Sahi-Bukhari:
Fasting
(Chapter: When to break the Saum (fast)?)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور جب سورج کا گردہ ڈوب گیا تو ابوسعید خدری ؓنے روزہ افطار کر لیا ( اس اثر کو سعید بن منصور او رابن شیبہ نے وصل کیا ہے )
1955.
حضرت عبداللہ بن ابی اوفی ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ ہم ایک سفر میں نبی کریم ﷺ کے ہمراہ تھے۔ آپ نے روزہ رکھا ہوا تھا۔ جب سورج غروب ہوا تو آپ نے ایک شخص سے فرمایا: ’’اے فلاں!اٹھ اور ہمارے لیے ستو تیار کر۔‘‘ اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ !شام ہونے دیتے۔ آپ نے فرمایا: ’’اتر کر ہمارے لیے ستو گھول۔‘‘ اس نےعرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ !شام ہونے دیجئے۔ آپ نے فرمایا: ’’اتر اور ہمارے لیے ستو بنا۔‘‘ اس نے پھر عرض کیا: ابھی تو دن باقی ہے آپ نے فرمایا: ’’اتر کر ہمارے لیے ستو تیار کر‘‘ چنانچہ وہ شخص اترا اور اس نے ستو تیار کیے تو رسول اللہ ﷺ نے انھیں نوش جاں فرمایا۔ پھر ارشاد ہوا: ’’جب تم دیکھو کہ رات اس طرف سے آگئی ہے تو روزہ دار کو چاہیے کہ وہ روزہ افطار کردے۔‘‘
تشریح:
(1) ان احادیث میں تین چیزوں کو روزہ افطار کرنے کے لیے مدار بنایا گیا ہے: ٭ رات کا اندھیرا مشرقی افق سے اوپر آ جائے۔ ٭ جب مغربی افق سے دن چلا جائے۔ ٭ جب سورج غروب ہو جائے۔ ان امور کے یقینی وقوع کے بعد روزہ افطار کرنے میں مزید دیر نہیں کرنی چاہیے۔ امام بخاری ؒ کا مقصد بھی یہی ہے کہ غروب آفتاب کے بعد مزید رات کے کسی حصے کا روزہ صحیح نہیں جیسا کہ حضرت ابو سعید خدری ؓ کے واقعے سے ظاہر ہے۔ (2) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ روزہ افطار کرنے میں جلدی کرنی چاہیے بشرطیکہ غروب آفتاب ہو جائے۔ احتیاط کے پیش نظر افطاری میں دیر کرنا اہل کتاب کی عادت ہے جن کی مخالفت کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ حدیث میں روزہ جلدی افطار کرنے کا یہ مطلب ہے کہ جب سورج غروب ہونا ثابت ہو جائے تو افطاری میں تاخیر نہ کی جائے۔ (فتح الباري:251/4) (3) واضح رہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت بلال ؓ کو ستو تیار کرنے کے لیے فرمایا تھا۔ چونکہ دیار عرب میں پہاڑوں کی کثرت تھی، پہاڑی علاقے میں غروب آفتاب کے بعد بھی ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ ابھی سورج باقی ہے مگر حقیقت میں وہ غروب ہو چکا ہوتا ہے۔ حضرت بلال ؓ نے بار بار اس خدشے کے پیش نظر اپنے خیال کا اظہار کیا جو حقیقت کے مطابق نہ تھا۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1898
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1955
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1955
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1955
تمہید کتاب
عربی زبان میں روزے کے لیے صوم کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ لغوی طور پر اس کے معنی رک جانا ہیں، یعنی کھانے پینے، بولنے، جماع کرنے یا چلنے سے رک جانا۔ شرعی تعریف یہ ہے کہ مخصوص شرائط کے ساتھ مخصوص ایام میں مخصوص اشیاء سے مخصوص وقت میں رک جانا کا نام صوم ہے۔ دوسرے لفظوں میں عبادت کی نیت سے طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کھانے، پینے اور ازدواجی تعلقات سے باز رہنے کا نام روزہ ہے۔دراصل انسان کو اللہ تعالیٰ نے روحانیت اور حیوانیت سے مرکب بنایا ہے۔ اس کی طبیعت میں وہ سارے مادی اور سفلی تقاضے بھی ہیں جو دوسرے حیوانوں میں ہوتے ہیں اور اس کی فطرت میں روحانیت کا وہ نورانی جوہر بھی ہے جو فرشتوں کے لیے خاص غذا اور دولت ہے۔ انسان کی سعادت کا دارومدار اسی پر ہے کہ اس کا روحانی عنصر، حیوانی عنصر پر غالب رہے اور اسے حدود کا پابند رکھے جو اللہ تعالیٰ نے اس پر عائد کی ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ انسان کا حیوانی پہلو اس کے روحانی پہلو کا فرمانبردار اور اطاعت شعار ہو جائے اور اس کے مقابلے میں سرکشی اور بغاوت نہ کرے۔ روزے کا مقصد بھی یہی ہے کہ اس کے ذریعے سے انسان کی حیوانیت کو کنٹرول کیا جائے اور اسے شرعی احکام کی پابندی، نیز ایمانی اور روحانی تقاضوں کی فرمانبرداری کا عادی بنایا جائے۔ روزہ چونکہ انسان کی حیوانی قوت کو اس کی روحانی قوت کے تابع رکھنے اور اللہ کے احکام کے مقابلے میں خواہشات نفس اور تقاضائے شہوت کو دبانے کی عادت ڈالنے کا خاص ذریعہ ہے، اس لیے سابقہ امتوں کو بھی اس کا حکم دیا گیا تھا۔ اگرچہ روزوں کی مدت اور دوسرے تفصیلی احکام میں خاص حالات و ضروریات کے لحاظ سے کچھ فرق بھی تھا، تاہم مقصد میں یکسانیت ضرور تھی جسے اللہ تعالیٰ نے بایں الفاظ بیان کیا ہے (لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ) "تاکہ تم تقویٰ شعار بن جاؤ۔" (البقرۃ183:2)اس امت کے لیے سال میں ایک ماہ کے روزے فرض کیے گئے اور روزے کا وقت طلوع سحر سے غروب آفتاب تک رکھا گیا۔ بلاشبہ یہ مدت اور یہ وقت مذکورہ بالا مقصد کے حصول کے لیے نہایت معتدل اور مناسب ہے کیونکہ اس سے کم مدت میں نفس کی تربیت کا مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ اور اگر وقت اس سے زیادہ رکھا جاتا تو اکثریت کے لیے ناقابل برداشت ہوتا۔ بہرحال طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کا وقت اور سال میں ایک مہینے کی مدت عام انسان کے حالات و ظروف کے اعتبار سے مقصد تربیت کے لیے بالکل مناسب اور متعدل ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کے تحت ایک سو ستاون احادیث ذکر کیں ہیں، پھر ان احادیث پر ستر کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے روزے کے متعلق متعدد احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ ہم چند ایک کا بطور نمونہ ذکر کرتے ہیں۔وجوب روزہ، فضیلت روزہ، ماہ رمضان میں سخاوت کرنا، روزے کی ابتدا اور انتہائے سحری کے مسائل، اس کا وقت، بحالت جنابت روزہ رکھنا، دن کے وقت روزے کی نیت کرنا، دوران روزہ بیوی سے بوس و کنار کرنا، بحالت روزہ غسل کرنا، بھول کر کھا پی لینا، دوران روزہ تازہ یا خشک مسواک کرنا، بحالت روزہ بیوی سے جماع اور اس کا کفارہ، روزے کی حالت میں سنگی لگوانا یا قے کرنا، دوران سفر میں روزے رکھنا، روزے کی قضا کا وقت، حائضہ عورت کے لیے روزے کے احکام، افطاری کے مسائل، افطاری کے بعد اگر سورج نظر آ جائے، وصال کی شرعی حیثیت، نفلی روزے اور اسوۂ نبوی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مذکورہ مسائل اور دیگر احکام براہ راست احادیث سے اخذ کیے ہیں، جن سے امام صاحب کی بصیرت و فراست کا پتہ چلتا ہے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک سو ستاون احادیث بیان کی ہیں جن میں چھتیس معلق اور باقی موصول ہیں، ان میں اڑسٹھ مکرر اور خالص نواسی احادیث ہیں۔ پچیس احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔ احادیث کے علاوہ تقریبا ساٹھ آثار بھی بیان کیے ہیں جو متعدد صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی ہیں۔ ان میں اکثر معلق اور چند موصول ہیں۔واضح رہے کہ اس مہینے کو رمضان اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس کے معنی جلنے کے ہیں اور جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تھے اس وقت سخت گرمی تھی، اس لیے یہ مہینہ رمضان سے موسوم ہوا، نیز اس ماہ میں روزہ رکھنے والوں کے گناہ جل جاتے ہیں۔ عورت، مریض اور مسافر کے لیے کچھ رعایت بھی ہے جس کا آئندہ تفصیل سے ذکر ہو گا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ماہ رمضان کے روزوں کا بیان ارکان اسلام کے آخر میں کیا ہے، اس کے متعلق علامہ عینی نے لکھا ہے کہ قبل ازیں کتاب الزکاۃ کے بعد کتاب الحج کو ذکر کیا کیونکہ ان دونوں میں مال خرچ ہوتا ہے، اب روزے کے احکام کے لیے اور کوئی محل نہیں تھا، اس لیے ان کے احکام و مسائل کو آخر میں بیان کیا ہے۔ (عمدۃالقاری:8/3) قارئین کرام سے استدعا ہے کہ وہ امام بخاری رحمہ اللہ کے قائم کردہ عناوین اور پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کرتے وقت ہماری ان گزارشات کو ضرور پیش نظر رکھیں، اس سے حضرت امام کی فقہی بصیرت اور قوت استنباط اور دقت نظر کا اندازہ ہو گا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان احادیث پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے اور قیامت کے دن ہمیں زمرۂ محدثین میں اٹھائے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کا اثر سعید بن منصور اور ابوبکر بن ابی شیبہ نے متصل سند سے بیان کیا ہے۔ اس میں ہے کہ راوی کے بیان کے مطابق حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے روزہ افطار کیا لیکن ہمارے خیال کے مطابق سورج غروب نہیں ہوا تھا۔ (المصنف لابن ابی شیبۃ:4/22) لیکن جب ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے خود سورج کی ٹکیہ کو غروب ہوتے دیکھا تو مزید احتیاط کے پیش نظر انتظار نہیں کیا اور نہ دوسروں کی موافقت ہی کو ضروری خیال کیا، اس لیے معلوم ہوا کہ رات کے کسی حصے کا روزہ رکھنا جائز نہیں۔ (فتح الباری:4/250)
اور جب سورج کا گردہ ڈوب گیا تو ابوسعید خدری ؓنے روزہ افطار کر لیا ( اس اثر کو سعید بن منصور او رابن شیبہ نے وصل کیا ہے )
حدیث ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن ابی اوفی ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ ہم ایک سفر میں نبی کریم ﷺ کے ہمراہ تھے۔ آپ نے روزہ رکھا ہوا تھا۔ جب سورج غروب ہوا تو آپ نے ایک شخص سے فرمایا: ’’اے فلاں!اٹھ اور ہمارے لیے ستو تیار کر۔‘‘ اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ !شام ہونے دیتے۔ آپ نے فرمایا: ’’اتر کر ہمارے لیے ستو گھول۔‘‘ اس نےعرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ !شام ہونے دیجئے۔ آپ نے فرمایا: ’’اتر اور ہمارے لیے ستو بنا۔‘‘ اس نے پھر عرض کیا: ابھی تو دن باقی ہے آپ نے فرمایا: ’’اتر کر ہمارے لیے ستو تیار کر‘‘ چنانچہ وہ شخص اترا اور اس نے ستو تیار کیے تو رسول اللہ ﷺ نے انھیں نوش جاں فرمایا۔ پھر ارشاد ہوا: ’’جب تم دیکھو کہ رات اس طرف سے آگئی ہے تو روزہ دار کو چاہیے کہ وہ روزہ افطار کردے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) ان احادیث میں تین چیزوں کو روزہ افطار کرنے کے لیے مدار بنایا گیا ہے: ٭ رات کا اندھیرا مشرقی افق سے اوپر آ جائے۔ ٭ جب مغربی افق سے دن چلا جائے۔ ٭ جب سورج غروب ہو جائے۔ ان امور کے یقینی وقوع کے بعد روزہ افطار کرنے میں مزید دیر نہیں کرنی چاہیے۔ امام بخاری ؒ کا مقصد بھی یہی ہے کہ غروب آفتاب کے بعد مزید رات کے کسی حصے کا روزہ صحیح نہیں جیسا کہ حضرت ابو سعید خدری ؓ کے واقعے سے ظاہر ہے۔ (2) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ روزہ افطار کرنے میں جلدی کرنی چاہیے بشرطیکہ غروب آفتاب ہو جائے۔ احتیاط کے پیش نظر افطاری میں دیر کرنا اہل کتاب کی عادت ہے جن کی مخالفت کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ حدیث میں روزہ جلدی افطار کرنے کا یہ مطلب ہے کہ جب سورج غروب ہونا ثابت ہو جائے تو افطاری میں تاخیر نہ کی جائے۔ (فتح الباري:251/4) (3) واضح رہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت بلال ؓ کو ستو تیار کرنے کے لیے فرمایا تھا۔ چونکہ دیار عرب میں پہاڑوں کی کثرت تھی، پہاڑی علاقے میں غروب آفتاب کے بعد بھی ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ ابھی سورج باقی ہے مگر حقیقت میں وہ غروب ہو چکا ہوتا ہے۔ حضرت بلال ؓ نے بار بار اس خدشے کے پیش نظر اپنے خیال کا اظہار کیا جو حقیقت کے مطابق نہ تھا۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حضرت ابو سعید خدری ؓ نے روزہ اس وقت افطار کیا جب سورج کی ٹکیہ غروب ہوگئی
حدیث ترجمہ:
ہم سے اسحاق واسطی نے بیان کیا، کہا ہم سے خالد نے بیان کیا، ان سے سلیمان بن شیبانی نے، ان سے عبداللہ بن ابی اوفی ؓ نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ( غزوہ فتح جو رمضان میں ہوا ) سفر میں تھے اور آنحضرت ﷺ روزہ سے تھے۔ جب سورج غروب ہو گیا آپ ﷺ نے ایک صحابی ( بلال ؓ ) سے فرمایا کہ اے فلاں ! میرے لیے اٹھ کے ستو گھول، انہو نے عرض کی کہ یا رسول اللہ ! آپ تھوڑی دیر اور ٹھہرتے۔ آپ ﷺ نے فرمایا اتر کر ہمارے لیے ستو گھول، اس پر انہوں نے کہا یا رسول اللہ ! آپ تھوڑی دیر اور ٹھہرتے آنحضرت ﷺ نے پھر وہی حکم دیا کہ اتر کر ہمارے لیے ستو گھول لیکن ان کا اب بھی خیال تھا کہ ابھی دن باقی ہے۔ آنحضرت ﷺ نے اس مرتبہ پھر فرمایا کہ اتر کر ہمارے لیے ستو گھول چنانچہ اترے اور ستو انہوں نے گھول دیا اور رسول اللہ ﷺ نے پیا۔ پھر فرمایا کہ جب تم یہ دیکھ لو کہ رات اس مشرق کی طرف سے آگئی تو روزہ دار کو افطار کرلینا چاہئے۔
حدیث حاشیہ:
مخاطب حضرت بلال ؓ تھے جن کا خیال تھا کہ ابھی سورج غروب نہیں ہوا ہے، حالانکہ وہ غروب ہو چکا تھا۔ بہرحال خیال کے مطابق یہ کہا۔ کیوں کہ عرب میں پہاڑوں کی کثرت ہے اور ایسے علاقوں میں غروب کے بعد بھی ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ ابھی سورج باقی ہے، مگر حقیقت میں افطار کا وقت ہو گیا تھا، اسی لیے آنحضرت ﷺ نے ان کو ستو گھولنے کے لیے حکم فرمایا اور روزہ کھولا گیا۔ حدیث سے ظا ہر ہوگیا کہ جب بھی غروب کا یقین ہو جائے تو روزہ کھول دینا چاہئے تاخیر کرنا جائز نہیں ہے جیسا کہ دوسری احادیث میں وارد ہوا ہے۔ اس حدیث سے اظہار خیال کی بھی آزادی ثابت ہوئی اگرچہ وہ خیال درست بھی نہ ہو۔ مگر ہر شخص کو حق ہے کہ اپنا خیال ظاہر کرے، بعد میں وہ خیال غلط ثابت ہو تواس پر اس کا تسلیم حق کرنا بھی ضروری ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abdullah bin Abi Aufa (RA): We were in the company of the Prophet (ﷺ) on a journey and he was fasting, and when the sun set, he addressed somebody, "O so-and-so, get up and mix Sawiq with water for us." He replied, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! (Will you wait) till it is evening?" The Prophet (ﷺ) said, "Get down and mix Sawiq with water for us." He replied, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! (If you wait) till it is evening." The Prophet (ﷺ) said again, "Get down and mix Sawiq with water for us." He replied, "It is still daytime."(1) The Prophet (ﷺ) said again, "Get down and mix Sawiq with water for us." He got down and mixed Sawiq for them. The Prophet (ﷺ) drank it and then said, "When you see night falling from this side, the fasting person should break his fast."