Sahi-Bukhari:
Fasting
(Chapter: To hasten the Iftar)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1958.
حضرت ابن ابی اوفی ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں ایک سفر میں نبی کریم ﷺ کے ہمراہ تھا۔ آپ نے روزہ رکھا۔ جب شام ہوئی تو ایک شخص سے فرمایا: ’’اتر کر میرے لیے ستو تیار کر۔‘‘ اس نے عرض کیا: اگر آپ شام تک انتظار کرتے تو بہتر ہوتا۔ آپ نے فرمایا: ’’اتر کر میرے لیے ستو تیار کر۔ جب تو دیکھے کہ رات ادھر سے آگئی ہے تو روزہ دار کو افطار کردینا چاہیے۔‘‘
تشریح:
: (1) غروب آفتاب کے بعد جب مشرقی افق پر سیاہی آ جائے تو روزے دار کو روزہ افطار کر لینا چاہیے۔ (2) ہمارے دور میں شیعہ اور روافض روزہ افطار کرنے کے لیے ستاروں کے چمکنے کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے ایسے عمل کو خیروبرکت سے خالی قرار دیا ہے۔ اس سلسلے میں آپ کا واضح فرمان ہے کہ میری امت کے لوگ اس وقت تک میرے طریقے پر گامزن رہیں گے جب تک افطاری کرنے میں ستاروں کے چمکنے کا انتظار نہیں کریں گے۔ (صحیح ابن حبان:278/6) اس بنا پر روزہ افطار کرنے میں جلدی کرنی چاہیے۔ (3) روزہ افطار کرتے وقت مندرجہ ذیل دعا پڑھنا کتاب و سنت سے ثابت نہیں: (اللهم إني لك صُمتُ وبك آمنت وعليكَ توكلتُ وعلی رزقكَ أفطرتُ) روزہ افطار کرتے وقت مسنون دعا کا اہتمام کرنا چاہیے جسے ہم پہلے بیان کر آئے ہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1901
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1958
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1958
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1958
تمہید کتاب
عربی زبان میں روزے کے لیے صوم کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ لغوی طور پر اس کے معنی رک جانا ہیں، یعنی کھانے پینے، بولنے، جماع کرنے یا چلنے سے رک جانا۔ شرعی تعریف یہ ہے کہ مخصوص شرائط کے ساتھ مخصوص ایام میں مخصوص اشیاء سے مخصوص وقت میں رک جانا کا نام صوم ہے۔ دوسرے لفظوں میں عبادت کی نیت سے طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کھانے، پینے اور ازدواجی تعلقات سے باز رہنے کا نام روزہ ہے۔دراصل انسان کو اللہ تعالیٰ نے روحانیت اور حیوانیت سے مرکب بنایا ہے۔ اس کی طبیعت میں وہ سارے مادی اور سفلی تقاضے بھی ہیں جو دوسرے حیوانوں میں ہوتے ہیں اور اس کی فطرت میں روحانیت کا وہ نورانی جوہر بھی ہے جو فرشتوں کے لیے خاص غذا اور دولت ہے۔ انسان کی سعادت کا دارومدار اسی پر ہے کہ اس کا روحانی عنصر، حیوانی عنصر پر غالب رہے اور اسے حدود کا پابند رکھے جو اللہ تعالیٰ نے اس پر عائد کی ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ انسان کا حیوانی پہلو اس کے روحانی پہلو کا فرمانبردار اور اطاعت شعار ہو جائے اور اس کے مقابلے میں سرکشی اور بغاوت نہ کرے۔ روزے کا مقصد بھی یہی ہے کہ اس کے ذریعے سے انسان کی حیوانیت کو کنٹرول کیا جائے اور اسے شرعی احکام کی پابندی، نیز ایمانی اور روحانی تقاضوں کی فرمانبرداری کا عادی بنایا جائے۔ روزہ چونکہ انسان کی حیوانی قوت کو اس کی روحانی قوت کے تابع رکھنے اور اللہ کے احکام کے مقابلے میں خواہشات نفس اور تقاضائے شہوت کو دبانے کی عادت ڈالنے کا خاص ذریعہ ہے، اس لیے سابقہ امتوں کو بھی اس کا حکم دیا گیا تھا۔ اگرچہ روزوں کی مدت اور دوسرے تفصیلی احکام میں خاص حالات و ضروریات کے لحاظ سے کچھ فرق بھی تھا، تاہم مقصد میں یکسانیت ضرور تھی جسے اللہ تعالیٰ نے بایں الفاظ بیان کیا ہے (لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ) "تاکہ تم تقویٰ شعار بن جاؤ۔" (البقرۃ183:2)اس امت کے لیے سال میں ایک ماہ کے روزے فرض کیے گئے اور روزے کا وقت طلوع سحر سے غروب آفتاب تک رکھا گیا۔ بلاشبہ یہ مدت اور یہ وقت مذکورہ بالا مقصد کے حصول کے لیے نہایت معتدل اور مناسب ہے کیونکہ اس سے کم مدت میں نفس کی تربیت کا مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ اور اگر وقت اس سے زیادہ رکھا جاتا تو اکثریت کے لیے ناقابل برداشت ہوتا۔ بہرحال طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کا وقت اور سال میں ایک مہینے کی مدت عام انسان کے حالات و ظروف کے اعتبار سے مقصد تربیت کے لیے بالکل مناسب اور متعدل ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کے تحت ایک سو ستاون احادیث ذکر کیں ہیں، پھر ان احادیث پر ستر کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے روزے کے متعلق متعدد احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ ہم چند ایک کا بطور نمونہ ذکر کرتے ہیں۔وجوب روزہ، فضیلت روزہ، ماہ رمضان میں سخاوت کرنا، روزے کی ابتدا اور انتہائے سحری کے مسائل، اس کا وقت، بحالت جنابت روزہ رکھنا، دن کے وقت روزے کی نیت کرنا، دوران روزہ بیوی سے بوس و کنار کرنا، بحالت روزہ غسل کرنا، بھول کر کھا پی لینا، دوران روزہ تازہ یا خشک مسواک کرنا، بحالت روزہ بیوی سے جماع اور اس کا کفارہ، روزے کی حالت میں سنگی لگوانا یا قے کرنا، دوران سفر میں روزے رکھنا، روزے کی قضا کا وقت، حائضہ عورت کے لیے روزے کے احکام، افطاری کے مسائل، افطاری کے بعد اگر سورج نظر آ جائے، وصال کی شرعی حیثیت، نفلی روزے اور اسوۂ نبوی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مذکورہ مسائل اور دیگر احکام براہ راست احادیث سے اخذ کیے ہیں، جن سے امام صاحب کی بصیرت و فراست کا پتہ چلتا ہے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک سو ستاون احادیث بیان کی ہیں جن میں چھتیس معلق اور باقی موصول ہیں، ان میں اڑسٹھ مکرر اور خالص نواسی احادیث ہیں۔ پچیس احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔ احادیث کے علاوہ تقریبا ساٹھ آثار بھی بیان کیے ہیں جو متعدد صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی ہیں۔ ان میں اکثر معلق اور چند موصول ہیں۔واضح رہے کہ اس مہینے کو رمضان اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس کے معنی جلنے کے ہیں اور جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تھے اس وقت سخت گرمی تھی، اس لیے یہ مہینہ رمضان سے موسوم ہوا، نیز اس ماہ میں روزہ رکھنے والوں کے گناہ جل جاتے ہیں۔ عورت، مریض اور مسافر کے لیے کچھ رعایت بھی ہے جس کا آئندہ تفصیل سے ذکر ہو گا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ماہ رمضان کے روزوں کا بیان ارکان اسلام کے آخر میں کیا ہے، اس کے متعلق علامہ عینی نے لکھا ہے کہ قبل ازیں کتاب الزکاۃ کے بعد کتاب الحج کو ذکر کیا کیونکہ ان دونوں میں مال خرچ ہوتا ہے، اب روزے کے احکام کے لیے اور کوئی محل نہیں تھا، اس لیے ان کے احکام و مسائل کو آخر میں بیان کیا ہے۔ (عمدۃالقاری:8/3) قارئین کرام سے استدعا ہے کہ وہ امام بخاری رحمہ اللہ کے قائم کردہ عناوین اور پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کرتے وقت ہماری ان گزارشات کو ضرور پیش نظر رکھیں، اس سے حضرت امام کی فقہی بصیرت اور قوت استنباط اور دقت نظر کا اندازہ ہو گا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان احادیث پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے اور قیامت کے دن ہمیں زمرۂ محدثین میں اٹھائے۔ آمین یا رب العالمین
