Sahi-Bukhari:
Praying at Night in Ramadaan (Taraweeh)
(Chapter: The superiority of Nawafil at night in Ramadan)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2012.
حضرت عائشہ ؓ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ (رمضان میں) ایک مرتبہ نصف شب کے وقت مسجد میں تشریف لے گئے تو وہاں نماز تراویح پڑھی۔ کچھ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین بھی آپ کے ساتھ نماز میں شریک ہو گئے۔ صبح ہوئی تو انھوں نے اس کا چرچا کیا، چنانچہ دوسری رات لوگ پہلے سے بھی زیادہ جمع ہوگئے اور آپ کے ہمراہ نماز (تراویح)پڑھی دوسری صبح کو اور زیادہ چرچا ہوا۔ پھرتیسری رات اس سے بھی زیادہ لوگ جمع ہو گئے۔ رسول اللہ ﷺ مسجد میں تشریف لائے۔ نماز پڑھی اور لوگوں نے بھی آپ کی اقتدا میں نماز (تراویح ) اداکی۔ جب چوتھی رات آئی تو اتنے لوگ جمع ہوئے کہ مسجد نمازیوں سے عاجز آگئی یہاں تک کہ صبح کی نماز کے لیے آپ باہر تشریف لائے۔ جب نماز فجر پڑھ لی تو لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے، خطبہ پڑھا پھر فرمایا: ’’واقعہ یہ ہے کہ تمھارا موجود ہونا مجھ پر مخفی نہ تھالیکن مجھے اندیشہ ہوا کہ مبادا نماز شب فرض ہو جائے، پھر تم اسے ادانہ کر سکو۔‘‘ رسول اللہ ﷺ وفات پاگئے اور یہ معاملہ اسی طرح رہا۔
تشریح:
(1) امام بخاری ؒ یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے جو نماز تراویح کا باقاعدہ اہتمام کیا تھا وہ بے بنیاد نہ تھا۔ ان احادیث میں اس بنیاد کو بیان کیا گیا ہے جس پر حضرت عمر فاروق ؓ نے تراویح باجماعت ادا کرنے کی عمارت کھڑی کی۔ (2) صحیح بخاری کی ایک روایت میں اس طرح ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک رات مسجد میں نماز پڑھائی، صحابہ نے بھی آپ کے ساتھ یہ نماز ادا کی۔ دوسری رات آپ نے یہ نماز پڑھائی تو نمازیوں کی تعداد بہت زیادہ بڑھ گئی۔ تیسری یا چوتھی رات تو یہ تعداد ایک بڑے اجتماع کی صورت اختیار کر گئی۔ رسول اللہ ﷺ اس رات نماز پڑھانے کے لیے تشریف نہ لائے، صبح کے وقت آپ نے فرمایا: ’’جتنی بڑی تعداد میں تم لوگ جمع ہو گئے تھے میں نے اسے دیکھا لیکن یہ خدشہ میرے باہر آنے کے لیے رکاوٹ بنا رہا کہ مبادا نماز تم پر فرض ہو جائے۔‘‘ یہ رمضان کا واقعہ ہے۔ (صحیح البخاري، التھجد، حدیث:1129) اس رات رسول اللہ ﷺ نے کتنی رکعات پڑھائیں اسے حضرت جابر ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں رمضان میں آٹھ رکعات اور وتر پڑھائے۔ آئندہ رات ہم مسجد میں جمع ہوئے اور ہمیں امید تھی کہ رسول اللہ ﷺ تشریف لائيں گے لیکن آپ مسجد میں نہ آئے، صبح کے وقت ہم رسول اللہ ﷺ کے ہاں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ ہمیں آپ کے تشریف لانے کی امید تھی، آپ نے فرمایا: ’’میں نے یہ ناپسند کیا کہ تم پر وتر فرض ہو جائیں۔‘‘ (صحیح ابن خزیمة:138/2)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1953
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2012
