Sahi-Bukhari:
Fasting
(Chapter: The two months of Eid do not decrease)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
امام بخارینے کہا کہ اسحاق بن راہویہ نے ( اس کی تشریح میں ) کہا کہ اگر یہ کم بھی ہوں پھر بھی ( اجر کے اعتبار سے ) تیس دن کا ثواب ملتا ہے محمد بن سیرین نے کہا ( مطلب یہ ہے ) کہ دونوں ایک سال میں ناقص ( انتیس انتیس دن کے ) نہیں ہوسکتے۔تشریح : حضرت امام بخاری نے اسحاق اور ابن سیرین کے قول نقل کرکے اس حدیث کی تفسیر کردی، امام احمد نے فرمایا ہے قاعدہ یہ ہے کہ اگر رمضان 29 دن کا ہو تو ذی الحجہ30 دن کا ہوتا ہے، اگر ذی الحجہ30دن کا ہو تو رمضان29دن کا ہوتا ہے، مگر اس تفسیر میں بہ قاعدہ نجوم شبہ رہتا ہے۔ بعض سال ایسے بھی ہوتے ہیں کہ رمضان اور ذی الحجہ29دن کے ہوتے ہیں اس لیے صحیح اسحق بن راہویہ کی تفسیر ہے۔ امام بخاری نے اسی لیے اس کو پہلے بیان فرمایا کہ راجح یہی ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی فرماتے ہیں کہ شھرا عید لا ینقصان بعض کے نزدیک یہ معنی ہیں کہ انتیس انتیس دنوں کے نہیں ہوتے بعض کے نزدیک اس کے یہ معنی ہیں کہ تیس و انتیس کا اجر برابر ہی ملتا ہے اور یہ اخیر ی معنی قواعد شرعیہ کے لحاظ سے زیادہ چسپاں ہوتے ہیں۔ گویا آپ نے اس با ت کا دفع کرنا چاہا کہ کسی کے دل میں کسی با ت کا وہم نہ گزرے۔
1912.
حضرت ابو بکرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’عیدکے دونوں مہینے یعنی رمضان اور ذوالحجہ کم نہیں ہوتے۔‘‘
تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو دو سندوں سے بیان کیا ہے: ایک اسحاق بن سوید اور دوسری خالد حذاء کی ہے لیکن متن صرف خالد حذاء کی روایت کا بیان کیا ہے۔ اسحاق بن سوید کی روایت کو ابو نعیم نے مستخرج میں بیان کیا ہے کہ رمضان اور ذوالحجہ کا مہینہ کم نہیں ہوتا۔ چونکہ اس روایت کے مختلف الفاظ ہیں، اس لیے امام بخاری ؒ نے متن کے لیے خالد حذاء کی روایت کا انتخاب کیا ہے کیونکہ اس کے الفاظ میں کوئی اختلاف نہیں۔ اگرچہ ماہ شوال عید کا مہینہ ہے لیکن اسے ماہ رمضان کی طرف منسوب کر دیتے ہیں۔ (2) اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ تعداد ایام کے اعتبار سے کم ہو سکتے ہیں لیکن کمال عبادت میں دونوں کا حکم ایک ہے۔ اگر کسی نے انتیس روزے رکھے تو اسے ثواب تیس روزوں ہی کا ملتا ہے۔ اس کے ثواب کے متعلق کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے، اسی طرح وقوف عرفہ میں غلطی ہو جائے تو اس کا حج پورا ہے اس میں کوئی کمی نہیں ہے۔ (فتح الباري:161/4)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1858
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1912
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1912
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1912
تمہید کتاب
عربی زبان میں روزے کے لیے صوم کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ لغوی طور پر اس کے معنی رک جانا ہیں، یعنی کھانے پینے، بولنے، جماع کرنے یا چلنے سے رک جانا۔ شرعی تعریف یہ ہے کہ مخصوص شرائط کے ساتھ مخصوص ایام میں مخصوص اشیاء سے مخصوص وقت میں رک جانا کا نام صوم ہے۔ دوسرے لفظوں میں عبادت کی نیت سے طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کھانے، پینے اور ازدواجی تعلقات سے باز رہنے کا نام روزہ ہے۔