باب : ایک شخص نے سورج غروب سمجھ کر روزہ کھول لیا اس کے بعد سورج نکل آیا
)
Sahi-Bukhari:
Fasting
(Chapter: If somebody breaks the Saum thinking that the sun has set)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1959.
حضرت اسماء بنت ابی بکر ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ کے عہد مبارک میں ایک دن مطلع ابر آلود تھا۔ ہم نے روزہ افطار کرلیا۔ پھر اس کے بعد سورج نکل آیا۔ ہشام سے دریافت کیا گیا: پھر لوگوں کو قضا کا حکم دیا گیا ہوگا؟انھوں نے کہا: اس کے بغیر اور کیا چارہ تھا؟حضرت معمر کہتے ہیں کہ میں نے ہشام کو یہ کہتے ہوئے سنا مجھے معلوم نہیں کہ لوگوں نے روزہ قضا کیا یا نہیں۔
تشریح:
: (1) اگر روزہ افطار کرنے کے بعد سورج نکل آئے تو اس روزے کے متعلق کیا حکم ہے؟ اس میں متقدمین کا اختلاف ہے۔ امام بخاری ؒ نے اس اختلاف کے پیش نظر کوئی فیصلہ نہیں دیا، بلکہ روایت کے بعد حضرت ہشام کے دو مختلف جواب ذکر کیے ہیں۔ ہمارے نزدیک ایسے روزے کے متعلق حکم یہ ہے کہ جب تک سورج غروب نہ ہو کوئی چیز استعمال نہ کی جائے اور اس کے بعد میں قضا دی جائے، البتہ اس کے ذمے کوئی کفارہ وغیرہ نہیں ہے۔ حضرت عمر ؓ سے اس کے متعلق دو مختلف روایات ہیں: حضرت خالد بن اسلم بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر نے بادلوں کے دن رمضان المبارک میں روزہ افطار کیا، بعد میں سورج نکل آیا تو آپ نے فرمایا: جس نے روزہ افطار کیا ہے وہ بعد میں قضا دے۔ زید بن وہب بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: اس میں ہمارا کیا قصور ہے؟ ہمیں قضا کے طور پر روزہ رکھنے کی ضرورت نہیں۔ (السنن الکبرٰی للبیھقي:217/4) امام بیہقی ؒ نے مختلف روایات کے پیش نظر زید بن وہب کی روایت کو غلط قرار دیا ہے کیونکہ انہوں نے اکثریت کی مخالفت کی ہے، پھر انہوں نے حضرت صہیب کی روایت کا حوالہ دیا ہے کہ انہوں نے بعد میں قضا دینے کا حکم دیا تھا۔ (السنن الکبرٰی للبیھقي:218/4) (2) حافظ ابن حجر ؒ نے قضا دینے کی تائید کرتے ہوئے فرمایا ہے: اگر مطلع ابر آلود ہونے کی وجہ سے چاند نظر نہ آئے اور لوگ روزہ نہ رکھیں، بعد میں پتہ چلا کہ چاند نظر آ گیا تھا لیکن لوگوں نے روزہ نہیں رکھا تو انہیں بعد میں اس کی قضا دینی ہو گی، اسی طرح روزہ افطار کرنے کے بعد سورج نظر آنے کی صورت میں بھی قضا دینا ضروری ہے۔ (فتح الباري:255/4)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1902
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1959
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1959
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1959
تمہید کتاب
عربی زبان میں روزے کے لیے صوم کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ لغوی طور پر اس کے معنی رک جانا ہیں، یعنی کھانے پینے، بولنے، جماع کرنے یا چلنے سے رک جانا۔ شرعی تعریف یہ ہے کہ مخصوص شرائط کے ساتھ مخصوص ایام میں مخصوص اشیاء سے مخصوص وقت میں رک جانا کا نام صوم ہے۔ دوسرے لفظوں میں عبادت کی نیت سے طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کھانے، پینے اور ازدواجی تعلقات سے باز رہنے کا نام روزہ ہے۔