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2012
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2012
تمہید کتاب
لفظ تراويح، ترويحة کی جمع ہے اور یہ راحة سے مشتق ہے۔ یہ نماز ادا کرتے وقت لوگ ہر چار رکعت کے بعد تھوڑی دیر کے لیے آرام کرتے تھے، اس لیے اسے تراویح کہا جاتا ہے۔ اس کا نام تہجد، قیام اللیل اور قیام رمضان بھی ہے۔ اس موضوع پر علامہ البانی رحمہ اللہ نے ایک وقیع رسالہ "قیام رمضان" لکھا ہے، جس میں نماز تراویح کے ہر پہلو پر گفتگو فرمائی ہے۔ ہم اپنی تمہیدی گزارشات میں اس کا خلاصہ پیش کر رہے ہیں۔٭ قیام رمضان کی فضیلت: رمضان کی راتوں میں قیام اور اس کی فضیلت کے متعلق بہت سی احادیث ہیں۔ ہم صرف دو کا حوالہ دیتے ہیں: (1) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قیام رمضان کو فرض قرار دیے بغیر اس کی بہت ترغیب دیتے تھے اور ہمیں شوق دلاتے تھے۔ آپ نے فرمایا: "جس شخص نے ایمان اور حصول ثواب کی نیت سے رمضان کا قیام کیا اس کے گزشتہ گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب دنیا سے رخصت ہوئے تو لوگ اس حکم پر عمل پیرا تھے، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دور حکومت میں بھی معاملہ اسی طرح تھا۔ (صحیح مسلم،صلاۃالمسافرین،حدیث:1780(759)) (2) حضرت عمرو بن مرہ جہنی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ بنو قضاعہ کے ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا: اگر میں گواہی دوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور آپ اللہ کے رسول ہیں، نماز پنجگانہ کی پابندی کروں، ماہ رمضان کے روزے رکھوں، تراویح پڑھوں اور باقاعدہ زکاۃ ادا کروں تو مجھے کیا ملے گا؟ آپ نے فرمایا: "اس حالت میں مرنے والا قیامت کے دن صدیقین اور شہداء کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔" (صحیح ابن خزیمۃ:3/341،340)٭ باجماعت تراویح: نماز تراویح باجماعت جائز ہے بلکہ اکیلے ادا کرنے سے افضل ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس کا اہتمام فرمایا اور اس کی فضیلت بیان کی ہے، چنانچہ حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ماہ رمضان کے روزے رکھے، آپ نے اس ماہ رات کو قیام نہ فرمایا۔ جب سات راتیں باقی رہ گئیں تو آپ نے ایک تہائی رات تک باجماعت قیام کا اہتمام کیا۔ اگلی رات، یعنی چھ راتیں باقی رہ گئیں تو جماعت نہ فرمائی، جب پانچ راتیں باقی رہ گئیں تو نصف رات تک باجماعت تراویح پڑھائی۔ ہم نے عرض کی کہ آپ تمام رات قیام فرمائیں تو آپ نے فرمایا: "آدمی جب امام کے ساتھ نماز پڑھتا ہے یہاں تک کہ امام اسے مکمل کرے تو اس کے نامۂ اعمال میں پوری رات کا قیام لکھا جاتا ہے۔" (صحیح ابن خزیمۃ:3/338،337) حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: جب چار راتیں باقی رہ گئیں تو آپ نے جماعت کا اہتمام نہ کیا، جب تین راتیں باقی رہ گئیں، یعنی ستائیسویں رات کو آپ نے اپنے اہل و عیال، عورتوں اور مردوں کو اکٹھا کیا، پھر باجماعت تراویح ادا کی اور اس قدر طویل قیام فرمایا کہ ہمیں سحری فوت ہونے کا خطرہ لاحق ہو گیا۔ اس کے بعد آپ نے باقی راتوں میں باجماعت قیام نہ فرمایا۔ (صحیح ابن خزیمۃ:3/338)٭ جماعت کا باقاعدہ اہتمام نہ کرنے کی وجہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے باجماعت تراویح کا باقاعدہ اہتمام اس اندیشے کے پیش نظر نہ فرمایا کہ مبادا فرض ہو جائے، پھر لوگ اس کی ادائیگی سے عاجز آ جائیں جیسا کہ صدیقۂ کائنات رضی اللہ عنہا سے مروی حدیث میں ہے۔ (صحیح البخاری،التراویح،حدیث:2012) آپ کی وفات کے بعد یہ اندیشہ نہ رہا کیونکہ شریعت مکمل ہو چکی تھی تو علت کے ختم ہونے سے دعویٰ بھی ختم ہو گیا اور باجماعت تراویح کی مشروعیت برقرار رہی۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کا باقاعدہ اہتمام کر دیا جیسا کہ صحیح بخاری میں اس کی تفصیل موجود ہے۔ (صحیح البخاری،التراویح،حدیث:2010)٭ عورتوں کے لیے جماعت کا اہتمام: نماز تراویح ادا کرنے کے لیے عورتیں مسجد میں آ سکتی ہیں بلکہ ان کے لیے الگ امام مقرر کیا جا سکتا ہے جو آدمیوں کے امام کے علاوہ ہو، چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب باجماعت تراویح کا اہتمام کیا تو آدمیوں کے لیے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ اور عورتوں کے لیے حضرت سلیمان بن ابو حثمہ کو مقرر فرمایا۔ حضرت عرفجہ ثقفی سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ لوگوں کو قیام رمضان کے لیے تاکید کیا کرتے تھے، اس کے لیے انہوں نے آدمیوں کی خاطر ایک امام اور عورتوں کی جماعت کے لیے دوسرا امام مقرر کیا تھا۔ راوی کہتا ہے کہ میں خود عورتوں کا امام تھا۔ (السنن الکبرٰی للبیھقی:2/494) ایسا کرنا اس وقت ممکن ہے جب مسجد خاصی وسیع ہو تاکہ ایک کی جماعت دوسروں کی تشویش اور خلل اندازی کا باعث نہ ہو۔٭ تعداد تراویح: قیام رمضان، یعنی تراویح کی تعداد گیارہ رکعت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے پیش نظر ہمارا موقف یہ ہے کہ اس عدد مسنون پر اضافہ نہ کیا جائے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر بھر اس پر اکتفا کیا ہے، چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے رمضان میں قیام نبوی کے متعلق سوال ہوا تو انہوں نے فرمایا: آپ رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعت سے زائد نہیں پڑھا کرتے تھے۔ اولاً چار رکعت پڑھتے، تم ان کی عمدگی اور لمبائی کے بارے میں سوال نہ کرو، پھر چار رکعت ادا کرتے وہ بھی پہلے کی طرح بہترین اور لمبی ہوتی تھیں، ان کے متعلق بھی مت سوال کریں، آخر میں تین رکعت (وتر) پڑھتے۔" (صحیح البخاری،التراویح،حدیث:2013)البتہ اس تعداد سے کم کرنے کی گنجائش ہے حتی کہ وتر کی ایک رکعت پر اکتفا کرنا بھی جائز ہے کیونکہ گیارہ رکعت سے کم ادا کرنا آپ کے عمل اور قول سے ثابت ہے، چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وتروں کے متعلق سوال ہوا تو انہوں نے فرمایا: آپ سات، نو اور تیرہ وتر پڑھتے تھے، البتہ آپ سات سے کم اور تیرہ سے زائد نہ پڑھتے تھے۔ (مسنداحمد:6/149)اسی طرح آپ کے فرمان سے گیارہ رکعت سے کم کا ثبوت ملتا ہے، چنانچہ ارشاد نبوی ہے: "وتر برحق ہیں جو چاہے پانچ پڑھ لے اور جو چاہے تین ادا کرے۔" ایک وتر بھی پڑھا جا سکتا ہے۔ (السنن الکبرٰی للبیھقی:3/27) اس سے معلوم ہوا کہ وتر ایک رکعت پڑھنا بھی جائز ہے۔ اس کے علاوہ گیارہ سے کم پڑھنا بھی آپ کے قول اور عمل سے ثابت ہو گیا۔٭ نماز تراویح میں قراءت: ماہ رمضان میں تراویح اور اس کے علاوہ نماز تہجد میں قراءت کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی حد مقرر نہیں فرمائی جس میں کمی بیشی نہ ہو سکتی ہو بلکہ آپ کی قراءت مختلف حالات و ظروف کے پیش نظر طویل و مختصر ہوتی رہتی تھی۔ بسا اوقات آپ ایک رکعت میں سورۂ مزمل کی مقدار تلاوت کرتے جس کی صرف بیس آیات ہیں اور کبھی کبھی پچاس آیات ایک رکعت میں پڑھتے تھے۔ فرمان نبوی ہے: "جس نے رات کے وقت (نماز تہجد میں) سو آیات کی مقدار تلاوت کی وہ غفلت شعار نہیں۔" (صحیح ابن خزیمۃ:2/180)حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں نماز پڑھنے کا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ آپ نے ایک رکعت میں سورۂ بقرہ، پھر سورۂ نساء اس کے بعد سورۂ آل عمران کی نہایت آہستہ اور ٹھہر ٹھہر کر تلاوت فرمائی۔ (صحیح مسلم،صلاۃالمسافرین وقصرھا،حدیث:1814(772))حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق صحیح سند سے ثابت ہے کہ انہوں نے جب حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو رمضان میں لوگوں کے لیے گیارہ رکعت پڑھانے کا حکم دیا تو حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سو، سو آیات پر مشتمل سورتوں کی تلاوت کرتے تھے حتی کہ ان کے پیچھے نماز ادا کرنے والے لمبے قیام کی وجہ سے اپنی لاٹھیوں پر سہارا لے کر کھڑے ہوتے اور فجر سے تھوڑا سا وقت پہلے فارغ ہو کر گھروں کو جاتے تھے۔ (السنن الکبرٰی للبیھقی:2/496) یہ بھی ثابت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے رمضان المبارک میں نماز تراویح پڑھانے والوں کو بلا کر ہدایات دیں کہ تیز پڑھنے والا ایک رکعت میں تیس آیات کی تلاوت کرے جبکہ میانہ رو اور آہستہ پڑھنے والا بالترتیب پچیس اور بیس آیات کی قراءت کرے۔ (السنن الکبرٰی للبیھقی:2/497)اس بنا پر اگر اکیلا ہو یا ہم خیال لوگ اس کے ہمراہ ہوں جو لمبا قیام کرنے میں اس کے ساتھ متفق ہوں تو اسے لمبے قیام کی اجازت ہے کیونکہ ایسا کرنا افضل ہے لیکن پھر بھی اعتدال کو سامنے رکھے اور پوری رات قیام کر کے انتہا پسندی کا ثبوت نہ دے، البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اگر کبھی کبھار ایسا کرے تو حرج بھی نہیں۔ ارشاد نبوی ہے: "بہترین اسوۂ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی ہے۔" (صحیح مسلم،الجمعۃ ،حدیث:2005(867))امام ہونے کی صورت میں اپنے مقتدیوں کا خیال رکھے۔ اس قدر بھی قیام نہ کرے جو اس کے پیچھے نماز ادا کرنے والوں کے لیے گرانی کا باعث ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "امامت کرانے والے کو چاہیے کہ وہ لوگوں کا خیال رکھتے ہوئے ہلکی نماز پڑھائے کیونکہ ان میں چھوٹے بچے، سن رسیدہ بوڑھے، ناتواں، بیمار اور حاجت مند، یعنی کام کرنے والے ہوتے ہیں۔ اگر اکیلا نماز پڑھے تو جس قدر چاہے لمبی نماز پڑھے۔" (صحیح البخاری،الاذان،حدیث:703)تراویح کا وقت: نماز عشاء کے بعد سے فجر تک اس کا وقت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے نماز وتر (تہجد) کا اضافہ کیا ہے، اسے نماز عشاء اور فجر کے درمیان ادا کرو۔" اگر کسی کو توفیق ملے تو رات کے آخری حصے میں ادا کرے کیونکہ ایسا کرنا افضل ہے۔ ارشاد نبوی ہے: "جسے رات کے آخری حصے میں نہ اٹھنے کا اندیشہ ہو، وہ پہلے حصے ہی میں وتر ادا کرے اور جسے رات کے آخری حصے میں اٹھنے کی امید ہو، اسے چاہیے کہ رات کے پچھلے حصے میں وتر (تہجد) پڑھے کیونکہ اس وقت رحمت کے فرشتے موجود ہوتے ہیں اور یہ افضل ہے۔" (صحیح مسلم،صلاۃالمسافرین،حدیث:1767(755))اگر رات کے پہلے حصے میں نماز باجماعت میسر ہو اور رات کے آخری حصے میں اٹھ کر اکیلا پڑھنے کی بھی امید ہو تو باجماعت ادا کرنے کو ترجیح دے کیونکہ ایسا کرنے سے پوری رات کا قیام اس کے نامۂ اعمال میں لکھ دیا جاتا ہے جیسا کہ حدیث میں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص امام کے ساتھ نماز پڑھتا ہے اس کے لیے پوری رات کا قیام شمار کیا جاتا ہے۔" (صحیح ابن خزیمۃ:3/338،337) حضرت زید بن وہب فرماتے ہیں کہ عبداللہ ہمیں رمضان میں تراویح پڑھا کر رات ہی کو فارغ ہو جاتے تھے۔ (المصنف لعبدالرزاق:4/264،263،حدیث:7741)٭ تراویح ادا کرنے کی کیفیت: نماز تراویح مختلف کیفیات سے ادا کی جا سکتی ہے جس کا خلاصہ حسب ذیل ہے: ٭ تیرہ رکعت اس طرح ادا کی جائیں کہ آغاز میں ہلکی سی دو رکعت سے افتتاح کیا جائے جو ہمارے رجحان کے مطابق عشاء کے بعد کی سنتیں ہیں یا نوافل جو سب کے لیے بطور تمہید مخصوص ہیں۔ اس کے بعد دو رکعت انتہائی طویل ہوں، پھر ان کے بعد دو رکعت کچھ ہلکی پڑھی جائیں، بعد ازاں دو رکعت ان سے کم، پھر ان سے مختصر دو رکعت، ان کے بعد کچھ مزید تخفیف سے دو رکعت، آخر میں ایک وتر پڑھا جائے، اس انداز سے تیرہ رکعت ادا کی جائیں۔ (صحیح مسلم،صلاۃالمسافرین،حدیث:1804(765)) تیرہ رکعت اس طرح سے بھی پڑھی جا سکتی ہیں کہ پہلی آٹھ رکعت میں ہر دو کے بعد سلام پھیرے بعد ازاں پانچ وتر پڑھے، آخری رکعت میں تشہد کے لیے بیٹھے اور سلام پھیر دے۔ (مسنداحمد:6/123) ٭ گیارہ رکعت اس طریقے سے پڑھے کہ ہر دو رکعت پر سلام پھیرے، آخر میں ایک وتر پڑھے۔ (مسنداحمد:6/215) گیارہ رکعت اس طرح بھی پڑھی جا سکتی ہیں کہ ہر چار رکعت ایک سلام سے ادا ہوں، آخر میں تین وتر پڑھے جائیں۔ (صحیح البخاری،التراویح،حدیث:2013) ان چار رکعت میں دو رکعت کے بعد تشہد کے لیے بیٹھے یا سیدھا کھڑا ہو جائے فی الحال ہمارے پاس اس کے لیے کوئی شافی جواب نہیں، البتہ تین رکعت وتر میں دو کے بعد تشہد بیٹھنا ثابت نہیں۔