دراصل انسان کو اللہ تعالیٰ نے روحانیت اور حیوانیت سے مرکب بنایا ہے۔ اس کی طبیعت میں وہ سارے مادی اور سفلی تقاضے بھی ہیں جو دوسرے حیوانوں میں ہوتے ہیں اور اس کی فطرت میں روحانیت کا وہ نورانی جوہر بھی ہے جو فرشتوں کے لیے خاص غذا اور دولت ہے۔ انسان کی سعادت کا دارومدار اسی پر ہے کہ اس کا روحانی عنصر، حیوانی عنصر پر غالب رہے اور اسے حدود کا پابند رکھے جو اللہ تعالیٰ نے اس پر عائد کی ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ انسان کا حیوانی پہلو اس کے روحانی پہلو کا فرمانبردار اور اطاعت شعار ہو جائے اور اس کے مقابلے میں سرکشی اور بغاوت نہ کرے۔ روزے کا مقصد بھی یہی ہے کہ اس کے ذریعے سے انسان کی حیوانیت کو کنٹرول کیا جائے اور اسے شرعی احکام کی پابندی، نیز ایمانی اور روحانی تقاضوں کی فرمانبرداری کا عادی بنایا جائے۔ روزہ چونکہ انسان کی حیوانی قوت کو اس کی روحانی قوت کے تابع رکھنے اور اللہ کے احکام کے مقابلے میں خواہشات نفس اور تقاضائے شہوت کو دبانے کی عادت ڈالنے کا خاص ذریعہ ہے، اس لیے سابقہ امتوں کو بھی اس کا حکم دیا گیا تھا۔ اگرچہ روزوں کی مدت اور دوسرے تفصیلی احکام میں خاص حالات و ضروریات کے لحاظ سے کچھ فرق بھی تھا، تاہم مقصد میں یکسانیت ضرور تھی جسے اللہ تعالیٰ نے بایں الفاظ بیان کیا ہے (لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ) "تاکہ تم تقویٰ شعار بن جاؤ۔" (البقرۃ183:2)اس امت کے لیے سال میں ایک ماہ کے روزے فرض کیے گئے اور روزے کا وقت طلوع سحر سے غروب آفتاب تک رکھا گیا۔ بلاشبہ یہ مدت اور یہ وقت مذکورہ بالا مقصد کے حصول کے لیے نہایت معتدل اور مناسب ہے کیونکہ اس سے کم مدت میں نفس کی تربیت کا مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ اور اگر وقت اس سے زیادہ رکھا جاتا تو اکثریت کے لیے ناقابل برداشت ہوتا۔ بہرحال طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کا وقت اور سال میں ایک مہینے کی مدت عام انسان کے حالات و ظروف کے اعتبار سے مقصد تربیت کے لیے بالکل مناسب اور متعدل ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کے تحت ایک سو ستاون احادیث ذکر کیں ہیں، پھر ان احادیث پر ستر کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے روزے کے متعلق متعدد احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ ہم چند ایک کا بطور نمونہ ذکر کرتے ہیں۔وجوب روزہ، فضیلت روزہ، ماہ رمضان میں سخاوت کرنا، روزے کی ابتدا اور انتہائے سحری کے مسائل، اس کا وقت، بحالت جنابت روزہ رکھنا، دن کے وقت روزے کی نیت کرنا، دوران روزہ بیوی سے بوس و کنار کرنا، بحالت روزہ غسل کرنا، بھول کر کھا پی لینا، دوران روزہ تازہ یا خشک مسواک کرنا، بحالت روزہ بیوی سے جماع اور اس کا کفارہ، روزے کی حالت میں سنگی لگوانا یا قے کرنا، دوران سفر میں روزے رکھنا، روزے کی قضا کا وقت، حائضہ عورت کے لیے روزے کے احکام، افطاری کے مسائل، افطاری کے بعد اگر سورج نظر آ جائے، وصال کی شرعی حیثیت، نفلی روزے اور اسوۂ نبوی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مذکورہ مسائل اور دیگر احکام براہ راست احادیث سے اخذ کیے ہیں، جن سے امام صاحب کی بصیرت و فراست کا پتہ چلتا ہے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک سو ستاون احادیث بیان کی ہیں جن میں چھتیس معلق اور باقی موصول ہیں، ان میں اڑسٹھ مکرر اور خالص نواسی احادیث ہیں۔ پچیس احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔ احادیث کے علاوہ تقریبا ساٹھ آثار بھی بیان کیے ہیں جو متعدد صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی ہیں۔ ان میں اکثر معلق اور چند موصول ہیں۔واضح رہے کہ اس مہینے کو رمضان اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس کے معنی جلنے کے ہیں اور جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تھے اس وقت سخت گرمی تھی، اس لیے یہ مہینہ رمضان سے موسوم ہوا، نیز اس ماہ میں روزہ رکھنے والوں کے گناہ جل جاتے ہیں۔ عورت، مریض اور مسافر کے لیے کچھ رعایت بھی ہے جس کا آئندہ تفصیل سے ذکر ہو گا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ماہ رمضان کے روزوں کا بیان ارکان اسلام کے آخر میں کیا ہے، اس کے متعلق علامہ عینی نے لکھا ہے کہ قبل ازیں کتاب الزکاۃ کے بعد کتاب الحج کو ذکر کیا کیونکہ ان دونوں میں مال خرچ ہوتا ہے، اب روزے کے احکام کے لیے اور کوئی محل نہیں تھا، اس لیے ان کے احکام و مسائل کو آخر میں بیان کیا ہے۔ (عمدۃالقاری:8/3) قارئین کرام سے استدعا ہے کہ وہ امام بخاری رحمہ اللہ کے قائم کردہ عناوین اور پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کرتے وقت ہماری ان گزارشات کو ضرور پیش نظر رکھیں، اس سے حضرت امام کی فقہی بصیرت اور قوت استنباط اور دقت نظر کا اندازہ ہو گا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان احادیث پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے اور قیامت کے دن ہمیں زمرۂ محدثین میں اٹھائے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
امام بخاری رحمہ اللہ کا قائم کردہ مذکورہ عنوان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث ہے جسے امام ترمذی رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے کہ عید کے دونوں مہینے کم نہیں ہوتے، یعنی رمضان اور ذوالحجہ۔ (جامع الترمذی،الصوم،حدیث:692) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کی تشریح میں حضرت امام اسحاق بن راہویہ کا قول نقل کیا ہے کہ دونوں مہینے خواہ انتیس دن کے ہوں یا تیس کے، ثواب تیس دنوں ہی کا ملتا ہے، ثواب میں کمی نہیں آتی۔ لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی طرف سے یہ تفسیر کی ہے کہ یہ دونوں مہینے ایک سال میں انتیس، انتیس دنوں کے نہیں ہو سکتے۔ اگر رمضان انتیس کا ہو تو ذوالحجہ تیس کا ہوتا ہے اور اگر ذوالحجہ انتیس کا ہو تو رمضان کے تیس دن ہوتے ہیں۔ دراصل امام بخاری رحمہ اللہ نے امام احمد رحمہ اللہ کے قول کو اختیار کیا ہے جسے امام ترمذی رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے، چنانچہ لکھتے ہیں کہ امام احمد رحمہ اللہ نے فرمایا: یہ دونوں مہینے ایک سال میں ناقص نہیں ہوں گے۔ اگر ایک ناقص ہوا تو دوسرا مکمل، یعنی تیس دن کا ہو گا۔ امام اسحاق بن راہویہ فرماتے ہیں: یہ دونوں مہینے اجروثواب میں کم نہیں ہوتے۔ ان کے نزدیک دونوں مہینے انتیس، انتیس دنوں کے ہو سکتے ہیں۔ (جامع الترمذی،الصوم،حدیث:692) ہمارے نزدیک امام اسحاق بن راہویہ کی تفسیر ہی معتبر ہے کیونکہ مشاہدے کے اعتبار سے یہ دونوں مہینے انتیس دنوں کے ہو سکتے ہیں۔ واللہ اعلم
