باب : اگر کوئی شخص روزے کی نیت دن میں کرے تو درست ہے
)
Sahi-Bukhari:
Fasting
(Chapter: If the intention of Saum was made in the daytime.)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور ام درداء ؓ نے کہا کہ ابودرداء ؓ ان سے پوچھتے کیا کچھ کھانا تمہارے پاس ہے؟ اگر ہم جواب دیتے کہ کچھ نہیں تو کہتے پھر آج میرا روزہ رہے گا۔ اسی طرح ابوطلحہ، ابوہریرہ، ابن عباس اور حذیفہ ؓ نے بھی کیا۔
1924.
حضرت سلمہ بن اکوع ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ایک شخص کو عاشوراء کے دن یہ منادی کرن کے لیے بھیجا: ’’ آج جس شخص نے کچھ کھالیاہے وہ شام تک مزید نہ کھائے، یعنی وہ روزہ مکمل کرے، یا فرمایا: وہ روزہ رکھے اور جس نے نہیں کھایا وہ(شام تک کچھ) نہ کھائے۔‘‘
تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے فیصلہ کن عنوان قائم نہیں کیا، البتہ پیش کردہ معلق اور متصل روایات سے ان کے رجحان کا پتہ چلتا ہے کہ وہ روزے کے لیے رات کو نیت کرنا ضروری خیال نہیں کرتے بلکہ ان حضرات کی تردید کرنا چاہتے ہیں جو فرض روزے کے لیے رات کے وقت نیت کرنے کو ضروری قرار دیتے ہیں۔ وہ اس طرح کہ مذکورہ روایات میں مطلق نیت کا ذکر ہے۔ اس میں فرض یا نفل روزوں کی کوئی تخصیص نہیں۔ لیکن جمہور علماء نے امام بخاری کے اس موقف سے اتفاق نہیں کیا بلکہ انہوں نے کہا ہے کہ فرض روزے کے لیے رات ہی سے نیت کرنا ضروری ہے، رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: ’’جس نے فجر، یعنی صبح صادق سے پہلے روزے کی پختہ نیت نہ کی اس کا روزہ نہیں ہے۔‘‘ (سنن أبي داود، الصوم، حدیث:2454) پھر حدیث میں ہے کہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ (صحیح البخاري، بدءالوحي، حدیث:1) (2) البتہ نفل روزے کی زوال سے پہلے بھی نیت کی جا سکتی ہے جیسا کہ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا: ’’کیا تمہارے پاس کوئی چیز ہے؟‘‘ ہم نے کہا: نہیں۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا: ’’تب میں روزہ دار ہوں۔‘‘ پھر آپ دوسرے دن ہمارے پاس آئے تو ہم نے کہا: اللہ کے رسول! ہمیں کچھ حلوہ بطور ہدیہ بھیجا گیا ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’وہ مجھے دکھاؤ، بےشک میں نے روزے کی حالت میں صبح کی ہے، پھر آپ نے وہ حلوہ کھا لیا۔‘‘ (صحیح مسلم، الصیام، حدیث:2714(1154)) (2) امام بخاری ؒ کی پیش کردہ حدیث عاشوراء سے متعلق ہے جو فرض نہیں، نیز اس میں دوپہر سے پہلے کھانے والوں کو بھی روزہ پورا کرنے کا حکم ہے جو عاشوراء کے لیے خصوصیت کا باعث ہے کیونکہ عام روزے کی دوپہر کے وقت نیت کی جا سکتی ہے بشرطیکہ صبح کے بعد آدمی نے کچھ کھایا پیا نہ ہو۔ (3) واضح رہے کہ نیت محض دل کے ارادے کا نام ہے، اسے زبان سے ادا کرنے کی ضرورت نہیں، لہذا وبصوم غد نويت من شهر رمضان کے الفاظ کسی حدیث سے ثابت نہیں ہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1869
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1924
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1924
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1924
تمہید کتاب
