Sahi-Bukhari:
Fasting
(Chapter: To make up for the missed days of fasting)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور ابن عباس ؓ نے کہا کہ ان کو متفرق دنوں میں رکھنے میں کوئی حرج نہیں کیوں کہ اللہ تعالیٰ کا حکم صرف یہ ہے کہ ” گنتی پوری کر لو دوسرے دنوں میں۔ “ اور سعید بن مسیب نے کہا کہ ( ذی الحجہ کے ) دس روزے اس شخص کے لیے جس پر رمضان کے روزے واجب ہوں ( او ران کی قضا ابھی تک نہ کی ہو ) رکھنے بہتر نہیں ہیں بلکہ رمضان کی قضا پہلے کرنی چاہئے او رابراہیم نخعی نے کہا کہ اگر کسی نے کوتاہی کی ( رمضان کی قضا میں ) اور دوسرا رمضان بھی آگیا تو دونوں کے روزے رکھے اور اس پر فدیہ واجب نہیں۔ اور ابوہریرہ ؓ سے یہ روایت مرسلاً ہے او رابن عباس ؓ سے منقول ہے کہ وہ ( مسکینوں ) کو کھانا بھی کھلائے۔ اللہ تعالیٰ نے کھانا کھلانے کا ( قرآن میں ) ذکر نہیں کیا بلکہ اتنا ہی فرمایا کہ دوسرے دنوں میں گنتی پوری کی جائے۔
1950.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ مجھ پر رمضان کے فوت شدہ روزے ہوتے اور میں شعبان کے مہینے کے علاوہ انھیں قضا نہ کرسکتی تھی۔ (راوی حدیث) یحییٰ نے کہا کہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں مشغول ہونے کی وجہ سے انھیں قضا کرنے کاوقت نہیں ملتا تھا۔
تشریح:
(1) رمضان کے فوت شدہ روزے فورا رکھنے چاہئیں یا انہیں مہلت ملنے پر اٹھا رکھنا چاہیے، نیز وہ مسلسل رکھے جائیں یا متفرق طور پر رکھے جا سکتے ہیں؟ امام بخاری ؒ نے اس کے متعلق کوئی فیصلہ نہیں کیا، البتہ پیش کردہ آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ متفرق حکم ہے کہ انہیں دوسرے دنوں میں رکھ لیا جائے۔ اس میں مزید کوئی شرط نہیں۔ (2) بعض حضرات نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ اگر رمضان آنے تک پہلے رمضان کے فوت شدہ روزے نہ رکھے جائیں تو دوسرے رمضان کے بعد فوت شدہ روزوں کے ساتھ فدیے کے طور پر مساکین کو کھانا بھی کھلایا جائے لیکن امام بخاری ؒ فرماتے ہیں: قرآن کریم میں صرف دوسرے دنوں سے گنتی پوری کرنے کا ذکر ہے، اس میں کھانے وغیرہ کی پابندی نہیں ہے۔ ہمارا رجحان حضرت ابراہیم نخعی کے موقف کی طرف ہے کہ جب دوسرا رمضان آ جائے تو اس کے گزر جانے کے بعد پہلے رمضان کے فوت شدہ روزے رکھے جائیں اور اس پر کوئی فدیہ وغیرہ نہیں۔ واللہ أعلم۔ (3) واضح رہے کہ حدیث کے آخر میں حضرت عائشہ ؓ سے متعلق مشغولیت کا ذکر راوئ حدیث حضرت یحییٰ کا قول ہے۔ اس قسم کے الفاظ کو مدرج کہا جاتا ہے۔ حافظ ابن حجر ؒ نے واقعاتی اعتبار سے انہیں کمزور قرار دیا ہے۔ (فتح الباري:243/4)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1893
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1950
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1950
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1950
تمہید کتاب
عربی زبان میں روزے کے لیے صوم کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ لغوی طور پر اس کے معنی رک جانا ہیں، یعنی کھانے پینے، بولنے، جماع کرنے یا چلنے سے رک جانا۔ شرعی تعریف یہ ہے کہ مخصوص شرائط کے ساتھ مخصوص ایام میں مخصوص اشیاء سے مخصوص وقت میں رک جانا کا نام صوم ہے۔ دوسرے لفظوں میں عبادت کی نیت سے طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کھانے، پینے اور ازدواجی تعلقات سے باز رہنے کا نام روزہ ہے۔دراصل انسان کو اللہ تعالیٰ نے روحانیت اور حیوانیت سے مرکب بنایا ہے۔ اس کی طبیعت میں وہ سارے مادی اور سفلی تقاضے بھی ہیں جو دوسرے حیوانوں میں ہوتے ہیں اور اس کی فطرت میں روحانیت کا وہ نورانی جوہر بھی ہے جو فرشتوں کے لیے خاص غذا اور دولت ہے۔ انسان کی سعادت کا دارومدار اسی پر ہے کہ اس کا روحانی عنصر، حیوانی عنصر پر غالب رہے اور اسے حدود کا پابند رکھے جو اللہ تعالیٰ نے اس پر عائد کی ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ انسان کا حیوانی پہلو اس کے روحانی پہلو کا فرمانبردار اور اطاعت شعار ہو جائے اور اس کے مقابلے میں سرکشی اور بغاوت نہ کرے۔ روزے کا مقصد بھی یہی ہے کہ اس کے ذریعے سے انسان کی حیوانیت کو کنٹرول کیا جائے اور اسے شرعی احکام کی پابندی، نیز ایمانی اور روحانی تقاضوں کی فرمانبرداری کا عادی بنایا جائے۔ روزہ چونکہ انسان کی حیوانی قوت کو اس کی روحانی قوت کے تابع رکھنے اور اللہ کے احکام کے مقابلے میں خواہشات نفس اور تقاضائے شہوت کو دبانے کی عادت ڈالنے کا خاص ذریعہ ہے، اس لیے سابقہ امتوں کو بھی اس کا حکم دیا گیا تھا۔ اگرچہ روزوں کی مدت اور دوسرے تفصیلی احکام میں خاص حالات و ضروریات کے لحاظ سے کچھ فرق بھی تھا، تاہم مقصد میں یکسانیت ضرور تھی جسے اللہ تعالیٰ نے بایں الفاظ بیان کیا ہے (لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ) "تاکہ تم تقویٰ شعار بن جاؤ۔" (البقرۃ183:2)اس امت کے لیے سال میں ایک ماہ کے روزے فرض کیے گئے اور روزے کا وقت طلوع سحر سے غروب آفتاب تک رکھا گیا۔ بلاشبہ یہ مدت اور یہ وقت مذکورہ بالا مقصد کے حصول کے لیے نہایت معتدل اور مناسب ہے کیونکہ اس سے کم مدت میں نفس کی تربیت کا مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ اور اگر وقت اس سے زیادہ رکھا جاتا تو اکثریت کے لیے ناقابل برداشت ہوتا۔ بہرحال طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کا وقت اور سال میں ایک مہینے کی مدت عام انسان کے حالات و ظروف کے اعتبار سے مقصد تربیت کے لیے بالکل مناسب اور متعدل ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کے تحت ایک سو ستاون احادیث ذکر کیں ہیں، پھر ان احادیث پر ستر کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے روزے کے متعلق متعدد احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ ہم چند ایک کا بطور نمونہ ذکر کرتے ہیں۔وجوب روزہ، فضیلت روزہ، ماہ رمضان میں سخاوت کرنا، روزے کی ابتدا اور انتہائے سحری کے مسائل، اس کا وقت، بحالت جنابت روزہ رکھنا، دن کے وقت روزے کی نیت کرنا، دوران روزہ بیوی سے بوس و کنار کرنا، بحالت روزہ غسل کرنا، بھول کر کھا پی لینا، دوران روزہ تازہ یا خشک مسواک کرنا، بحالت روزہ بیوی سے جماع اور اس کا کفارہ، روزے کی حالت میں سنگی لگوانا یا قے کرنا، دوران سفر میں روزے رکھنا، روزے کی قضا کا وقت، حائضہ عورت کے لیے روزے کے احکام، افطاری کے مسائل، افطاری کے بعد اگر سورج نظر آ جائے، وصال کی شرعی حیثیت، نفلی روزے اور اسوۂ نبوی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مذکورہ مسائل اور دیگر احکام براہ راست احادیث سے اخذ کیے ہیں، جن سے امام صاحب کی بصیرت و فراست کا پتہ چلتا ہے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک سو ستاون احادیث بیان کی ہیں جن میں چھتیس معلق اور باقی موصول ہیں، ان میں اڑسٹھ مکرر اور خالص نواسی احادیث ہیں۔ پچیس احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔ احادیث کے علاوہ تقریبا ساٹھ آثار بھی بیان کیے ہیں جو متعدد صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی ہیں۔ ان میں اکثر معلق اور چند موصول ہیں۔واضح رہے کہ اس مہینے کو رمضان اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس کے معنی جلنے کے ہیں اور جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تھے اس وقت سخت گرمی تھی، اس لیے یہ مہینہ رمضان سے موسوم ہوا، نیز اس ماہ میں روزہ رکھنے والوں کے گناہ جل جاتے ہیں۔ عورت، مریض اور مسافر کے لیے کچھ رعایت بھی ہے جس کا آئندہ تفصیل سے ذکر ہو گا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ماہ رمضان کے روزوں کا بیان ارکان اسلام کے آخر میں کیا ہے، اس کے متعلق علامہ عینی نے لکھا ہے کہ قبل ازیں کتاب الزکاۃ کے بعد کتاب الحج کو ذکر کیا کیونکہ ان دونوں میں مال خرچ ہوتا ہے، اب روزے کے احکام کے لیے اور کوئی محل نہیں تھا، اس لیے ان کے احکام و مسائل کو آخر میں بیان کیا ہے۔ (عمدۃالقاری:8/3) قارئین کرام سے استدعا ہے کہ وہ امام بخاری رحمہ اللہ کے قائم کردہ عناوین اور پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کرتے وقت ہماری ان گزارشات کو ضرور پیش نظر رکھیں، اس سے حضرت امام کی فقہی بصیرت اور قوت استنباط اور دقت نظر کا اندازہ ہو گا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان احادیث پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے اور قیامت کے دن ہمیں زمرۂ محدثین میں اٹھائے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی اثر مصنف عبدالرزاق (4/243) میں متصل سند سے بیان کیا گیا ہے کہ رمضان میں فوت شدہ روزوں کی متفرق طور پر قضا دی جا سکتی ہے۔ حضرت سعید بن مسیب کا قول مصنف ابن ابی شیبہ (4/120) میں بیان کیا گیا ہے کہ رمضان کے فوت شدہ روزے عشرۂ ذوالحجہ میں رکھے جا سکتے ہیں۔ حضرت ابراہیم نخعی کا اثر سعید بن منصور نے اپنی متصل سند سے بیان کیا ہے کہ اگر کوتاہی کی وجہ سے دوسرے رمضان تک پہلے سے فوت شدہ روزے نہ رکھے جائیں تو انہیں رمضان کے بعد رکھا جا سکتا ہے۔ اس کوتاہی پر اللہ تعالیٰ سے معافی مانگے، البتہ اسے فدیے کے طور پر کھانا کھلانے کی ضرورت نہیں۔ اسی طرح حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا اثر بھی مصنف عبدالرزاق (4/234) میں متصل سند سے بیان ہوا ہے۔ وہ روزے کے ساتھ فدیے کے طور پر مسکین کو کھانا کھلانے کے متعلق بھی کہتے ہیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول سعید بن منصور نے ذکر کیا ہے۔ (فتح الباری:4/241)
اور ابن عباس ؓ نے کہا کہ ان کو متفرق دنوں میں رکھنے میں کوئی حرج نہیں کیوں کہ اللہ تعالیٰ کا حکم صرف یہ ہے کہ ” گنتی پوری کر لو دوسرے دنوں میں۔ “ اور سعید بن مسیب نے کہا کہ ( ذی الحجہ کے ) دس روزے اس شخص کے لیے جس پر رمضان کے روزے واجب ہوں ( او ران کی قضا ابھی تک نہ کی ہو ) رکھنے بہتر نہیں ہیں بلکہ رمضان کی قضا پہلے کرنی چاہئے او رابراہیم نخعی نے کہا کہ اگر کسی نے کوتاہی کی ( رمضان کی قضا میں ) اور دوسرا رمضان بھی آگیا تو دونوں کے روزے رکھے اور اس پر فدیہ واجب نہیں۔ اور ابوہریرہ ؓ سے یہ روایت مرسلاً ہے او رابن عباس ؓ سے منقول ہے کہ وہ ( مسکینوں ) کو کھانا بھی کھلائے۔ اللہ تعالیٰ نے کھانا کھلانے کا ( قرآن میں ) ذکر نہیں کیا بلکہ اتنا ہی فرمایا کہ دوسرے دنوں میں گنتی پوری کی جائے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ مجھ پر رمضان کے فوت شدہ روزے ہوتے اور میں شعبان کے مہینے کے علاوہ انھیں قضا نہ کرسکتی تھی۔ (راوی حدیث) یحییٰ نے کہا کہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں مشغول ہونے کی وجہ سے انھیں قضا کرنے کاوقت نہیں ملتا تھا۔
حدیث حاشیہ:
