باب : نبی کریم ﷺ کا ارشاد جب تم ( رمضان کا ) چاند دیکھو تو روزے رکھو اور جب شوال کا چاند دیکھو تو روزے رکھنا چھوڑ دو
)
Sahi-Bukhari:
Fasting
(Chapter: "Start observing Saum on seeing the crescent of Ramadan, and stop on seeing the crescent (of Shawwal).")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور صلہ نے عمار ؓ سے بیان کیا کہ جس نے شک کے دن روزہ رکھا تو اس نے حضرت ابوالقاسم ﷺکی نافرمانی کی۔
1908.
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ ہی سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’مہینہ اس طرح اور اس طرح ہوتا ہے۔ تیسری مرتبہ آپ نے انگوٹھا دبا لیا، یعنی انتیس دن کا بھی ہوتا ہے۔‘‘
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1854
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1908
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1908
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1908
تمہید کتاب
عربی زبان میں روزے کے لیے صوم کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ لغوی طور پر اس کے معنی رک جانا ہیں، یعنی کھانے پینے، بولنے، جماع کرنے یا چلنے سے رک جانا۔ شرعی تعریف یہ ہے کہ مخصوص شرائط کے ساتھ مخصوص ایام میں مخصوص اشیاء سے مخصوص وقت میں رک جانا کا نام صوم ہے۔ دوسرے لفظوں میں عبادت کی نیت سے طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کھانے، پینے اور ازدواجی تعلقات سے باز رہنے کا نام روزہ ہے۔دراصل انسان کو اللہ تعالیٰ نے روحانیت اور حیوانیت سے مرکب بنایا ہے۔ اس کی طبیعت میں وہ سارے مادی اور سفلی تقاضے بھی ہیں جو دوسرے حیوانوں میں ہوتے ہیں اور اس کی فطرت میں روحانیت کا وہ نورانی جوہر بھی ہے جو فرشتوں کے لیے خاص غذا اور دولت ہے۔ انسان کی سعادت کا دارومدار اسی پر ہے کہ اس کا روحانی عنصر، حیوانی عنصر پر غالب رہے اور اسے حدود کا پابند رکھے جو اللہ تعالیٰ نے اس پر عائد کی ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ انسان کا حیوانی پہلو اس کے روحانی پہلو کا فرمانبردار اور اطاعت شعار ہو جائے اور اس کے مقابلے میں سرکشی اور بغاوت نہ کرے۔ روزے کا مقصد بھی یہی ہے کہ اس کے ذریعے سے انسان کی حیوانیت کو کنٹرول کیا جائے اور اسے شرعی احکام کی پابندی، نیز ایمانی اور روحانی تقاضوں کی فرمانبرداری کا عادی بنایا جائے۔ روزہ چونکہ انسان کی حیوانی قوت کو اس کی روحانی قوت کے تابع رکھنے اور اللہ کے احکام کے مقابلے میں خواہشات نفس اور تقاضائے شہوت کو دبانے کی عادت ڈالنے کا خاص ذریعہ ہے، اس لیے سابقہ امتوں کو بھی اس کا حکم دیا گیا تھا۔ اگرچہ روزوں کی مدت اور دوسرے تفصیلی احکام میں خاص حالات و ضروریات کے لحاظ سے کچھ فرق بھی تھا، تاہم مقصد میں یکسانیت ضرور تھی جسے اللہ تعالیٰ نے بایں الفاظ بیان کیا ہے (لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ) "تاکہ تم تقویٰ شعار بن جاؤ۔" (البقرۃ183:2)اس امت کے لیے سال میں ایک ماہ کے روزے فرض کیے گئے اور روزے کا وقت طلوع سحر سے غروب آفتاب تک رکھا گیا۔ بلاشبہ یہ مدت اور یہ وقت مذکورہ بالا مقصد کے حصول کے لیے نہایت معتدل اور مناسب ہے کیونکہ اس سے کم مدت میں نفس کی تربیت کا مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ اور اگر وقت اس سے زیادہ رکھا جاتا تو اکثریت کے لیے ناقابل برداشت ہوتا۔ بہرحال طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کا وقت اور سال میں ایک مہینے کی مدت عام انسان کے حالات و ظروف کے اعتبار سے مقصد تربیت کے لیے بالکل مناسب اور متعدل ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کے تحت ایک سو ستاون احادیث ذکر کیں ہیں، پھر ان احادیث پر ستر کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے روزے کے متعلق متعدد احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ ہم چند ایک کا بطور نمونہ ذکر کرتے ہیں۔وجوب روزہ، فضیلت روزہ، ماہ رمضان میں سخاوت کرنا، روزے کی ابتدا اور انتہائے سحری کے مسائل، اس کا وقت، بحالت جنابت روزہ رکھنا، دن کے وقت روزے کی نیت کرنا، دوران روزہ بیوی سے بوس و کنار کرنا، بحالت روزہ غسل کرنا، بھول کر کھا پی لینا، دوران روزہ تازہ یا خشک مسواک کرنا، بحالت روزہ بیوی سے جماع اور اس کا کفارہ، روزے کی حالت میں سنگی لگوانا یا قے کرنا، دوران سفر میں روزے رکھنا، روزے کی قضا کا وقت، حائضہ عورت کے لیے روزے کے احکام، افطاری کے مسائل، افطاری کے بعد اگر سورج نظر آ جائے، وصال کی شرعی حیثیت، نفلی روزے اور اسوۂ نبوی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مذکورہ مسائل اور دیگر احکام براہ راست احادیث سے اخذ کیے ہیں، جن سے امام صاحب کی بصیرت و فراست کا پتہ چلتا ہے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک سو ستاون احادیث بیان کی ہیں جن میں چھتیس معلق اور باقی موصول ہیں، ان میں اڑسٹھ مکرر اور خالص نواسی احادیث ہیں۔ پچیس احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔ احادیث کے علاوہ تقریبا ساٹھ آثار بھی بیان کیے ہیں جو متعدد صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی ہیں۔ ان میں اکثر معلق اور چند موصول ہیں۔واضح رہے کہ اس مہینے کو رمضان اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس کے معنی جلنے کے ہیں اور جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تھے اس وقت سخت گرمی تھی، اس لیے یہ مہینہ رمضان سے موسوم ہوا، نیز اس ماہ میں روزہ رکھنے والوں کے گناہ جل جاتے ہیں۔ عورت، مریض اور مسافر کے لیے کچھ رعایت بھی ہے جس کا آئندہ تفصیل سے ذکر ہو گا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ماہ رمضان کے روزوں کا بیان ارکان اسلام کے آخر میں کیا ہے، اس کے متعلق علامہ عینی نے لکھا ہے کہ قبل ازیں کتاب الزکاۃ کے بعد کتاب الحج کو ذکر کیا کیونکہ ان دونوں میں مال خرچ ہوتا ہے، اب روزے کے احکام کے لیے اور کوئی محل نہیں تھا، اس لیے ان کے احکام و مسائل کو آخر میں بیان کیا ہے۔ (عمدۃالقاری:8/3) قارئین کرام سے استدعا ہے کہ وہ امام بخاری رحمہ اللہ کے قائم کردہ عناوین اور پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کرتے وقت ہماری ان گزارشات کو ضرور پیش نظر رکھیں، اس سے حضرت امام کی فقہی بصیرت اور قوت استنباط اور دقت نظر کا اندازہ ہو گا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان احادیث پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے اور قیامت کے دن ہمیں زمرۂ محدثین میں اٹھائے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