حضرت ابن ابی اوفی ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں ایک سفر میں نبی کریم ﷺ کے ہمراہ تھا۔ آپ نے روزہ رکھا۔ جب شام ہوئی تو ایک شخص سے فرمایا: ’’اتر کر میرے لیے ستو تیار کر۔‘‘ اس نے عرض کیا: اگر آپ شام تک انتظار کرتے تو بہتر ہوتا۔ آپ نے فرمایا: ’’اتر کر میرے لیے ستو تیار کر۔ جب تو دیکھے کہ رات ادھر سے آگئی ہے تو روزہ دار کو افطار کردینا چاہیے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
: (1) غروب آفتاب کے بعد جب مشرقی افق پر سیاہی آ جائے تو روزے دار کو روزہ افطار کر لینا چاہیے۔ (2) ہمارے دور میں شیعہ اور روافض روزہ افطار کرنے کے لیے ستاروں کے چمکنے کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے ایسے عمل کو خیروبرکت سے خالی قرار دیا ہے۔ اس سلسلے میں آپ کا واضح فرمان ہے کہ میری امت کے لوگ اس وقت تک میرے طریقے پر گامزن رہیں گے جب تک افطاری کرنے میں ستاروں کے چمکنے کا انتظار نہیں کریں گے۔ (صحیح ابن حبان:278/6) اس بنا پر روزہ افطار کرنے میں جلدی کرنی چاہیے۔ (3) روزہ افطار کرتے وقت مندرجہ ذیل دعا پڑھنا کتاب و سنت سے ثابت نہیں: (اللهم إني لك صُمتُ وبك آمنت وعليكَ توكلتُ وعلی رزقكَ أفطرتُ) روزہ افطار کرتے وقت مسنون دعا کا اہتمام کرنا چاہیے جسے ہم پہلے بیان کر آئے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوبکر بن عیاش نے بیان کیا، ان سے سلیمان شیبانی نے اور ان سے ابن ابی اوفیٰ ؓ نے کہ میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھا۔ آپ ﷺ روزے سے تھے، جب شام ہوئی تو آپ ﷺ نے ایک شخص سے فرمایا کہ ( اونٹ سے ) اتر کر میرے لیے ستو گھول، اس نے کہا ! حضور اگر شام ہونے کا کچھ اور انتظار فرمائیں تو بہتر ہو، آپ ﷺ نے فرمایا، اتر کر میرے لیے ستو گھول ( وقت ہو گیا ہے ) جب تم یہ دیکھ لو کہ رات ادھر مشرق سے آگئی تو روزہ دار کے روزہ کھولنے کا وقت ہو گیا۔
حدیث حاشیہ:
یا روزہ کھل گیا۔ بعض لوگوں نے اس حدیث سے یہ دلیل لی ہے کہ جب افطار کا وقت آجائے تو خود بخود روزہ کھل جاتا ہے گو افطار نہ کرے۔ ہم کہتے ہیں کہ اس حدیث سے ان کا رد ہوتا ہے کیوں کہ اگر وقت آنے سے روزہ خود بخود کھل جاتا تو آنحضرت ﷺ ستو گھولنے کے لیے کیوں جلدی فرماتے۔ اسی طرح دوسری حدیثوں میں روزہ جلدی کھولنے کی ترغیب کیوں دیتے۔ اور اگر وقت آنے سے روزہ خود بخود ختم ہوجاتا تو پھر طے کے روزے سے کیوں منع فرماتے۔ یہی حدیث پیچھے اسحاق واسطی کی سند سے بھی گذر چکی ہے آپ ﷺ نے جس کو ستو گھولنے کا حکم فرمایا تھا وہ حضرت بلال ؓ تھے۔ جنہوں نے روشنی دیکھ کر خیال کیا کہ ابھی سورج غروب ہونے میں کسر ہے، اسی لیے انہوں نے آنحضرت ﷺ کے سامنے ایسا عرض کیا۔ حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں و فیه تذکرة العالم بما یخشی أن یکون نسیه و ترك المراجعة له بعد ثلاث یعنی اس حدیث میں واقعہ مذکورہ سے یہ بھی ثابت ہوا کہ کسی عالم کو ایک عامی بھی تین بار یاد دہانی کراسکتا ہے۔ اگر یہ گمان ہو کہ عالم سے بھول ہو گئی ہے، جیسا کہ حضرت بلال ؓ نے اپنے خیال کے مطابق آنحضرت ﷺ کو تین مرتبہ یاد دہانی کرائی، مگر چوں کہ حضرت بلال ؓ کا خیال صحیح نہ تھا۔ لہٰذا آخر میں آنحضرت ﷺ نے ان کو مسئلہ کی حقیقت سے آگاہ فرمایا اور انہوں نے ارشاد گرامی کی تعمیل کی، معلوم ہوا کہ وقت ہو جانے پر روزہ کھولنے میں پس و پیش کرنا قطعاً مناسب نہیں ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn Abi Aufa (RA): I was with the Prophet (ﷺ) on a journey, and he observed the fast till evening. The Prophet (ﷺ) said to a man, "Get down and mix Sawiq with water for me." He replied, "Will you wait till it is evening?" The Prophet (ﷺ) said, "Get down and mix Sawiq with water for me; when you see night falling from this side, the fasting person should break his fast."