نوٹ: علامہ البانی رحمہ اللہ "صلاۃ التراویح" میں لکھتے ہیں: بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ چار رکعات پڑھتے وقت دو رکعت کے بعد تشہد کے لیے بیٹھے۔ واللہ اعلم۔گیارہ رکعات اس طرح بھی ادا کی جا سکتی ہیں کہ نمازی آٹھ رکعت ایک سلام کے ساتھ پڑھے جس کا طریقہ یہ ہے کہ آٹھویں رکعت میں تشہد کے لیے بیٹھے، درود پڑھنے کے بعد سلام پھیرے کے بجائے سیدھا کھڑا ہو جائے اور ایک رکعت وتر پڑھ کر سلام پھیرے، آخر میں دو رکعت بیٹھ کر ادا کرے۔ (مسنداحمد:6/54)٭ نو رکعات اس طرح ادا کرے کہ چھٹی رکعت میں بیٹھ کر تشہد اور درود پڑھے، پھر ساتویں رکعت کے لیے کھڑا ہو جائے اور اسے بطور وتر پڑھ کر سلام پھیر دے۔ اس کے بعد بیٹھ کر دو رکعت ادا کرے۔ (مسنداحمد:6/54)٭ بیٹھ کر دو رکعت پڑھنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ وتروں کے بعد دو رکعت کھڑے ہو کر پڑھیں جیسا کہ عام نفل نماز پڑھی جاتی ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مذکورہ کیفیات نص صریح سے ثابت ہیں۔ مزید صورتیں بھی ممکن ہیں، مثلاً: رکعات کم کی جا سکتی ہیں حتی کہ ایک رکعت پر اکتفا کرنا بھی جائز ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی پہلے گزر چکا ہے۔وتر پڑھنے والے کو پانچ یا تین یا ایک پڑھنے کا اختیار ہے۔ (المستدرک للحاکم:1/302) پانچ یا تین وتر ایک تشہد اور ایک سلام سے بھی پڑھ سکتا ہے اور دو رکعت کے بعد سلام پھیر دے پھر ایک رکعت الگ پڑھے تو بھی درست ہے اور مؤخر الذکر صورت افضل ہے۔ لیکن پانچ یا تین رکعت وتر میں دو رکعات کے بعد سلام کے بغیر بیٹھنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں، البتہ اصل کے اعتبار سے جواز کا شائبہ ہے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بایں طور وتر پڑھنے سے منع فرمایا ہے جس سے نماز مغرب کے ساتھ مشابہت ہو، فرمان نبوی ہے: "وتر پڑھتے وقت نماز مغرب سے مشابہت اختیار نہ کرو۔" (السنن الکبرٰی للبیھقی:3/31) اس مشابہت سے بچنے کی دو صورتیں ہیں:(1) دو رکعت کے بعد سلام پھیر دیا جائے، پھر ایک رکعت الگ طور پر ادا کی جائے۔ یہ صورت بہتر اور افضل ہے۔ (اسے طریقۂ فصل کہتے ہیں۔)(2) دو رکعت کے بعد تشہد کے لیے نہ بیٹھے بلکہ سیدھا کھڑا ہو جائے اور تیسری رکعت مکمل کرنے کے بعد سلام پھیرے۔ (اسے طریقہ وصل کہتے ہیں۔)ملحوظہ: ایک وتر کو بتيراء، یعنی دم کٹا کہنا بالکل بے اصل اور بے بنیاد ہے بلکہ سنت کے خلاف ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ایک وتر ادا کرتے تھے، ان سے کسی نے وتر کے متعلق پوچھا تو انہوں نے فرمایا: اسے الگ پڑھا کرو۔ سائل نے کہا: جسے اندیشہ ہے کہ لوگ اسے بتيراء کہیں گے؟ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر تو اللہ کے فیصلے اور سنت نبوی کا متلاشی ہے تو وہ یہی ہے۔ (صحیح ابن خزیمۃ:2/140)امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب صلاۃ التراویح میں چھ متصل احادیث بیان کی ہیں جن میں پانچ مرفوع اور ایک موقوف ہے۔ ان تمام احادیث پر ایک ہی عنوان قائم کیا ہے۔ "اس انسان کی فضیلت جو قیام رمضان کا اہتمام کرتا ہے۔" ان تمام احادیث پر ہم حسب سابق فوائد لکھیں اور ان کی وضاحت کریں گے۔ قارئین سے استدعا ہے کہ ان احادیث کا مطالعہ کرتے وقت شیخ مکرم محدث العصر علامہ البانی رحمہ اللہ کی مذکورہ تشریحات کو ضرور مدنظر رکھیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے علم و عمل میں برکت عطا فرمائے اور قیامت کے دن محدثین کے گروہ میں اٹھائے۔ آمین یا رب العالمین
حضرت عائشہ ؓ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ (رمضان میں) ایک مرتبہ نصف شب کے وقت مسجد میں تشریف لے گئے تو وہاں نماز تراویح پڑھی۔ کچھ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین بھی آپ کے ساتھ نماز میں شریک ہو گئے۔ صبح ہوئی تو انھوں نے اس کا چرچا کیا، چنانچہ دوسری رات لوگ پہلے سے بھی زیادہ جمع ہوگئے اور آپ کے ہمراہ نماز (تراویح)پڑھی دوسری صبح کو اور زیادہ چرچا ہوا۔ پھرتیسری رات اس سے بھی زیادہ لوگ جمع ہو گئے۔ رسول اللہ ﷺ مسجد میں تشریف لائے۔ نماز پڑھی اور لوگوں نے بھی آپ کی اقتدا میں نماز (تراویح ) اداکی۔ جب چوتھی رات آئی تو اتنے لوگ جمع ہوئے کہ مسجد نمازیوں سے عاجز آگئی یہاں تک کہ صبح کی نماز کے لیے آپ باہر تشریف لائے۔ جب نماز فجر پڑھ لی تو لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے، خطبہ پڑھا پھر فرمایا: ’’واقعہ یہ ہے کہ تمھارا موجود ہونا مجھ پر مخفی نہ تھالیکن مجھے اندیشہ ہوا کہ مبادا نماز شب فرض ہو جائے، پھر تم اسے ادانہ کر سکو۔‘‘ رسول اللہ ﷺ وفات پاگئے اور یہ معاملہ اسی طرح رہا۔
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری ؒ یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے جو نماز تراویح کا باقاعدہ اہتمام کیا تھا وہ بے بنیاد نہ تھا۔ ان احادیث میں اس بنیاد کو بیان کیا گیا ہے جس پر حضرت عمر فاروق ؓ نے تراویح باجماعت ادا کرنے کی عمارت کھڑی کی۔ (2) صحیح بخاری کی ایک روایت میں اس طرح ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک رات مسجد میں نماز پڑھائی، صحابہ نے بھی آپ کے ساتھ یہ نماز ادا کی۔ دوسری رات آپ نے یہ نماز پڑھائی تو نمازیوں کی تعداد بہت زیادہ بڑھ گئی۔ تیسری یا چوتھی رات تو یہ تعداد ایک بڑے اجتماع کی صورت اختیار کر گئی۔ رسول اللہ ﷺ اس رات نماز پڑھانے کے لیے تشریف نہ لائے، صبح کے وقت آپ نے فرمایا: ’’جتنی بڑی تعداد میں تم لوگ جمع ہو گئے تھے میں نے اسے دیکھا لیکن یہ خدشہ میرے باہر آنے کے لیے رکاوٹ بنا رہا کہ مبادا نماز تم پر فرض ہو جائے۔‘‘ یہ رمضان کا واقعہ ہے۔ (صحیح البخاري، التھجد، حدیث:1129) اس رات رسول اللہ ﷺ نے کتنی رکعات پڑھائیں اسے حضرت جابر ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں رمضان میں آٹھ رکعات اور وتر پڑھائے۔ آئندہ رات ہم مسجد میں جمع ہوئے اور ہمیں امید تھی کہ رسول اللہ ﷺ تشریف لائيں گے لیکن آپ مسجد میں نہ آئے، صبح کے وقت ہم رسول اللہ ﷺ کے ہاں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ ہمیں آپ کے تشریف لانے کی امید تھی، آپ نے فرمایا: ’’میں نے یہ ناپسند کیا کہ تم پر وتر فرض ہو جائیں۔‘‘ (صحیح ابن خزیمة:138/2)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
