باب : احرام والے مرد اور عورت کو خوشبو لگانا منع ہے
)
Sahi-Bukhari:
Penalty of Hunting while on Pilgrimage
(Chapter: What is forbidden for a Muhrim as regards perfumes)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور حضرت عائشہؓ نے فرمایا کہ محرم عورت ورس یا زعفران میں رنگا ہوا کپڑا نہ پہنے۔
1839.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ ایک محرم شخص کو رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں لایا گیا جس کی گردن اس کی اونٹنی نے توڑدی تھی اور اسے مار ڈالا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اسے غسل دو، کفن پہناؤ لیکن اس کا سر نہ ڈھانپو اور نہ خوشبو ہی اس کے قریب لے جاؤ کیونکہ وہ قیامت کے دن تلبیہ کہتا ہوا اٹھایا جائے گا۔‘‘
تشریح:
(1) اس حدیث میں وضاحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مرنے والے محرم کو خوشبو لگانے اور اس کا سر ڈھانپنے سے منع فرمایا کیونکہ محرم کے لیے خوشبو استعمال کرنا اور سر ڈھانپنا جائز نہیں۔ (2) اس حدیث سے عمل حج کی اہمیت ثابت ہوتی ہے کہ ایسا شخص اگر دوران حج میں فوت ہو گیا تو قیامت کے دن اللہ کے حضور حج کرتا ہوا، تلبیہ کہتا ہوا پیش ہو گا بشرطیکہ عقیدۂ توحید مضبوط ہو اور حج کے آداب و شرائط کو سامنے رکھتے ہوئے اس فریضے کو ادا کرنے کے لیے گیا ہو۔ (3) امام بخاری ؒ کا مقصد اس حدیث سے صرف یہ ثابت کرنا ہے کہ دوران حج میں مرد یا عورت کو خوشبو نہیں استعمال کرنی چاہیے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1787
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1839
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1839
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1839
تمہید کتاب
احرام پہننے کے بعد انسان جب حج یا عمرے کی نیت کرتا ہے تو اسے محرم کہتے ہیں۔ اس محرم پر احرام اور حرم کے حوالے سے کچھ پابندیاں ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے حج اور عمرے کے مسائل و احکام اور آداب و شرائط بیان کرنے کے بعد احرام اور حرم کی پابندیاں بیان کرنے کے لیے مذکورہ عنوان قائم کیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے خانہ کعبہ کو اپنا مقدس گھر قرار دیا ہے، اسی طرح شہر مکہ کو جس میں یہ گھر بیت اللہ واقع ہے، بلد اللہ الحرام قرار دیا ہے۔ گویا دنیا بھر کے گھروں میں جس طرح کعبہ مکرمہ کو اللہ تعالیٰ سے خاص نسبت ہے اسی طرح دنیا بھر کے شہروں میں مکہ مکرمہ کو اللہ تعالیٰ سے خاص نسبت کا شرف حاصل ہے، پھر اس نسبت سے اس کی سمت میں کئی کئی میل کے علاقے کو حرم، یعنی واجب الاحترام قرار دیا گیا ہے اور اس کے خاص آداب و احکام مقرر کیے گئے ہیں۔ اس ادب و احترام کے حوالے سے بہت سے کاموں اور باتوں کی وہاں ممانعت ہے جن کی باقی ساری دنیا میں اجازت ہے، مثلا: ان حدود میں کسی جانور کا شکار کرنے کی اجازت نہیں۔ درخت کاٹنے اور پتے چھاڑنے کی اجازت نہیں۔ اس محترم علاقے میں ان سب چیزوں کو ادب و احترام کے خلاف گناہ گارانہ جسارت قرار دیا گیا ہے۔ گویا پورے علاقۂ حرم کی تعظیم و حرمت اللہ تعالیٰ کے ساتھ بندگی کے صحیح تعلق اور سچی وفاداری کی علامت ہے۔ اسی طرح بیت اللہ میں حاضری کے لیے فقیرانہ لباس، احرام سے متعلق بھی کچھ پابندیاں ہیں جو اسے پہنتے وقت عائد ہو جاتی ہیں، خواہ وہ حدود حرم میں داخل نہ ہوا ہو، جن میں سے ایک شکار کرنے کی ممانعت بھی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَيَبْلُوَنَّكُمُ اللَّـهُ بِشَيْءٍ مِّنَ الصَّيْدِ تَنَالُهُ أَيْدِيكُمْ وَرِمَاحُكُمْ لِيَعْلَمَ اللَّـهُ مَن يَخَافُهُ بِالْغَيْبِ ۚ فَمَنِ اعْتَدَىٰ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَلَهُ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴿٩٤﴾) "اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ ایسے شکار کے ذریعے سے تمہاری آزمائش کرے گا جو تمہارے ہاتھوں اور نیزوں کی زد میں ہوں، یہ دیکھنے کے لیے کہ کون غائبانہ طور پر اللہ سے ڈرتا ہے، پھر اس کے بعد جو حد سے گزر گیا، اس کے لیے دردناک عذاب ہے۔" (المآئدۃ94:5) اس کے بعد اس پابندی کو واضح الفاظ میں بیان فرمایا کہ ایمان والو! تم حالت احرام میں شکار نہ کرو۔امام بخاری رحمہ اللہ نے احرام اور حرم کی پابندیوں کو بیان کرنے کے لیے چھیالیس مرفوع متصل احادیث کا انتخاب کیا ہے، پھر ان پر پابندیوں کے حوالے سے ستائیس چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں، جن سے امام بخاری رحمہ اللہ کی فقہی بصیرت اور اجتہادی قوت کا اندازہ ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ یہ پابندیاں دو حصوں پر مشتمل ہیں: (1) احرام کی پابندیاں: ان میں میدانی شکار کی ممانعت سرفہرست ہے۔ اس حوالے سے امام بخاری رحمہ اللہ نے کچھ تفصیل بیان کی ہے جسے ہم جستہ جستہ بیان کریں گے۔ (2) حرم کی پابندیاں: ان میں حرم کے درخت نہ کاٹے جائیں۔ حرم میں شکار کو خوفزدہ نہ کیا جائے، وہاں جنگ و قتال اور لڑائی جھگڑا نہ کیا جائے۔کچھ جانور ایسے ہیں جنہیں حدود حرم اور حالتِ احرام میں مارنے کی اجازت ہے کیونکہ وہ نقصان دہ اور ضرر رساں ہیں۔ ان کی تفصیل بھی بیان کی گئی ہے۔ عنوان کی مناسبت سے کچھ مسائل کا تذکرہ ہے جن کے متعلق معلومات حاصل کرنا ضروری تھا: مثلا: محرم اگر دوران احرام میں مر جائے تو کیا کیا جائے؟ اگر کسی نے حج بیت اللہ کی نذر مانی ہے لیکن اسے پورا کیے بغیر مر گیا تو اس کے متعلق کیا حکم ہے؟ ایک آدمی پر حج فرض ہے لیکن وہ سواری پر نہیں بیٹھ سکتا اس کے متعلق شرعی حکم کیا ہے؟ بچوں اور عورتوں کے حج کی کیا حیثیت ہے؟ اسی طرح جو ننگے پاؤں پیدل بیت اللہ جانے کی نذر مانتا ہے اسے کس حد تک نذر پوری کرنے کی اجازت ہے؟ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان کے علاوہ دیگر اسنادی مباحث بھی بیان کی ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ان گزارشات کو مدنظر رکھتے ہوئے مطالعہ کریں اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے۔ آمین
تمہید باب
اس تعلیق کو امام بیہقی رحمہ اللہ نے متصل سند سے بیان کیا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں: محرم عورت کو ہر قسم کے کپڑے پہننے کی اجازت ہے مگر ایسے کپڑے جو ورس بوٹی یا زعفران میں رنگے ہوئے ہوں انہیں پہننا درست نہیں۔ علاوہ ازیں برقع پہننا، نقاب باندھنا بھی جائز نہیں۔ اگر چاہے تو چہرے کے اوپر کپڑا لٹکا سکتی ہے۔ (السنن الکبرٰی للبیھقی:5/47) زعفران تو معروف ہے، ورس بھی ایک خوشبودار زرد رنگ کی پتی ہے۔ یہ دونوں چیزیں خوشبو کے لیے استعمال ہوتی ہیں، اس لیے حالت احرام میں ایسے کپڑے کے استعمال کی بھی ممانعت کر دی گئی ہے جسے زعفران یا ورس لگی ہو یا ان میں اسے رنگا گیا ہو۔
