باب : میت کی طرف سے حج اور نذر ادا کرنا اور مرد کسی عورت کے بدلہ میں حج کرسکتا ہے
)
Sahi-Bukhari:
Penalty of Hunting while on Pilgrimage
(Chapter: To perform Hajj on behalf of a dead person. A man can perform Hajj on behalf of a woman)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1852.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ قبیلہ جہینہ کی ایک عورت نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا: میری ماں نے حج کرنے کی نذر مانی تھی۔ مگر اسے حج کیے بغیر موت آگئی ہے۔ آیا میں اس کی طرف سے حج کرسکتی ہوں؟آپ نے فرمایا: ’’ہاں اس کی طرف سے حج کرو۔ مجھے بتاؤ اگر تمھاری ماں کے ذمے قرض ہوتا تو کیا تو اسے ادا کرتی؟اللہ کا حق بھی ادا کرو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ زیادہ لائق ہے کہ اس کا قرض ادا کیا جائے۔‘‘
تشریح:
یہ عنوان تین اجزاء پر مشتمل ہے جن کی تفصیل یہ ہے: ٭ حج بدل، یعنی دوسرے کی طرف سے حج کرنا۔ یہ تو روایت سے ظاہر ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جو شخص خود حج واجب کرنے کی استطاعت رکھتا ہے وہ دوسرے کو نائب نہیں بنا سکتا۔ ٭ میت کی طرف سے نذر کو پورا کرنا، یعنی حقوق واجبہ میت کی طرف سے ادا کیے جائیں کیونکہ میت نے حج کی نذر مانی تھی۔ جب نذر حج کی قضا جائز ہے تو باقی نذروں کی قضا بھی جائز ہو گی۔ ٭ مرد کا عورت کی طرف سے حج کرنا جبکہ روایت میں عورت کا عورت کی طرف سے حج کرنا ثابت ہوتا ہے، تاہم مرد، عورت کی طرف سے بطریق اولیٰ حج کر سکتا ہے کیونکہ مرد کا حج عورت کے حج سے افضل ہے۔ مرد کے حج میں عورت کے حج کی نسبت زیادہ مناسک ہیں، اس لیے جب عورت کا حج عورت کی طرف سے جائز ہے تو مرد کا حج عورت کی طرف سے بطریق اولیٰ جائز ہو گا۔ (2) دراصل امام بخاری ؒ نے ایک روایت کی طرف اشارہ کیا ہے جسے انہوں نے خود ایک دوسرے مقام پر روایت کیا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں: ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا کہ میری بہن نے حج کرنے کی نذر مانی تھی لیکن وہ اسے ادا کرنے سے پہلے فوت ہو گئی ہے۔ (صحیح البخاري، الأیمان والنذور، حدیث:6699) (3) حافظ ابن حجر ؒ کو فتح الباری میں اس حدیث پر بحث کرتے ہوئے سہو ہوا ہے۔ انہوں نے فرمایا: اس حدیث میں ہے: ’’عورت نے اپنے باپ کی طرف سے حج کرنے کے متعلق دریافت کیا۔‘‘ (فتح الباري:84/4) حالانکہ حدیث میں ہے: ’’عورت نے اپنی ماں کی طرف سے حج کرنے کے متعلق پوچھا تھا‘‘ جس حدیث کی طرف حافظ ابن حجر ؒ نے اشارہ کیا ہے وہ آئندہ عنوان کے تحت ذکر ہو گی۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1799
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1852
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1852
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1852
تمہید کتاب
احرام پہننے کے بعد انسان جب حج یا عمرے کی نیت کرتا ہے تو اسے محرم کہتے ہیں۔ اس محرم پر احرام اور حرم کے حوالے سے کچھ پابندیاں ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے حج اور عمرے کے مسائل و احکام اور آداب و شرائط بیان کرنے کے بعد احرام اور حرم کی پابندیاں بیان کرنے کے لیے مذکورہ عنوان قائم کیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے خانہ کعبہ کو اپنا مقدس گھر قرار دیا ہے، اسی طرح شہر مکہ کو جس میں یہ گھر بیت اللہ واقع ہے، بلد اللہ الحرام قرار دیا ہے۔ گویا دنیا بھر کے گھروں میں جس طرح کعبہ مکرمہ کو اللہ تعالیٰ سے خاص نسبت ہے اسی طرح دنیا بھر کے شہروں میں مکہ مکرمہ کو اللہ تعالیٰ سے خاص نسبت کا شرف حاصل ہے، پھر اس نسبت سے اس کی سمت میں کئی کئی میل کے علاقے کو حرم، یعنی واجب الاحترام قرار دیا گیا ہے اور اس کے خاص آداب و احکام مقرر کیے گئے ہیں۔ اس ادب و احترام کے حوالے سے بہت سے کاموں اور باتوں کی وہاں ممانعت ہے جن کی باقی ساری دنیا میں اجازت ہے، مثلا: ان حدود میں کسی جانور کا شکار کرنے کی اجازت نہیں۔ درخت کاٹنے اور پتے چھاڑنے کی اجازت نہیں۔ اس محترم علاقے میں ان سب چیزوں کو ادب و احترام کے خلاف گناہ گارانہ جسارت قرار دیا گیا ہے۔ گویا پورے علاقۂ حرم کی تعظیم و حرمت اللہ تعالیٰ کے ساتھ بندگی کے صحیح تعلق اور سچی وفاداری کی علامت ہے۔ اسی طرح بیت اللہ میں حاضری کے لیے فقیرانہ لباس، احرام سے متعلق بھی کچھ پابندیاں ہیں جو اسے پہنتے وقت عائد ہو جاتی ہیں، خواہ وہ حدود حرم میں داخل نہ ہوا ہو، جن میں سے ایک شکار کرنے کی ممانعت بھی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَيَبْلُوَنَّكُمُ اللَّـهُ بِشَيْءٍ مِّنَ الصَّيْدِ تَنَالُهُ أَيْدِيكُمْ وَرِمَاحُكُمْ لِيَعْلَمَ اللَّـهُ مَن يَخَافُهُ بِالْغَيْبِ ۚ فَمَنِ اعْتَدَىٰ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَلَهُ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴿٩٤﴾) "اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ ایسے شکار کے ذریعے سے تمہاری آزمائش کرے گا جو تمہارے ہاتھوں اور نیزوں کی زد میں ہوں، یہ دیکھنے کے لیے کہ کون غائبانہ طور پر اللہ سے ڈرتا ہے، پھر اس کے بعد جو حد سے گزر گیا، اس کے لیے دردناک عذاب ہے۔" (المآئدۃ94:5) اس کے بعد اس پابندی کو واضح الفاظ میں بیان فرمایا کہ ایمان والو! تم حالت احرام میں شکار نہ کرو۔امام بخاری رحمہ اللہ نے احرام اور حرم کی پابندیوں کو بیان کرنے کے لیے چھیالیس مرفوع متصل احادیث کا انتخاب کیا ہے، پھر ان پر پابندیوں کے حوالے سے ستائیس چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں، جن سے امام بخاری رحمہ اللہ کی فقہی بصیرت اور اجتہادی قوت کا اندازہ ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ یہ پابندیاں دو حصوں پر مشتمل ہیں: (1) احرام کی پابندیاں: ان میں میدانی شکار کی ممانعت سرفہرست ہے۔ اس حوالے سے امام بخاری رحمہ اللہ نے کچھ تفصیل بیان کی ہے جسے ہم جستہ جستہ بیان کریں گے۔ (2) حرم کی پابندیاں: ان میں حرم کے درخت نہ کاٹے جائیں۔ حرم میں شکار کو خوفزدہ نہ کیا جائے، وہاں جنگ و قتال اور لڑائی جھگڑا نہ کیا جائے۔کچھ جانور ایسے ہیں جنہیں حدود حرم اور حالتِ احرام میں مارنے کی اجازت ہے کیونکہ وہ نقصان دہ اور ضرر رساں ہیں۔ ان کی تفصیل بھی بیان کی گئی ہے۔ عنوان کی مناسبت سے کچھ مسائل کا تذکرہ ہے جن کے متعلق معلومات حاصل کرنا ضروری تھا: مثلا: محرم اگر دوران احرام میں مر جائے تو کیا کیا جائے؟ اگر کسی نے حج بیت اللہ کی نذر مانی ہے لیکن اسے پورا کیے بغیر مر گیا تو اس کے متعلق کیا حکم ہے؟ ایک آدمی پر حج فرض ہے لیکن وہ سواری پر نہیں بیٹھ سکتا اس کے متعلق شرعی حکم کیا ہے؟ بچوں اور عورتوں کے حج کی کیا حیثیت ہے؟ اسی طرح جو ننگے پاؤں پیدل بیت اللہ جانے کی نذر مانتا ہے اسے کس حد تک نذر پوری کرنے کی اجازت ہے؟ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان کے علاوہ دیگر اسنادی مباحث بھی بیان کی ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ان گزارشات کو مدنظر رکھتے ہوئے مطالعہ کریں اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے۔ آمین
تمہید باب
تفسیر سے دوسرا حکم باب کی حدیث سے نہیں نکلتا کیوں کہ باب کی حدیث میں یہ بیان ہے کہ عورت نے اپنی ماں کی طرف سے حج کرنے کو پوچھا تھا تو ترجمہ باب یوں ہونا تھا کہ عورت کا عورت کی طرف سے حج کرنا اور حافظ صاحب سے اس مقام پر سہو ہوا انہوں نے کہا کہ باب کی حدیث میں ہے کہ عورت نے اپنے باپ کی طرف سے حج کرنے کو پوچھا جانے پر یہ مطلب اس باب کی حدیث میں نہیں ہے، بلکہ آئندہ باب کی حدیث میں ہے۔ ابن بطال نے کہا کہ آنحضرت ﷺ نے اس حدیث میں امر کے صیغے سے یعنی اقضوا اللہ سے خطاب کیا اس میں مرد عورت سب آگئے اور مر د کا عورت کی طرف سے اور عورت کا مرد کی طرف سے حج کرنا سب کے نزدیک جائز ہے، اس عورت کے نام میں اختلا ف ہے۔ نسائی کی روایت میں سنان بن سلمہ کی بیوی مذکور ہے اور امام احمد کی روایت میں سنان بن عبداللہ کی بیوی بتلایا گیا ہے۔ طبرانی کی روایت سے یہ نکلتا ہے کہ ان کی پھوپھی تھی مگر ابن ہندہ نے صحابیات میں نکالا کہ یہ عورت عانیہ یا غاثیہ نامی تھی ابن طاہر نے مبہمات میں اسی پر جزم کیا ہے۔
