Sahi-Bukhari:
Penalty of Hunting while on Pilgrimage
(Chapter: Performing Hajj by a woman on behalf of a man)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1855.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ حضرت فضل بن عباس ؓ نبی ﷺ کے پیچھے سواری پر بیٹھے ہوئے تھے کہ قبیلہ خثعم کی ایک عورت آئی۔ حضرت فضل ؓ اس کی طرف دیکھنے لگے اور وہ ان کی طرف دیکھنے لگی تو نبی ﷺ نے حضرت فضل ؓ کا چہرہ دوسری طرف پھیردیا۔ اس عورت نے عرض کیا کہ اللہ کی طرف سے فریضہ حج نے میرے باپ کوبایں حالت پایا۔ کہ وہ بہت بوڑھا ہو چکا ہے اور سواری پر نہیں ٹھہرسکتا۔ کیا میں اس کی طرف سے حج کروں؟آپ نے فرمایا: ’’ہاں‘‘ اور یہ حجۃ الوداع کا واقعہ ہے۔
تشریح:
(1) یہ حدیث مختلف طرق سے مروی ہے۔ کسی روایت میں ہے کہ سوال کرنے والا مرد تھا، اس نے اپنے باپ کے متعلق سوال کیا۔ کسی میں ہے کہ عورت نے سوال کیا۔ کسی روایت میں اپنی ماں کے متعلق سوال کرنا مروی ہے۔ حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں سائل آدمی تھا اور اس کے ساتھ اس کی بیٹی تھی۔ اس نے بھی سوال کیا اور جس کے متعلق سوال کیا گیا وہ باپ اور ماں دونوں تھے۔ اس کی تائید ایک روایت سے ہوتی ہے جس میں حضرت فضل بن عباس ؓ بیان کرتے ہیں: میں رسول اللہ ﷺ کے پیچھے سواری پر بیٹھا ہوا تھا کہ ایک دیہاتی آیا تو اس کے پیچھے اس کی خوبرو بیٹی سوار تھی۔ میں اس کی طرف دیکھنے لگا ۔۔ (مسندأحمد:211/1) اس روایت کے پیش نظر کہا جا سکتا ہے کہ پہلے لڑکی نے اپنے دادا کے متعلق سوال کیا ہو اور اسے لفظ "أبي" سے تعبیر کیا ہو کیونکہ دادا کے لیے باپ کا لفظ بولا جا سکتا ہے۔ پھر اس کے باپ نے خود اپنے والد کے متعلق سوال کیا ہو۔ ممکن ہے کہ اپنی ماں کے متعلق بھی اس نے سوال کیا ہو۔ (فتح الباري:89/4) شیخ البانی ؒ نے ان روایات کو شاذ قرار دیا ہے جن میں یہ ہے کہ سوال کرنے والا مرد تھا۔ (2) واضح رہے کہ عورت، مرد کی طرف سے حج کر سکتی ہے لیکن چند ایک وجوہ سے عورت کا حج منفرد ہوتا ہے: ٭ عورت سلا ہوا کپڑا پہن سکتی ہے۔ ٭ موزے پہن سکتی ہے۔ ٭ اپنا سر چھپا سکتی ہے۔ ٭ تلبیہ کے لیے اونچی آواز نہیں کر سکتی۔ ٭ طواف میں رمل نہیں کر سکتی۔ ٭ اضطباع بھی نہیں کر سکتی۔ ٭ طواف صدر کے ترک پر اس پر دم لازم نہیں۔ ٭ حیض کی وجہ سے طواف زیارت مؤخر کر سکتی ہے اور اس صورت میں اس پر کوئی دم لازم نہیں آتا۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1801
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1855
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1855
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1855
تمہید کتاب
احرام پہننے کے بعد انسان جب حج یا عمرے کی نیت کرتا ہے تو اسے محرم کہتے ہیں۔ اس محرم پر احرام اور حرم کے حوالے سے کچھ پابندیاں ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے حج اور عمرے کے مسائل و احکام اور آداب و شرائط بیان کرنے کے بعد احرام اور حرم کی پابندیاں بیان کرنے کے لیے مذکورہ عنوان قائم کیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے خانہ کعبہ کو اپنا مقدس گھر قرار دیا ہے، اسی طرح شہر مکہ کو جس میں یہ گھر بیت اللہ واقع ہے، بلد اللہ الحرام قرار دیا ہے۔ گویا دنیا بھر کے گھروں میں جس طرح کعبہ مکرمہ کو اللہ تعالیٰ سے خاص نسبت ہے اسی طرح دنیا بھر کے شہروں میں مکہ مکرمہ کو اللہ تعالیٰ سے خاص نسبت کا شرف حاصل ہے، پھر اس نسبت سے اس کی سمت میں کئی کئی میل کے علاقے کو حرم، یعنی واجب الاحترام قرار دیا گیا ہے اور اس کے خاص آداب و احکام مقرر کیے گئے ہیں۔ اس ادب و احترام کے حوالے سے بہت سے کاموں اور باتوں کی وہاں ممانعت ہے جن کی باقی ساری دنیا میں اجازت ہے، مثلا: ان حدود میں کسی جانور کا شکار کرنے کی اجازت نہیں۔ درخت کاٹنے اور پتے چھاڑنے کی اجازت نہیں۔ اس محترم علاقے میں ان سب چیزوں کو ادب و احترام کے خلاف گناہ گارانہ جسارت قرار دیا گیا ہے۔ گویا پورے علاقۂ حرم کی تعظیم و حرمت اللہ تعالیٰ کے ساتھ بندگی کے صحیح تعلق اور سچی وفاداری کی علامت ہے۔ اسی طرح بیت اللہ میں حاضری کے لیے فقیرانہ لباس، احرام سے متعلق بھی کچھ پابندیاں ہیں جو اسے پہنتے وقت عائد ہو جاتی ہیں، خواہ وہ حدود حرم میں داخل نہ ہوا ہو، جن میں سے ایک شکار کرنے کی ممانعت بھی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَيَبْلُوَنَّكُمُ اللَّـهُ بِشَيْءٍ مِّنَ الصَّيْدِ تَنَالُهُ أَيْدِيكُمْ وَرِمَاحُكُمْ لِيَعْلَمَ اللَّـهُ مَن يَخَافُهُ بِالْغَيْبِ ۚ فَمَنِ اعْتَدَىٰ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَلَهُ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴿٩٤﴾) "اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ ایسے شکار کے ذریعے سے تمہاری آزمائش کرے گا جو تمہارے ہاتھوں اور نیزوں کی زد میں ہوں، یہ دیکھنے کے لیے کہ کون غائبانہ طور پر اللہ سے ڈرتا ہے، پھر اس کے بعد جو حد سے گزر گیا، اس کے لیے دردناک عذاب ہے۔" (المآئدۃ94:5) اس کے بعد اس پابندی کو واضح الفاظ میں بیان فرمایا کہ ایمان والو! تم حالت احرام میں شکار نہ کرو۔امام بخاری رحمہ اللہ نے احرام اور حرم کی پابندیوں کو بیان کرنے کے لیے چھیالیس مرفوع متصل احادیث کا انتخاب کیا ہے، پھر ان پر پابندیوں کے حوالے سے ستائیس چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں، جن سے امام بخاری رحمہ اللہ کی فقہی بصیرت اور اجتہادی قوت کا اندازہ ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ یہ پابندیاں دو حصوں پر مشتمل ہیں: (1) احرام کی پابندیاں: ان میں میدانی شکار کی ممانعت سرفہرست ہے۔ اس حوالے سے امام بخاری رحمہ اللہ نے کچھ تفصیل بیان کی ہے جسے ہم جستہ جستہ بیان کریں گے۔ (2) حرم کی پابندیاں: ان میں حرم کے درخت نہ کاٹے جائیں۔ حرم میں شکار کو خوفزدہ نہ کیا جائے، وہاں جنگ و قتال اور لڑائی جھگڑا نہ کیا جائے۔کچھ جانور ایسے ہیں جنہیں حدود حرم اور حالتِ احرام میں مارنے کی اجازت ہے کیونکہ وہ نقصان دہ اور ضرر رساں ہیں۔ ان کی تفصیل بھی بیان کی گئی ہے۔ عنوان کی مناسبت سے کچھ مسائل کا تذکرہ ہے جن کے متعلق معلومات حاصل کرنا ضروری تھا: مثلا: محرم اگر دوران احرام میں مر جائے تو کیا کیا جائے؟ اگر کسی نے حج بیت اللہ کی نذر مانی ہے لیکن اسے پورا کیے بغیر مر گیا تو اس کے متعلق کیا حکم ہے؟ ایک آدمی پر حج فرض ہے لیکن وہ سواری پر نہیں بیٹھ سکتا اس کے متعلق شرعی حکم کیا ہے؟ بچوں اور عورتوں کے حج کی کیا حیثیت ہے؟ اسی طرح جو ننگے پاؤں پیدل بیت اللہ جانے کی نذر مانتا ہے اسے کس حد تک نذر پوری کرنے کی اجازت ہے؟ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان کے علاوہ دیگر اسنادی مباحث بھی بیان کی ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ان گزارشات کو مدنظر رکھتے ہوئے مطالعہ کریں اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے۔ آمین
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ حضرت فضل بن عباس ؓ نبی ﷺ کے پیچھے سواری پر بیٹھے ہوئے تھے کہ قبیلہ خثعم کی ایک عورت آئی۔ حضرت فضل ؓ اس کی طرف دیکھنے لگے اور وہ ان کی طرف دیکھنے لگی تو نبی ﷺ نے حضرت فضل ؓ کا چہرہ دوسری طرف پھیردیا۔ اس عورت نے عرض کیا کہ اللہ کی طرف سے فریضہ حج نے میرے باپ کوبایں حالت پایا۔ کہ وہ بہت بوڑھا ہو چکا ہے اور سواری پر نہیں ٹھہرسکتا۔ کیا میں اس کی طرف سے حج کروں؟آپ نے فرمایا: ’’ہاں‘‘ اور یہ حجۃ الوداع کا واقعہ ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) یہ حدیث مختلف طرق سے مروی ہے۔ کسی روایت میں ہے کہ سوال کرنے والا مرد تھا، اس نے اپنے باپ کے متعلق سوال کیا۔ کسی میں ہے کہ عورت نے سوال کیا۔ کسی روایت میں اپنی ماں کے متعلق سوال کرنا مروی ہے۔ حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں سائل آدمی تھا اور اس کے ساتھ اس کی بیٹی تھی۔ اس نے بھی سوال کیا اور جس کے متعلق سوال کیا گیا وہ باپ اور ماں دونوں تھے۔ اس کی تائید ایک روایت سے ہوتی ہے جس میں حضرت فضل بن عباس ؓ بیان کرتے ہیں: میں رسول اللہ ﷺ کے پیچھے سواری پر بیٹھا ہوا تھا کہ ایک دیہاتی آیا تو اس کے پیچھے اس کی خوبرو بیٹی سوار تھی۔ میں اس کی طرف دیکھنے لگا ۔۔ (مسندأحمد:211/1) اس روایت کے پیش نظر کہا جا سکتا ہے کہ پہلے لڑکی نے اپنے دادا کے متعلق سوال کیا ہو اور اسے لفظ "أبي" سے تعبیر کیا ہو کیونکہ دادا کے لیے باپ کا لفظ بولا جا سکتا ہے۔ پھر اس کے باپ نے خود اپنے والد کے متعلق سوال کیا ہو۔ ممکن ہے کہ اپنی ماں کے متعلق بھی اس نے سوال کیا ہو۔ (فتح الباري:89/4) شیخ البانی ؒ نے ان روایات کو شاذ قرار دیا ہے جن میں یہ ہے کہ سوال کرنے والا مرد تھا۔ (2) واضح رہے کہ عورت، مرد کی طرف سے حج کر سکتی ہے لیکن چند ایک وجوہ سے عورت کا حج منفرد ہوتا ہے: ٭ عورت سلا ہوا کپڑا پہن سکتی ہے۔ ٭ موزے پہن سکتی ہے۔ ٭ اپنا سر چھپا سکتی ہے۔ ٭ تلبیہ کے لیے اونچی آواز نہیں کر سکتی۔ ٭ طواف میں رمل نہیں کر سکتی۔ ٭ اضطباع بھی نہیں کر سکتی۔ ٭ طواف صدر کے ترک پر اس پر دم لازم نہیں۔ ٭ حیض کی وجہ سے طواف زیارت مؤخر کر سکتی ہے اور اس صورت میں اس پر کوئی دم لازم نہیں آتا۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، ان سے امام مالک نے، ان سے ابن شہاب زہری نے، ان سے سلیمان بن یسار نے، ان سے عبداللہ بن عباس ؓ نے بیان کیا کہ فضل بن عباس ؓ رسول اللہ ﷺ کی سواری پر پیچھے بیٹھے ہوئے تھے۔ اتنے میں قبیلہ خشعم کی ایک عورت آئی۔ فضل ؓ اس کو دیکھنے لگے اور وہ فضل ؓ کو دیکھنے لگی۔ اس لیے نبی کریم ﷺ فضل کا چہرہ دوسری طرف پھیرنے لگے، اس عورت نے کہا کہ اللہ کا فریضہ (حج ) نے میرے بوڑھے والد کو اس حالت میں پالیا ہے کہ وہ سواری پر بیٹھ بھی نہیں سکتے تو کیا میں ان کی طرف سے حج کرسکتی ہوں، آپ نے فرمایا کہ ہاں۔ یہ حجۃ الوداع کا واقعہ ہے۔
حدیث حاشیہ:
