Sahi-Bukhari:
Fasting
(Chapter: To observe Saum (fast) or not during journeys)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1941.
حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ ہم ایک سفر میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ تھے۔ (شام کے وقت) آپ نے ایک شخص سے فرمایا: ’’اتر کر میرے لیے ستو تیار کر۔‘‘ اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ ! ابھی تو آفتاب کی روشنی ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’اتر کر میرے لیے ستو گھول۔‘‘ اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ !ابھی تک سورج کی روشنی باقی ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’اتر کر میرے لیے ستو تیار کر۔‘‘ چنانچہ وہ اترا اور آپ کے لیے ستو تیار کیے۔ آپ نے انھیں نوش کیا۔ پھر اپنے ہاتھ سے مشرق کی طرف اشارہ کرکے فرمایا: ’’جب ادھر سے رات کا اندھیرا شروع ہوجائے تو روزہ دار کو روزہ افطار کرنا چاہیے۔‘‘ جریر اور ابو بکر عیاش نے ابو اسحاق سے روایت کرنے میں سفیان کی متابعت کی ہے۔ وہ ابن ابی اوفیٰ ؓ سے بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے فرمایا: میں نبی کریم ﷺ کے ہمراہ ایک سفر میں تھا۔
تشریح:
(1) دوران سفر میں روزہ رکھنے کے متعلق مختلف آراء ہیں: ظاہری حضرات کا خیال ہے کہ سفر میں روزہ چھوڑنا واجب ہے۔ اگر کوئی دوران سفر میں روزہ رکھے گا تو اسے کوئی اجروثواب نہیں ملے گا، جبکہ بعض دوسرے کہتے ہیں کہ سفر میں روزہ رکھنا اور چھوڑنا دونوں برابر ہیں، ان میں کوئی بھی افضل نہیں۔ بعض حضرات کا خیال ہے کہ دونوں صورتوں میں جو آسان ہو اسے اختیار کر لینا چاہیے۔ چونکہ رسول اللہ ﷺ نے سفر میں روزہ رکھا ہے، اس لیے ہمارے نزدیک روزہ رکھنا افضل ہے اور نہ رکھنا رخصت ہے بشرطیکہ روزہ رکھنے میں کوئی دشواری یا مشقت نہ ہو اور نہ فخر و غرور میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہی ہو۔ (2) جو شخص رخصت قبول کرنے سے اعراض کرتا ہو یا اس کے لیے روزہ نقصان دہ ہو تو اس کے لیے روزہ چھوڑ دینا بہتر ہے۔ (3) صحیح مسلم کی روایت میں صراحت ہے کہ مذکورہ سفر ماہ رمضان میں تھا (صحیح مسلم، الصیام، حدیث:2559(1101)) اور رمضان میں سفر غزوۂ بدر یا فتح مکہ کے وقت ہوا ہے۔ حضرت ابن ابی اوفیٰ ؓ غزوۂ بدر میں شریک نہیں تھے، اس لیے یہ سفر فتح مکہ کے وقت ہی تھا۔ واللہ أعلم۔(عمدةالقاري:131/8) (4) سورج غروب ہو چکا تھا لیکن اس کے آثار ابھی باقی تھے، اس بنا پر صحابی نے گمان کیا کہ سورج ابھی غروب نہیں ہوا، اس لیے انہوں نے دوبارہ، سہ بارہ اپنا سوال دہرایا، اس کا بار بار تکرار کسی مفاد کی وجہ سے نہیں تھا۔ واضح رہے کہ یہ صحابئ رسول حضرت بلال ؓ تھے۔ (عمدةالقاري:131/8) (5) حضرت جریر کی متابعت امام بخاری ؒ نے خود بیان کی ہے۔ (صحیح البخاري، الطلاق، حدیث:5297) نیز ابوبکر بن عیاش کی متابعت بھی امام بخاری نے ذکر کی ہے۔ (صحیح البخاري، الصوم، حدیث:1958)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1884
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1941
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1941
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1941
تمہید کتاب
