باب : رمضان میں اپنی بیوی کے ساتھ قصداً ہم بستر ہونے والا شخص کیا کرے؟
)
Sahi-Bukhari:
Fasting
(Chapter: To feed family from sin expiation (kaffarah) if they are needy.)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور کیا اس کے گھر والے محتاج ہوں تو وہ ان ہی کو کفارہ کا کھانا کھلا سکتا ہے؟
1937.
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ ایک شخص نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا: اس بدنصیب نے رمضان المبارک میں اپنی بیوی سے صحبت کرلی ہے۔ آپ نے فرمایا؛ ’’ کیا تم غلام آزاد کرنے کی طاقت رکھتے ہو؟‘‘ اس نے عرض کیا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’ کیا تو پے در پے دو ماہ کے روزے رکھ سکتا ہے؟‘‘ اس نے عرض کیا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’ کیاتیرے پاس اتنا کھانا ہے جو تو ساٹھ مسکینوں کو کھلا سکے؟‘‘ اس نے کہا: نہیں۔ راوی کہتا ہے کہ نبی کریم ﷺ کے پاس عرق لایا گیا جس میں کھجوریں تھیں۔۔۔ عرق، زنبیل (ٹوکرے) کو کہتے ہیں۔۔۔ آپ نے فرمایا: ’’یہ اپنی طرف سے کسی کو کھلا دو۔‘‘ اس نے عرض کیا کہ ہم سے جو زیادہ محتاج ہو اسے کھلاؤں؟مدینہ طیبہ کے دونوں پتھریلے کناروں کے درمیان کوئی ایسا گھر نہیں جو ہم سے زیادہ محتاج ہو۔ آپ نے فرمایا: ’’جاؤ اپنے گھر والوں ہی کو کھلادو۔‘‘
تشریح:
(1) اس عنوان اور اس سے پہلے عنوان میں کوئی تضاد نہیں کیونکہ پہلے عنوان سے مقصود یہ تھا کہ مفلسی اور تنگ دستی سے کفارہ ساقط نہیں ہوتا اور اس عنوان کا مطلب یہ ہے کہ کیا مفلس کو اس صدقے کے مال سے کفارے کے طور پر تصرف کرنے کا حق ہے یا عام صدقے کے اعتبار سے؟ ہمارے نزدیک اسے بعد میں کفارہ دینا ہو گا اور اس مال میں تصرف صدقے کے اعتبار سے ہے۔ (2) اس میں اختلاف ہے کہ ایسے انسان کو کفارے کے ساتھ خراب کردہ روزے کی قضا دینی ہو گی یا نہیں، امام شافعی اور اکثر علماء کے نزدیک قضا ضروری نہیں۔ امام اوزاعی نے کہا ہے: اگر کفارے میں دو ماہ کے مسلسل روزے رکھے تو قضا ضروری نہیں اگر اس کے علاوہ کوئی دوسرا کفارہ دے تو قضا لازم ہے، البتہ بعض روایات میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا: ’’ایک دن کا روزہ بھی رکھو۔‘‘ اگرچہ انفرادی طور پر ان روایات میں کمزوری ہے لیکن اجتماعی طور پر معلوم ہوتا ہے کہ اس کی اصل ضرور ہے۔ واللہ أعلم۔(فتح الباري:220/4) سنن ابن ماجہ کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا: ’’اس کی جگہ ایک دن کا روزہ رکھو۔‘‘(سنن ابن ماجة، الصوم، حدیث:1671) سنن ابی داود کی روایت میں یہ الفاظ ہیں: ’’ایک دن کا روزہ رکھو اور اللہ تعالیٰ سے استغفار کرو۔‘‘(سنن أبي داود، الصوم، حدیث:2393) ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ دوران روزہ میں جماع کرنے سے کفارہ اور قضا دونوں لازم ہیں۔ (3) روایات سے پتہ چلتا ہے کہ جب وہ آدمی آیا تو اپنے بال نوچ رہا تھا اور سینہ کوبی کر رہا تھا، نیز وہ اپنے سر پر مٹی بھی ڈال رہا تھا اور اپنے رخسار پیٹ رہا تھا۔ یہ تمام افعال شدت ندامت کی وجہ سے تھے، اس کے علاوہ مصیبت کے وقت بال نوچنے اور رخسار پیٹنے کی ممانعت ہے۔ (فتح الباري:210/4)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1880
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1937
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1937
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1937
تمہید کتاب