اس عورت کا نام معلوم نہیں ہوا اس حدیث سے یہ نکلا کہ زندہ آدمی کی طرف سے بھی اگر وہ معذور ہو جائے دوسرا آدمی حج کرسکتا ہے اور یہ بھی ظاہر ہوا کہ ایسا حج بدل مرد کی طرف سے عورت بھی کرسکتی ہے۔ حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں: وَفِي هَذَا الْحَدِيثِ مِنَ الْفَوَائِدِ جَوَازُ الْحَجِّ عَنِ الْغَيْرِ وَاسْتدلَّ الْكُوفِيُّونَ بِعُمُومِهِ على جَوَاز صِحَة حج مَنْ لَمْ يَحُجَّ نِيَابَةً عَنْ غَيْرِهِ وَخَالَفَهُمُ الْجُمْهُورُ فَخَصُّوهُ بِمَنْ حَجَّ عَنْ نَفْسِهِ وَاسْتَدَلُّوا بِمَا فِي السّنَن وصحيح بن خُزَيْمَة وَغَيره من حَدِيث بن عَبَّاسٍ أَيْضًا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى رَجُلًا يُلَبِّي عَنْ شُبْرُمَةَ فَقَالَ أَحَجَجْتَ عَنْ نَفْسِكَ فَقَالَ لَا قَالَ هَذِهِ عَنْ نَفْسِكَ ثُمَّ احْجُجْ عَنْ شُبْرُمَةَ الخ۔(فتح الباري)یعنی اس حدیث کے فوائد میں سے ہے کہ غیر کی طرف سے حج کرنا جائز ہے اور کوفیوں نے اس کے عموم سے دلیل لی ہے کہ نیابت میں اس کا حج بھی درست ہے جس نے پہلے اپنا حج نہ کیا ہو اورجمہور نے ان کے خلاف کہا ہے انہوں نے اس کے لیے اسی کو خاص کیا ہے جو پہلے اپنا ذاتی حج کر چکا ہو اور انہوں نے اس حدیث سے دلیل پکڑی ہے جسے اصحاب سنن اور ابن خزیمہ وغیرہم نے حدیث ابن عباس ؓ سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ شبرمہ کی طرف سے لبیک پکار رہا ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا شبرمہ کون ہے اس نے اس کو بتلایا، پھر آپ نے پوچھا کہ کیا تو پہلے اپنا ذاتی حج کر چکا ہے، اس نے نفی میں جواب دیا تو آپ ﷺ نے فرمایا پہلے اپنا حج کر پھر شبرمہ کا حج کرنا۔ اس حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ حج بدل جس سے کرایا جائے ضروری ہے کہ وہ شخص پہلے اپنا حج کرچکا ہو حافظ ابن حجر فرماتے ہیں وَفِيهِ أَنَّ مَنْ مَاتَ وَعَلَيْهِ حَجٌّ وَجَبَ عَلَى وَلِيِّهِ أَنْ يُجَهِّزَ مَنْ يَحُجُّ عَنْهُ مِنْ رَأْسِ مَالِهِ كَمَا أَنَّ عَلَيْهِ قَضَاءَ دُيُونِهِ فَقَدْ أَجْمَعُوا عَلَى أَنَّ دَيْنَ الْآدَمِيِّ مِنْ رَأْسِ الْمَالِ فَكَذَلِكَ مَا شُبِّهَ بِهِ فِي الْقَضَاءِ وَيَلْتَحِقُ بِالْحَجِّ كُلُّ حَقٍّ ثَبَتَ فِي ذِمَّتِهِ مِنْ كَفَّارَةٍ أَوْ نَذْرٍ أَوْ زَكَاةٍ أَوْ غَيْرِ ذَلِكَ الخ(فتح الباري) یعنی اس میں یہ بھی ہے کہ جو شخص وفات پائے اور اس پر حج واجب ہو تو وارثوں کا فرض ہے کہ اس کے اصل مال سے کسی دوسرے کو حج بدل کے لیے تیار کرکے بھیجیں۔ یہ ایسا ہی ضروری ہے جیسا کہ اس کے قرض کی ادائیگی ضروری ہے اور کفارہ اور نذر اور زکوۃ وغیرہ کی جواس کے ذمہ واجب ہو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin 'Abbas (RA): Al-Fadl was riding behind the Prophet (ﷺ) and a woman from the tribe of Khath'am came up. Al-Fadl started looking at her and she looked at him. The Prophet (ﷺ) turned Al-Fadl's face to the other side. She said, "My father has come under Allah's obligation of performing Hajj but he is a very old man and cannot sit properly on his Mount. Shall I perform Hajj on his behalf? The Prophet (ﷺ) replied in the affirmative. That happened during Hajjat-ul-wada' of the Prophet (ﷺ) .