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ قبیلہ جہینہ کی ایک عورت نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا: میری ماں نے حج کرنے کی نذر مانی تھی۔ مگر اسے حج کیے بغیر موت آگئی ہے۔ آیا میں اس کی طرف سے حج کرسکتی ہوں؟آپ نے فرمایا: ’’ہاں اس کی طرف سے حج کرو۔ مجھے بتاؤ اگر تمھاری ماں کے ذمے قرض ہوتا تو کیا تو اسے ادا کرتی؟اللہ کا حق بھی ادا کرو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ زیادہ لائق ہے کہ اس کا قرض ادا کیا جائے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
یہ عنوان تین اجزاء پر مشتمل ہے جن کی تفصیل یہ ہے: ٭ حج بدل، یعنی دوسرے کی طرف سے حج کرنا۔ یہ تو روایت سے ظاہر ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جو شخص خود حج واجب کرنے کی استطاعت رکھتا ہے وہ دوسرے کو نائب نہیں بنا سکتا۔ ٭ میت کی طرف سے نذر کو پورا کرنا، یعنی حقوق واجبہ میت کی طرف سے ادا کیے جائیں کیونکہ میت نے حج کی نذر مانی تھی۔ جب نذر حج کی قضا جائز ہے تو باقی نذروں کی قضا بھی جائز ہو گی۔ ٭ مرد کا عورت کی طرف سے حج کرنا جبکہ روایت میں عورت کا عورت کی طرف سے حج کرنا ثابت ہوتا ہے، تاہم مرد، عورت کی طرف سے بطریق اولیٰ حج کر سکتا ہے کیونکہ مرد کا حج عورت کے حج سے افضل ہے۔ مرد کے حج میں عورت کے حج کی نسبت زیادہ مناسک ہیں، اس لیے جب عورت کا حج عورت کی طرف سے جائز ہے تو مرد کا حج عورت کی طرف سے بطریق اولیٰ جائز ہو گا۔ (2) دراصل امام بخاری ؒ نے ایک روایت کی طرف اشارہ کیا ہے جسے انہوں نے خود ایک دوسرے مقام پر روایت کیا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں: ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا کہ میری بہن نے حج کرنے کی نذر مانی تھی لیکن وہ اسے ادا کرنے سے پہلے فوت ہو گئی ہے۔ (صحیح البخاري، الأیمان والنذور، حدیث:6699) (3) حافظ ابن حجر ؒ کو فتح الباری میں اس حدیث پر بحث کرتے ہوئے سہو ہوا ہے۔ انہوں نے فرمایا: اس حدیث میں ہے: ’’عورت نے اپنے باپ کی طرف سے حج کرنے کے متعلق دریافت کیا۔‘‘ (فتح الباري:84/4) حالانکہ حدیث میں ہے: ’’عورت نے اپنی ماں کی طرف سے حج کرنے کے متعلق پوچھا تھا‘‘ جس حدیث کی طرف حافظ ابن حجر ؒ نے اشارہ کیا ہے وہ آئندہ عنوان کے تحت ذکر ہو گی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ وضاح شکری نے بیان کیا، ان سے ابوبشر جعفر بن ایاس نے، ان سے سعید بن جبیر نے اوران سے ابن عباس ؓ نے کہ قبیلہ جہینہ کی ایک عورت نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہا کہ میری والدہ نے حج کی منت مانی تھی لیکن وہ حج نہ کرسکیں اور ان کا انتقال ہو گیا تو کیا میں ان کی طرف سے حج کرسکتی ہوں؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ہاں ان کی طرف سے تو حج کر۔ کیا تمہاری ماں پر قرض ہوتا تو تم اسے ادا نہ کرتیں؟ اللہ تعالیٰ کا قرضہ تو اس کا سب سے زیادہ مستحق ہے کہ اسے پورا کیا جائے۔ پس اللہ تعالیٰ کا قرض ادا کرنا بہت ضروری ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Abbas (RA): A woman from the tribe of Juhaina came to the Prophet (ﷺ) and said, "My mother had vowed to perform Hajj but she died before performing it. May I perform Hajj on my mother's behalf?" The Prophet (ﷺ) replied, "Perform Hajj on her behalf. Had there been a debt on your mother, would you have paid it or not? So, pay Allah's debt as He has more right to be paid."