عربی زبان میں روزے کے لیے صوم کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ لغوی طور پر اس کے معنی رک جانا ہیں، یعنی کھانے پینے، بولنے، جماع کرنے یا چلنے سے رک جانا۔ شرعی تعریف یہ ہے کہ مخصوص شرائط کے ساتھ مخصوص ایام میں مخصوص اشیاء سے مخصوص وقت میں رک جانا کا نام صوم ہے۔ دوسرے لفظوں میں عبادت کی نیت سے طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کھانے، پینے اور ازدواجی تعلقات سے باز رہنے کا نام روزہ ہے۔دراصل انسان کو اللہ تعالیٰ نے روحانیت اور حیوانیت سے مرکب بنایا ہے۔ اس کی طبیعت میں وہ سارے مادی اور سفلی تقاضے بھی ہیں جو دوسرے حیوانوں میں ہوتے ہیں اور اس کی فطرت میں روحانیت کا وہ نورانی جوہر بھی ہے جو فرشتوں کے لیے خاص غذا اور دولت ہے۔ انسان کی سعادت کا دارومدار اسی پر ہے کہ اس کا روحانی عنصر، حیوانی عنصر پر غالب رہے اور اسے حدود کا پابند رکھے جو اللہ تعالیٰ نے اس پر عائد کی ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ انسان کا حیوانی پہلو اس کے روحانی پہلو کا فرمانبردار اور اطاعت شعار ہو جائے اور اس کے مقابلے میں سرکشی اور بغاوت نہ کرے۔ روزے کا مقصد بھی یہی ہے کہ اس کے ذریعے سے انسان کی حیوانیت کو کنٹرول کیا جائے اور اسے شرعی احکام کی پابندی، نیز ایمانی اور روحانی تقاضوں کی فرمانبرداری کا عادی بنایا جائے۔ روزہ چونکہ انسان کی حیوانی قوت کو اس کی روحانی قوت کے تابع رکھنے اور اللہ کے احکام کے مقابلے میں خواہشات نفس اور تقاضائے شہوت کو دبانے کی عادت ڈالنے کا خاص ذریعہ ہے، اس لیے سابقہ امتوں کو بھی اس کا حکم دیا گیا تھا۔ اگرچہ روزوں کی مدت اور دوسرے تفصیلی احکام میں خاص حالات و ضروریات کے لحاظ سے کچھ فرق بھی تھا، تاہم مقصد میں یکسانیت ضرور تھی جسے اللہ تعالیٰ نے بایں الفاظ بیان کیا ہے (لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ) "تاکہ تم تقویٰ شعار بن جاؤ۔" (البقرۃ183:2)اس امت کے لیے سال میں ایک ماہ کے روزے فرض کیے گئے اور روزے کا وقت طلوع سحر سے غروب آفتاب تک رکھا گیا۔ بلاشبہ یہ مدت اور یہ وقت مذکورہ بالا مقصد کے حصول کے لیے نہایت معتدل اور مناسب ہے کیونکہ اس سے کم مدت میں نفس کی تربیت کا مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ اور اگر وقت اس سے زیادہ رکھا جاتا تو اکثریت کے لیے ناقابل برداشت ہوتا۔ بہرحال طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کا وقت اور سال میں ایک مہینے کی مدت عام انسان کے حالات و ظروف کے اعتبار سے مقصد تربیت کے لیے بالکل مناسب اور متعدل ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کے تحت ایک سو ستاون احادیث ذکر کیں ہیں، پھر ان احادیث پر ستر کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے روزے کے متعلق متعدد احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ ہم چند ایک کا بطور نمونہ ذکر کرتے ہیں۔وجوب روزہ، فضیلت روزہ، ماہ رمضان میں سخاوت کرنا، روزے کی ابتدا اور انتہائے سحری کے مسائل، اس کا وقت، بحالت جنابت روزہ رکھنا، دن کے وقت روزے کی نیت کرنا، دوران روزہ بیوی سے بوس و کنار کرنا، بحالت روزہ غسل کرنا، بھول کر کھا پی لینا، دوران روزہ تازہ یا خشک مسواک کرنا، بحالت روزہ بیوی سے جماع اور اس کا کفارہ، روزے کی حالت میں سنگی لگوانا یا قے کرنا، دوران سفر میں روزے رکھنا، روزے کی قضا کا وقت، حائضہ عورت کے لیے روزے کے احکام، افطاری کے مسائل، افطاری کے بعد اگر سورج نظر آ جائے، وصال کی شرعی حیثیت، نفلی روزے اور اسوۂ نبوی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مذکورہ مسائل اور دیگر احکام براہ راست احادیث سے اخذ کیے ہیں، جن سے امام صاحب کی بصیرت و فراست کا پتہ چلتا ہے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک سو ستاون احادیث بیان کی ہیں جن میں چھتیس معلق اور باقی موصول ہیں، ان میں اڑسٹھ مکرر اور خالص نواسی احادیث ہیں۔ پچیس احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔ احادیث کے علاوہ تقریبا ساٹھ آثار بھی بیان کیے ہیں جو متعدد صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی ہیں۔ ان میں اکثر معلق اور چند موصول ہیں۔واضح رہے کہ اس مہینے کو رمضان اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس کے معنی جلنے کے ہیں اور جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تھے اس وقت سخت گرمی تھی، اس لیے یہ مہینہ رمضان سے موسوم ہوا، نیز اس ماہ میں روزہ رکھنے والوں کے گناہ جل جاتے ہیں۔ عورت، مریض اور مسافر کے لیے کچھ رعایت بھی ہے جس کا آئندہ تفصیل سے ذکر ہو گا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ماہ رمضان کے روزوں کا بیان ارکان اسلام کے آخر میں کیا ہے، اس کے متعلق علامہ عینی نے لکھا ہے کہ قبل ازیں کتاب الزکاۃ کے بعد کتاب الحج کو ذکر کیا کیونکہ ان دونوں میں مال خرچ ہوتا ہے، اب روزے کے احکام کے لیے اور کوئی محل نہیں تھا، اس لیے ان کے احکام و مسائل کو آخر میں بیان کیا ہے۔ (عمدۃالقاری:8/3) قارئین کرام سے استدعا ہے کہ وہ امام بخاری رحمہ اللہ کے قائم کردہ عناوین اور پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کرتے وقت ہماری ان گزارشات کو ضرور پیش نظر رکھیں، اس سے حضرت امام کی فقہی بصیرت اور قوت استنباط اور دقت نظر کا اندازہ ہو گا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان احادیث پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے اور قیامت کے دن ہمیں زمرۂ محدثین میں اٹھائے۔ آمین یا رب العالمین
حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ ہم ایک سفر میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ تھے۔ (شام کے وقت) آپ نے ایک شخص سے فرمایا: ’’اتر کر میرے لیے ستو تیار کر۔‘‘ اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ ! ابھی تو آفتاب کی روشنی ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’اتر کر میرے لیے ستو گھول۔‘‘ اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ !ابھی تک سورج کی روشنی باقی ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’اتر کر میرے لیے ستو تیار کر۔‘‘ چنانچہ وہ اترا اور آپ کے لیے ستو تیار کیے۔ آپ نے انھیں نوش کیا۔ پھر اپنے ہاتھ سے مشرق کی طرف اشارہ کرکے فرمایا: ’’جب ادھر سے رات کا اندھیرا شروع ہوجائے تو روزہ دار کو روزہ افطار کرنا چاہیے۔‘‘ جریر اور ابو بکر عیاش نے ابو اسحاق سے روایت کرنے میں سفیان کی متابعت کی ہے۔ وہ ابن ابی اوفیٰ ؓ سے بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے فرمایا: میں نبی کریم ﷺ کے ہمراہ ایک سفر میں تھا۔
حدیث حاشیہ:
(1) دوران سفر میں روزہ رکھنے کے متعلق مختلف آراء ہیں: ظاہری حضرات کا خیال ہے کہ سفر میں روزہ چھوڑنا واجب ہے۔ اگر کوئی دوران سفر میں روزہ رکھے گا تو اسے کوئی اجروثواب نہیں ملے گا، جبکہ بعض دوسرے کہتے ہیں کہ سفر میں روزہ رکھنا اور چھوڑنا دونوں برابر ہیں، ان میں کوئی بھی افضل نہیں۔ بعض حضرات کا خیال ہے کہ دونوں صورتوں میں جو آسان ہو اسے اختیار کر لینا چاہیے۔ چونکہ رسول اللہ ﷺ نے سفر میں روزہ رکھا ہے، اس لیے ہمارے نزدیک روزہ رکھنا افضل ہے اور نہ رکھنا رخصت ہے بشرطیکہ روزہ رکھنے میں کوئی دشواری یا مشقت نہ ہو اور نہ فخر و غرور میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہی ہو۔ (2) جو شخص رخصت قبول کرنے سے اعراض کرتا ہو یا اس کے لیے روزہ نقصان دہ ہو تو اس کے لیے روزہ چھوڑ دینا بہتر ہے۔ (3) صحیح مسلم کی روایت میں صراحت ہے کہ مذکورہ سفر ماہ رمضان میں تھا (صحیح مسلم، الصیام، حدیث:2559(1101)) اور رمضان میں سفر غزوۂ بدر یا فتح مکہ کے وقت ہوا ہے۔ حضرت ابن ابی اوفیٰ ؓ غزوۂ بدر میں شریک نہیں تھے، اس لیے یہ سفر فتح مکہ کے وقت ہی تھا۔ واللہ أعلم۔(عمدةالقاري:131/8) (4) سورج غروب ہو چکا تھا لیکن اس کے آثار ابھی باقی تھے، اس بنا پر صحابی نے گمان کیا کہ سورج ابھی غروب نہیں ہوا، اس لیے انہوں نے دوبارہ، سہ بارہ اپنا سوال دہرایا، اس کا بار بار تکرار کسی مفاد کی وجہ سے نہیں تھا۔ واضح رہے کہ یہ صحابئ رسول حضرت بلال ؓ تھے۔ (عمدةالقاري:131/8) (5) حضرت جریر کی متابعت امام بخاری ؒ نے خود بیان کی ہے۔ (صحیح البخاري، الطلاق، حدیث:5297) نیز ابوبکر بن عیاش کی متابعت بھی امام بخاری نے ذکر کی ہے۔ (صحیح البخاري، الصوم، حدیث:1958)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے ابواسحاق شیبانی نے، انہوں نے عبداللہ بن ابی اوفی ؓ سے سنا کہا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سفر میں تھے ( روزہ کی حالت میں ) آنحضرت ﷺ نے ایک صاحب ( بلال ؓ ) سے فرمایا کہ اتر کر میرے لیے ستو گھول لے، انہوں ے عرض کی یا رسول اللہ ! ابھی تو سورج باقی ہے، آپ ﷺ نے پھر فرمایا کہ اتر کر ستو گھول لے، اب کی مرتبہ بھی انہوں نے عرض کی یا رسول اللہ ! ابھی سورج باقی ہے لیکن آپ کا حکم اب بھی یہی تھا کہ اتر کر میرے لیے ستو گھول لے، پھر آپ ﷺ نے ایک طرف اشارہ کرکے فرمایا جب تم دیکھو کہ رات یہاں سے شروع ہو چکی ہے تو روزہ دار کو افطار کرلینا چاہئے۔ اس کی متابعت جریر اور ابوبکر بن عیاش نے شیبانی کے واسطہ سے کی ہے اور ان سے ابن ابو اوفی ؓ نے کہا کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سفر میں تھا۔
حدیث حاشیہ:
حدیث اور باب میں مطابقت ظا ہر ہے، روزہ کھولتے وقت اس دعا کا پڑھنا سنت ہے اللهم لكَ صُمتُ و علی رزقكَ أفطرتُیعنی یا اللہ ! میں نے یہ روزہ تیری رضا کے لیے رکھا تھا اور اب تیرے ہی رزق پر اسے کھولا ہے۔ اس کے بعد یہ کلما ت پڑھے ذهبَ الظمأُ و ابتلتِ العروقُ و ثبت الأجر إن شاءاللہیعنی اللہ کا شکر ہے کہ روزہ کھولنے سے پیاس دور ہو گئی اور رگیں سیراب ہو گئیں اور اللہ نے چاہا تو اس کے پاس اس کا ثواب عظیم لکھا گیا۔ حدیث للصائم فرحتان الخیعنی روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں پر حضرت شاہ ولی اللہ مرحوم فرماتے ہیں کہ پہلی خوشی طبعی ہے اور رمضان کے روزہ افطار کرنے سے نفس کو جس چیز کی خواہش تھی وہ مل جاتی ہے اور دوسری روحانی فرحت ہے اس واسطے کہ روزہ کی وجہ سے روزہ دار حجاب جسمانی سے علیحدہ ہونے اور عالم بالا سے علم الیقین کا فیضان ہونے کے بعد تقدس کے آثار ظاہر ہونے کے قابل ہوجاتاہے، جس طرح نماز کے سبب سے تجلی کے آثار نمایاں ہو جاتے ہیں۔ (حجة اللہ البالغة)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn Abi Aufa: We were in the company of Allah's Apostle (ﷺ) on a journey. He said to a man, "Get down and mix Sawiq (powdered barley) with water for me." The man said, "The sun (has not set yet), O Allah's Apostle." The Prophet (ﷺ) again said to him, "Get down and mix Sawiq with water for me." The man again said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! The sun!" The Prophet (ﷺ) said to him (for the third time) "Get down and mix Sawiq with water for me." The man dismounted and mixed Sawiq with water for him. The Prophet (ﷺ) drank it and then beckoned with his hand (towards the East) and said, "When you see the night falling from this side, then a fasting person should break his fast."