باب : روزہ دار صبح کو جنابت کی حالت میں اٹھے تو کیا حکم ہے
)
Sahi-Bukhari:
Fasting
(Chapter: If a person observing Saum gets up in the morning in the state of Janaba)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1925.
حضرت ابو بکر بن عبدالرحمان سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ میں اور میرے والد حضرت عائشہ ؓ اور حضرت ام سلمہ ؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ دوسری سند کے ساتھ یہ ہے کہ عبدالرحمان نے مروان بن حکم کو حضرت عائشہ ؓ اور حضرت ام سلمہ ؓ کے حوالے سے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ بعض اوقات بیویوں کی مقاربت کی وجہ سے صبح تک بحالت جنابت رہتے پھر غسل کرتے اور روزہ رکھ لیتے۔ مروان نے عبدالرحمان بن حارث سے کہا کہ میں تجھے اللہ کی قسم دیتا ہوں۔ یہ حدیث حضرت ابوہریرۃ ؓ کو واضح طور پر سنا دو۔ مروان اس وقت مدینہ طیبہ کا گورنر تھا۔ راوی حدیث ابو بکر کہتے ہیں کہ حضرت عبدالرحمان نے اس بات کو پسند نہ کیا پھر ہم ا تفاق سے ذوالحلیفہ میں اکھٹے ہوئے۔ حضرت ابو ہریرۃ ؓ کی وہاں زمین تھی۔ اس وقت عبدالرحمان بن حارث نے حضرت ابو ہریرۃ ؓ سے کہا: میں آپ سے ایک بات ذکر کرتا ہوں اگرا س کے متعلق مروان نے مجھے قسم نہ دی ہوتی تو میں تم سے اس کا ذکر نہ کرتا، چنانچہ انھوں نے ام المومنین حضرت عائشہ ؓ اور ام المومنین حضرت ام سلمہ ؓ کا قول ذکر کیا ہے تو حضرت ابو ہریرہ ؓ نے فرمایا: مجھے فضل بن عباس ؓ نے اس طرح خبر دی تھی اور وہ زیادہ جانتے ہیں۔ حضرت ابوہریرۃ ؓ سے ایک روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ ایسے حالات میں روزہ افطار کردینے کا حکم دیتے تھے امام بخاری ؓ فرماتے ہیں: اس سلسلے میں پہلی روایت زیادہ مستند ہے۔
تشریح:
(1) صحیح مسلم میں اس واقعے کی کچھ مزید تفصیل ہے۔ حضرت ابوبکر بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں: میں نے حضرت ابو ہریرہ ؓ سے ایک دفعہ سنا کہ جو شخص صبح کے وقت بحالت جنابت ہو وہ روزہ نہ رکھے۔ میں نے اس بات کا ذکر اپنے باپ عبدالرحمٰن بن حارث سے کیا تو انہوں نے اس موقف کا انکار کیا اور مجھے حضرت عائشہ اور ام سلمہ ؓ کے پاس لے گئے۔ ان دونوں ازواج مطہرات نے فرمایا: بسا اوقات رسول اللہ ﷺ صبح کے وقت بحالت جنابت ہوتے لیکن آپ روزہ رکھ لیتے، پھر جب حضرت ابو ہریرہ ؓ کے پاس ازواج مطہرات کے فتوے کا ذکر ہوا تو انہوں نے فرمایا: کیا واقعی انہوں نے ایسا فرمایا ہے؟ عرض کیا گیا، ہاں، تو انہوں نے فرمایا: وہ اس سلسلے میں مجھ سے زیادہ جانتی ہیں۔ میں نے براہ راست رسول اللہ ﷺ سے یہ بات نہیں سنی بلکہ مجھے حضرت فضل بن عباس ؓ نے بتائی تھی۔ اس کے بعد حضرت ابو ہریرہ ؓ نے اپنے موقف سے رجوع کر لیا۔ (صحیح مسلم، الصیام، حدیث:2589(1109)) (2) حضرت ابو ہریرہ ؓ لوگوں کو فتویٰ دیتے تھے کو جو بحالت جنابت صبح کرے وہ اس دن روزہ نہ رکھے لیکن یہ حکم بعد میں منسوخ ہو گیا، البتہ حضرت ابو ہریرہ ؓ کو اس کے نسخ کا علم نہ ہوا، اس لیے اپنے علم کے مطابق فتویٰ دیتے رہے۔ پھر جب انہیں صحیح صورت حال کا علم ہوا تو اپنے فتویٰ سے رجوع کر لیا۔ اہل علم کی یہی شان ہے کہ جب انہیں صحیح بات معلوم ہو جائے تو اسے اختیار کر لیتے ہیں۔ واللہ أعلم۔ (3) تنگی وقت کے پیش نظر جس طرح جنبی آدمی روزہ رکھنے کے بعد غسل کر سکتا ہے اسی طرح حیض و نفاس والی عورت کا خون اگر رات کے وقت رک جائے اور وقت بالکل تھوڑا ہو تو وہ روزہ رکھنے کے بعد غسل کر سکتی ہے۔ اس پر جملہ اہل علم کا اتفاق ہے۔ (فتح الباري:190/4) (4) حافظ ابن حجر ؒ نے اس حدیث سے متعدد مسائل کا استنباط کیا ہے، جن میں چند ایک حسب ذیل ہیں: ٭ علمائے کرام کا امرائے وقت کے پاس جا کر علمی مذاکرات کرنا۔ ٭ منقولات میں اگر شک پڑ جائے تو اہل علم کی طرف رجوع کرنا۔ ٭ جن امور میں عورتوں کو زیادہ اطلاع ہو سکتی ہے، ایسے مسائل میں ان کی مرویات کو ترجیح دینا۔ ٭ جملہ معاملات میں رسول اللہ ﷺ کے اقوال و معمولات کی اقتدا کرنا۔ ٭ اختلاف کے وقت کتاب و سنت کو آخری اتھارٹی قرار دینا۔ ٭ حضرت ابو ہریرہ ؓ کی فضیلت ثابت ہوتی ہے جنہوں نے اعتراف حق کر کے اس کی طرف رجوع کیا۔ (فتح الباري:190/4)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1870
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1925
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1925
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1925
تمہید کتاب
عربی زبان میں روزے کے لیے صوم کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ لغوی طور پر اس کے معنی رک جانا ہیں، یعنی کھانے پینے، بولنے، جماع کرنے یا چلنے سے رک جانا۔ شرعی تعریف یہ ہے کہ مخصوص شرائط کے ساتھ مخصوص ایام میں مخصوص اشیاء سے مخصوص وقت میں رک جانا کا نام صوم ہے۔ دوسرے لفظوں میں عبادت کی نیت سے طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کھانے، پینے اور ازدواجی تعلقات سے باز رہنے کا نام روزہ ہے۔دراصل انسان کو اللہ تعالیٰ نے روحانیت اور حیوانیت سے مرکب بنایا ہے۔ اس کی طبیعت میں وہ سارے مادی اور سفلی تقاضے بھی ہیں جو دوسرے حیوانوں میں ہوتے ہیں اور اس کی فطرت میں روحانیت کا وہ نورانی جوہر بھی ہے جو فرشتوں کے لیے خاص غذا اور دولت ہے۔ انسان کی سعادت کا دارومدار اسی پر ہے کہ اس کا روحانی عنصر، حیوانی عنصر پر غالب رہے اور اسے حدود کا پابند رکھے جو اللہ تعالیٰ نے اس پر عائد کی ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ انسان کا حیوانی پہلو اس کے روحانی پہلو کا فرمانبردار اور اطاعت شعار ہو جائے اور اس کے مقابلے میں سرکشی اور بغاوت نہ کرے۔ روزے کا مقصد بھی یہی ہے کہ اس کے ذریعے سے انسان کی حیوانیت کو کنٹرول کیا جائے اور اسے شرعی احکام کی پابندی، نیز ایمانی اور روحانی تقاضوں کی فرمانبرداری کا عادی بنایا جائے۔ روزہ چونکہ انسان کی حیوانی قوت کو اس کی روحانی قوت کے تابع رکھنے اور اللہ کے احکام کے مقابلے میں خواہشات نفس اور تقاضائے شہوت کو دبانے کی عادت ڈالنے کا خاص ذریعہ ہے، اس لیے سابقہ امتوں کو بھی اس کا حکم دیا گیا تھا۔ اگرچہ روزوں کی مدت اور دوسرے تفصیلی احکام میں خاص حالات و ضروریات کے لحاظ سے کچھ فرق بھی تھا، تاہم مقصد میں یکسانیت ضرور تھی جسے اللہ تعالیٰ نے بایں الفاظ بیان کیا ہے (لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ) "تاکہ تم تقویٰ شعار بن جاؤ۔" (البقرۃ183:2)اس امت کے لیے سال میں ایک ماہ کے روزے فرض کیے گئے اور روزے کا وقت طلوع سحر سے غروب آفتاب تک رکھا گیا۔ بلاشبہ یہ مدت اور یہ وقت مذکورہ بالا مقصد کے حصول کے لیے نہایت معتدل اور مناسب ہے کیونکہ اس سے کم مدت میں نفس کی تربیت کا مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ اور اگر وقت اس سے زیادہ رکھا جاتا تو اکثریت کے لیے ناقابل برداشت ہوتا۔ بہرحال طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کا وقت اور سال میں ایک مہینے کی مدت عام انسان کے حالات و ظروف کے اعتبار سے مقصد تربیت کے لیے بالکل مناسب اور متعدل ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کے تحت ایک سو ستاون احادیث ذکر کیں ہیں، پھر ان احادیث پر ستر کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے روزے کے متعلق متعدد احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ ہم چند ایک کا بطور نمونہ ذکر کرتے ہیں۔وجوب روزہ، فضیلت روزہ، ماہ رمضان میں سخاوت کرنا، روزے کی ابتدا اور انتہائے سحری کے مسائل، اس کا وقت، بحالت جنابت روزہ رکھنا، دن کے وقت روزے کی نیت کرنا، دوران روزہ بیوی سے بوس و کنار کرنا، بحالت روزہ غسل کرنا، بھول کر کھا پی لینا، دوران روزہ تازہ یا خشک مسواک کرنا، بحالت روزہ بیوی سے جماع اور اس کا کفارہ، روزے کی حالت میں سنگی لگوانا یا قے کرنا، دوران سفر میں روزے رکھنا، روزے کی قضا کا وقت، حائضہ عورت کے لیے روزے کے احکام، افطاری کے مسائل، افطاری کے بعد اگر سورج نظر آ جائے، وصال کی شرعی حیثیت، نفلی روزے اور اسوۂ نبوی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مذکورہ مسائل اور دیگر احکام براہ راست احادیث سے اخذ کیے ہیں، جن سے امام صاحب کی بصیرت و فراست کا پتہ چلتا ہے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک سو ستاون احادیث بیان کی ہیں جن میں چھتیس معلق اور باقی موصول ہیں، ان میں اڑسٹھ مکرر اور خالص نواسی احادیث ہیں۔ پچیس احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔ احادیث کے علاوہ تقریبا ساٹھ آثار بھی بیان کیے ہیں جو متعدد صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی ہیں۔ ان میں اکثر معلق اور چند موصول ہیں۔