باب : حرم اور مکہ شریف میں بغیر احرام کے داخل ہونا
)
Sahi-Bukhari:
Penalty of Hunting while on Pilgrimage
(Chapter: Entering the Haram and Makkah without Ihram)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
حضرت عبداللہ بن عمر ؓاحرام کے بغیر داخل ہوئے اور نبی کریم ﷺنے احرام کا حکم ان ہی لوگوں کو دیا جو حج اور عمرہ کے ارادے سے آئیں۔ لکڑی بیچنے کے لیے آنے والوں اور دیگر لوگوں کو ایسا حکم نہیں دیا۔تشریح : حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کے اس واقعہ کو امام مالک نے موطا میں نافع سے نقل کیا ہے کہ جب عبداللہ بن عمر ؓ ما قدید میں پہنچے تو انہوں نے فساد کی خبر سنی۔ وہ لوٹ گئے اور مکہ میں بغیر احرام کے دخل ہو گئے۔ باب کا مطلب حضرت امام بخاری نے ابن عباس ؓ کی حدیث سے یوں نکالا کہ حدیث میں ذکر ہے جو لوگ حج اور عمرے کا ارادہ رکھتے ہوں ان پر لازم ہے کہ مکہ میں بااحرام داخل ہوں یہاں جو لوگ اپنی ذاتی ضروریات کے لیے مکہ شریف آتے جاتے رہتے ہیں ان کے لیے احرام واجب نہیں۔ امام شافعی کا یہی مسلک ہے مگر حنفیہ مکہ شریف میں داخل ہونے والے کے لیے احرام ضروری قرار دیتے ہیں۔ ابن عبدالبر نے کہا اکثر صحابہ اور تابعین وجوب کے قائل ہیں مگر درایت اور روایت کی بنا پر حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ہی کے مسلک کو ترجیح معلوم ہوتی ہے۔
1846.
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ فتح کے سال جب رسول اللہ ﷺ مکہ میں داخل ہوئے تو آپ کے سر پر خود تھا۔ جس وقت آپ نے اسے اتارا تو ایک شخص نے آپ کو مطلع کیا کہ ابن خطل کعبہ کے پردوں سے چمٹا ہوا ہے، آپ نے فرمایا: ’’اسے قتل کردو۔‘‘
تشریح:
(1) امام بخاری ؒ کا مقصد ہے کہ جو لوگ حج و عمرے کا ارادہ رکھتے ہیں ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ مکہ میں احرام کے ساتھ داخل ہوں۔ ان کے علاوہ جو لوگ اپنی ذاتی ضروریات یا کسی ہنگامی غرض کے پیش نظر مکہ میں آئے ان پر احرام کی پابندی لگانا درست نہیں، چنانچہ رسول اللہ ﷺ فتح مکہ کے وقت مکہ میں احرام کے بغیر داخل ہوئے کیونکہ آپ کے سر مبارک پر خود تھا۔ اگر بحالت احرام ہوتے تو آپ کا سر ننگا ہوتا۔ اس بنا پر کسی ہنگامی ضرورت کے پیش نظر مکے میں داخل ہونے والا احرام سے مستثنیٰ ہے۔ (2) واضح رہے کہ ابن خطل نے ایک مسلمان کو قتل کر دیا تھا۔ اس کے بعد وہ مرتد ہو گیا تو رسول اللہ ﷺ نے حرم پاک میں اسے قتل کرنے کا حکم دیا، چنانچہ حضرت ابو برزہ اسلمی ؓ نے اسے کیفر کردار تک پہنچایا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1794
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1846
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1846
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1846
تمہید کتاب
احرام پہننے کے بعد انسان جب حج یا عمرے کی نیت کرتا ہے تو اسے محرم کہتے ہیں۔ اس محرم پر احرام اور حرم کے حوالے سے کچھ پابندیاں ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے حج اور عمرے کے مسائل و احکام اور آداب و شرائط بیان کرنے کے بعد احرام اور حرم کی پابندیاں بیان کرنے کے لیے مذکورہ عنوان قائم کیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے خانہ کعبہ کو اپنا مقدس گھر قرار دیا ہے، اسی طرح شہر مکہ کو جس میں یہ گھر بیت اللہ واقع ہے، بلد اللہ الحرام قرار دیا ہے۔ گویا دنیا بھر کے گھروں میں جس طرح کعبہ مکرمہ کو اللہ تعالیٰ سے خاص نسبت ہے اسی طرح دنیا بھر کے شہروں میں مکہ مکرمہ کو اللہ تعالیٰ سے خاص نسبت کا شرف حاصل ہے، پھر اس نسبت سے اس کی سمت میں کئی کئی میل کے علاقے کو حرم، یعنی واجب الاحترام قرار دیا گیا ہے اور اس کے خاص آداب و احکام مقرر کیے گئے ہیں۔ اس ادب و احترام کے حوالے سے بہت سے کاموں اور باتوں کی وہاں ممانعت ہے جن کی باقی ساری دنیا میں اجازت ہے، مثلا: ان حدود میں کسی جانور کا شکار کرنے کی اجازت نہیں۔ درخت کاٹنے اور پتے چھاڑنے کی اجازت نہیں۔ اس محترم علاقے میں ان سب چیزوں کو ادب و احترام کے خلاف گناہ گارانہ جسارت قرار دیا گیا ہے۔ گویا پورے علاقۂ حرم کی تعظیم و حرمت اللہ تعالیٰ کے ساتھ بندگی کے صحیح تعلق اور سچی وفاداری کی علامت ہے۔ اسی طرح بیت اللہ میں حاضری کے لیے فقیرانہ لباس، احرام سے متعلق بھی کچھ پابندیاں ہیں جو اسے پہنتے وقت عائد ہو جاتی ہیں، خواہ وہ حدود حرم میں داخل نہ ہوا ہو، جن میں سے ایک شکار کرنے کی ممانعت بھی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَيَبْلُوَنَّكُمُ اللَّـهُ بِشَيْءٍ مِّنَ الصَّيْدِ تَنَالُهُ أَيْدِيكُمْ وَرِمَاحُكُمْ لِيَعْلَمَ اللَّـهُ مَن يَخَافُهُ بِالْغَيْبِ ۚ فَمَنِ اعْتَدَىٰ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَلَهُ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴿٩٤﴾) "اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ ایسے شکار کے ذریعے سے تمہاری آزمائش کرے گا جو تمہارے ہاتھوں اور نیزوں کی زد میں ہوں، یہ دیکھنے کے لیے کہ کون غائبانہ طور پر اللہ سے ڈرتا ہے، پھر اس کے بعد جو حد سے گزر گیا، اس کے لیے دردناک عذاب ہے۔" (المآئدۃ94:5) اس کے بعد اس پابندی کو واضح الفاظ میں بیان فرمایا کہ ایمان والو! تم حالت احرام میں شکار نہ کرو۔امام بخاری رحمہ اللہ نے احرام اور حرم کی پابندیوں کو بیان کرنے کے لیے چھیالیس مرفوع متصل احادیث کا انتخاب کیا ہے، پھر ان پر پابندیوں کے حوالے سے ستائیس چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں، جن سے امام بخاری رحمہ اللہ کی فقہی بصیرت اور اجتہادی قوت کا اندازہ ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ یہ پابندیاں دو حصوں پر مشتمل ہیں: (1) احرام کی پابندیاں: ان میں میدانی شکار کی ممانعت سرفہرست ہے۔ اس حوالے سے امام بخاری رحمہ اللہ نے کچھ تفصیل بیان کی ہے جسے ہم جستہ جستہ بیان کریں گے۔ (2) حرم کی پابندیاں: ان میں حرم کے درخت نہ کاٹے جائیں۔ حرم میں شکار کو خوفزدہ نہ کیا جائے، وہاں جنگ و قتال اور لڑائی جھگڑا نہ کیا جائے۔کچھ جانور ایسے ہیں جنہیں حدود حرم اور حالتِ احرام میں مارنے کی اجازت ہے کیونکہ وہ نقصان دہ اور ضرر رساں ہیں۔ ان کی تفصیل بھی بیان کی گئی ہے۔ عنوان کی مناسبت سے کچھ مسائل کا تذکرہ ہے جن کے متعلق معلومات حاصل کرنا ضروری تھا: مثلا: محرم اگر دوران احرام میں مر جائے تو کیا کیا جائے؟ اگر کسی نے حج بیت اللہ کی نذر مانی ہے لیکن اسے پورا کیے بغیر مر گیا تو اس کے متعلق کیا حکم ہے؟ ایک آدمی پر حج فرض ہے لیکن وہ سواری پر نہیں بیٹھ سکتا اس کے متعلق شرعی حکم کیا ہے؟ بچوں اور عورتوں کے حج کی کیا حیثیت ہے؟ اسی طرح جو ننگے پاؤں پیدل بیت اللہ جانے کی نذر مانتا ہے اسے کس حد تک نذر پوری کرنے کی اجازت ہے؟ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان کے علاوہ دیگر اسنادی مباحث بھی بیان کی ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ان گزارشات کو مدنظر رکھتے ہوئے مطالعہ کریں اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے۔ آمین
تمہید باب
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ مکے سے مدینے جانے کے لیے روانہ ہوئے۔ راستے میں انہیں مدینے میں فتنہ و فساد پھیل جانے کی خبر ملی تو مقام قدید سے واپس آ گئے اور مکہ میں احرام کے بغیر داخل ہوئے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے مکہ اور حرم میں احرام کے بغیر داخل ہونا جائز ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمر ؓاحرام کے بغیر داخل ہوئے اور نبی کریم ﷺنے احرام کا حکم ان ہی لوگوں کو دیا جو حج اور عمرہ کے ارادے سے آئیں۔ لکڑی بیچنے کے لیے آنے والوں اور دیگر لوگوں کو ایسا حکم نہیں دیا۔