امام بخارینے کہا کہ اسحاق بن راہویہ نے ( اس کی تشریح میں ) کہا کہ اگر یہ کم بھی ہوں پھر بھی ( اجر کے اعتبار سے ) تیس دن کا ثواب ملتا ہے محمد بن سیرین نے کہا ( مطلب یہ ہے ) کہ دونوں ایک سال میں ناقص ( انتیس انتیس دن کے ) نہیں ہوسکتے۔تشریح : حضرت امام بخاری نے اسحاق اور ابن سیرین کے قول نقل کرکے اس حدیث کی تفسیر کردی، امام احمد نے فرمایا ہے قاعدہ یہ ہے کہ اگر رمضان 29 دن کا ہو تو ذی الحجہ30 دن کا ہوتا ہے، اگر ذی الحجہ30دن کا ہو تو رمضان29دن کا ہوتا ہے، مگر اس تفسیر میں بہ قاعدہ نجوم شبہ رہتا ہے۔ بعض سال ایسے بھی ہوتے ہیں کہ رمضان اور ذی الحجہ29دن کے ہوتے ہیں اس لیے صحیح اسحق بن راہویہ کی تفسیر ہے۔ امام بخاری نے اسی لیے اس کو پہلے بیان فرمایا کہ راجح یہی ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی فرماتے ہیں کہ شھرا عید لا ینقصان بعض کے نزدیک یہ معنی ہیں کہ انتیس انتیس دنوں کے نہیں ہوتے بعض کے نزدیک اس کے یہ معنی ہیں کہ تیس و انتیس کا اجر برابر ہی ملتا ہے اور یہ اخیر ی معنی قواعد شرعیہ کے لحاظ سے زیادہ چسپاں ہوتے ہیں۔ گویا آپ نے اس با ت کا دفع کرنا چاہا کہ کسی کے دل میں کسی با ت کا وہم نہ گزرے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو بکرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’عیدکے دونوں مہینے یعنی رمضان اور ذوالحجہ کم نہیں ہوتے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو دو سندوں سے بیان کیا ہے: ایک اسحاق بن سوید اور دوسری خالد حذاء کی ہے لیکن متن صرف خالد حذاء کی روایت کا بیان کیا ہے۔ اسحاق بن سوید کی روایت کو ابو نعیم نے مستخرج میں بیان کیا ہے کہ رمضان اور ذوالحجہ کا مہینہ کم نہیں ہوتا۔ چونکہ اس روایت کے مختلف الفاظ ہیں، اس لیے امام بخاری ؒ نے متن کے لیے خالد حذاء کی روایت کا انتخاب کیا ہے کیونکہ اس کے الفاظ میں کوئی اختلاف نہیں۔ اگرچہ ماہ شوال عید کا مہینہ ہے لیکن اسے ماہ رمضان کی طرف منسوب کر دیتے ہیں۔ (2) اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ تعداد ایام کے اعتبار سے کم ہو سکتے ہیں لیکن کمال عبادت میں دونوں کا حکم ایک ہے۔ اگر کسی نے انتیس روزے رکھے تو اسے ثواب تیس روزوں ہی کا ملتا ہے۔ اس کے ثواب کے متعلق کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے، اسی طرح وقوف عرفہ میں غلطی ہو جائے تو اس کا حج پورا ہے اس میں کوئی کمی نہیں ہے۔ (فتح الباري:161/4)
ترجمۃ الباب:
ابو عبداللہ(امام بخاری ) کہتے ہیں کہ حضرت اسحاق بن راہویہ نے فرمایا: اگر یہ دونوں مہینے کم بھی ہوں تو بھی تیس دن کا اجر ملتا ہے۔ محمد بن اسماعیل نے کہا کہ دونوں مہینے ایک سال میں ناقص نہیں ہوسکتے
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے معتمر بن سلیمان نے بیان کیا، کہا کہ میں نے اسحاق سے سنا، انہوں نے عبدالرحمن بن ابی بکرہ ؓ سے، انہوں نے اپنے والد سے، انہوں نے نبی کریم ﷺ سے ( دوسری سند ) امام بخاری نے کہا اور مجھے مسدد نے خبر دی، ان سے معتمر نے بیان کیا، ان سے خالد حذاءنے بیان کیا کہ مجھے عبدالرحمن بن ابی بکرہ ؓ نے خبر دی اور انہیں ان کے والد نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا دونوں مہینے ناقص نہیں رہتے۔
حدیث حاشیہ:
مراد رمضان اور ذی الحجہ کے دونوں مہینے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Bakra (RA): The Prophet (ﷺ) said, "The two months of 'Id i.e. Ramadan and Dhul-Hijja, do not decrease (in superiority)."