واضح رہے کہ اس مہینے کو رمضان اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس کے معنی جلنے کے ہیں اور جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تھے اس وقت سخت گرمی تھی، اس لیے یہ مہینہ رمضان سے موسوم ہوا، نیز اس ماہ میں روزہ رکھنے والوں کے گناہ جل جاتے ہیں۔ عورت، مریض اور مسافر کے لیے کچھ رعایت بھی ہے جس کا آئندہ تفصیل سے ذکر ہو گا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ماہ رمضان کے روزوں کا بیان ارکان اسلام کے آخر میں کیا ہے، اس کے متعلق علامہ عینی نے لکھا ہے کہ قبل ازیں کتاب الزکاۃ کے بعد کتاب الحج کو ذکر کیا کیونکہ ان دونوں میں مال خرچ ہوتا ہے، اب روزے کے احکام کے لیے اور کوئی محل نہیں تھا، اس لیے ان کے احکام و مسائل کو آخر میں بیان کیا ہے۔ (عمدۃالقاری:8/3) قارئین کرام سے استدعا ہے کہ وہ امام بخاری رحمہ اللہ کے قائم کردہ عناوین اور پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کرتے وقت ہماری ان گزارشات کو ضرور پیش نظر رکھیں، اس سے حضرت امام کی فقہی بصیرت اور قوت استنباط اور دقت نظر کا اندازہ ہو گا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان احادیث پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے اور قیامت کے دن ہمیں زمرۂ محدثین میں اٹھائے۔ آمین یا رب العالمین
حضرت ابو بکر بن عبدالرحمان سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ میں اور میرے والد حضرت عائشہ ؓ اور حضرت ام سلمہ ؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ دوسری سند کے ساتھ یہ ہے کہ عبدالرحمان نے مروان بن حکم کو حضرت عائشہ ؓ اور حضرت ام سلمہ ؓ کے حوالے سے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ بعض اوقات بیویوں کی مقاربت کی وجہ سے صبح تک بحالت جنابت رہتے پھر غسل کرتے اور روزہ رکھ لیتے۔ مروان نے عبدالرحمان بن حارث سے کہا کہ میں تجھے اللہ کی قسم دیتا ہوں۔ یہ حدیث حضرت ابوہریرۃ ؓ کو واضح طور پر سنا دو۔ مروان اس وقت مدینہ طیبہ کا گورنر تھا۔ راوی حدیث ابو بکر کہتے ہیں کہ حضرت عبدالرحمان نے اس بات کو پسند نہ کیا پھر ہم ا تفاق سے ذوالحلیفہ میں اکھٹے ہوئے۔ حضرت ابو ہریرۃ ؓ کی وہاں زمین تھی۔ اس وقت عبدالرحمان بن حارث نے حضرت ابو ہریرۃ ؓ سے کہا: میں آپ سے ایک بات ذکر کرتا ہوں اگرا س کے متعلق مروان نے مجھے قسم نہ دی ہوتی تو میں تم سے اس کا ذکر نہ کرتا، چنانچہ انھوں نے ام المومنین حضرت عائشہ ؓ اور ام المومنین حضرت ام سلمہ ؓ کا قول ذکر کیا ہے تو حضرت ابو ہریرہ ؓ نے فرمایا: مجھے فضل بن عباس ؓ نے اس طرح خبر دی تھی اور وہ زیادہ جانتے ہیں۔ حضرت ابوہریرۃ ؓ سے ایک روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ ایسے حالات میں روزہ افطار کردینے کا حکم دیتے تھے امام بخاری ؓ فرماتے ہیں: اس سلسلے میں پہلی روایت زیادہ مستند ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) صحیح مسلم میں اس واقعے کی کچھ مزید تفصیل ہے۔ حضرت ابوبکر بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں: میں نے حضرت ابو ہریرہ ؓ سے ایک دفعہ سنا کہ جو شخص صبح کے وقت بحالت جنابت ہو وہ روزہ نہ رکھے۔ میں نے اس بات کا ذکر اپنے باپ عبدالرحمٰن بن حارث سے کیا تو انہوں نے اس موقف کا انکار کیا اور مجھے حضرت عائشہ اور ام سلمہ ؓ کے پاس لے گئے۔ ان دونوں ازواج مطہرات نے فرمایا: بسا اوقات رسول اللہ ﷺ صبح کے وقت بحالت جنابت ہوتے لیکن آپ روزہ رکھ لیتے، پھر جب حضرت ابو ہریرہ ؓ کے پاس ازواج مطہرات کے فتوے کا ذکر ہوا تو انہوں نے فرمایا: کیا واقعی انہوں نے ایسا فرمایا ہے؟ عرض کیا گیا، ہاں، تو انہوں نے فرمایا: وہ اس سلسلے میں مجھ سے زیادہ جانتی ہیں۔ میں نے براہ راست رسول اللہ ﷺ سے یہ بات نہیں سنی بلکہ مجھے حضرت فضل بن عباس ؓ نے بتائی تھی۔ اس کے بعد حضرت ابو ہریرہ ؓ نے اپنے موقف سے رجوع کر لیا۔ (صحیح مسلم، الصیام، حدیث:2589(1109)) (2) حضرت ابو ہریرہ ؓ لوگوں کو فتویٰ دیتے تھے کو جو بحالت جنابت صبح کرے وہ اس دن روزہ نہ رکھے لیکن یہ حکم بعد میں منسوخ ہو گیا، البتہ حضرت ابو ہریرہ ؓ کو اس کے نسخ کا علم نہ ہوا، اس لیے اپنے علم کے مطابق فتویٰ دیتے رہے۔ پھر جب انہیں صحیح صورت حال کا علم ہوا تو اپنے فتویٰ سے رجوع کر لیا۔ اہل علم کی یہی شان ہے کہ جب انہیں صحیح بات معلوم ہو جائے تو اسے اختیار کر لیتے ہیں۔ واللہ أعلم۔ (3) تنگی وقت کے پیش نظر جس طرح جنبی آدمی روزہ رکھنے کے بعد غسل کر سکتا ہے اسی طرح حیض و نفاس والی عورت کا خون اگر رات کے وقت رک جائے اور وقت بالکل تھوڑا ہو تو وہ روزہ رکھنے کے بعد غسل کر سکتی ہے۔ اس پر جملہ اہل علم کا اتفاق ہے۔ (فتح الباري:190/4) (4) حافظ ابن حجر ؒ نے اس حدیث سے متعدد مسائل کا استنباط کیا ہے، جن میں چند ایک حسب ذیل ہیں: ٭ علمائے کرام کا امرائے وقت کے پاس جا کر علمی مذاکرات کرنا۔ ٭ منقولات میں اگر شک پڑ جائے تو اہل علم کی طرف رجوع کرنا۔ ٭ جن امور میں عورتوں کو زیادہ اطلاع ہو سکتی ہے، ایسے مسائل میں ان کی مرویات کو ترجیح دینا۔ ٭ جملہ معاملات میں رسول اللہ ﷺ کے اقوال و معمولات کی اقتدا کرنا۔ ٭ اختلاف کے وقت کتاب و سنت کو آخری اتھارٹی قرار دینا۔ ٭ حضرت ابو ہریرہ ؓ کی فضیلت ثابت ہوتی ہے جنہوں نے اعتراف حق کر کے اس کی طرف رجوع کیا۔ (فتح الباري:190/4)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، کہا ہم سے امام مالک نے، ان سے ابوبکر بن عبدالرحمن بن حارث بن ہشام بن مغیرہ کے غلام سمی نے بیان کیا، انہوں نے ابوبکر بن عبدالرحمن سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں اپنے باپ کے ساتھ عائشہ اور ام سلمہ ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا ( دوسری سند امام بخاری ؒ نے کہا کہ ) اور ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہوں نے بیان کیا کہ مجھے ابوبکر بن عبدالرحمن بن حارث بن ہشام نے خبر دی، انہیں ان کے والد عبدالرحمن نے خبر دی، انہیں مروان نے خبر دی اور انہیں عائشہ اور ام سلمہ ؓ نے خبر دی کہ ( بعض مرتبہ ) فجر ہوتی تو رسول اللہ ﷺ اپنے اہل کے ساتھ جنبی ہوتے تھے، پھر آپ ﷺ غسل کرتے اور آپ ﷺ روزہ سے ہوتے تھے، اور مروان بن حکم نے عبدالرحمن بن حارث سے کہا میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں ابوہریرہ ؓ کو تم یہ حدیث صاف صاف سنا دو۔ ( کیوں کہ ابوہریرہ ؓ کا فتوی اس کے خلا ف تھا ) ان دنوں مروان، امیر معاویہ ؓ کی طرف سے مدینہ کا حاکم تھا، ابوبکر نے کہا کہ عبدالرحمن نے اس بات کو پسند نہیں کیا۔ اتفاق سے ہم سب ایک مرتبہ ذو الحلیفہ میں جمع ہو گئے۔ ابوہریرہ ؓ کی وہاں کوئی زمین تھی، عبدالرحمن نے ان سے کہا کہ آپ سے ایک بات کہوں گا اور اگر مروان نے اس کی مجھے قسم نہ دی ہوتی تو میں کبھی آپ کے سامنے اسے نہ چھیڑتا۔ پھر انہوں نے عائشہ اور ام سلمہ ؓ کی حدیث ذکر کی۔ ابوہریرہ ؓ نے کہا ( میں کیا کروں ) کہا کہ فضل بن عباس ؓ نے یہ حدیث بیان کی تھی ( اور وہ زیادہ جاننے والے ہیں ) کہ ہمیں ہمام اور عبداللہ بن عمر ؓ کے صاحبزادے نے ابوہریرہ ؓ سے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ ایسے شخص کو جو صبح کے وقت جنبی ہونے کی حالت میں اٹھا ہو افطار کا حکم دیتے تھے لیکن حضرت عائشہ ؓ اور ام سلمہ ؓ کی یہ روایت زیادہ معتبر ہے۔
حدیث حاشیہ:
ابوہریرہ ؓ نے فضل کی حدیث سن کر اس کے خلاف فتوی دیا تھا۔ مروان کا یہ مطلب تھا کہ عبدالرحمن ان کو پریشان کریں لیکن عبدالرحمن نے یہ منظور نہ کیا اور خاموش رہے پھر موقع پاکر ابوہریرہ ؓ سے اس مسئلہ کو ذکر کیا۔ ایک روایت میں ہے کہ ابوہریرہ نے عائشہ اور ام سلمہ ؓ کی حدیث سن کر کہا کہ وہ خوب جانتی ہیں گویا اپنے فتوی سے رجوع کیا۔ ( وحیدی ) علامہ حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے بہت سے فوائد نکلتے ہیں مثلاً علماءکا امراءکے ہاں جاکر علمی مذاکرات کرنا، منقولات میں اگر ذرا بھی شک ہو جائے تو اپنے سے زیادہ علم رکھنے والے عالم کی طرف رجوع کرکے اس سے امر حق معلوم کرنا، ایسے امور جن پر عورتوں کو بہ نسبت مردوں کے زیادہ اطلاع ہوسکتی ہے، کی بابت عورتوں کی روایات کو مردوں کی مرویات پر ترجیح دینا، اسی طرح بالعکس جن امور پر مردوں کو زیادہ اطلاع ہوسکتی ہے ان کے لیے مردوں کی روایات کو عورتوں کی مرویات پر ترجیح دینا، بہرحال ہر امر میں آنحضرت ﷺ کی اقتداءکرنا، جب تک اس امر کے متعلق خصوصیت نبوی نہ ثابت ہو اور یہ کہ اختلاف کے وقت کتاب و سنت کی طرف رجوع کرنا اور خبر واحد مرد سے مروی ہو یا عورت سے اس کا حجت ہونا، یہ جملہ فوائد اس حدیث سے نکلتے ہیں اور حضرت ابوہریرہ ؓ کی فضیلت بھی ثابت ہوتی ہے، جنہوں نے حق کا اعتراف فرما کر اس کی طرف رجوع کیا۔ (فتح الباري)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Aisha and Um Salama (RA): At times Allah's Apostle (ﷺ) used to get up in the morning in the state of Janaba after having sexual relations with his wives. He would then take a bath and fast.