اس روایت کو ابوداود، ترمذی، نسائی، ابن خزیمہ، ابن حبان اور امام حاکم رحمہم اللہ نے اپنی متصل سند سے بیان کیا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں: ہم حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کے پاس تھے کہ ان کے ہاں ایک بھنی ہوئی بکری لائی گئی تو انہوں نے اس کے کھانے کا حکم دیا۔ کچھ لوگوں نے کہا کہ ہم روزے سے ہیں۔ انہوں نے اس کے کھانے سے پرہیز کیا تو حضرت عمار رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جس نے شک کا روزہ رکھا اس نے ابو القاسم صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کی۔ (سنن ابی داؤد،الصیام،حدیث:2334) ایک روایت میں ہے کہ آپ نے اس شخص سے کہا اگر تو اللہ پر ایمان اور آخرت پر یقین رکھتا ہے تو آ اور کھا۔ (المصنف لابن ابی شیبۃ(بتحقیق محمد عوامہ)،ح:2334وفتح الباری:4/155) شک کا دن وہ ہے جس میں ایسے لوگ چاند نظر آنے کی گواہی دیں جن کی عدالت ناقص ہو اور چاند کے متعلق ان کی گواہی غیر معتبر ہو یا لوگوں کی زبان پر چاند دیکھنے کا چرچا ہو مگر انہوں نے خود اسے نہ دیکھا ہو۔ ایسے دن کا روزہ رکھنا حرام ہے۔ واضح رہے کہ چاند دیکھ کر روزہ رکھنے کا تعلق انتیس تاریخ سے ہے کیونکہ تیسویں تاریخ کو چاند نظر آئے یا نہ آئے اس دن تو مہینہ پورا ہو ہی جاتا ہے۔ شک کے روزے کا تعلق بھی 29 ویں تاریخ سے ہے، اس لیے کہ تیسویں تاریخ کو شک و شبہ دور ہو جاتا ہے۔
اور صلہ نے عمار ؓ سے بیان کیا کہ جس نے شک کے دن روزہ رکھا تو اس نے حضرت ابوالقاسم ﷺکی نافرمانی کی۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ ہی سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’مہینہ اس طرح اور اس طرح ہوتا ہے۔ تیسری مرتبہ آپ نے انگوٹھا دبا لیا، یعنی انتیس دن کا بھی ہوتا ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
جناب صلہ حضرت عمار ؓ سے بیان کرتے ہیں کہ جس نے شک کے دن کا روزہ رکھا اس نے ابو القاسم ﷺ کی نافرمانی کی۔
وضاحت: شک کا دن وہ ہے جس میں ایسے لوگ چاند نظر آنے کی گواہی دیں جن کی عدالت ناقص ہو اورچاند کے متعلق ان کی گواہی غیرمعتبر ہو یا لوگوں کی زبان پر چاند دیکھنے کا چرچا ہو مگر انھوں نے خود اسے نہ دیکھا ہو۔ ایسے دن کا روزہ رکھنا حرام ہے۔ واضح رہے کہ چاند دیکھ کر روزہ رکھنے کا تعلق انتیس(29) تاریخ سے ہے کیونکہ تیسویں(30) تاریخ کو چاند نظر آئے یا نہ آئے اس دن تو مہینہ پورا ہوہی جاتاہے۔ شک کے روزے کا تعلق بھی 29 ویں تاریخ سے ہے، اس لیےکہ 30ویں تاریخ کو شک وشبہ دور ہوجاتا ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے جبلہ بن سحیم نے بیان کیا، کہ میں نے ابن عمر ؓ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مہینہ اتنے دنوں اور اتنے دنوں کا ہوتا ہے۔ تیسری مرتبہ کہتے ہوئے آپ نے انگھوٹے کو دبا لیا۔
حدیث حاشیہ:
مراد یہ کہ کبھی تیس دن اور کبھی انتیس دن کا مہینہ ہوتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Umar (RA): The Prophet (ﷺ) said, "The month is like this and this," (at the same time he showed the fingers of both his hands thrice) and left out one thumb on the third time.