Sahi-Bukhari:
Praying at Night in Ramadaan (Taraweeh)
(Chapter: The superiority of Nawafil at night in Ramadan)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2013.
حضرت ابو سلمہ بن عبد الرحمٰن سے روایت ہے، انھوں نے اُم المومنین حضرت عائشہ ؓ سے دریافت کیا کہ رسول اللہ ﷺ کی رمضان میں نماز کیسے ہوتی تھی؟انھوں نے جواب دیا کہ آپ رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعات سے زیادہ نہ پڑھتے تھے۔ آپ چار رکعات پڑھتے ان کےخوبصورت اور طویل ہونے کے متعلق مت سوال کرو۔ پھر چار رکعات ادا کرتے، ان کے بھی خوبصورت اور لمبی ہونے کے بارے میں مت پوچھو۔ پھر تین رکعات (وتر)پڑھتے۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ !آپ وتر پڑھنےسے پہلےسوجاتے ہیں؟آپ نے فرمایا: ’’عائشہ ؓ !میری آنکھیں سوتی ہیں البتہ میرا دل بیدار رہتا ہے۔‘‘
تشریح:
(1) اس حدیث سے امام بخاری ؒ نے تراویح کی تعداد کو ثابت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ رمضان میں کس قدر نماز تراویح پڑھنے کا اہتمام کرتے تھے، چنانچہ سائل نے حضرت عائشہ ؓ سے رمضان المبارک میں رسول اللہ ﷺ کی نماز تراویح کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعت ادا کرتے تھے اور ہر دو رکعت میں سلام پھیرتے تھے، آخر میں ایک وتر ادا کرتے۔ (صحیح مسلم، صلاةالمسافرین، حدیث:1718(736)) حضرت جابر ؓ کی روایت سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے آٹھ رکعت تراویح اور وتر پڑھائے تھے۔ (صحیح ابن خزیمة:138/2) اسی طرح حضرت ابی بن کعب ؓ سے روایت ہے، انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو بتایا کہ آج رات میرے ساتھ ایک واقعہ پیش آیا۔ آپ نے دریافت فرمایا: ’’وہ واقعہ کیا ہے؟‘‘ انہوں نے کہا کہ میرے گھرانے کی عورتوں نے کہا: ہم قرآن نہیں پڑھتیں، اس لیے تمہاری اقتدا میں نماز ادا کریں گی تو میں نے انہیں آٹھ رکعت پڑھائیں، اس کے بعد وتر ادا کیے۔ آپ خاموش رہے، اس پر کسی قسم کا تبصرہ نہ کیا، گویا اس پر رضا مندی کا اظہار کیا۔ (مسند أبي یعلیٰ:236/3) حضرت عمر ؓ نے بھی اس سنت کا احیاء کرتے ہوئے حضرت ابی بن کعب اور تمیم داری ؓ کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو گیارہ رکعت نماز تراویح پڑھائیں۔ (الموطأ للإمام مالك مع تنویرالحوالك:105/1) اس روایت کو بیان کرنے والے صرف امام مالک ہی نہیں بلکہ یحییٰ بن سعید القطان نے بھی اسے بیان کیا ہے جیسا کہ مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے۔ اسی طرح امام عبدالعزیز بن محمد نے بھی محمد بن یوسف سے اس روایت کو بیان کیا ہے، ان کی روایت کو سعید بن منصور نے اپنی سنن میں ذکر کیا ہے۔ (2) الغرض امام بخاری ؒ نے ثابت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے نماز تراویح کی مسنون تعداد گیارہ رکعت ہیں۔ واضح رہے کہ اس تعداد کے خلاف بیس رکعات تراویح کے اثبات میں پیش کی جانے والی تمام روایات کمزور اور ناقابل حجت ہیں۔ (تحفةالأحوذي:612/3 ،616)واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1954
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2013
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2013
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2013
تمہید کتاب