عربی زبان میں روزے کے لیے صوم کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ لغوی طور پر اس کے معنی رک جانا ہیں، یعنی کھانے پینے، بولنے، جماع کرنے یا چلنے سے رک جانا۔ شرعی تعریف یہ ہے کہ مخصوص شرائط کے ساتھ مخصوص ایام میں مخصوص اشیاء سے مخصوص وقت میں رک جانا کا نام صوم ہے۔ دوسرے لفظوں میں عبادت کی نیت سے طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کھانے، پینے اور ازدواجی تعلقات سے باز رہنے کا نام روزہ ہے۔دراصل انسان کو اللہ تعالیٰ نے روحانیت اور حیوانیت سے مرکب بنایا ہے۔ اس کی طبیعت میں وہ سارے مادی اور سفلی تقاضے بھی ہیں جو دوسرے حیوانوں میں ہوتے ہیں اور اس کی فطرت میں روحانیت کا وہ نورانی جوہر بھی ہے جو فرشتوں کے لیے خاص غذا اور دولت ہے۔ انسان کی سعادت کا دارومدار اسی پر ہے کہ اس کا روحانی عنصر، حیوانی عنصر پر غالب رہے اور اسے حدود کا پابند رکھے جو اللہ تعالیٰ نے اس پر عائد کی ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ انسان کا حیوانی پہلو اس کے روحانی پہلو کا فرمانبردار اور اطاعت شعار ہو جائے اور اس کے مقابلے میں سرکشی اور بغاوت نہ کرے۔ روزے کا مقصد بھی یہی ہے کہ اس کے ذریعے سے انسان کی حیوانیت کو کنٹرول کیا جائے اور اسے شرعی احکام کی پابندی، نیز ایمانی اور روحانی تقاضوں کی فرمانبرداری کا عادی بنایا جائے۔ روزہ چونکہ انسان کی حیوانی قوت کو اس کی روحانی قوت کے تابع رکھنے اور اللہ کے احکام کے مقابلے میں خواہشات نفس اور تقاضائے شہوت کو دبانے کی عادت ڈالنے کا خاص ذریعہ ہے، اس لیے سابقہ امتوں کو بھی اس کا حکم دیا گیا تھا۔ اگرچہ روزوں کی مدت اور دوسرے تفصیلی احکام میں خاص حالات و ضروریات کے لحاظ سے کچھ فرق بھی تھا، تاہم مقصد میں یکسانیت ضرور تھی جسے اللہ تعالیٰ نے بایں الفاظ بیان کیا ہے (لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ) "تاکہ تم تقویٰ شعار بن جاؤ۔" (البقرۃ183:2)اس امت کے لیے سال میں ایک ماہ کے روزے فرض کیے گئے اور روزے کا وقت طلوع سحر سے غروب آفتاب تک رکھا گیا۔ بلاشبہ یہ مدت اور یہ وقت مذکورہ بالا مقصد کے حصول کے لیے نہایت معتدل اور مناسب ہے کیونکہ اس سے کم مدت میں نفس کی تربیت کا مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ اور اگر وقت اس سے زیادہ رکھا جاتا تو اکثریت کے لیے ناقابل برداشت ہوتا۔ بہرحال طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کا وقت اور سال میں ایک مہینے کی مدت عام انسان کے حالات و ظروف کے اعتبار سے مقصد تربیت کے لیے بالکل مناسب اور متعدل ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کے تحت ایک سو ستاون احادیث ذکر کیں ہیں، پھر ان احادیث پر ستر کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے روزے کے متعلق متعدد احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ ہم چند ایک کا بطور نمونہ ذکر کرتے ہیں۔وجوب روزہ، فضیلت روزہ، ماہ رمضان میں سخاوت کرنا، روزے کی ابتدا اور انتہائے سحری کے مسائل، اس کا وقت، بحالت جنابت روزہ رکھنا، دن کے وقت روزے کی نیت کرنا، دوران روزہ بیوی سے بوس و کنار کرنا، بحالت روزہ غسل کرنا، بھول کر کھا پی لینا، دوران روزہ تازہ یا خشک مسواک کرنا، بحالت روزہ بیوی سے جماع اور اس کا کفارہ، روزے کی حالت میں سنگی لگوانا یا قے کرنا، دوران سفر میں روزے رکھنا، روزے کی قضا کا وقت، حائضہ عورت کے لیے روزے کے احکام، افطاری کے مسائل، افطاری کے بعد اگر سورج نظر آ جائے، وصال کی شرعی حیثیت، نفلی روزے اور اسوۂ نبوی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مذکورہ مسائل اور دیگر احکام براہ راست احادیث سے اخذ کیے ہیں، جن سے امام صاحب کی بصیرت و فراست کا پتہ چلتا ہے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک سو ستاون احادیث بیان کی ہیں جن میں چھتیس معلق اور باقی موصول ہیں، ان میں اڑسٹھ مکرر اور خالص نواسی احادیث ہیں۔ پچیس احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔ احادیث کے علاوہ تقریبا ساٹھ آثار بھی بیان کیے ہیں جو متعدد صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی ہیں۔ ان میں اکثر معلق اور چند موصول ہیں۔واضح رہے کہ اس مہینے کو رمضان اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس کے معنی جلنے کے ہیں اور جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تھے اس وقت سخت گرمی تھی، اس لیے یہ مہینہ رمضان سے موسوم ہوا، نیز اس ماہ میں روزہ رکھنے والوں کے گناہ جل جاتے ہیں۔ عورت، مریض اور مسافر کے لیے کچھ رعایت بھی ہے جس کا آئندہ تفصیل سے ذکر ہو گا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ماہ رمضان کے روزوں کا بیان ارکان اسلام کے آخر میں کیا ہے، اس کے متعلق علامہ عینی نے لکھا ہے کہ قبل ازیں کتاب الزکاۃ کے بعد کتاب الحج کو ذکر کیا کیونکہ ان دونوں میں مال خرچ ہوتا ہے، اب روزے کے احکام کے لیے اور کوئی محل نہیں تھا، اس لیے ان کے احکام و مسائل کو آخر میں بیان کیا ہے۔ (عمدۃالقاری:8/3) قارئین کرام سے استدعا ہے کہ وہ امام بخاری رحمہ اللہ کے قائم کردہ عناوین اور پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کرتے وقت ہماری ان گزارشات کو ضرور پیش نظر رکھیں، اس سے حضرت امام کی فقہی بصیرت اور قوت استنباط اور دقت نظر کا اندازہ ہو گا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان احادیث پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے اور قیامت کے دن ہمیں زمرۂ محدثین میں اٹھائے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کا غالبا یہ موقف ہے کہ روزہ فرض ہو یا نفل، اس کے لیے رات سے نیت کرنا ضروری نہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے مذکورہ تعلیقات پیش کی ہیں۔ ہم اس کے متعلق آئندہ وضاحت کریں گے۔ حضرت ام درداء کی روایت کو مصنف ابن ابی شیبہ (3/30) میں متصل سند سے بیان کیا گیا ہے کہ حضرت ابو درداء دوپہر کے وقت گھر تشریف لاتے اور پوچھتے کہ کچھ کھانا وغیرہ موجود ہے؟ اگر کھانا نہ ہوتا تو فرماتے: "میں آج روزے سے ہوں۔" اسی طرح حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کا عمل بھی مصنف عبدالرزاق (4/273) میں مروی ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا عمل امام بیہقی رحمہ اللہ نے اپنی سنن (4/204) میں روایت کیا ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے عمل کو امام طحاوی رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے۔ (شرح معانی الآثار:2/56) اور حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کا عمل امام عبدالرزاق اور ابن ابی شیبہ نے بیان کیا ہے۔ (المصنف لعبدالرزاق:4/274) ان آثار کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل بھی صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ہاں تشریف لائے اور دریافت کیا کہ تمہارے پاس کھانا وغیرہ ہے؟ ہم نے جواب دیا کہ نہیں۔ تو آپ نے فرمایا: "تب میں روزے سے ہوں۔" (صحیح مسلم،الصیام،حدیث:2714(1154))
اور ام درداء ؓ نے کہا کہ ابودرداء ؓ ان سے پوچھتے کیا کچھ کھانا تمہارے پاس ہے؟ اگر ہم جواب دیتے کہ کچھ نہیں تو کہتے پھر آج میرا روزہ رہے گا۔ اسی طرح ابوطلحہ، ابوہریرہ، ابن عباس اور حذیفہ ؓ نے بھی کیا۔
حدیث ترجمہ:
حضرت سلمہ بن اکوع ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ایک شخص کو عاشوراء کے دن یہ منادی کرن کے لیے بھیجا: ’’ آج جس شخص نے کچھ کھالیاہے وہ شام تک مزید نہ کھائے، یعنی وہ روزہ مکمل کرے، یا فرمایا: وہ روزہ رکھے اور جس نے نہیں کھایا وہ(شام تک کچھ) نہ کھائے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری ؒ نے فیصلہ کن عنوان قائم نہیں کیا، البتہ پیش کردہ معلق اور متصل روایات سے ان کے رجحان کا پتہ چلتا ہے کہ وہ روزے کے لیے رات کو نیت کرنا ضروری خیال نہیں کرتے بلکہ ان حضرات کی تردید کرنا چاہتے ہیں جو فرض روزے کے لیے رات کے وقت نیت کرنے کو ضروری قرار دیتے ہیں۔ وہ اس طرح کہ مذکورہ روایات میں مطلق نیت کا ذکر ہے۔ اس میں فرض یا نفل روزوں کی کوئی تخصیص نہیں۔ لیکن جمہور علماء نے امام بخاری کے اس موقف سے اتفاق نہیں کیا بلکہ انہوں نے کہا ہے کہ فرض روزے کے لیے رات ہی سے نیت کرنا ضروری ہے، رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: ’’جس نے فجر، یعنی صبح صادق سے پہلے روزے کی پختہ نیت نہ کی اس کا روزہ نہیں ہے۔‘‘ (سنن أبي داود، الصوم، حدیث:2454) پھر حدیث میں ہے کہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ (صحیح البخاري، بدءالوحي، حدیث:1) (2) البتہ نفل روزے کی زوال سے پہلے بھی نیت کی جا سکتی ہے جیسا کہ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا: ’’کیا تمہارے پاس کوئی چیز ہے؟‘‘ ہم نے کہا: نہیں۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا: ’’تب میں روزہ دار ہوں۔‘‘ پھر آپ دوسرے دن ہمارے پاس آئے تو ہم نے کہا: اللہ کے رسول! ہمیں کچھ حلوہ بطور ہدیہ بھیجا گیا ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’وہ مجھے دکھاؤ، بےشک میں نے روزے کی حالت میں صبح کی ہے، پھر آپ نے وہ حلوہ کھا لیا۔‘‘ (صحیح مسلم، الصیام، حدیث:2714(1154)) (2) امام بخاری ؒ کی پیش کردہ حدیث عاشوراء سے متعلق ہے جو فرض نہیں، نیز اس میں دوپہر سے پہلے کھانے والوں کو بھی روزہ پورا کرنے کا حکم ہے جو عاشوراء کے لیے خصوصیت کا باعث ہے کیونکہ عام روزے کی دوپہر کے وقت نیت کی جا سکتی ہے بشرطیکہ صبح کے بعد آدمی نے کچھ کھایا پیا نہ ہو۔ (3) واضح رہے کہ نیت محض دل کے ارادے کا نام ہے، اسے زبان سے ادا کرنے کی ضرورت نہیں، لہذا وبصوم غد نويت من شهر رمضان کے الفاظ کسی حدیث سے ثابت نہیں ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حضرت ام درداء کہتی ہیں کہ حضرت ابودرداء ؓ فرماتے: کیا تمہارے پاس کھانا ہے؟اگر ہم جواب دیتے کہ نہیں تو فرماتے تب آج میرا روزہ ہے۔ حضرت ابو طلحہ،ؓ ابوہریرۃ ؓ، ابن عباس ؓ، اور حضرت حذیفہ ؓ سے بھی ایساکرنا مروی ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوعاصم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یزید بن ابی عبید نے بیان کیا، ان سے سلمہ بن اکوع نے کہ نبی کریم ﷺ نے عاشورہ کے دن ایک شخص کو یہ اعلان کرنے کے لیے بھیجا کہ جس نے کھانا کھالیا وہ اب ( دن ڈوبنے تک روزہ کی حالت میں ) پورا کرے یا ( یہ فرمایا کہ ) روزہ رکھے اور جس نے نہ کھایا ہو ( تو وہ روزہ رکھے ) کھانا نہ کھائے۔
حدیث حاشیہ:
مقصد باب یہ ہے کہ کسی شخص نے فجر کے بعد کچھ نہ کھایا پیا ہو اور اسی حالت میں روزہ کی نیت دن میں بھی کرلے تو روزہ ہو جائے گا مگر یہ اجازت نفل روزہ کے لیے ہے، فرض روزہ کی نیت رات ہی میں سحری کے وقت ہونی چاہئے۔ حدیث میں عاشورہ کے روزہ کا ذکر ہے جو رمضان کی فرضیت سے قبل فرض تھا۔ بعد میں محض نفل کی حیثیت میں رہ گیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Salama bin Al-Akwa: Once the Prophet (ﷺ) ordered a person on 'Ashura' (the tenth of Muharram) to announce, "Whoever has eaten, should not eat any more, but fast, and who has not eaten should not eat, but complete his fast (till the end of the day).