باب : اس بارے میں کہ عاشوراء کے دن کا روزہ کیسا ہے؟
)
Sahi-Bukhari:
Fasting
(Chapter: Observing Saum (fast) on the day of 'Ashura)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2007.
حضرت سلمہ بن اکوع ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے قبیلہ اسلم کے ایک شخص کو حکم دیا کہ وہ لوگوں میں اعلان کرے: ’’جس نے کچھ کھا لیا ہے وہ باقی دن کا روزہ رکھے اور جس نے نہیں کھایا وہ پورے دن کا روزہ رکھے اس لیے کہ آج کا دن عاشوراء کا دن ہے۔‘‘
تشریح:
(1) حضرت امیر معاویہ ؓ نے امارت کے بعد پہلا حج 44 ہجری میں کیا اور دوسرا 57 ہجری میں کیا۔ ایسے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ کلمات انہوں نے دوسرے حج کے موقع پر ارشاد فرمائے اور حج کے بعد وہ دس محرم تک مدینہ طیبہ میں ٹھہرے۔ اہل مدینہ اس دن روزے کے متعلق اہتمام نہیں کرتے تھے، اس لیے انہوں نے علماء کے حوالے سے بات کی۔ (2) سابقہ احادیث سے معلوم ہوا کہ یہودونصاریٰ اور قریش اس دن کا روزہ رکھتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے بھی اس دن روزہ رکھنے کی حیثیت کو برقرار رکھا حتی کہ ہجرت کے پہلے سال مدینہ طیبہ میں نہ صرف خود اس کا اہتمام کیا بلکہ دوسروں کو حکم دیا کہ وہ اس دن کا روزہ رکھیں۔ (3) تمام احادیث کو سامنے رکھتے ہوئے عاشوراء کے روزے کے متعلق مندرجہ ذیل حقائق سامنے آتے ہیں: ٭ رمضان کے روزے فرض ہونے سے پہلے عاشوراء کا روزہ فرض تھا اور یہ فرضیت ایک سال تک رہی کیونکہ رسول اللہ ﷺ ربیع الاول کے مہینے میں مدینہ طیبہ تشریف لائے اور آئندہ سال روزوں کی فرضیت نازل ہوئی۔ ٭ عام اعلان کے ذریعے سے اس کی فرضیت کی تشہیر کی جیسا کہ حضرت سلمہ بن اکوع کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے، پھر آپ نے ماؤں کو حکم دیا کہ وہ شیر خوار بچوں کو دودھ نہ پلائیں جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہوتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے مدینہ طیبہ کے آس پاس انصار کی آبادیوں میں عاشوراء کی صبح یہ پیغام بھیجا کہ جس نے آج روزہ رکھا ہے وہ اسے مغرب تک پورا کرے اور جس نے نہیں رکھا وہ بھی بقیہ دن تک کچھ نہ کھائے پیے۔ حضرت ربیع بنت معوذ کہتی ہیں: اس اعلان کے بعد ہم خود بھی روزہ رکھتیں اور اپنے بچوں کو بھی روزہ رکھواتیں۔ جب ہم اپنے بچوں کو مسجد میں لے جاتیں تو ان کے لیے اون کا کھلونا ساتھ لے جاتیں۔ جب وہ بھوک کی وجہ سے روتے تو انہیں بہلانے کے لیے کھلونے ان کے سامنے کر دیتیں تاکہ شام تک اپنے روزے کو پورا کریں۔ (صحیح مسلم، الصیام، حدیث:2669(1136)) ٭ جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو عاشوراء کی فرضیت کو ختم کر دیا گیا، البتہ اس کے استحباب کو باقی رکھا گیا۔ علمائے اصول کا اس میں اختلاف ہے کہ جب کسی امر کی فرضیت ختم ہو جائے تو اس کی اباحت باقی رہتی ہے یا نہیں؟ امام شافعی ؒ کا موقف ہے کہ اگر کوئی حکم منسوخ ہو جائے تو اس کا جواز باقی رہتا ہے جبکہ احناف کے ہاں اس کا جواز بھی ختم ہو جاتا ہے۔ عاشوراء کے متعلق رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ’’جو چاہے روزہ رکھے اور جو چاہے نہ رکھے‘‘ اس کے جواز کی دلیل ہے، نیز حدیث میں ہے کہ رسول اللھ ﷺ عاشوراء کے روزے کا حکم دیتے تھے۔ جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو آپ نے اس کے متعلق نہ حکم دیا اور نہ اس سے منع ہی کیا۔ (صحیح مسلم، الصیام، حدیث:2652(1128)) بلکہ حضرت معاویہ ؓ کی حدیث سے اس کا استحباب معلوم ہوتا ہے۔ ٭ حدیث میں اس دن روزہ رکھنے کی فضیلت بایں الفاظ بیان ہوئی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اس دن روزہ رکھنے سے گزشتہ ایک سال کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔‘‘ (صحیح مسلم، الصیام، حدیث:2746(1162)) ٭ یوم عاشوراء سے مراد دس محرم ہے لیکن ابن عباس ؓ سے ایک روایت ہے کہ وہ عاشوراء سے مراد نو محرم لیتے تھے۔ (صحیح مسلم، الصیام، حدیث:2664(1133)) حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ بھی نویں محرم کا روزہ رکھتے تھے۔ (حوالہ مذکور) لیکن جمہور محدثین کے نزدیک عاشوراء سے مراد دس محرم ہے، البتہ رسول اللہ ﷺ نے یہود کی مخالفت کرتے ہوئے یہ فرمایا تھا کہ اگر میں زندہ رہا تو آئندہ سال نویں کا روزہ رکھوں گا، چنانچہ حدیث میں ہے جب رسول اللہ ﷺ مدینہ طیبہ تشریف لائے تو آپ نے دس محرم کا روزہ رکھا اور اس دن روزہ رکھنے کا حکم بھی دیا۔ لوگوں نے کہا کہ یہودی اور عیسائی بھی اس دن کی تعظیم کرتے ہیں (اور روزہ رکھتے ہیں)۔ آپ نے فرمایا: ’’آئندہ سال ہم نو محرم کا روزہ رکھیں گے۔‘‘ لیکن آئندہ اس دن سے پہلے ہی آپ وفات پا گئے۔ (صحیح مسلم، الصیام، حدیث:2666(1134)) ایک روایت میں ہے کہ اگر میں آئندہ سال زندہ رہا تو نو محرم کا ضرور روزہ رکھوں گا۔ (صحیح مسلم، الصیام، حدیث:2667(1134)) امام بیہقی ؒ فرماتے ہیں: اس سے مراد دسویں کے ساتھ نویں محرم کا روزہ رکھنا ہے۔ (السنن الکبرٰی للبیھقي:278/4) حضرت ابن عباس ؓ کا فتویٰ بھی ہے کہ نویں اور دسویں کا روزہ رکھو اور اس سلسلے میں یہود کی مخالفت کرو۔ (السنن الکبرٰی للبیھقي:287/4) (4) ہمارے نزدیک عاشوراء محرم کے روزے کی تین صورتیں حسب ذیل ہیں: ٭ بہترین صورت یہ ہے کہ نویں اور دسویں کا روزہ رکھا جائے کیونکہ دسویں کا روزہ تو حقیقت ثابتہ ہے لیکن نویں محرم کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے اپنی خواہش کا اظہار فرمایا اگرچہ رفیق اعلیٰ سے ملاقات کی وجہ سے اس کی تکمیل نہ ہو سکی۔ ٭ اس سے کم درجہ یہ ہے کہ دسویں اور گیارہویں محرم کا روزہ رکھا جائے۔ ٭ سب سے کم درجہ یہ ہے کہ صرف دسویں تاریخ کا روزہ رکھا جائے۔ صرف نویں کا روزہ رکھنا کئی ایک لحاظ سے محل نظر ہے۔ اسلامی اعتبار سے عاشوراء محرم کی یہی حقیقت و اہمیت ہے، لہذا اس دن اظہار تشکر کے لیے روزہ رکھا جائے، البتہ یہود کی مخالفت کرتے ہوئے ایک دن پہلے یا ایک دن بعد کا روزہ بھی اس کے ساتھ رکھا جائے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1948
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2007
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2007
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2007
تمہید کتاب