(1) رمضان کے فوت شدہ روزے فورا رکھنے چاہئیں یا انہیں مہلت ملنے پر اٹھا رکھنا چاہیے، نیز وہ مسلسل رکھے جائیں یا متفرق طور پر رکھے جا سکتے ہیں؟ امام بخاری ؒ نے اس کے متعلق کوئی فیصلہ نہیں کیا، البتہ پیش کردہ آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ متفرق حکم ہے کہ انہیں دوسرے دنوں میں رکھ لیا جائے۔ اس میں مزید کوئی شرط نہیں۔ (2) بعض حضرات نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ اگر رمضان آنے تک پہلے رمضان کے فوت شدہ روزے نہ رکھے جائیں تو دوسرے رمضان کے بعد فوت شدہ روزوں کے ساتھ فدیے کے طور پر مساکین کو کھانا بھی کھلایا جائے لیکن امام بخاری ؒ فرماتے ہیں: قرآن کریم میں صرف دوسرے دنوں سے گنتی پوری کرنے کا ذکر ہے، اس میں کھانے وغیرہ کی پابندی نہیں ہے۔ ہمارا رجحان حضرت ابراہیم نخعی کے موقف کی طرف ہے کہ جب دوسرا رمضان آ جائے تو اس کے گزر جانے کے بعد پہلے رمضان کے فوت شدہ روزے رکھے جائیں اور اس پر کوئی فدیہ وغیرہ نہیں۔ واللہ أعلم۔ (3) واضح رہے کہ حدیث کے آخر میں حضرت عائشہ ؓ سے متعلق مشغولیت کا ذکر راوئ حدیث حضرت یحییٰ کا قول ہے۔ اس قسم کے الفاظ کو مدرج کہا جاتا ہے۔ حافظ ابن حجر ؒ نے واقعاتی اعتبار سے انہیں کمزور قرار دیا ہے۔ (فتح الباري:243/4)
ترجمۃ الباب:
حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ قضاشدہ روزوں کو متفرق طور پر رکھنے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ ۚ""دوسرے دنوں سے گنتی پوری کرلو۔ "حضرت سعید بن مسیب نے ذوالحجہ کے دس روزوں کے متعلق فرمایا کہ رمضان کے فوت شدہ روزوں کی قضا سے پہلے انھیں رکھنا اچھا نہیں۔ ابراہیم نخعی نے کہا: اگر فوت شدہ روزوں کے متعلق اس قدر کوتاہی کی کہ دوسرا رمضان آگیا تو وہ قضا اور ادا کے دونوں روزے رکھے۔ اس کے ذمے فدیہ وغیرہ نہیں ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے مرسل اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک حدیث منقول ہے کہ وہ فدیہ بھی دے۔ لیکن قرآن مجید میں فوت شدہ روزوں کے متعلق فدیے کا ذکر نہیں ہے اس میں تو صرف یہ ہے کہ وہ دوسرے دنوں سے گنتی پوری کرے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے زہیر نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن ابی کثیر نے بیان کیا، ان سے ابوسلمہ نے بیان کیا کہ میں نے عائشہ ؓ سے سنا وہ فرماتیں کہ رمضان کا روزہ مجھ سے چھوٹ جاتا۔ شعبان سے پہلے اس کی قضا کی توفیق نہ ہوتی۔ یحییٰ نے کہا کہ یہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں مشغول رہنے کی وجہ سے تھا۔
حدیث حاشیہ:
یہاں جو قول ابراہیم نخعی کا اوپر مذکور ہوا ہے اس کو سعید بن منصور نے وصل کیا مگر جمہور صحابہ ؓ اور تابعین سے یہ مروی ہے کہ اگر کسی نے رمضان کی قضا نہ رکھی یہاں تک کہ دوسرا رمضان آگیا تو وہ قضا بھی رکھے اور ہر روزے کے بدلے فدیہ بھی دے۔ حضرت امام ابوحنیفہ ؒ نے جمہور کے خلاف ابراہیم نخعی کے قول پر عمل کیا اور فدیہ دینا ضروری نہیں رکھا، ابن عمر ؓ سے ایک شاذ روایت یہ بھی ہے کہ اگر رمضان کی قضا نہ رکھے اور دوسرا رمضان آن پہنچا تو دوسرے رمضان کے روزے رکھے اور پہلے رمضان کے ہر روزے کے بدل فدیہ دے اور روزہ رکھنا ضروری نہیں، اس کو عبدالرزاق اور ابن منذر نے نکالا۔ یحییٰ بن سعید نے کہا حضرت عمر ؓ سے اس کے خلاف مروی ہے اور قتادہ سے یہ منقول ہے کہ جس نے رمضان کی قضا میں افطار کر ڈالا تو وہ ایک روزہ کے بدلے دو روزے رکھے۔ اب جمہور علماءکے نزدیک رمضان کی قضا پے در پے رکھنا ضروری نہیں الگ الگ بھی رکھ سکتا ہے، یعنی متفرق طور سے اور ابن منذر نے حضرت علی ؓ اور حضرت عائشہ ؓ سے نقل کیا کہ پے در پے رکھنا واجب ہے، بعض اہل ظاہر کا بھی یہی قول ہے۔ حضرت عائشہ ؓ نے کہا کہ یہ آیت اتری تھی فعدة من أیام أخر متتابعات ابن أبي کعب کی بھی قرات یوں ہی ہے۔ ( وحیدی ) مگر اب قرات مشہورہ میں یہ لفظ نہیں ہیں اور اب اسی قرات کو ترجیح حاصل ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA): Sometimes I missed some days of Ramadan, but could not fast in lieu of them except in the month of Sha'ban." Said Yahya, a sub-narrator, "She used to be busy serving the Prophet (ﷺ) ."