہے۔ (فتح الباري:70/4)
ترجمۃ الباب:
حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ محرم عورت ورس اور زعفران سے رنگا ہوا لباس زیب تن نہ کرے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یزید نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے نافع نے بیان کیا اور ان سے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے بیان کیا کہ ایک شخص نے کھڑے ہو کر پوچھا یا رسول اللہ ﷺ ! حالت احرام میں ہمیں کون سے کپڑے پہننے کی اجازت دیتے ہیں؟ تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ نہ قمیص پہنو نہ پاجامے، نہ عمامے اور نہ برنس۔ اگر کسی کے جوتے نہ ہوں تو موزوں کو ٹخنوں کے نیچے سے کاٹ کر پہن لے۔ اسی طرح کوئی ایسا لباس نہ پہنو جس میں زعفران یا ورس لگا ہو۔ احرام کی حالت میں عورتیں منہ پر نقاب نہ ڈالیں اور دستانے بھی نہ پہنیں۔ لیث کے ساتھ اس روایت کی متابعت موسیٰ بن عقبہ اور اسماعیل بن ابراہیم بن عقبہ اور جویریہ اور ابن اسحاق نے نقاب اور دستانوں کے ذکر کے سلسلے میں کی ہے۔ عبیداللہ ؓ نے ”ولاورس“ کا لفظ بیان کیا وہ کہتے تھے کہ احرام کی حالت میں عورت منہ پر نہ نقاب ڈالے اور نہ دستانے استعمال کرے اور امام مالک نے نافع سے بیان کیا اور انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے بیان کیا کہ احرام کی حالت میں عورت نقاب نہ ڈالے اور لیث بن ابی سلیم نے مالک کی طرح روایت کی ہے۔
حدیث حاشیہ:
باب میں خوشبو لگانے کی ممانعت کا ذکر تھا مگر حدیث میں اور بھی بہت سے مسائل کا ذکر موجود ہے، احرام کی حالت میں سلا ہوا لباس منع ہے اور عورتوں کے لیے منہ پر نقاب ڈالنا بھی منع ہے، ان کو چاہئے کہ اس حالت میں اور بھی زیادہ اپنی نگاہوں کو نیچا رکھیں حیا و شرم و خوف خدا و آداب حج کا پورا پورا خیال رکھیں۔ مردوں کے لیے بھی یہی سب امور ضروری ہیں۔ حیا شرم ملحوظ نہ رہے تو حج الٹا وبال جان بن سکتا ہے۔ آج کل کچھ لوگ عورتوں کے منہ پر پنکھوں کی شکل میں نقاب ڈالتے ہیں، یہ تکلیف بالکل غیر شرعی ہے، احکام شرع پر بلاچون و چرا عمل ضروری ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin Umar (RA): A person stood up and asked, "O Allah's: Apostle (ﷺ) ! What clothes may be worn in the state of Ihram?" The Prophet (ﷺ) replied, "Do not wear a shirt or trousers, or any headgear (e.g. a turban), or a hooded cloak; but if somebody has no shoes he can wear leather stockings provided they are cut short off the ankles, and also, do not wear anything perfumed with Wars or saffron, and the Muhrima (a woman in the state of Ihram) should not cover her face, or wear gloves."