Sahi-Bukhari:
Fasting
(Chapter: The superiority of As-Saum (the fasting))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1894.
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’روزہ ایک ڈھال ہے لہذا روزے دار کو چاہیے کہ وہ نہ تو فحش کلامی کرے اور نہ جاہلوں ہی جیسا کوئی کام کرے۔ ہاں اگر کوئی شخص اس سے لڑے یا اسے گالی دے تو اس کو دو مرتبہ کہہ دے کہ میں روزے سے ہوں۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک کستوری کی خوشبوسے زیادہ بہتر ہے۔ (اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ) روزہ دار ا پنا کھانا۔ پینا اور اپنی خواہشات میرے لیے چھوڑنا ہے۔ لہذا روزہ میرے ہی لیے ہے اور میں ہی اس کابدلہ دوں گا اور ہر نیکی کا ثواب دس گنا ہے۔‘‘
تشریح:
(1) یہ حدیث کئی ایک اعتبار سے روزے کی فضیلت پر دلالت کرتی ہے: ایک تو یہ کہ روزہ ڈھال ہے۔ ایک قلعہ، روایت میں ہے کہ روزہ جہنم کی آگ سے ڈھال ہے۔ (جامع الترمذي، الصوم، حدیث:764) مسند امام احمد کی روایت میں روزے کو ایک مضبوط قلعہ قرار دیا گیا ہے۔ (مسندأحمد:402/2) اس کے یہ معنی بھی ہیں کہ روزہ گناہوں سے بچنے کے لیے ڈھال کا کام دیتا ہے۔ جب انسان روزہ دار ہوتا ہے تو شیطان کے وار سے محفوظ ہو جاتا ہے۔ دوسری وجہ فضیلت یہ ہے کہ اللہ کے ہاں روزہ دار کے منہ کی بو کو کستوری کی خوشبو سے زیادہ بہتر کہا گیا ہے جبکہ دوسری احادیث میں خون شہید کو مشک کہا گیا ہے، حالانکہ شہید اللہ کی راہ میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ روزہ اسلام کا رکن اور فرض عین ہے جبکہ جہاد فرض کفایہ ہے۔ مذکورہ فرق اسی وجہ سے ہے۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ روزے کے عمل کو خاص طور پر اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف منسوب کیا ہے، حالانکہ عبادت ہر قسم کی اللہ ہی کے لیے ہوتی ہے۔ یہ اس لیے کہ روزہ ایسا عمل ہے جس پر لوگ مطلع نہیں ہو سکتے۔ اس میں ریاکاری کے امکان کم ہوتے ہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ جب اس عمل کا ثواب دے گا تو اعداد و شمار کے بغیر بے حد و حساب ثواب عنایت کرے گا۔ (2) روزہ دار کی جزا خود اللہ تعالیٰ عنایت فرمائے گا جبکہ دوسرے اعمال کی جزا فرشتوں کی وساطت سے دی جاتی ہے۔ بہرحال اس حدیث میں کئی ایک پہلوؤں سے روزے کی فضیلت کو بیان کیا گیا ہے۔ امام بخاری ؒ کا مقصود بھی روزے کی فضیلت کو ثابت کرنا ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1840
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1894
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1894
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1894
تمہید کتاب
عربی زبان میں روزے کے لیے صوم کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ لغوی طور پر اس کے معنی رک جانا ہیں، یعنی کھانے پینے، بولنے، جماع کرنے یا چلنے سے رک جانا۔ شرعی تعریف یہ ہے کہ مخصوص شرائط کے ساتھ مخصوص ایام میں مخصوص اشیاء سے مخصوص وقت میں رک جانا کا نام صوم ہے۔ دوسرے لفظوں میں عبادت کی نیت سے طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کھانے، پینے اور ازدواجی تعلقات سے باز رہنے کا نام روزہ ہے۔دراصل انسان کو اللہ تعالیٰ نے روحانیت اور حیوانیت سے مرکب بنایا ہے۔ اس کی طبیعت میں وہ سارے مادی اور سفلی تقاضے بھی ہیں جو دوسرے حیوانوں میں ہوتے ہیں اور اس کی فطرت میں روحانیت کا وہ نورانی جوہر بھی ہے جو فرشتوں کے لیے خاص غذا اور دولت ہے۔ انسان کی سعادت کا دارومدار اسی پر ہے کہ اس کا روحانی عنصر، حیوانی عنصر پر غالب رہے اور اسے حدود کا پابند رکھے جو اللہ تعالیٰ نے اس پر عائد کی ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ انسان کا حیوانی پہلو اس کے روحانی پہلو کا فرمانبردار اور اطاعت شعار ہو جائے اور اس کے مقابلے میں سرکشی اور بغاوت نہ کرے۔ روزے کا مقصد بھی یہی ہے کہ اس کے ذریعے سے انسان کی حیوانیت کو کنٹرول کیا جائے اور اسے شرعی احکام کی پابندی، نیز ایمانی اور روحانی تقاضوں کی فرمانبرداری کا عادی بنایا جائے۔ روزہ چونکہ انسان کی حیوانی قوت کو اس کی روحانی قوت کے تابع رکھنے اور اللہ کے احکام کے مقابلے میں خواہشات نفس اور تقاضائے شہوت کو دبانے کی عادت ڈالنے کا خاص ذریعہ ہے، اس لیے سابقہ امتوں کو بھی اس کا حکم دیا گیا تھا۔ اگرچہ روزوں کی مدت اور دوسرے تفصیلی احکام میں خاص حالات و ضروریات کے لحاظ سے کچھ فرق بھی تھا، تاہم مقصد میں یکسانیت ضرور تھی جسے اللہ تعالیٰ نے بایں الفاظ بیان کیا ہے (لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ) "تاکہ تم تقویٰ شعار بن جاؤ۔" (البقرۃ183:2)اس امت کے لیے سال میں ایک ماہ کے روزے فرض کیے گئے اور روزے کا وقت طلوع سحر سے غروب آفتاب تک رکھا گیا۔ بلاشبہ یہ مدت اور یہ وقت مذکورہ بالا مقصد کے حصول کے لیے نہایت معتدل اور مناسب ہے کیونکہ اس سے کم مدت میں نفس کی تربیت کا مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ اور اگر وقت اس سے زیادہ رکھا جاتا تو اکثریت کے لیے ناقابل برداشت ہوتا۔ بہرحال طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کا وقت اور سال میں ایک مہینے کی مدت عام انسان کے حالات و ظروف کے اعتبار سے مقصد تربیت کے لیے بالکل مناسب اور متعدل ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کے تحت ایک سو ستاون احادیث ذکر کیں ہیں، پھر ان احادیث پر ستر کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے روزے کے متعلق متعدد احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ ہم چند ایک کا بطور نمونہ ذکر کرتے ہیں۔وجوب روزہ، فضیلت روزہ، ماہ رمضان میں سخاوت کرنا، روزے کی ابتدا اور انتہائے سحری کے مسائل، اس کا وقت، بحالت جنابت روزہ رکھنا، دن کے وقت روزے کی نیت کرنا، دوران روزہ بیوی سے بوس و کنار کرنا، بحالت روزہ غسل کرنا، بھول کر کھا پی لینا، دوران روزہ تازہ یا خشک مسواک کرنا، بحالت روزہ بیوی سے جماع اور اس کا کفارہ، روزے کی حالت میں سنگی لگوانا یا قے کرنا، دوران سفر میں روزے رکھنا، روزے کی قضا کا وقت، حائضہ عورت کے لیے روزے کے احکام، افطاری کے مسائل، افطاری کے بعد اگر سورج نظر آ جائے، وصال کی شرعی حیثیت، نفلی روزے اور اسوۂ نبوی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مذکورہ مسائل اور دیگر احکام براہ راست احادیث سے اخذ کیے ہیں، جن سے امام صاحب کی بصیرت و فراست کا پتہ چلتا ہے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک سو ستاون احادیث بیان کی ہیں جن میں چھتیس معلق اور باقی موصول ہیں، ان میں اڑسٹھ مکرر اور خالص نواسی احادیث ہیں۔ پچیس احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔ احادیث کے علاوہ تقریبا ساٹھ آثار بھی بیان کیے ہیں جو متعدد صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی ہیں۔ ان میں اکثر معلق اور چند موصول ہیں۔واضح رہے کہ اس مہینے کو رمضان اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس کے معنی جلنے کے ہیں اور جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تھے اس وقت سخت گرمی تھی، اس لیے یہ مہینہ رمضان سے موسوم ہوا، نیز اس ماہ میں روزہ رکھنے والوں کے گناہ جل جاتے ہیں۔ عورت، مریض اور مسافر کے لیے کچھ رعایت بھی ہے جس کا آئندہ تفصیل سے ذکر ہو گا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ماہ رمضان کے روزوں کا بیان ارکان اسلام کے آخر میں کیا ہے، اس کے متعلق علامہ عینی نے لکھا ہے کہ قبل ازیں کتاب الزکاۃ کے بعد کتاب الحج کو ذکر کیا کیونکہ ان دونوں میں مال خرچ ہوتا ہے، اب روزے کے احکام کے لیے اور کوئی محل نہیں تھا، اس لیے ان کے احکام و مسائل کو آخر میں بیان کیا ہے۔ (عمدۃالقاری:8/3) قارئین کرام سے استدعا ہے کہ وہ امام بخاری رحمہ اللہ کے قائم کردہ عناوین اور پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کرتے وقت ہماری ان گزارشات کو ضرور پیش نظر رکھیں، اس سے حضرت امام کی فقہی بصیرت اور قوت استنباط اور دقت نظر کا اندازہ ہو گا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان احادیث پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے اور قیامت کے دن ہمیں زمرۂ محدثین میں اٹھائے۔ آمین یا رب العالمین
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’روزہ ایک ڈھال ہے لہذا روزے دار کو چاہیے کہ وہ نہ تو فحش کلامی کرے اور نہ جاہلوں ہی جیسا کوئی کام کرے۔ ہاں اگر کوئی شخص اس سے لڑے یا اسے گالی دے تو اس کو دو مرتبہ کہہ دے کہ میں روزے سے ہوں۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک کستوری کی خوشبوسے زیادہ بہتر ہے۔ (اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ) روزہ دار ا پنا کھانا۔ پینا اور اپنی خواہشات میرے لیے چھوڑنا ہے۔ لہذا روزہ میرے ہی لیے ہے اور میں ہی اس کابدلہ دوں گا اور ہر نیکی کا ثواب دس گنا ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) یہ حدیث کئی ایک اعتبار سے روزے کی فضیلت پر دلالت کرتی ہے: ایک تو یہ کہ روزہ ڈھال ہے۔ ایک قلعہ، روایت میں ہے کہ روزہ جہنم کی آگ سے ڈھال ہے۔ (جامع الترمذي، الصوم، حدیث:764) مسند امام احمد کی روایت میں روزے کو ایک مضبوط قلعہ قرار دیا گیا ہے۔ (مسندأحمد:402/2) اس کے یہ معنی بھی ہیں کہ روزہ گناہوں سے بچنے کے لیے ڈھال کا کام دیتا ہے۔ جب انسان روزہ دار ہوتا ہے تو شیطان کے وار سے محفوظ ہو جاتا ہے۔ دوسری وجہ فضیلت یہ ہے کہ اللہ کے ہاں روزہ دار کے منہ کی بو کو کستوری کی خوشبو سے زیادہ بہتر کہا گیا ہے جبکہ دوسری احادیث میں خون شہید کو مشک کہا گیا ہے، حالانکہ شہید اللہ کی راہ میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ روزہ اسلام کا رکن اور فرض عین ہے جبکہ جہاد فرض کفایہ ہے۔ مذکورہ فرق اسی وجہ سے ہے۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ روزے کے عمل کو خاص طور پر اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف منسوب کیا ہے، حالانکہ عبادت ہر قسم کی اللہ ہی کے لیے ہوتی ہے۔ یہ اس لیے کہ روزہ ایسا عمل ہے جس پر لوگ مطلع نہیں ہو سکتے۔ اس میں ریاکاری کے امکان کم ہوتے ہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ جب اس عمل کا ثواب دے گا تو اعداد و شمار کے بغیر بے حد و حساب ثواب عنایت کرے گا۔ (2) روزہ دار کی جزا خود اللہ تعالیٰ عنایت فرمائے گا جبکہ دوسرے اعمال کی جزا فرشتوں کی وساطت سے دی جاتی ہے۔ بہرحال اس حدیث میں کئی ایک پہلوؤں سے روزے کی فضیلت کو بیان کیا گیا ہے۔ امام بخاری ؒ کا مقصود بھی روزے کی فضیلت کو ثابت کرنا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، ان سے امام مالک نے، ان سے ابوالزناد نے، ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا روزہ دوزخ سے بچنے کے لیے ایک ڈھال ہے اس لیے (روزہ دار ) نہ فحش باتیں کرے اور نہ جہالت کی باتیں اور اگر کوئی شخص اس سے لڑے یا اسے گالی دے تو اس کا جواب صرف یہ ہوناچاہئے کہ میں روزہ دار ہوں، (یہ الفاظ ) دو مرتبہ (کہہ دے ) اس ذات کی قسم ! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی زیادہ پسندیدہ اور پاکیزہ ہے، (اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ) بندہ اپنا کھانا پینا اور اپنی شہوت میرے لیے چھوڑ دیتا ہے، روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا اور (دوسری ) نیکیوں کا ثواب بھی اصل نیکی کے دس گنا ہوتا ہے۔
حدیث حاشیہ:
جہالت کی باتیں مثلاً ٹھٹھا مذاق، بیہودہ جھوٹ اور لغو باتیں اور چیخنا چلانا، غل مچانا۔ سعید بن منصور کی روایت میں یوں ہے کہ فحش نہ بکے نہ کسی سے جھگڑے۔ ابو الشیخ نے ایک ضعیف حدیث میں نکالا کہ روزے دار جب قبروں میں سے اٹھیں گے تو اپنے منہ کی بو سے پہچان لئے جائیں گے اور ان کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک مشک سے بھی زیادہ خوشبودار ہوگی۔ ابن علام نے کہا کہ دنیا ہی میں روزہ دار کے منہ کى بو اللہ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بہتر ہے اور روزہ ایک ایسا عمل ہے جس میں ریا و نمود کو دخل نہیں ہوتا۔ آدمی خالص خدا ہی کے ڈر سے اپنی تمام خواہشیں چھوڑ دیتا ہے۔ اس وجہ سے روزہ خاص اس کی عبادت ہے اور اس کا ثواب بہت ہی بڑا ہے بشرطیکہ روزہ حقیقی روزہ ہو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): Allah's Apostle (ﷺ) said, "Fasting is a shield (or a screen or a shelter). So, the person observing fasting should avoid sexual relation with his wife and should not behave foolishly and impudently, and if somebody fights with him or abuses him, he should tell him twice, 'I am fasting." The Prophet (ﷺ) added, "By Him in Whose Hands my soul is, the smell coming out from the mouth of a fasting person is better in the sight of Allah than the smell of musk. (Allah says about the fasting person), 'He has left his food, drink and desires for My sake. The fast is for Me. So I will reward (the fasting person) for it and the reward of good deeds is multiplied ten times."