عربی زبان میں روزے کے لیے صوم کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ لغوی طور پر اس کے معنی رک جانا ہیں، یعنی کھانے پینے، بولنے، جماع کرنے یا چلنے سے رک جانا۔ شرعی تعریف یہ ہے کہ مخصوص شرائط کے ساتھ مخصوص ایام میں مخصوص اشیاء سے مخصوص وقت میں رک جانا کا نام صوم ہے۔ دوسرے لفظوں میں عبادت کی نیت سے طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کھانے، پینے اور ازدواجی تعلقات سے باز رہنے کا نام روزہ ہے۔دراصل انسان کو اللہ تعالیٰ نے روحانیت اور حیوانیت سے مرکب بنایا ہے۔ اس کی طبیعت میں وہ سارے مادی اور سفلی تقاضے بھی ہیں جو دوسرے حیوانوں میں ہوتے ہیں اور اس کی فطرت میں روحانیت کا وہ نورانی جوہر بھی ہے جو فرشتوں کے لیے خاص غذا اور دولت ہے۔ انسان کی سعادت کا دارومدار اسی پر ہے کہ اس کا روحانی عنصر، حیوانی عنصر پر غالب رہے اور اسے حدود کا پابند رکھے جو اللہ تعالیٰ نے اس پر عائد کی ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ انسان کا حیوانی پہلو اس کے روحانی پہلو کا فرمانبردار اور اطاعت شعار ہو جائے اور اس کے مقابلے میں سرکشی اور بغاوت نہ کرے۔ روزے کا مقصد بھی یہی ہے کہ اس کے ذریعے سے انسان کی حیوانیت کو کنٹرول کیا جائے اور اسے شرعی احکام کی پابندی، نیز ایمانی اور روحانی تقاضوں کی فرمانبرداری کا عادی بنایا جائے۔ روزہ چونکہ انسان کی حیوانی قوت کو اس کی روحانی قوت کے تابع رکھنے اور اللہ کے احکام کے مقابلے میں خواہشات نفس اور تقاضائے شہوت کو دبانے کی عادت ڈالنے کا خاص ذریعہ ہے، اس لیے سابقہ امتوں کو بھی اس کا حکم دیا گیا تھا۔ اگرچہ روزوں کی مدت اور دوسرے تفصیلی احکام میں خاص حالات و ضروریات کے لحاظ سے کچھ فرق بھی تھا، تاہم مقصد میں یکسانیت ضرور تھی جسے اللہ تعالیٰ نے بایں الفاظ بیان کیا ہے (لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ) "تاکہ تم تقویٰ شعار بن جاؤ۔" (البقرۃ183:2)اس امت کے لیے سال میں ایک ماہ کے روزے فرض کیے گئے اور روزے کا وقت طلوع سحر سے غروب آفتاب تک رکھا گیا۔ بلاشبہ یہ مدت اور یہ وقت مذکورہ بالا مقصد کے حصول کے لیے نہایت معتدل اور مناسب ہے کیونکہ اس سے کم مدت میں نفس کی تربیت کا مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ اور اگر وقت اس سے زیادہ رکھا جاتا تو اکثریت کے لیے ناقابل برداشت ہوتا۔ بہرحال طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کا وقت اور سال میں ایک مہینے کی مدت عام انسان کے حالات و ظروف کے اعتبار سے مقصد تربیت کے لیے بالکل مناسب اور متعدل ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کے تحت ایک سو ستاون احادیث ذکر کیں ہیں، پھر ان احادیث پر ستر کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے روزے کے متعلق متعدد احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ ہم چند ایک کا بطور نمونہ ذکر کرتے ہیں۔