باب : نبی کریم ﷺکا فرمانا اس شخص کے لیے جس پر شدت گرمی کی وجہ سے سایہ کر دیا گیا تھا کہ
)
Sahi-Bukhari:
Fasting
(Chapter: It is not righteousness to observe Saum on a journey)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
سفر میں روزہ رکھنا کوئی نیکی نہیں ہے۔
1946.
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے دوران سفر ایک ہجوم دیکھا۔ اس میں ایک آدمی نظر آیا جس پر سایہ کیا گیاتھا۔ آپ نے فرمایا: ’’یہ کیا ہے؟‘‘ لوگوں نے عرض کیا: یہ شخص روزے دار ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’(ایسے حالات میں) دوران سفر میں روزہ ر کھنا کوئی نیکی نہیں۔ ‘‘
تشریح:
(1) اس حدیث سے اہل ظاہر نے دلیل پکڑی ہے کہ دوران سفر میں روزہ رکھنا جائز نہیں۔ اگر کسی نے روزہ رکھ لیا تو وہ روزہ نہ ہو گا، حالانکہ یہ حدیث ایک خاص شخص سے متعلق ہے جس پر سایہ کیا گیا تھا اور وہ ہلاکت کے قریب پہنچ چکا تھا، اس بنا پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جس روزے میں روزہ دار اس حالت کو پہنچ جائے کہ اس کی جان کو خطرہ لاحق ہو، اس وقت روزہ رکھنا کوئی نیکی نہیں جبکہ اللہ تعالیٰ نے ایسے حالات میں روزہ چھوڑ دینے کی رخصت دی ہے، ایسے انسان کے لیے روزہ چھوڑ دینا افضل ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "سفر میں رمضان کا روزہ رکھنے والا حالت اقامت میں روزہ چھوڑنے والے کی طرح ہے۔‘‘ (سنن ابن ماجة، الصیام، حدیث:1666) یہ روایت منکر اور ضعیف ہے۔ (سلسلة الأحادیث الضعیفة ،حدیث:498) (2) صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ رمضان المبارک میں فتح مکہ کے لیے مدینہ طیبہ سے روانہ ہوئے۔ آپ روزے کی حالت میں تھے۔ جب مقام کراع الغمیم پہنچے تو آپ سے کہا گیا کہ لوگوں پر روزہ بہت مشکل ہو رہا ہے اور وہ آپ کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے عصر کے بعد پانی کا ایک پیالہ منگوایا اور اسے لوگوں کے سامنے کر کے نوش کر لیا۔ اس کے بعد آپ کو بتایا گیا کہ کچھ لوگوں نے روزہ افطار نہیں کیا۔ آپ نے فرمایا: ’’یہی نافرمان ہیں، یہی نافرمان ہیں۔‘‘(صحیح مسلم، الصیام، حدیث:2610(1114)) اس حدیث کا بھی یہی مطلب ہے کہ جب روزہ باعث مشقت ہو تو دوران سفر میں اسے چھوڑ دینا چاہیے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1889
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1946
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1946
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1946
تمہید کتاب
عربی زبان میں روزے کے لیے صوم کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ لغوی طور پر اس کے معنی رک جانا ہیں، یعنی کھانے پینے، بولنے، جماع کرنے یا چلنے سے رک جانا۔ شرعی تعریف یہ ہے کہ مخصوص شرائط کے ساتھ مخصوص ایام میں مخصوص اشیاء سے مخصوص وقت میں رک جانا کا نام صوم ہے۔ دوسرے لفظوں میں عبادت کی نیت سے طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کھانے، پینے اور ازدواجی تعلقات سے باز رہنے کا نام روزہ ہے۔دراصل انسان کو اللہ تعالیٰ نے روحانیت اور حیوانیت سے مرکب بنایا ہے۔ اس کی طبیعت میں وہ سارے مادی اور سفلی تقاضے بھی ہیں جو دوسرے حیوانوں میں ہوتے ہیں اور اس کی فطرت میں روحانیت کا وہ نورانی جوہر بھی ہے جو فرشتوں کے لیے خاص غذا اور دولت ہے۔ انسان کی سعادت کا دارومدار اسی پر ہے کہ اس کا روحانی عنصر، حیوانی عنصر پر غالب رہے اور اسے حدود کا پابند رکھے جو اللہ تعالیٰ نے اس پر عائد کی ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ انسان کا حیوانی پہلو اس کے روحانی پہلو کا فرمانبردار اور اطاعت شعار ہو جائے اور اس کے مقابلے میں سرکشی اور بغاوت نہ کرے۔ روزے کا مقصد بھی یہی ہے کہ اس کے ذریعے سے انسان کی حیوانیت کو کنٹرول کیا جائے اور اسے شرعی احکام کی پابندی، نیز ایمانی اور روحانی تقاضوں کی فرمانبرداری کا عادی بنایا جائے۔ روزہ چونکہ انسان کی حیوانی قوت کو اس کی روحانی قوت کے تابع رکھنے اور اللہ کے احکام کے مقابلے میں خواہشات نفس اور تقاضائے شہوت کو دبانے کی عادت ڈالنے کا خاص ذریعہ ہے، اس لیے سابقہ امتوں کو بھی اس کا حکم دیا گیا تھا۔ اگرچہ روزوں کی مدت اور دوسرے تفصیلی احکام میں خاص حالات و ضروریات کے لحاظ سے کچھ فرق بھی تھا، تاہم مقصد میں یکسانیت ضرور تھی جسے اللہ تعالیٰ نے بایں الفاظ بیان کیا ہے (لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ) "تاکہ تم تقویٰ شعار بن جاؤ۔" (البقرۃ183:2)اس امت کے لیے سال میں ایک ماہ کے روزے فرض کیے گئے اور روزے کا وقت طلوع سحر سے غروب آفتاب تک رکھا گیا۔ بلاشبہ یہ مدت اور یہ وقت مذکورہ بالا مقصد کے حصول کے لیے نہایت معتدل اور مناسب ہے کیونکہ اس سے کم مدت میں نفس کی تربیت کا مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ اور اگر وقت اس سے زیادہ رکھا جاتا تو اکثریت کے لیے ناقابل برداشت ہوتا۔ بہرحال طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کا وقت اور سال میں ایک مہینے کی مدت عام انسان کے حالات و ظروف کے اعتبار سے مقصد تربیت کے لیے بالکل مناسب اور متعدل ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کے تحت ایک سو ستاون احادیث ذکر کیں ہیں، پھر ان احادیث پر ستر کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے روزے کے متعلق متعدد احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ ہم چند ایک کا بطور نمونہ ذکر کرتے ہیں۔وجوب روزہ، فضیلت روزہ، ماہ رمضان میں سخاوت کرنا، روزے کی ابتدا اور انتہائے سحری کے مسائل، اس کا وقت، بحالت جنابت روزہ رکھنا، دن کے وقت روزے کی نیت کرنا، دوران روزہ بیوی سے بوس و کنار کرنا، بحالت روزہ غسل کرنا، بھول کر کھا پی لینا، دوران روزہ تازہ یا خشک مسواک کرنا، بحالت روزہ بیوی سے جماع اور اس کا کفارہ، روزے کی حالت میں سنگی لگوانا یا قے کرنا، دوران سفر میں روزے رکھنا، روزے کی قضا کا وقت، حائضہ عورت کے لیے روزے کے احکام، افطاری کے مسائل، افطاری کے بعد اگر سورج نظر آ جائے، وصال کی شرعی حیثیت، نفلی روزے اور اسوۂ نبوی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مذکورہ مسائل اور دیگر احکام براہ راست احادیث سے اخذ کیے ہیں، جن سے امام صاحب کی بصیرت و فراست کا پتہ چلتا ہے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک سو ستاون احادیث بیان کی ہیں جن میں چھتیس معلق اور باقی موصول ہیں، ان میں اڑسٹھ مکرر اور خالص نواسی احادیث ہیں۔ پچیس احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔ احادیث کے علاوہ تقریبا ساٹھ آثار بھی بیان کیے ہیں جو متعدد صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی ہیں۔ ان میں اکثر معلق اور چند موصول ہیں۔واضح رہے کہ اس مہینے کو رمضان اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس کے معنی جلنے کے ہیں اور جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تھے اس وقت سخت گرمی تھی، اس لیے یہ مہینہ رمضان سے موسوم ہوا، نیز اس ماہ میں روزہ رکھنے والوں کے گناہ جل جاتے ہیں۔ عورت، مریض اور مسافر کے لیے کچھ رعایت بھی ہے جس کا آئندہ تفصیل سے ذکر ہو گا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ماہ رمضان کے روزوں کا بیان ارکان اسلام کے آخر میں کیا ہے، اس کے متعلق علامہ عینی نے لکھا ہے کہ قبل ازیں کتاب الزکاۃ کے بعد کتاب الحج کو ذکر کیا کیونکہ ان دونوں میں مال خرچ ہوتا ہے، اب روزے کے احکام کے لیے اور کوئی محل نہیں تھا، اس لیے ان کے احکام و مسائل کو آخر میں بیان کیا ہے۔ (عمدۃالقاری:8/3) قارئین کرام سے استدعا ہے کہ وہ امام بخاری رحمہ اللہ کے قائم کردہ عناوین اور پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کرتے وقت ہماری ان گزارشات کو ضرور پیش نظر رکھیں، اس سے حضرت امام کی فقہی بصیرت اور قوت استنباط اور دقت نظر کا اندازہ ہو گا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان احادیث پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے اور قیامت کے دن ہمیں زمرۂ محدثین میں اٹھائے۔ آمین یا رب العالمین