تشریح : حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کے اس واقعہ کو امام مالک نے موطا میں نافع سے نقل کیا ہے کہ جب عبداللہ بن عمر ؓ ما قدید میں پہنچے تو انہوں نے فساد کی خبر سنی۔ وہ لوٹ گئے اور مکہ میں بغیر احرام کے دخل ہو گئے۔ باب کا مطلب حضرت امام بخاری نے ابن عباس ؓ کی حدیث سے یوں نکالا کہ حدیث میں ذکر ہے جو لوگ حج اور عمرے کا ارادہ رکھتے ہوں ان پر لازم ہے کہ مکہ میں بااحرام داخل ہوں یہاں جو لوگ اپنی ذاتی ضروریات کے لیے مکہ شریف آتے جاتے رہتے ہیں ان کے لیے احرام واجب نہیں۔ امام شافعی کا یہی مسلک ہے مگر حنفیہ مکہ شریف میں داخل ہونے والے کے لیے احرام ضروری قرار دیتے ہیں۔ ابن عبدالبر نے کہا اکثر صحابہ اور تابعین وجوب کے قائل ہیں مگر درایت اور روایت کی بنا پر حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ہی کے مسلک کو ترجیح معلوم ہوتی ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ فتح کے سال جب رسول اللہ ﷺ مکہ میں داخل ہوئے تو آپ کے سر پر خود تھا۔ جس وقت آپ نے اسے اتارا تو ایک شخص نے آپ کو مطلع کیا کہ ابن خطل کعبہ کے پردوں سے چمٹا ہوا ہے، آپ نے فرمایا: ’’اسے قتل کردو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری ؒ کا مقصد ہے کہ جو لوگ حج و عمرے کا ارادہ رکھتے ہیں ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ مکہ میں احرام کے ساتھ داخل ہوں۔ ان کے علاوہ جو لوگ اپنی ذاتی ضروریات یا کسی ہنگامی غرض کے پیش نظر مکہ میں آئے ان پر احرام کی پابندی لگانا درست نہیں، چنانچہ رسول اللہ ﷺ فتح مکہ کے وقت مکہ میں احرام کے بغیر داخل ہوئے کیونکہ آپ کے سر مبارک پر خود تھا۔ اگر بحالت احرام ہوتے تو آپ کا سر ننگا ہوتا۔ اس بنا پر کسی ہنگامی ضرورت کے پیش نظر مکے میں داخل ہونے والا احرام سے مستثنیٰ ہے۔ (2) واضح رہے کہ ابن خطل نے ایک مسلمان کو قتل کر دیا تھا۔ اس کے بعد وہ مرتد ہو گیا تو رسول اللہ ﷺ نے حرم پاک میں اسے قتل کرنے کا حکم دیا، چنانچہ حضرت ابو برزہ اسلمی ؓ نے اسے کیفر کردار تک پہنچایا۔
ترجمۃ الباب:
حضرت ابن عمرؓ احرام کے بغیر مکہ میں داخل ہوئے۔ نبی ﷺنے احرام باندھنے کا حکم صرف اس شخص کو دیا جو حج یا عمرہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہو لیکن لکڑیاں بیچنے والوں اور ان کے علاوہ دوسرے لوگوں کا ذکر نہیں کیا۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں ابن شہاب زہری نے اور انہیں انس بن مالک ؓ نے آکر خبر دی کہ فتح مکہ کے دن رسول کریم ﷺ جب مکہ میں داخل ہوئے تو آپ کے سر پر خود تھا۔ جس وقت آپ نے اتارا تو ایک شخص نے خبر دی کہ ابن خطل کعبہ کے پردوں سے لٹک رہا ہے آپ نے فرمایا کہ اسے قتل کردو۔
حدیث حاشیہ:
ابن خطل کا نام عبداللہ تھا یہ پہلے مسلمان ہو گیا تھا۔ آپ ﷺ نے ایک صحابی کو زکوۃ وصول کرنے کے لیے بھیجا، جس کے ساتھ ایک مسلمان غلام بھی تھا۔ ابن خطل نے اس مسلمان غلام کو کھانا تیار کرنے کا حکم دیا اور خود سو رہا، پھر جاگا تو اس مسلمان غلام نے کھانا تیار نہیں کیا تھا، غصہ میں آکر اس نے اس غلام کو قتل کر ڈالا اور خود اسلام سے پھر گیا۔ دوگانے والی لونڈیاں اس نے رکھی تھیں اور ان سے آنحضرت ﷺ کی ہجو کے گیت گوایا کرتا تھا۔ یہ بدبخت ایسا ازلی دشمن ثابت ہوا کہ اسے کعبہ شریف کے اند رہی قتل کر دیا گیا۔ ابن خطل کو قتل کرنے والے حضرت ابوبرزہ اسلمی ؓ تھے بعض نے حضرت زبیر کو بتلایا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas bin Malik (RA): Allah's Apostle (ﷺ) entered Makkah in the year of its Conquest wearing an Arabian helmet on his head and when the Prophet (ﷺ) took it off, a person came and said, "Ibn Khatal is holding the covering of the Ka’bah (taking refuge in the Ka’bah)." The Prophet (ﷺ) said, "Kill him."