عربی زبان میں روزے کے لیے صوم کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ لغوی طور پر اس کے معنی رک جانا ہیں، یعنی کھانے پینے، بولنے، جماع کرنے یا چلنے سے رک جانا۔ شرعی تعریف یہ ہے کہ مخصوص شرائط کے ساتھ مخصوص ایام میں مخصوص اشیاء سے مخصوص وقت میں رک جانا کا نام صوم ہے۔ دوسرے لفظوں میں عبادت کی نیت سے طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کھانے، پینے اور ازدواجی تعلقات سے باز رہنے کا نام روزہ ہے۔دراصل انسان کو اللہ تعالیٰ نے روحانیت اور حیوانیت سے مرکب بنایا ہے۔ اس کی طبیعت میں وہ سارے مادی اور سفلی تقاضے بھی ہیں جو دوسرے حیوانوں میں ہوتے ہیں اور اس کی فطرت میں روحانیت کا وہ نورانی جوہر بھی ہے جو فرشتوں کے لیے خاص غذا اور دولت ہے۔ انسان کی سعادت کا دارومدار اسی پر ہے کہ اس کا روحانی عنصر، حیوانی عنصر پر غالب رہے اور اسے حدود کا پابند رکھے جو اللہ تعالیٰ نے اس پر عائد کی ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ انسان کا حیوانی پہلو اس کے روحانی پہلو کا فرمانبردار اور اطاعت شعار ہو جائے اور اس کے مقابلے میں سرکشی اور بغاوت نہ کرے۔ روزے کا مقصد بھی یہی ہے کہ اس کے ذریعے سے انسان کی حیوانیت کو کنٹرول کیا جائے اور اسے شرعی احکام کی پابندی، نیز ایمانی اور روحانی تقاضوں کی فرمانبرداری کا عادی بنایا جائے۔ روزہ چونکہ انسان کی حیوانی قوت کو اس کی روحانی قوت کے تابع رکھنے اور اللہ کے احکام کے مقابلے میں خواہشات نفس اور تقاضائے شہوت کو دبانے کی عادت ڈالنے کا خاص ذریعہ ہے، اس لیے سابقہ امتوں کو بھی اس کا حکم دیا گیا تھا۔ اگرچہ روزوں کی مدت اور دوسرے تفصیلی احکام میں خاص حالات و ضروریات کے لحاظ سے کچھ فرق بھی تھا، تاہم مقصد میں یکسانیت ضرور تھی جسے اللہ تعالیٰ نے بایں الفاظ بیان کیا ہے (لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ) "تاکہ تم تقویٰ شعار بن جاؤ۔" (البقرۃ183:2)اس امت کے لیے سال میں ایک ماہ کے روزے فرض کیے گئے اور روزے کا وقت طلوع سحر سے غروب آفتاب تک رکھا گیا۔ بلاشبہ یہ مدت اور یہ وقت مذکورہ بالا مقصد کے حصول کے لیے نہایت معتدل اور مناسب ہے کیونکہ اس سے کم مدت میں نفس کی تربیت کا مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ اور اگر وقت اس سے زیادہ رکھا جاتا تو اکثریت کے لیے ناقابل برداشت ہوتا۔ بہرحال طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کا وقت اور سال میں ایک مہینے کی مدت عام انسان کے حالات و ظروف کے اعتبار سے مقصد تربیت کے لیے بالکل مناسب اور متعدل ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کے تحت ایک سو ستاون احادیث ذکر کیں ہیں، پھر ان احادیث پر ستر کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے روزے کے متعلق متعدد احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ ہم چند ایک کا بطور نمونہ ذکر کرتے ہیں۔وجوب روزہ، فضیلت روزہ، ماہ رمضان میں سخاوت کرنا، روزے کی ابتدا اور انتہائے سحری کے مسائل، اس کا وقت، بحالت جنابت روزہ رکھنا، دن کے وقت روزے کی نیت کرنا، دوران روزہ بیوی سے بوس و کنار کرنا، بحالت روزہ غسل کرنا، بھول کر کھا پی لینا، دوران روزہ تازہ یا خشک مسواک کرنا، بحالت روزہ بیوی سے جماع اور اس کا کفارہ، روزے کی حالت میں سنگی لگوانا یا قے کرنا، دوران سفر میں روزے رکھنا، روزے کی قضا کا وقت، حائضہ عورت کے لیے روزے کے احکام، افطاری کے مسائل، افطاری کے بعد اگر سورج نظر آ جائے، وصال کی شرعی حیثیت، نفلی روزے اور اسوۂ نبوی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مذکورہ مسائل اور دیگر احکام براہ راست احادیث سے اخذ کیے ہیں، جن سے امام صاحب کی بصیرت و فراست کا پتہ چلتا ہے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک سو ستاون احادیث بیان کی ہیں جن میں چھتیس معلق اور باقی موصول ہیں، ان میں اڑسٹھ مکرر اور خالص نواسی احادیث ہیں۔ پچیس احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔ احادیث کے علاوہ تقریبا ساٹھ آثار بھی بیان کیے ہیں جو متعدد صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی ہیں۔ ان میں اکثر معلق اور چند موصول ہیں۔واضح رہے کہ اس مہینے کو رمضان اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس کے معنی جلنے کے ہیں اور جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تھے اس وقت سخت گرمی تھی، اس لیے یہ مہینہ رمضان سے موسوم ہوا، نیز اس ماہ میں روزہ رکھنے والوں کے گناہ جل جاتے ہیں۔ عورت، مریض اور مسافر کے لیے کچھ رعایت بھی ہے جس کا آئندہ تفصیل سے ذکر ہو گا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ماہ رمضان کے روزوں کا بیان ارکان اسلام کے آخر میں کیا ہے، اس کے متعلق علامہ عینی نے لکھا ہے کہ قبل ازیں کتاب الزکاۃ کے بعد کتاب الحج کو ذکر کیا کیونکہ ان دونوں میں مال خرچ ہوتا ہے، اب روزے کے احکام کے لیے اور کوئی محل نہیں تھا، اس لیے ان کے احکام و مسائل کو آخر میں بیان کیا ہے۔ (عمدۃالقاری:8/3) قارئین کرام سے استدعا ہے کہ وہ امام بخاری رحمہ اللہ کے قائم کردہ عناوین اور پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کرتے وقت ہماری ان گزارشات کو ضرور پیش نظر رکھیں، اس سے حضرت امام کی فقہی بصیرت اور قوت استنباط اور دقت نظر کا اندازہ ہو گا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان احادیث پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے اور قیامت کے دن ہمیں زمرۂ محدثین میں اٹھائے۔ آمین یا رب العالمین
اور کیا اس کے گھر والے محتاج ہوں تو وہ ان ہی کو کفارہ کا کھانا کھلا سکتا ہے؟
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ ایک شخص نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا: اس بدنصیب نے رمضان المبارک میں اپنی بیوی سے صحبت کرلی ہے۔ آپ نے فرمایا؛ ’’ کیا تم غلام آزاد کرنے کی طاقت رکھتے ہو؟‘‘ اس نے عرض کیا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’ کیا تو پے در پے دو ماہ کے روزے رکھ سکتا ہے؟‘‘ اس نے عرض کیا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’ کیاتیرے پاس اتنا کھانا ہے جو تو ساٹھ مسکینوں کو کھلا سکے؟‘‘ اس نے کہا: نہیں۔ راوی کہتا ہے کہ نبی کریم ﷺ کے پاس عرق لایا گیا جس میں کھجوریں تھیں۔۔۔ عرق، زنبیل (ٹوکرے) کو کہتے ہیں۔۔۔ آپ نے فرمایا: ’’یہ اپنی طرف سے کسی کو کھلا دو۔‘‘ اس نے عرض کیا کہ ہم سے جو زیادہ محتاج ہو اسے کھلاؤں؟مدینہ طیبہ کے دونوں پتھریلے کناروں کے درمیان کوئی ایسا گھر نہیں جو ہم سے زیادہ محتاج ہو۔ آپ نے فرمایا: ’’جاؤ اپنے گھر والوں ہی کو کھلادو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) اس عنوان اور اس سے پہلے عنوان میں کوئی تضاد نہیں کیونکہ پہلے عنوان سے مقصود یہ تھا کہ مفلسی اور تنگ دستی سے کفارہ ساقط نہیں ہوتا اور اس عنوان کا مطلب یہ ہے کہ کیا مفلس کو اس صدقے کے مال سے کفارے کے طور پر تصرف کرنے کا حق ہے یا عام صدقے کے اعتبار سے؟ ہمارے نزدیک اسے بعد میں کفارہ دینا ہو گا اور اس مال میں تصرف صدقے کے اعتبار سے ہے۔ (2) اس میں اختلاف ہے کہ ایسے انسان کو کفارے کے ساتھ خراب کردہ روزے کی قضا دینی ہو گی یا نہیں، امام شافعی اور اکثر علماء کے نزدیک قضا ضروری نہیں۔ امام اوزاعی نے کہا ہے: اگر کفارے میں دو ماہ کے مسلسل روزے رکھے تو قضا ضروری نہیں اگر اس کے علاوہ کوئی دوسرا کفارہ دے تو قضا لازم ہے، البتہ بعض روایات میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا: ’’ایک دن کا روزہ بھی رکھو۔