دراصل انسان کو اللہ تعالیٰ نے روحانیت اور حیوانیت سے مرکب بنایا ہے۔ اس کی طبیعت میں وہ سارے مادی اور سفلی تقاضے بھی ہیں جو دوسرے حیوانوں میں ہوتے ہیں اور اس کی فطرت میں روحانیت کا وہ نورانی جوہر بھی ہے جو فرشتوں کے لیے خاص غذا اور دولت ہے۔ انسان کی سعادت کا دارومدار اسی پر ہے کہ اس کا روحانی عنصر، حیوانی عنصر پر غالب رہے اور اسے حدود کا پابند رکھے جو اللہ تعالیٰ نے اس پر عائد کی ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ انسان کا حیوانی پہلو اس کے روحانی پہلو کا فرمانبردار اور اطاعت شعار ہو جائے اور اس کے مقابلے میں سرکشی اور بغاوت نہ کرے۔ روزے کا مقصد بھی یہی ہے کہ اس کے ذریعے سے انسان کی حیوانیت کو کنٹرول کیا جائے اور اسے شرعی احکام کی پابندی، نیز ایمانی اور روحانی تقاضوں کی فرمانبرداری کا عادی بنایا جائے۔ روزہ چونکہ انسان کی حیوانی قوت کو اس کی روحانی قوت کے تابع رکھنے اور اللہ کے احکام کے مقابلے میں خواہشات نفس اور تقاضائے شہوت کو دبانے کی عادت ڈالنے کا خاص ذریعہ ہے، اس لیے سابقہ امتوں کو بھی اس کا حکم دیا گیا تھا۔ اگرچہ روزوں کی مدت اور دوسرے تفصیلی احکام میں خاص حالات و ضروریات کے لحاظ سے کچھ فرق بھی تھا، تاہم مقصد میں یکسانیت ضرور تھی جسے اللہ تعالیٰ نے بایں الفاظ بیان کیا ہے (لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ) "تاکہ تم تقویٰ شعار بن جاؤ۔" (البقرۃ183:2)اس امت کے لیے سال میں ایک ماہ کے روزے فرض کیے گئے اور روزے کا وقت طلوع سحر سے غروب آفتاب تک رکھا گیا۔ بلاشبہ یہ مدت اور یہ وقت مذکورہ بالا مقصد کے حصول کے لیے نہایت معتدل اور مناسب ہے کیونکہ اس سے کم مدت میں نفس کی تربیت کا مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ اور اگر وقت اس سے زیادہ رکھا جاتا تو اکثریت کے لیے ناقابل برداشت ہوتا۔ بہرحال طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کا وقت اور سال میں ایک مہینے کی مدت عام انسان کے حالات و ظروف کے اعتبار سے مقصد تربیت کے لیے بالکل مناسب اور متعدل ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کے تحت ایک سو ستاون احادیث ذکر کیں ہیں، پھر ان احادیث پر ستر کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے روزے کے متعلق متعدد احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ ہم چند ایک کا بطور نمونہ ذکر کرتے ہیں۔وجوب روزہ، فضیلت روزہ، ماہ رمضان میں سخاوت کرنا، روزے کی ابتدا اور انتہائے سحری کے مسائل، اس کا وقت، بحالت جنابت روزہ رکھنا، دن کے وقت روزے کی نیت کرنا، دوران روزہ بیوی سے بوس و کنار کرنا، بحالت روزہ غسل کرنا، بھول کر کھا پی لینا، دوران روزہ تازہ یا خشک مسواک کرنا، بحالت روزہ بیوی سے جماع اور اس کا کفارہ، روزے کی حالت میں سنگی لگوانا یا قے کرنا، دوران سفر میں روزے رکھنا، روزے کی قضا کا وقت، حائضہ عورت کے لیے روزے کے احکام، افطاری کے مسائل، افطاری کے بعد اگر سورج نظر آ جائے، وصال کی شرعی حیثیت، نفلی روزے اور اسوۂ نبوی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مذکورہ مسائل اور دیگر احکام براہ راست احادیث سے اخذ کیے ہیں، جن سے امام صاحب کی بصیرت و فراست کا پتہ چلتا ہے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک سو ستاون احادیث بیان کی ہیں جن میں چھتیس معلق اور باقی موصول ہیں، ان میں اڑسٹھ مکرر اور خالص نواسی احادیث ہیں۔ پچیس احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔ احادیث کے علاوہ تقریبا ساٹھ آثار بھی بیان کیے ہیں جو متعدد صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی ہیں۔ ان میں اکثر معلق اور چند موصول ہیں۔واضح رہے کہ اس مہینے کو رمضان اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس کے معنی جلنے کے ہیں اور جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تھے اس وقت سخت گرمی تھی، اس لیے یہ مہینہ رمضان سے موسوم ہوا، نیز اس ماہ میں روزہ رکھنے والوں کے گناہ جل جاتے ہیں۔ عورت، مریض اور مسافر کے لیے کچھ رعایت بھی ہے جس کا آئندہ تفصیل سے ذکر ہو گا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ماہ رمضان کے روزوں کا بیان ارکان اسلام کے آخر میں کیا ہے، اس کے متعلق علامہ عینی نے لکھا ہے کہ قبل ازیں کتاب الزکاۃ کے بعد کتاب الحج کو ذکر کیا کیونکہ ان دونوں میں مال خرچ ہوتا ہے، اب روزے کے احکام کے لیے اور کوئی محل نہیں تھا، اس لیے ان کے احکام و مسائل کو آخر میں بیان کیا ہے۔ (عمدۃالقاری:8/3) قارئین کرام سے استدعا ہے کہ وہ امام بخاری رحمہ اللہ کے قائم کردہ عناوین اور پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کرتے وقت ہماری ان گزارشات کو ضرور پیش نظر رکھیں، اس سے حضرت امام کی فقہی بصیرت اور قوت استنباط اور دقت نظر کا اندازہ ہو گا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان احادیث پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے اور قیامت کے دن ہمیں زمرۂ محدثین میں اٹھائے۔ آمین یا رب العالمین
حضرت اسماء بنت ابی بکر ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ کے عہد مبارک میں ایک دن مطلع ابر آلود تھا۔ ہم نے روزہ افطار کرلیا۔ پھر اس کے بعد سورج نکل آیا۔ ہشام سے دریافت کیا گیا: پھر لوگوں کو قضا کا حکم دیا گیا ہوگا؟انھوں نے کہا: اس کے بغیر اور کیا چارہ تھا؟حضرت معمر کہتے ہیں کہ میں نے ہشام کو یہ کہتے ہوئے سنا مجھے معلوم نہیں کہ لوگوں نے روزہ قضا کیا یا نہیں۔
حدیث حاشیہ:
: (1) اگر روزہ افطار کرنے کے بعد سورج نکل آئے تو اس روزے کے متعلق کیا حکم ہے؟ اس میں متقدمین کا اختلاف ہے۔ امام بخاری ؒ نے اس اختلاف کے پیش نظر کوئی فیصلہ نہیں دیا، بلکہ روایت کے بعد حضرت ہشام کے دو مختلف جواب ذکر کیے ہیں۔ ہمارے نزدیک ایسے روزے کے متعلق حکم یہ ہے کہ جب تک سورج غروب نہ ہو کوئی چیز استعمال نہ کی جائے اور اس کے بعد میں قضا دی جائے، البتہ اس کے ذمے کوئی کفارہ وغیرہ نہیں ہے۔ حضرت عمر ؓ سے اس کے متعلق دو مختلف روایات ہیں: حضرت خالد بن اسلم بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر نے بادلوں کے دن رمضان المبارک میں روزہ افطار کیا، بعد میں سورج نکل آیا تو آپ نے فرمایا: جس نے روزہ افطار کیا ہے وہ بعد میں قضا دے۔ زید بن وہب بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: اس میں ہمارا کیا قصور ہے؟ ہمیں قضا کے طور پر روزہ رکھنے کی ضرورت نہیں۔ (السنن الکبرٰی للبیھقي:217/4) امام بیہقی ؒ نے مختلف روایات کے پیش نظر زید بن وہب کی روایت کو غلط قرار دیا ہے کیونکہ انہوں نے اکثریت کی مخالفت کی ہے، پھر انہوں نے حضرت صہیب کی روایت کا حوالہ دیا ہے کہ انہوں نے بعد میں قضا دینے کا حکم دیا تھا۔ (السنن الکبرٰی للبیھقي:218/4) (2) حافظ ابن حجر ؒ نے قضا دینے کی تائید کرتے ہوئے فرمایا ہے: اگر مطلع ابر آلود ہونے کی وجہ سے چاند نظر نہ آئے اور لوگ روزہ نہ رکھیں، بعد میں پتہ چلا کہ چاند نظر آ گیا تھا لیکن لوگوں نے روزہ نہیں رکھا تو انہیں بعد میں اس کی قضا دینی ہو گی، اسی طرح روزہ افطار کرنے کے بعد سورج نظر آنے کی صورت میں بھی قضا دینا ضروری ہے۔ (فتح الباري:255/4)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن ابی شیبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے فاطمہ بنت منذر نے او ران سے اسماءبنت ابی بکر ؓ نے کہ ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں ابر تھا۔ ہم نے جب افطار کر لیا تو سورج نکل آیا۔ اس پر ہشام ( راوی حدیث ) سے کہا گیا کہ پھر انہیں اس روزے کی قضا کا حکم ہوا تھا؟ تو انہوں نے بتلایا کہ قضا کے سوا اور چارئہ کار ہی کیا تھا؟ اور معمر نے کہا کہ میں نے ہشام سے یوں سنا ”مجھے معلوم نہیں کہ ان لوگوں نے قضا کی تھی یا نہیں۔“
حدیث حاشیہ:
اس پر ائمہ اربعہ کا اتفاق ہے کہ ایسی صورت میں قضا لازم ہوگی اور کفارہ نہ ہوگا اور اس کے سوا یہ بھی ضروری ہے کہ جب تک غروب نہ ہو امساک کرے یعنی کچھ کھائے پیے نہیں۔ قسطلانی نے بعض حنابلہ سے یہ نقل کیا کہ اگر کوئی شخص یہ سمجھ کر کہ رات ہو گئی افطار کرلے پھر معلوم ہوا کہ دن تھا تو اس پر قضا نہیں ہے لیکن یہ قول صحیح نہیں۔ میں کہتا ہوں حضرت عمر ؓ سے یہ منقول ہے کہ ایسی صورت میں قضا بھی نہیں ہے، اور مجاہد اور حسن سے بھی ایسا ہی منقول ہے۔ حافظ نے کہا کہ ایک روایت امام احمد ؒ سے بھی ایسی ہی ہے اور ابن خزیمہ نے اسی کو اختیار کیا ہے اور معمر کی تعلیق کو عبد بن حمید نے وصل کیا۔ یہ روایت پہلی روایت کے خلاف ہے اور شاید پہلے ہشام کو اس میں شک رہا ہو پھر یقین ہو گیا ہو کہ انہوں نے قضا کی۔ اور ابواسامہ نے ان کو قضا کا یقین ہوجانے کے بعد روایت کی ہو، اس صورت میں تعارض نہ رہے گا۔ ابن خزیمہ نے کہا ہشام نے جو قضا کرنا بیان کیا اس کی سند ذکر نہیں کی، اس لیے میرے نزدیک قضا نہ ہونے کی ترجیح ہے اور ابن ابی شیبہ نے حضرت عمر ؓ سے نقل کیا کہ ہم قضا نہیں کرنے کے نہ ہم کو گناہ ہوا اور عبدالرزاق اور سعید بن منصور نے ان سے یہ نقل کیا ہے کہ قضا کرنا چاہئے۔ حافظ نے کہا کہ حاصل کلام یہ ہوا کہ یہ مسئلہ اختلافی ہے۔ ( وحیدی ) ظاہر حدیث کا مفہوم یہی ہے کہ قضا لازم ہے واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Usama from Hisham bin 'Ursa from Fatima (RA): Asma bint Abi Bakr said, "We broke our fast during the lifetime of the Prophet (ﷺ) on a cloudy day and then the sun appeared." Hisham was asked, "Were they ordered to fast in lieu of that day?" He replied, "It had to be made up for." Ma'mar said, "I heard Hisham saying, "I don't know whether they fasted in lieu of that day or not."