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے دوران سفر ایک ہجوم دیکھا۔ اس میں ایک آدمی نظر آیا جس پر سایہ کیا گیاتھا۔ آپ نے فرمایا: ’’یہ کیا ہے؟‘‘ لوگوں نے عرض کیا: یہ شخص روزے دار ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’(ایسے حالات میں) دوران سفر میں روزہ ر کھنا کوئی نیکی نہیں۔ ‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے اہل ظاہر نے دلیل پکڑی ہے کہ دوران سفر میں روزہ رکھنا جائز نہیں۔ اگر کسی نے روزہ رکھ لیا تو وہ روزہ نہ ہو گا، حالانکہ یہ حدیث ایک خاص شخص سے متعلق ہے جس پر سایہ کیا گیا تھا اور وہ ہلاکت کے قریب پہنچ چکا تھا، اس بنا پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جس روزے میں روزہ دار اس حالت کو پہنچ جائے کہ اس کی جان کو خطرہ لاحق ہو، اس وقت روزہ رکھنا کوئی نیکی نہیں جبکہ اللہ تعالیٰ نے ایسے حالات میں روزہ چھوڑ دینے کی رخصت دی ہے، ایسے انسان کے لیے روزہ چھوڑ دینا افضل ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "سفر میں رمضان کا روزہ رکھنے والا حالت اقامت میں روزہ چھوڑنے والے کی طرح ہے۔‘‘ (سنن ابن ماجة، الصیام، حدیث:1666) یہ روایت منکر اور ضعیف ہے۔ (سلسلة الأحادیث الضعیفة ،حدیث:498) (2) صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ رمضان المبارک میں فتح مکہ کے لیے مدینہ طیبہ سے روانہ ہوئے۔ آپ روزے کی حالت میں تھے۔ جب مقام کراع الغمیم پہنچے تو آپ سے کہا گیا کہ لوگوں پر روزہ بہت مشکل ہو رہا ہے اور وہ آپ کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے عصر کے بعد پانی کا ایک پیالہ منگوایا اور اسے لوگوں کے سامنے کر کے نوش کر لیا۔ اس کے بعد آپ کو بتایا گیا کہ کچھ لوگوں نے روزہ افطار نہیں کیا۔ آپ نے فرمایا: ’’یہی نافرمان ہیں، یہی نافرمان ہیں۔‘‘(صحیح مسلم، الصیام، حدیث:2610(1114)) اس حدیث کا بھی یہی مطلب ہے کہ جب روزہ باعث مشقت ہو تو دوران سفر میں اسے چھوڑ دینا چاہیے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے آدم بن ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے محمد بن عبدالرحمن انصاری نے بیان کیا، کہا کہ میں نے محمد بن عمرو بن حسن بن علی سے سنا اور انہوں نے جابر بن عبداللہ ؓ سے کہ رسول اللہ ﷺ ایک سفر ( غزوہ فتح ) میں تھے آپ ﷺ نے دیکھا کہ ایک شخص پر لوگوں نے سایہ کر رکھا ہے، آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کہ کیا بات ہے؟ لوگوں نے کہا کہ ایک روزہ دار ہے، آپ ﷺ نے فرمایا کہ سفر میں روزہ رکھنا اچھا کام نہیں ہے۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے ان لوگوں نے دلیل لی جو سفر میں افطار ضروری سمجھتے ہیں۔ مخالفین یہ کہتے ہیں کہ مراد اس سے وہی ہے جب سفر میں روزے سے تکلیف ہوتی ہو اس صورت میں تو بالاتفاق افطار افضل ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Jabir bin ' Abdullah (RA): Allah's Apostle (ﷺ) was on a journey and saw a crowd of people, and a man was being shaded (by them). He asked, "What is the matter?" They said, "He (the man) is fasting." The Prophet (ﷺ) said, "It is not righteousness that you fast on a journey."