‘‘ اگرچہ انفرادی طور پر ان روایات میں کمزوری ہے لیکن اجتماعی طور پر معلوم ہوتا ہے کہ اس کی اصل ضرور ہے۔ واللہ أعلم۔(فتح الباري:220/4) سنن ابن ماجہ کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا: ’’اس کی جگہ ایک دن کا روزہ رکھو۔‘‘(سنن ابن ماجة، الصوم، حدیث:1671) سنن ابی داود کی روایت میں یہ الفاظ ہیں: ’’ایک دن کا روزہ رکھو اور اللہ تعالیٰ سے استغفار کرو۔‘‘(سنن أبي داود، الصوم، حدیث:2393) ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ دوران روزہ میں جماع کرنے سے کفارہ اور قضا دونوں لازم ہیں۔ (3) روایات سے پتہ چلتا ہے کہ جب وہ آدمی آیا تو اپنے بال نوچ رہا تھا اور سینہ کوبی کر رہا تھا، نیز وہ اپنے سر پر مٹی بھی ڈال رہا تھا اور اپنے رخسار پیٹ رہا تھا۔ یہ تمام افعال شدت ندامت کی وجہ سے تھے، اس کے علاوہ مصیبت کے وقت بال نوچنے اور رخسار پیٹنے کی ممانعت ہے۔ (فتح الباري:210/4)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے جریر نے بیان کیا، ان سے منصور نے، ان سے زہری نے، ان سے حمید بن عبدالرحمن نے اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے کہ ایک شخص نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ یہ بدنصیب رمضان میں اپنی بیوی سے جماع کر بیٹھا ہے، آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کہ تمہارے پاس اتنی طاقت نہیں ہے کہ ایک غلام آزاد کرسکو؟ اس نے کہا کہ نہیں، آپ ﷺ نے پھر دریافت فرمایا کیا تم پے در پے دو مہینے کے روزے رکھ سکتے ہو؟ اس نے کہا کہ نہیں۔ آپ ﷺ نے پھر دریافت فرمایا کہ کیا تمہارے اندر اتنی طاقت ہے کہ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا سکو؟ اب بھی اس کا جواب نفی میں تھا۔ راوی نے بیان کیا پھر نبی کریم ﷺ کی خدمت میں ایک تھیلا لایا گیا جس میں کھجوریں تھیں ” عرق زنبیل کو کہتے ہیں “ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اسے لے جا اور اپنی طرف سے ( محتاجوں کو ) کھلادے، اس شخص نے کہا میں اپنے سے بھی زیادہ محتاج کو حالانکہ دو میدانوں کے درمیان کوئی گھرانہ ہم سے زیادہ محتاج نہیں آپ نے فرمایا کہ پھر جا اپنے گھر والوں ہی کو کھلا دے۔
حدیث حاشیہ:
اس سے بعض نے یہ نکالا کہ مفلس پر سے کفارہ ساقط ہو جاتا ہے اور جمہور کے نزدیک مفلسی کی وجہ سے کفارہ ساقط نہیں ہوتا، اب رہا اپنے گھر والوں کو کھلانا تو زہری نے کہا یہ اس مرد کے ساتھ خاص تھا بعض نے کہا یہ حدیث منسوخ ہے اب اس میں اختلاف ہے کہ جس روزے کا کفارہ دے اس کی قضا بھی لازم ہے یا نہیں۔ شافعی اور اکثر علماءکے نزدیک قضاء لازم نہیں اور اوزاعی نے کہا اگر کفارہ میں دو مہینے کے روزے رکھے تب قضا لازم نہیں۔ دوسرا کوئی کفارہ دے تو قضا لازم ہے اور حنفیہ کے نزدیک ہر حال میں قضا اور کفارہ دونوں لازم ہیں۔ (وحیدی)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): A man came to the Prophet (ﷺ) and said, "I had sexual intercourse with my wife on Ramadan (while fasting)." The Prophet (ﷺ) asked him, "Can you afford to manumit a slave?" He replied in the negative. The Prophet (ﷺ) asked him, "Can you fast for two successive months?" He replied in the negative. He asked him, "Can you afford to feed sixty poor persons?" He replied in the negative. ( Abu Hurairah (RA) added): Then a basket full of dates was brought to the Prophet (ﷺ) and he said (to that man), "Feed (poor people) with this by way of atonement." He said, "(Should I feed it) to poorer people than we? There is no poorer house than ours between its (Medina's) mountains." The Prophet (ﷺ) said, "Then feed your family with it."