اور ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے، انہیں عروہ نے خبردی اور انہیں عائشہ ؓ نے خبر دی کہ رسول اللہ ﷺ ایک مرتبہ ( رمضان کی ) نصف شب میں مسجد تشریف لے گئے اور وہاں تراویح کی نماز پڑھی۔ کچھ صحابہ ؓ بھی آپ کے ساتھ نماز میں شریک ہوگئے۔ صبح ہوئی تو انہوں نے اس کا چرچا کیا۔ چنانچہ دوسری رات میں لوگ پہلے سے بھی زیادہ جمع ہو گئے اور آپ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی۔ دوسری صبح کو اور زیادہ چرچا ہوا اور تیسری رات اس سے بھی زیادہ لوگ جمع ہو گئے۔ آپ نے ( اس رات بھی ) نماز پڑھی اور لوگوں نے آپ ﷺ کی اقتداءکی۔ چوتھی رات کو یہ عالم تھا کہ مسجد میں نماز پڑھنے آنے والوں کے لیے جگہ بھی باقی نہیں رہی تھیں۔ ( لیکن اس رات آپ برآمد ہی نہیں ہوئے ) بلکہ صبح کی نماز کے لیے باہر تشریف لائے۔ جب نماز پڑھ لی تو لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر شہادت کے بعد فرمایا۔ أما بعد ! تمہارے یہاں جمع ہونے کا مجھے علم تھا، لیکن مجھے خوف اس کا ہوا کہ کہیں یہ نماز تم پر فرض نہ کر دی جائے اور پھر تم اس کی ادائیگی سے عاجز ہو جاؤ، چنانچہ جب نبی کریم ﷺ کی وفات ہوئی تو یہی کیفیت قائم رہی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA): (the wife of the Prophet) Allah's Apostle (ﷺ) used to pray (at night) in Ramadan.Narrated 'Urwa (RA): That he was informed by 'Aisha (RA), "Allah's Apostle (ﷺ) went out in the middle of the night and prayed in the mosque and some men prayed behind him. In the morning, the people spoke about it and then a large number of them gathered and prayed behind him (on the second night). In the next morning the people again talked about it and on the third night the mosque was full with a large number of people. Allah's Apostle (ﷺ) came out and the people prayed behind him. On the fourth night the Mosque was overwhelmed with people and could not accommodate them, but the Prophet (ﷺ) came out (only) for the morning prayer. When the morning prayer was finished he recited Tashah-hud and (addressing the people) said, "Amma ba'du, your presence was not hidden from me but I was afraid lest the night prayer (Qiyam) should be enjoined on you and you might not be able to carry it on." So, Allah's Apostle (ﷺ) died and the situation remained like that (i.e. people prayed individually). "