اور حضرت عائشہؓ نے فرمایا کہ محرم عورت ورس یا زعفران میں رنگا ہوا کپڑا نہ پہنے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ ایک محرم شخص کو رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں لایا گیا جس کی گردن اس کی اونٹنی نے توڑدی تھی اور اسے مار ڈالا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اسے غسل دو، کفن پہناؤ لیکن اس کا سر نہ ڈھانپو اور نہ خوشبو ہی اس کے قریب لے جاؤ کیونکہ وہ قیامت کے دن تلبیہ کہتا ہوا اٹھایا جائے گا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث میں وضاحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مرنے والے محرم کو خوشبو لگانے اور اس کا سر ڈھانپنے سے منع فرمایا کیونکہ محرم کے لیے خوشبو استعمال کرنا اور سر ڈھانپنا جائز نہیں۔ (2) اس حدیث سے عمل حج کی اہمیت ثابت ہوتی ہے کہ ایسا شخص اگر دوران حج میں فوت ہو گیا تو قیامت کے دن اللہ کے حضور حج کرتا ہوا، تلبیہ کہتا ہوا پیش ہو گا بشرطیکہ عقیدۂ توحید مضبوط ہو اور حج کے آداب و شرائط کو سامنے رکھتے ہوئے اس فریضے کو ادا کرنے کے لیے گیا ہو۔ (3) امام بخاری ؒ کا مقصد اس حدیث سے صرف یہ ثابت کرنا ہے کہ دوران حج میں مرد یا عورت کو خوشبو نہیں استعمال کرنی چاہیے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ محرم عورت ورس اور زعفران سے رنگا ہوا لباس زیب تن نہ کرے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے جریر نے بیان کیا، ان سے منصور نے، ان سے حکم نے، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس ؓ نے بیان کیا کہ ایک محرم شخص کے اونٹ نے حجۃ الوداع کے موقع پر اس کی گردن (گراکر ) توڑ دی اور اسے جان سے مار دیا، اس شخص کو رسول اللہ ﷺ کے سامنے لایا گیا تو آپ نے فرمایا کہ انہیں غسل اور کفن دے دو لیکن ان کا سر نہ ڈھکو اور نہ خوشبو لگاؤ کیوں کہ (قیامت میں ) یہ لبیک کہتے ہوئے اٹھے گا۔
حدیث حاشیہ:
مطلب یہ ہے کہ اس کا احرام باقی ہے۔ دوسری راویت میں ہے کہ اس کا منہ نہ ڈھانکو، حافظ ؒنے کہا مجھے اس شخص کا نام نہیں معلوم ہوا، اس بارے میں کوئی مستند روایت نہیں ملی، اس سے بھی حضرت امام بخاری ؒ نے یہ ثابت فرمایا کہ محرم کو خوشبو لگانا منع ہے کیوں کہ آپ نے مرنے والے کو محرم گردان کر اس کے جسم پر خوشبو لگانے سے منع فرمایا۔ حدیث سے عمل حج کی اہمیت بھی ثابت ہوئی کہ ایسا شخص روز قیامت میں حاجی ہی کی شکل میں پیش ہوگا بشرطیکہ اس کا حج عنداللہ مقبول ہوا ہو اور جملہ آداب و شرائط کو سامنے رکھ کر ادا کیا گیا ہو۔ حدیث سے اونٹ کی فطری طینت پر بھی روشنی پڑتی ہے۔ اپنے مالک سے اگر یہ جانور خفا ہو جائے تو موقع پانے پر اسے ہلاک کرنے کی بھرپور کوشش کرتا ہے اگرچہ اس جانور میں بہت سی خوبیاں بھی ہیں مگر اس کی کینہ پروری بھی مشہور ہے قرآن مجید میں اللہ نے اونٹ کا بھی ذکر فرمایا ہے ﴿إِلَى الْإِبِلِ كَيْفَ خُلِقَتْ﴾(الغاشیة:17)یعنی اونٹ کی طرف دیکھو وہ کس طرح پیدا کیا گیا ہے۔ اس کے جسم کا ہر حصہ شان قدرت کا ایک بہترین نمونہ ہے، اللہ نے اسے ریگستان کا جہاز بنایا ہے۔ جہاں اور سب گھبرا جاتے ہیں مگر یہ ریگستانوں میں خوب جھوم جھوم کر سفر طے کرتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Abbas (RA): A man was crushed to death by his she-camel and was brought to Allah's Apostle (ﷺ) who said, "Give him a bath and shroud him, but do not cover his head, and do not bring any perfume near to him, as he will be resurrected reciting Talbiya."