باب : کسی نے اپنے بھائی کو نفلی روزہ توڑنے کے لیے قسم دی
)
Sahi-Bukhari:
Fasting
(Chapter: If someone forces his Muslim brother to break his (Nawafil) fast.)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اس نے روزہ توڑ دیا تو توڑنے والے پر قضاء واجب نہیں ہے جب کہ روزہ نہ رکھنا اس کو مناسب ہو۔اس سے یہ نکلتا ہے کہ اگر بلا وجہ نفل روزہ قصداً توڑ ڈالے تو اس پر قضا لازم ہوگی۔ اس مسئلہ میں علماءکا اختلاف ہے۔ شافعیہ کہتے ہیں اگر نفل روزہ توڑ ڈالے تو اس کی قضا مستحب ہے عذر سے توڑے یا بے عذر۔ حنابلہ اور جمہور بھی اسی کے قائل ہیں۔ حنفیہ کے نزدیک ہر حال میں قضا واجب ہے اور مالکیہ کہتے ہیں کہ جب عمداً بلا عذر توڑ ڈالے تو قضا لازم ہوگی۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مسلک ظاہرے ہے اور اسی کو ترجیح حاصل ہے۔
1968.
حضرت ابو جحیفہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ نے حضرت سلمان فارسی اور حضرت ابودرداء ؓ کے مابین بھائی چارہ کرادیاتھا، چنانچہ ایک دن حضرت سلمان ؓ حضرت ابودرداء ؓ سے ملنے گئے تو انہوں نے ام درداء ؓ کو انتہائی پراگندہ حالت میں دیکھا۔ انھوں نے ان سے دریافت کیا: تمہارا کیا حال ہے؟وہ بولیں کہ تمہارے بھائی حضرت ابودرداء ؓ کو دنیا کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ اتنے میں حضرت ابودرداء ؓ بھی آگئے، انھوں نے حضرت سلمان ؓ کے لیے کھانا تیار کیا، پھر حضرت سلمان ؓ سے گویا ہوئے: تم کھاؤ میں تو روزے سے ہوں۔ حضرت سلمان ؓ نے کہا: جب تک تم نہیں کھاؤ گے میں بھی نہیں کھاؤ ں گا۔ بالآخر حضرت ابودرداء ؓ نے کھانا تناول کیا۔ جب رات ہوئی تو حضرت ابودرداء ؓ نمازکےلیے اٹھے توحضرت سلمان ؓ نے انھیں کہا: سو جاؤ، چنانچہ وہ سو گئے۔ تھوڑی دیر بعد پھر اٹھنے لگے تو حضرت سلمان ؓ نے کہا: ابھی سوئے رہو۔ جب آخر شب ہوئی تو حضرت سلمان ؓ نے کہا: اب اٹھو، چنانچہ دونوں نے نماز پڑھی۔ پھر حضرت سلمان ؓ نے حضرت ابودرداء ؓ سے کہا: بے شک تم پر تمہارے رب کا بھی حق ہے۔ نیز تمہاری جان اور تمہاری اہلیہ کا بھی تم پر حق ہے۔ لہذا تمھیں سب کے حقوق ادا کرنے چاہیں۔ پھر حضرت ابو درداء ؓ نبی کریم ﷺ کے پاس آئے اور آپ سے یہ سب معاملہ بیان کیا تو آپ نے فرمایا: ’’سلمان نے سچ کہاہے۔‘‘
تشریح:
(1) اس عنوان سے امام بخاری ؒ نے نفلی روزوں کے مسائل و احکام بیان کرنے کا آغاز فرمایا ہے۔ ان کے متعلق پہلا مسئلہ یہ بیان کیا کہ نفلی روزہ رکھنے کے بعد اس کا پورا کرنا ضروری ہے۔ اگر اسے کسی ضرورت کے پیش نظر توڑ دیا جائے تو کیا اس کی قضا دینا لازم ہے یا نہیں؟ عنوان سے امام بخاری ؒ کا یہ رجحان معلوم ہوتا ہے کہ اگر کسی سبب کے پیش نظر اسے توڑا جائے تو اس کی قضا ضروری نہیں۔ اگر بلاوجہ اسے قبل از وقت افطار کر دیا جائے تو اس کی قضا دی جائے۔ اگرچہ پیش کردہ روایت میں قسم دینے کا ذکر نہیں ہے، تاہم سنن بیہقی میں ہے کہ حضرت سلمان ؓ نے فرمایا: میں تجھے روزہ چھوڑ دینے کے متعلق قسم دیتا ہوں۔ (السنن الکبرٰی للبیھقي:276/4) (2) پیش کردہ روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ نفلی روزہ کس معقول وجہ سے توڑا جا سکتا ہے اور اس کا پورا کرنا ضروری نہیں اور نہ اس کی قضا دینا ہی ضروری ہے ہاں، اگر آدمی چاہے تو بعد میں اس کی جگہ اور روزہ رکھ لے جیسا کہ حضرت ابو سعید ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے لیے کھانا تیار کیا۔ آپ ﷺ اپنے صحابہ سمیت تشریف لائے۔ جب کھانا سامنے پیش کر دیا گیا تو ایک آدمی نے کہا: میں روزے سے ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تمہارے بھائی نے تمہارے لیے کھانا تیار کیا ہے اور بڑے تکلف سے کام لیا ہے۔ اپنا روزہ افطار کر دو اور اگر چاہو تو بعد میں اس کی جگہ ایک روزہ رکھ لو۔‘‘ (السنن الکبرٰی للبیھقي:279/4) ان روایات کا تقاضا ہے کہ نفلی روزہ کسی وجہ سے توڑا جا سکتا ہے اور اس کی قضا دینا ضروری نہیں اور قضاء کے وجوب پر جو روایات پیش کی جاتی ہیں وہ قابل حجت نہیں ہیں۔ (فتح الباري:270/4)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1911
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1968
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1968
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1968
تمہید کتاب
عربی زبان میں روزے کے لیے صوم کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ لغوی طور پر اس کے معنی رک جانا ہیں، یعنی کھانے پینے، بولنے، جماع کرنے یا چلنے سے رک جانا۔ شرعی تعریف یہ ہے کہ مخصوص شرائط کے ساتھ مخصوص ایام میں مخصوص اشیاء سے مخصوص وقت میں رک جانا کا نام صوم ہے۔ دوسرے لفظوں میں عبادت کی نیت سے طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کھانے، پینے اور ازدواجی تعلقات سے باز رہنے کا نام روزہ ہے۔دراصل انسان کو اللہ تعالیٰ نے روحانیت اور حیوانیت سے مرکب بنایا ہے۔ اس کی طبیعت میں وہ سارے مادی اور سفلی تقاضے بھی ہیں جو دوسرے حیوانوں میں ہوتے ہیں اور اس کی فطرت میں روحانیت کا وہ نورانی جوہر بھی ہے جو فرشتوں کے لیے خاص غذا اور دولت ہے۔ انسان کی سعادت کا دارومدار اسی پر ہے کہ اس کا روحانی عنصر، حیوانی عنصر پر غالب رہے اور اسے حدود کا پابند رکھے جو اللہ تعالیٰ نے اس پر عائد کی ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ انسان کا حیوانی پہلو اس کے روحانی پہلو کا فرمانبردار اور اطاعت شعار ہو جائے اور اس کے مقابلے میں سرکشی اور بغاوت نہ کرے۔ روزے کا مقصد بھی یہی ہے کہ اس کے ذریعے سے انسان کی حیوانیت کو کنٹرول کیا جائے اور اسے شرعی احکام کی پابندی، نیز ایمانی اور روحانی تقاضوں کی فرمانبرداری کا عادی بنایا جائے۔ روزہ چونکہ انسان کی حیوانی قوت کو اس کی روحانی قوت کے تابع رکھنے اور اللہ کے احکام کے مقابلے میں خواہشات نفس اور تقاضائے شہوت کو دبانے کی عادت ڈالنے کا خاص ذریعہ ہے، اس لیے سابقہ امتوں کو بھی اس کا حکم دیا گیا تھا۔ اگرچہ روزوں کی مدت اور دوسرے تفصیلی احکام میں خاص حالات و ضروریات کے لحاظ سے کچھ فرق بھی تھا، تاہم مقصد میں یکسانیت ضرور تھی جسے اللہ تعالیٰ نے بایں الفاظ بیان کیا ہے (لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ) "تاکہ تم تقویٰ شعار بن جاؤ۔" (البقرۃ183:2)اس امت کے لیے سال میں ایک ماہ کے روزے فرض کیے گئے اور روزے کا وقت طلوع سحر سے غروب آفتاب تک رکھا گیا۔ بلاشبہ یہ مدت اور یہ وقت مذکورہ بالا مقصد کے حصول کے لیے نہایت معتدل اور مناسب ہے کیونکہ اس سے کم مدت میں نفس کی تربیت کا مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ اور اگر وقت اس سے زیادہ رکھا جاتا تو اکثریت کے لیے ناقابل برداشت ہوتا۔ بہرحال طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کا وقت اور سال میں ایک مہینے کی مدت عام انسان کے حالات و ظروف کے اعتبار سے مقصد تربیت کے لیے بالکل مناسب اور متعدل ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کے تحت ایک سو ستاون احادیث ذکر کیں ہیں، پھر ان احادیث پر ستر کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے روزے کے متعلق متعدد احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ ہم چند ایک کا بطور نمونہ ذکر کرتے ہیں۔وجوب روزہ، فضیلت روزہ، ماہ رمضان میں سخاوت کرنا، روزے کی ابتدا اور انتہائے سحری کے مسائل، اس کا وقت، بحالت جنابت روزہ رکھنا، دن کے وقت روزے کی نیت کرنا، دوران روزہ بیوی سے بوس و کنار کرنا، بحالت روزہ غسل کرنا، بھول کر کھا پی لینا، دوران روزہ تازہ یا خشک مسواک کرنا، بحالت روزہ بیوی سے جماع اور اس کا کفارہ، روزے کی حالت میں سنگی لگوانا یا قے کرنا، دوران سفر میں روزے رکھنا، روزے کی قضا کا وقت، حائضہ عورت کے لیے روزے کے احکام، افطاری کے مسائل، افطاری کے بعد اگر سورج نظر آ جائے، وصال کی شرعی حیثیت، نفلی روزے اور اسوۂ نبوی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مذکورہ مسائل اور دیگر احکام براہ راست احادیث سے اخذ کیے ہیں، جن سے امام صاحب کی بصیرت و فراست کا پتہ چلتا ہے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک سو ستاون احادیث بیان کی ہیں جن میں چھتیس معلق اور باقی موصول ہیں، ان میں اڑسٹھ مکرر اور خالص نواسی احادیث ہیں۔ پچیس احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔ احادیث کے علاوہ تقریبا ساٹھ آثار بھی بیان کیے ہیں جو متعدد صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی ہیں۔ ان میں اکثر معلق اور چند موصول ہیں۔واضح رہے کہ اس مہینے کو رمضان اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس کے معنی جلنے کے ہیں اور جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تھے اس وقت سخت گرمی تھی، اس لیے یہ مہینہ رمضان سے موسوم ہوا، نیز اس ماہ میں روزہ رکھنے والوں کے گناہ جل جاتے ہیں۔ عورت، مریض اور مسافر کے لیے کچھ رعایت بھی ہے جس کا آئندہ تفصیل سے ذکر ہو گا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ماہ رمضان کے روزوں کا بیان ارکان اسلام کے آخر میں کیا ہے، اس کے متعلق علامہ عینی نے لکھا ہے کہ قبل ازیں کتاب الزکاۃ کے بعد کتاب الحج کو ذکر کیا کیونکہ ان دونوں میں مال خرچ ہوتا ہے، اب روزے کے احکام کے لیے اور کوئی محل نہیں تھا، اس لیے ان کے احکام و مسائل کو آخر میں بیان کیا ہے۔ (عمدۃالقاری:8/3) قارئین کرام سے استدعا ہے کہ وہ امام بخاری رحمہ اللہ کے قائم کردہ عناوین اور پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کرتے وقت ہماری ان گزارشات کو ضرور پیش نظر رکھیں، اس سے حضرت امام کی فقہی بصیرت اور قوت استنباط اور دقت نظر کا اندازہ ہو گا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان احادیث پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے اور قیامت کے دن ہمیں زمرۂ محدثین میں اٹھائے۔ آمین یا رب العالمین
اور اس نے روزہ توڑ دیا تو توڑنے والے پر قضاء واجب نہیں ہے جب کہ روزہ نہ رکھنا اس کو مناسب ہو۔اس سے یہ نکلتا ہے کہ اگر بلا وجہ نفل روزہ قصداً توڑ ڈالے تو اس پر قضا لازم ہوگی۔ اس مسئلہ میں علماءکا اختلاف ہے۔ شافعیہ کہتے ہیں اگر نفل روزہ توڑ ڈالے تو اس کی قضا مستحب ہے عذر سے توڑے یا بے عذر۔ حنابلہ اور جمہور بھی اسی کے قائل ہیں۔ حنفیہ کے نزدیک ہر حال میں قضا واجب ہے اور مالکیہ کہتے ہیں کہ جب عمداً بلا عذر توڑ ڈالے تو قضا لازم ہوگی۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مسلک ظاہرے ہے اور اسی کو ترجیح حاصل ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو جحیفہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ نے حضرت سلمان فارسی اور حضرت ابودرداء ؓ کے مابین بھائی چارہ کرادیاتھا، چنانچہ ایک دن حضرت سلمان ؓ حضرت ابودرداء ؓ سے ملنے گئے تو انہوں نے ام درداء ؓ کو انتہائی پراگندہ حالت میں دیکھا۔ انھوں نے ان سے دریافت کیا: تمہارا کیا حال ہے؟وہ بولیں کہ تمہارے بھائی حضرت ابودرداء ؓ کو دنیا کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ اتنے میں حضرت ابودرداء ؓ بھی آگئے، انھوں نے حضرت سلمان ؓ کے لیے کھانا تیار کیا، پھر حضرت سلمان ؓ سے گویا ہوئے: تم کھاؤ میں تو روزے سے ہوں۔ حضرت سلمان ؓ نے کہا: جب تک تم نہیں کھاؤ گے میں بھی نہیں کھاؤ ں گا۔ بالآخر حضرت ابودرداء ؓ نے کھانا تناول کیا۔ جب رات ہوئی تو حضرت ابودرداء ؓ نمازکےلیے اٹھے توحضرت سلمان ؓ نے انھیں کہا: سو جاؤ، چنانچہ وہ سو گئے۔ تھوڑی دیر بعد پھر اٹھنے لگے تو حضرت سلمان ؓ نے کہا: ابھی سوئے رہو۔ جب آخر شب ہوئی تو حضرت سلمان ؓ نے کہا: اب اٹھو، چنانچہ دونوں نے نماز پڑھی۔ پھر حضرت سلمان ؓ نے حضرت ابودرداء ؓ سے کہا: بے شک تم پر تمہارے رب کا بھی حق ہے۔ نیز تمہاری جان اور تمہاری اہلیہ کا بھی تم پر حق ہے۔ لہذا تمھیں سب کے حقوق ادا کرنے چاہیں۔ پھر حضرت ابو درداء ؓ نبی کریم ﷺ کے پاس آئے اور آپ سے یہ سب معاملہ بیان کیا تو آپ نے فرمایا: ’’سلمان نے سچ کہاہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) اس عنوان سے امام بخاری ؒ نے نفلی روزوں کے مسائل و احکام بیان کرنے کا آغاز فرمایا ہے۔ ان کے متعلق پہلا مسئلہ یہ بیان کیا کہ نفلی روزہ رکھنے کے بعد اس کا پورا کرنا ضروری ہے۔ اگر اسے کسی ضرورت کے پیش نظر توڑ دیا جائے تو کیا اس کی قضا دینا لازم ہے یا نہیں؟ عنوان سے امام بخاری ؒ کا یہ رجحان معلوم ہوتا ہے کہ اگر کسی سبب کے پیش نظر اسے توڑا جائے تو اس کی قضا ضروری نہیں۔ اگر بلاوجہ اسے قبل از وقت افطار کر دیا جائے تو اس کی قضا دی جائے۔ اگرچہ پیش کردہ روایت میں قسم دینے کا ذکر نہیں ہے، تاہم سنن بیہقی میں ہے کہ حضرت سلمان ؓ نے فرمایا: میں تجھے روزہ چھوڑ دینے کے متعلق قسم دیتا ہوں۔ (السنن الکبرٰی للبیھقي:276/4) (2) پیش کردہ روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ نفلی روزہ کس معقول وجہ سے توڑا جا سکتا ہے اور اس کا پورا کرنا ضروری نہیں اور نہ اس کی قضا دینا ہی ضروری ہے ہاں، اگر آدمی چاہے تو بعد میں اس کی جگہ اور روزہ رکھ لے جیسا کہ حضرت ابو سعید ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے لیے کھانا تیار کیا۔ آپ ﷺ اپنے صحابہ سمیت تشریف لائے۔ جب کھانا سامنے پیش کر دیا گیا تو ایک آدمی نے کہا: میں روزے سے ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تمہارے بھائی نے تمہارے لیے کھانا تیار کیا ہے اور بڑے تکلف سے کام لیا ہے۔ اپنا روزہ افطار کر دو اور اگر چاہو تو بعد میں اس کی جگہ ایک روزہ رکھ لو۔‘‘ (السنن الکبرٰی للبیھقي:279/4) ان روایات کا تقاضا ہے کہ نفلی روزہ کسی وجہ سے توڑا جا سکتا ہے اور اس کی قضا دینا ضروری نہیں اور قضاء کے وجوب پر جو روایات پیش کی جاتی ہیں وہ قابل حجت نہیں ہیں۔ (فتح الباري:270/4)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے جعفر بن عون نے بیان کیا، ان سے ابوالعمیس عتبہ بن عبداللہ نے بیان کیا، ان سے عون بن ابی حجیفہ نے او ران سے ان کے والد ( وہب بن عبداللہ ؓ ) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے سلمان اور ابوالدرداءؓ میں ( ہجرت کے بعد ) بھائی چارہ کرایا تھا۔ ایک مرتبہ سلمان ؓ، ابودرادءؓ سے ملاقات کے لیے گئے۔ تو ( ان کی عورت ) ام درداءؓ کو بہت پھٹے پرانے حال میں دیکھا۔ ان سے پوچھا کہ یہ حالت کیوں بنا رکھی ہے؟ ام درداءؓ نے جواب دیا کہ تمہارے بھائی ابوالدرداءؓ ہیں جن کی دنیا کی کوئی حاجت ہی نہیں ہے پھر ابوالدرداءؓ بھی آگئے او ران کے سامنے کھانا حاضر کیا اور کہا کہ کھانا کھاؤ، انہوں نے کہا کہ میں توروزے سے ہوں، اس پر حضرت سلمان ؓ نے فرمایا کہ میں بھی اس وقت تک کھانا نہیں کھاؤں گا جب تک تم خود بھی شریک نہ ہوگے۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر وہ کھانے میں شریک ہوگئے ( اور روزہ توڑ دیا ) رات ہوئی تو ابوالدرداءؓ عبادت کے لیے اٹھے اور اس مرتبہ بھی سلمان ؓ نے فرمایا کہ ابھی سو جاؤ۔ پھر جب رات کا آخری حصہ ہوا تو سلمان ؓ نے فرمایا کہ ابھی سو جاؤ۔ پھر جب رات کا آخری حصہ ہوا تو سلمان ؓ نے فرمایا کہ اچھا اب اٹھ جاؤ۔ چنانچہ دونوں نے نماز پڑھی۔ اس کے بعد سلمان ؓ نے فرمایا کہ تمہارے رب کا بھی تم پر حق ہے۔ جان کا بھی تم پر حق ہے اور تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے، اس لیے ہر حق والے کے حق کو ادا کرنا چاہئے، پھر آپ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ ﷺ سے اس کا تذکرہ کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ سلمان نے سچ کہا۔