وجوب روزہ، فضیلت روزہ، ماہ رمضان میں سخاوت کرنا، روزے کی ابتدا اور انتہائے سحری کے مسائل، اس کا وقت، بحالت جنابت روزہ رکھنا، دن کے وقت روزے کی نیت کرنا، دوران روزہ بیوی سے بوس و کنار کرنا، بحالت روزہ غسل کرنا، بھول کر کھا پی لینا، دوران روزہ تازہ یا خشک مسواک کرنا، بحالت روزہ بیوی سے جماع اور اس کا کفارہ، روزے کی حالت میں سنگی لگوانا یا قے کرنا، دوران سفر میں روزے رکھنا، روزے کی قضا کا وقت، حائضہ عورت کے لیے روزے کے احکام، افطاری کے مسائل، افطاری کے بعد اگر سورج نظر آ جائے، وصال کی شرعی حیثیت، نفلی روزے اور اسوۂ نبوی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مذکورہ مسائل اور دیگر احکام براہ راست احادیث سے اخذ کیے ہیں، جن سے امام صاحب کی بصیرت و فراست کا پتہ چلتا ہے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک سو ستاون احادیث بیان کی ہیں جن میں چھتیس معلق اور باقی موصول ہیں، ان میں اڑسٹھ مکرر اور خالص نواسی احادیث ہیں۔ پچیس احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔ احادیث کے علاوہ تقریبا ساٹھ آثار بھی بیان کیے ہیں جو متعدد صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی ہیں۔ ان میں اکثر معلق اور چند موصول ہیں۔واضح رہے کہ اس مہینے کو رمضان اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس کے معنی جلنے کے ہیں اور جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تھے اس وقت سخت گرمی تھی، اس لیے یہ مہینہ رمضان سے موسوم ہوا، نیز اس ماہ میں روزہ رکھنے والوں کے گناہ جل جاتے ہیں۔ عورت، مریض اور مسافر کے لیے کچھ رعایت بھی ہے جس کا آئندہ تفصیل سے ذکر ہو گا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ماہ رمضان کے روزوں کا بیان ارکان اسلام کے آخر میں کیا ہے، اس کے متعلق علامہ عینی نے لکھا ہے کہ قبل ازیں کتاب الزکاۃ کے بعد کتاب الحج کو ذکر کیا کیونکہ ان دونوں میں مال خرچ ہوتا ہے، اب روزے کے احکام کے لیے اور کوئی محل نہیں تھا، اس لیے ان کے احکام و مسائل کو آخر میں بیان کیا ہے۔ (عمدۃالقاری:8/3) قارئین کرام سے استدعا ہے کہ وہ امام بخاری رحمہ اللہ کے قائم کردہ عناوین اور پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کرتے وقت ہماری ان گزارشات کو ضرور پیش نظر رکھیں، اس سے حضرت امام کی فقہی بصیرت اور قوت استنباط اور دقت نظر کا اندازہ ہو گا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان احادیث پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے اور قیامت کے دن ہمیں زمرۂ محدثین میں اٹھائے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
عاشورہ محرم کی دسویں تاریخ کو کہا جاتا ہے اوائل اسلام میں یہ روزہ فرض تھا، جب رمضان کا روزہ فرض ہوا تو اس کی فرضیت جاتی رہی صرف سنیت باقی رہ گئی۔
حضرت سلمہ بن اکوع ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے قبیلہ اسلم کے ایک شخص کو حکم دیا کہ وہ لوگوں میں اعلان کرے: ’’جس نے کچھ کھا لیا ہے وہ باقی دن کا روزہ رکھے اور جس نے نہیں کھایا وہ پورے دن کا روزہ رکھے اس لیے کہ آج کا دن عاشوراء کا دن ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) حضرت امیر معاویہ ؓ نے امارت کے بعد پہلا حج 44 ہجری میں کیا اور دوسرا 57 ہجری میں کیا۔ ایسے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ کلمات انہوں نے دوسرے حج کے موقع پر ارشاد فرمائے اور حج کے بعد وہ دس محرم تک مدینہ طیبہ میں ٹھہرے۔ اہل مدینہ اس دن روزے کے متعلق اہتمام نہیں کرتے تھے، اس لیے انہوں نے علماء کے حوالے سے بات کی۔ (2) سابقہ احادیث سے معلوم ہوا کہ یہودونصاریٰ اور قریش اس دن کا روزہ رکھتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے بھی اس دن روزہ رکھنے کی حیثیت کو برقرار رکھا حتی کہ ہجرت کے پہلے سال مدینہ طیبہ میں نہ صرف خود اس کا اہتمام کیا بلکہ دوسروں کو حکم دیا کہ وہ اس دن کا روزہ رکھیں۔ (3) تمام احادیث کو سامنے رکھتے ہوئے عاشوراء کے روزے کے متعلق مندرجہ ذیل حقائق سامنے آتے ہیں: ٭ رمضان کے روزے فرض ہونے سے پہلے عاشوراء کا روزہ فرض تھا اور یہ فرضیت ایک سال تک رہی کیونکہ رسول اللہ ﷺ ربیع الاول کے مہینے میں مدینہ طیبہ تشریف لائے اور آئندہ سال روزوں کی فرضیت نازل ہوئی۔ ٭ عام اعلان کے ذریعے سے اس کی فرضیت کی تشہیر کی جیسا کہ حضرت سلمہ بن اکوع کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے، پھر آپ نے ماؤں کو حکم دیا کہ وہ شیر خوار بچوں کو دودھ نہ پلائیں جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہوتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے مدینہ طیبہ کے آس پاس انصار کی آبادیوں میں عاشوراء کی صبح یہ پیغام بھیجا کہ جس نے آج روزہ رکھا ہے وہ اسے مغرب تک پورا کرے اور جس نے نہیں رکھا وہ بھی بقیہ دن تک کچھ نہ کھائے پیے۔ حضرت ربیع بنت معوذ کہتی ہیں: اس اعلان کے بعد ہم خود بھی روزہ رکھتیں اور اپنے بچوں کو بھی روزہ رکھواتیں۔ جب ہم اپنے بچوں کو مسجد میں لے جاتیں تو ان کے لیے اون کا کھلونا ساتھ لے جاتیں۔ جب وہ بھوک کی وجہ سے روتے تو انہیں بہلانے کے لیے کھلونے ان کے سامنے کر دیتیں تاکہ شام تک اپنے روزے کو پورا کریں۔ (صحیح مسلم، الصیام، حدیث:2669(1136)) ٭ جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو عاشوراء کی فرضیت کو ختم کر دیا گیا، البتہ اس کے استحباب کو باقی رکھا گیا۔ علمائے اصول کا اس میں اختلاف ہے کہ جب کسی امر کی فرضیت ختم ہو جائے تو اس کی اباحت باقی رہتی ہے یا نہیں؟ امام شافعی ؒ کا موقف ہے کہ اگر کوئی حکم منسوخ ہو جائے تو اس کا جواز باقی رہتا ہے جبکہ احناف کے ہاں اس کا جواز بھی ختم ہو جاتا ہے۔ عاشوراء کے متعلق رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ’’جو چاہے روزہ رکھے اور جو چاہے نہ رکھے‘‘ اس کے جواز کی دلیل ہے، نیز حدیث میں ہے کہ رسول اللھ ﷺ عاشوراء کے روزے کا حکم دیتے تھے۔ جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو آپ نے اس کے متعلق نہ حکم دیا اور نہ اس سے منع ہی کیا۔ (صحیح مسلم، الصیام، حدیث:2652(1128)) بلکہ حضرت معاویہ ؓ کی حدیث سے اس کا استحباب معلوم ہوتا ہے۔ ٭ حدیث میں اس دن روزہ رکھنے کی فضیلت بایں الفاظ بیان ہوئی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اس دن روزہ رکھنے سے گزشتہ ایک سال کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔‘‘ (صحیح مسلم، الصیام، حدیث:2746(1162)) ٭ یوم عاشوراء سے مراد دس محرم ہے لیکن ابن عباس ؓ سے ایک روایت ہے کہ وہ عاشوراء سے مراد نو محرم لیتے تھے۔ (صحیح مسلم، الصیام، حدیث:2664(1133)) حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ بھی نویں محرم کا روزہ رکھتے تھے۔ (حوالہ مذکور) لیکن جمہور محدثین کے نزدیک عاشوراء سے مراد دس محرم ہے، البتہ رسول اللہ ﷺ نے یہود کی مخالفت کرتے ہوئے یہ فرمایا تھا کہ اگر میں زندہ رہا تو آئندہ سال نویں کا روزہ رکھوں گا، چنانچہ حدیث میں ہے جب رسول اللہ ﷺ مدینہ طیبہ تشریف لائے تو آپ نے دس محرم کا روزہ رکھا اور اس دن روزہ رکھنے کا حکم بھی دیا۔ لوگوں نے کہا کہ یہودی اور عیسائی بھی اس دن کی تعظیم کرتے ہیں (اور روزہ رکھتے ہیں)۔ آپ نے فرمایا: ’’آئندہ سال ہم نو محرم کا روزہ رکھیں گے۔‘‘ لیکن آئندہ اس دن سے پہلے ہی آپ وفات پا گئے۔ (صحیح مسلم، الصیام، حدیث:2666(1134)) ایک روایت میں ہے کہ اگر میں آئندہ سال زندہ رہا تو نو محرم کا ضرور روزہ رکھوں گا۔ (صحیح مسلم، الصیام، حدیث:2667(1134)) امام بیہقی ؒ فرماتے ہیں: اس سے مراد دسویں کے ساتھ نویں محرم کا روزہ رکھنا ہے۔ (السنن الکبرٰی للبیھقي:278/4) حضرت ابن عباس ؓ کا فتویٰ بھی ہے کہ نویں اور دسویں کا روزہ رکھو اور اس سلسلے میں یہود کی مخالفت کرو۔ (السنن الکبرٰی للبیھقي:287/4) (4) ہمارے نزدیک عاشوراء محرم کے روزے کی تین صورتیں حسب ذیل ہیں: ٭ بہترین صورت یہ ہے کہ نویں اور دسویں کا روزہ رکھا جائے کیونکہ دسویں کا روزہ تو حقیقت ثابتہ ہے لیکن نویں محرم کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے اپنی خواہش کا اظہار فرمایا اگرچہ رفیق اعلیٰ سے ملاقات کی وجہ سے اس کی تکمیل نہ ہو سکی۔ ٭ اس سے کم درجہ یہ ہے کہ دسویں اور گیارہویں محرم کا روزہ رکھا جائے۔ ٭ سب سے کم درجہ یہ ہے کہ صرف دسویں تاریخ کا روزہ رکھا جائے۔ صرف نویں کا روزہ رکھنا کئی ایک لحاظ سے محل نظر ہے۔ اسلامی اعتبار سے عاشوراء محرم کی یہی حقیقت و اہمیت ہے، لہذا اس دن اظہار تشکر کے لیے روزہ رکھا جائے، البتہ یہود کی مخالفت کرتے ہوئے ایک دن پہلے یا ایک دن بعد کا روزہ بھی اس کے ساتھ رکھا جائے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے مکی بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یزید بن ابی عبید نے بیان کیا، ان سے سلمہ بن اکوع ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ نے بنو اسلم کے ایک شخص کو لوگوں میں اس بات کے اعلان کا حکم دیا تھا کہ جو کھا چکا ہو وہ دن کے باقی حصے میں بھی کھانے پینے سے رکا رہے اور جس نے نہ کھایا ہو اسے روزہ رکھ لینا چاہئے کیوں کہ یہ عاشوراءکا دن ہے۔
حدیث حاشیہ:
یہاں کتاب الصیام ختم ہوئی جس میں حضر ت امام بخاری ؒ ایک سو ستاون احادیث لائے ہیں جن میں معلق اور موصول اور مکرر سب شامل ہیں اور صحابہ اور تابعین کے ساٹھ اثر لائے ہیں۔ جن میں اکثر معلق ہیں اور باقی موصول ہیں۔ الحمد للہ کہ آج 5 شعبان 1389ھ کو جنوبی ہند کے سفر میں ریلوے پر چلتے ہوئے اس کے ترجمہ وتشریحات سے فارغ ہوا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Salama bin Al-Akwa (RA): The Prophet (ﷺ) ordered a man from the tribe of Bani Aslam to announce amongst the people that whoever had eaten should fast the rest of the day, and whoever had not eaten should continue his fast, as that day was the day of 'Ashura' .