حدیث حاشیہ:
عبادت الٰہی کے متعلق کچھ غلط تصورات ادیان عالم میں پہلے ہی سے پائے جاتے رہے ہیں۔ ان ہی غلط تصورات کی اصلاح کے لیے پیغمبر اعظم ﷺ تشریف لائے۔ ابتدائے اسلام میں بعض صحابہ بھی ایسے تصورات رکھتے تھے۔ جن میں سے ایک حضرت ابودردا ؓ بھی تھے جو یہ تصور رکھتے کہ نفس کشی بایں طور کرنا کہ جائز حاجات بھی ترک کرکے حتی کہ رات کو آرام ترک کرنا، دن میں ہمیشہ روزہ سے رہنا ہی عبادت ہے اور یہی اللہ کی رضا کا ذریعہ ہے۔ حضرت سلمان ؓ نے ان کے اس تصور کی عملاً اصلاح فرمائی اور بتلایا کہ ہر صاحب حق کاحق ادا کرنا یہ بھی عبادت الٰہی ہی میں داخل ہے، بیوی کے حقوق ادا کرنا، جس میں اس سے جماع کرنا بھی داخل ہے۔ اور رات میں آرام کی نیند سونا اور دن میں متواتر نفل روزوں کی جگہ کھانا پینا یہ سب امور داخل عبادت ہیں۔ ان ہر دو بزرگ صحابیوں کا جب یہ واقعہ آنحضرت ﷺ تک پہنچا تو آپ نے حضرت سلمان کی تائید فرمائی اور بتلایا کہ عبادت الٰہی کا حقیقی تصور یہی ہے کہ حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد بلکہ حقوق النفس بھی ادا کئے جائیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Juhaifa (RA): The Prophet (ﷺ) made a bond of brotherhood between Salman and Abu Ad-Darda.' Salman paid a visit to Abu Ad-Darda' and found Um Ad-Darda' dressed in shabby clothes and asked her why she was in that state. She replied, "Your brother Abu Ad-Darda' is not interested in (the luxuries of) this world." In the meantime Abu Ad-Darda' came and prepared a meal for Salman. Salman requested Abu Ad-Darda' to eat (with him), but Abu Ad-Darda' said, "I am fasting." Salman said, "I am not going to eat unless you eat." So, Abu Ad-Darda' ate(with Salman). When it was night and (a part of the night passed), Abu Ad-Darda' got up (to offer the night prayer), but Salman told him to sleep and Abu Ad-Darda' slept. After sometime Abu Ad-Darda' again got up but Salman told him to sleep. When it was the last hours of the night, Salman told him to get up then, and both of them offered the prayer. Salman told Abu Ad-Darda', "Your Lord has a right on you, your soul has a right on you, and your family has a right on you; so you should give the rights of all those who has a right on you." Abu Ad-Darda' came to the Prophet (ﷺ) and narrated the whole story. The Prophet (ﷺ) said, "Salman has spoken the truth."