لفظ تراويح، ترويحة کی جمع ہے اور یہ راحة سے مشتق ہے۔ یہ نماز ادا کرتے وقت لوگ ہر چار رکعت کے بعد تھوڑی دیر کے لیے آرام کرتے تھے، اس لیے اسے تراویح کہا جاتا ہے۔ اس کا نام تہجد، قیام اللیل اور قیام رمضان بھی ہے۔ اس موضوع پر علامہ البانی رحمہ اللہ نے ایک وقیع رسالہ "قیام رمضان" لکھا ہے، جس میں نماز تراویح کے ہر پہلو پر گفتگو فرمائی ہے۔ ہم اپنی تمہیدی گزارشات میں اس کا خلاصہ پیش کر رہے ہیں۔٭ قیام رمضان کی فضیلت: رمضان کی راتوں میں قیام اور اس کی فضیلت کے متعلق بہت سی احادیث ہیں۔ ہم صرف دو کا حوالہ دیتے ہیں: (1) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قیام رمضان کو فرض قرار دیے بغیر اس کی بہت ترغیب دیتے تھے اور ہمیں شوق دلاتے تھے۔ آپ نے فرمایا: "جس شخص نے ایمان اور حصول ثواب کی نیت سے رمضان کا قیام کیا اس کے گزشتہ گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب دنیا سے رخصت ہوئے تو لوگ اس حکم پر عمل پیرا تھے، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دور حکومت میں بھی معاملہ اسی طرح تھا۔ (صحیح مسلم،صلاۃالمسافرین،حدیث:1780(759)) (2) حضرت عمرو بن مرہ جہنی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ بنو قضاعہ کے ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا: اگر میں گواہی دوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور آپ اللہ کے رسول ہیں، نماز پنجگانہ کی پابندی کروں، ماہ رمضان کے روزے رکھوں، تراویح پڑھوں اور باقاعدہ زکاۃ ادا کروں تو مجھے کیا ملے گا؟ آپ نے فرمایا: "اس حالت میں مرنے والا قیامت کے دن صدیقین اور شہداء کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔" (صحیح ابن خزیمۃ:3/341،340)٭ باجماعت تراویح: نماز تراویح باجماعت جائز ہے بلکہ اکیلے ادا کرنے سے افضل ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس کا اہتمام فرمایا اور اس کی فضیلت بیان کی ہے، چنانچہ حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ماہ رمضان کے روزے رکھے، آپ نے اس ماہ رات کو قیام نہ فرمایا۔ جب سات راتیں باقی رہ گئیں تو آپ نے ایک تہائی رات تک باجماعت قیام کا اہتمام کیا۔ اگلی رات، یعنی چھ راتیں باقی رہ گئیں تو جماعت نہ فرمائی، جب پانچ راتیں باقی رہ گئیں تو نصف رات تک باجماعت تراویح پڑھائی۔ ہم نے عرض کی کہ آپ تمام رات قیام فرمائیں تو آپ نے فرمایا: "آدمی جب امام کے ساتھ نماز پڑھتا ہے یہاں تک کہ امام اسے مکمل کرے تو اس کے نامۂ اعمال میں پوری رات کا قیام لکھا جاتا ہے۔" (صحیح ابن خزیمۃ:3/338،337) حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: جب چار راتیں باقی رہ گئیں تو آپ نے جماعت کا اہتمام نہ کیا، جب تین راتیں باقی رہ گئیں، یعنی ستائیسویں رات کو آپ نے اپنے اہل و عیال، عورتوں اور مردوں کو اکٹھا کیا، پھر باجماعت تراویح ادا کی اور اس قدر طویل قیام فرمایا کہ ہمیں سحری فوت ہونے کا خطرہ لاحق ہو گیا۔ اس کے بعد آپ نے باقی راتوں میں باجماعت قیام نہ فرمایا۔ (صحیح ابن خزیمۃ:3/338)٭ جماعت کا باقاعدہ اہتمام نہ کرنے کی وجہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے باجماعت تراویح کا باقاعدہ اہتمام اس اندیشے کے پیش نظر نہ فرمایا کہ مبادا فرض ہو جائے، پھر لوگ اس کی ادائیگی سے عاجز آ جائیں جیسا کہ صدیقۂ کائنات رضی اللہ عنہا سے مروی حدیث میں ہے۔ (صحیح البخاری،التراویح،حدیث:2012) آپ کی وفات کے بعد یہ اندیشہ نہ رہا کیونکہ شریعت مکمل ہو چکی تھی تو علت کے ختم ہونے سے دعویٰ بھی ختم ہو گیا اور باجماعت تراویح کی مشروعیت برقرار رہی۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کا باقاعدہ اہتمام کر دیا جیسا کہ صحیح بخاری میں اس کی تفصیل موجود ہے۔ (صحیح البخاری،التراویح،حدیث:2010)٭ عورتوں کے لیے جماعت کا اہتمام: نماز تراویح ادا کرنے کے لیے عورتیں مسجد میں آ سکتی ہیں بلکہ ان کے لیے الگ امام مقرر کیا جا سکتا ہے جو آدمیوں کے امام کے علاوہ ہو، چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب باجماعت تراویح کا اہتمام کیا تو آدمیوں کے لیے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ اور عورتوں کے لیے حضرت سلیمان بن ابو حثمہ کو مقرر فرمایا۔ حضرت عرفجہ ثقفی سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ لوگوں کو قیام رمضان کے لیے تاکید کیا کرتے تھے، اس کے لیے انہوں نے آدمیوں کی خاطر ایک امام اور عورتوں کی جماعت کے لیے دوسرا امام مقرر کیا تھا۔ راوی کہتا ہے کہ میں خود عورتوں کا امام تھا۔ (السنن الکبرٰی للبیھقی:2/494) ایسا کرنا اس وقت ممکن ہے جب مسجد خاصی وسیع ہو تاکہ ایک کی جماعت دوسروں کی تشویش اور خلل اندازی کا باعث نہ ہو۔٭ تعداد تراویح: قیام رمضان، یعنی تراویح کی تعداد گیارہ رکعت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے پیش نظر ہمارا موقف یہ ہے کہ اس عدد مسنون پر اضافہ نہ کیا جائے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر بھر اس پر اکتفا کیا ہے، چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے رمضان میں قیام نبوی کے متعلق سوال ہوا تو انہوں نے فرمایا: آپ رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعت سے زائد نہیں پڑھا کرتے تھے۔ اولاً چار رکعت پڑھتے، تم ان کی عمدگی اور لمبائی کے بارے میں سوال نہ کرو، پھر چار رکعت ادا کرتے وہ بھی پہلے کی طرح بہترین اور لمبی ہوتی تھیں، ان کے متعلق بھی مت سوال کریں، آخر میں تین رکعت (وتر) پڑھتے۔" (صحیح البخاری،التراویح،حدیث:2013)البتہ اس تعداد سے کم کرنے کی گنجائش ہے حتی کہ وتر کی ایک رکعت پر اکتفا کرنا بھی جائز ہے کیونکہ گیارہ رکعت سے کم ادا کرنا آپ کے عمل اور قول سے ثابت ہے، چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وتروں کے متعلق سوال ہوا تو انہوں نے فرمایا: آپ سات، نو اور تیرہ وتر پڑھتے تھے، البتہ آپ سات سے کم اور تیرہ سے زائد نہ پڑھتے تھے۔ (مسنداحمد:6/149)اسی طرح آپ کے فرمان سے گیارہ رکعت سے کم کا ثبوت ملتا ہے، چنانچہ ارشاد نبوی ہے: "وتر برحق ہیں جو چاہے پانچ پڑھ لے اور جو چاہے تین ادا کرے۔" ایک وتر بھی پڑھا جا سکتا ہے۔ (السنن الکبرٰی للبیھقی:3/27) اس سے معلوم ہوا کہ وتر ایک رکعت پڑھنا بھی جائز ہے۔ اس کے علاوہ گیارہ سے کم پڑھنا بھی آپ کے قول اور عمل سے ثابت ہو گیا۔٭ نماز تراویح میں قراءت: ماہ رمضان میں تراویح اور اس کے علاوہ نماز تہجد میں قراءت کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی حد مقرر نہیں فرمائی جس میں کمی بیشی نہ ہو سکتی ہو بلکہ آپ کی قراءت مختلف حالات و ظروف کے پیش نظر طویل و مختصر ہوتی رہتی تھی۔ بسا اوقات آپ ایک رکعت میں سورۂ مزمل کی مقدار تلاوت کرتے جس کی صرف بیس آیات ہیں اور کبھی کبھی پچاس آیات ایک رکعت میں پڑھتے تھے۔ فرمان نبوی ہے: "جس نے رات کے وقت (نماز تہجد میں) سو آیات کی مقدار تلاوت کی وہ غفلت شعار نہیں۔" (صحیح ابن خزیمۃ:2/180)حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں نماز پڑھنے کا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ آپ نے ایک رکعت میں سورۂ بقرہ، پھر سورۂ نساء اس کے بعد سورۂ آل عمران کی نہایت آہستہ اور ٹھہر ٹھہر کر تلاوت فرمائی۔ (صحیح مسلم،صلاۃالمسافرین وقصرھا،حدیث:1814(772))حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق صحیح سند سے ثابت ہے کہ انہوں نے جب حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو رمضان میں لوگوں کے لیے گیارہ رکعت پڑھانے کا حکم دیا تو حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سو، سو آیات پر مشتمل سورتوں کی تلاوت کرتے تھے حتی کہ ان کے پیچھے نماز ادا کرنے والے لمبے قیام کی وجہ سے اپنی لاٹھیوں پر سہارا لے کر کھڑے ہوتے اور فجر سے تھوڑا سا وقت پہلے فارغ ہو کر گھروں کو جاتے تھے۔ (السنن الکبرٰی للبیھقی:2/496) یہ بھی ثابت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے رمضان المبارک میں نماز تراویح پڑھانے والوں کو بلا کر ہدایات دیں کہ تیز پڑھنے والا ایک رکعت میں تیس آیات کی تلاوت کرے جبکہ میانہ رو اور آہستہ پڑھنے والا بالترتیب پچیس اور بیس آیات کی قراءت کرے۔ (السنن الکبرٰی للبیھقی:2/497)اس بنا پر اگر اکیلا ہو یا ہم خیال لوگ اس کے ہمراہ ہوں جو لمبا قیام کرنے میں اس کے ساتھ متفق ہوں تو اسے لمبے قیام کی اجازت ہے کیونکہ ایسا کرنا افضل ہے لیکن پھر بھی اعتدال کو سامنے رکھے اور پوری رات قیام کر کے انتہا پسندی کا ثبوت نہ دے، البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اگر کبھی کبھار ایسا کرے تو حرج بھی نہیں۔ ارشاد نبوی ہے: "بہترین اسوۂ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی ہے۔" (صحیح مسلم،الجمعۃ ،حدیث:2005(867))امام ہونے کی صورت میں اپنے مقتدیوں کا خیال رکھے۔ اس قدر بھی قیام نہ کرے جو اس کے پیچھے نماز ادا کرنے والوں کے لیے گرانی کا باعث ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "امامت کرانے والے کو چاہیے کہ وہ لوگوں کا خیال رکھتے ہوئے ہلکی نماز پڑھائے کیونکہ ان میں چھوٹے بچے، سن رسیدہ بوڑھے، ناتواں، بیمار اور حاجت مند، یعنی کام کرنے والے ہوتے ہیں۔ اگر اکیلا نماز پڑھے تو جس قدر چاہے لمبی نماز پڑھے۔" (صحیح البخاری،الاذان،حدیث:703)تراویح کا وقت: نماز عشاء کے بعد سے فجر تک اس کا وقت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے نماز وتر (تہجد) کا اضافہ کیا ہے، اسے نماز عشاء اور فجر کے درمیان ادا کرو۔" اگر کسی کو توفیق ملے تو رات کے آخری حصے میں ادا کرے کیونکہ ایسا کرنا افضل ہے۔ ارشاد نبوی ہے: "جسے رات کے آخری حصے میں نہ اٹھنے کا اندیشہ ہو، وہ پہلے حصے ہی میں وتر ادا کرے اور جسے رات کے آخری حصے میں اٹھنے کی امید ہو، اسے چاہیے کہ رات کے پچھلے حصے میں وتر (تہجد) پڑھے کیونکہ اس وقت رحمت کے فرشتے موجود ہوتے ہیں اور یہ افضل ہے۔" (صحیح مسلم،صلاۃالمسافرین،حدیث:1767(755))اگر رات کے پہلے حصے میں نماز باجماعت میسر ہو اور رات کے آخری حصے میں اٹھ کر اکیلا پڑھنے کی بھی امید ہو تو باجماعت ادا کرنے کو ترجیح دے کیونکہ ایسا کرنے سے پوری رات کا قیام اس کے نامۂ اعمال میں لکھ دیا جاتا ہے جیسا کہ حدیث میں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص امام کے ساتھ نماز پڑھتا ہے اس کے لیے پوری رات کا قیام شمار کیا جاتا ہے۔" (صحیح ابن خزیمۃ:3/338،337) حضرت زید بن وہب فرماتے ہیں کہ عبداللہ ہمیں رمضان میں تراویح پڑھا کر رات ہی کو فارغ ہو جاتے تھے۔ (المصنف لعبدالرزاق:4/264،263،حدیث:7741)٭ تراویح ادا کرنے کی کیفیت: نماز تراویح مختلف کیفیات سے ادا کی جا سکتی ہے جس کا خلاصہ حسب ذیل ہے: ٭ تیرہ رکعت اس طرح ادا کی جائیں کہ آغاز میں ہلکی سی دو رکعت سے افتتاح کیا جائے جو ہمارے رجحان کے مطابق عشاء کے بعد کی سنتیں ہیں یا نوافل جو سب کے لیے بطور تمہید مخصوص ہیں۔ اس کے بعد دو رکعت انتہائی طویل ہوں، پھر ان کے بعد دو رکعت کچھ ہلکی پڑھی جائیں، بعد ازاں دو رکعت ان سے کم، پھر ان سے مختصر دو رکعت، ان کے بعد کچھ مزید تخفیف سے دو رکعت، آخر میں ایک وتر پڑھا جائے، اس انداز سے تیرہ رکعت ادا کی جائیں۔ (صحیح مسلم،صلاۃالمسافرین،حدیث:1804(765)) تیرہ رکعت اس طرح سے بھی پڑھی جا سکتی ہیں کہ پہلی آٹھ رکعت میں ہر دو کے بعد سلام پھیرے بعد ازاں پانچ وتر پڑھے، آخری رکعت میں تشہد کے لیے بیٹھے اور سلام پھیر دے۔ (مسنداحمد:6/123) ٭ گیارہ رکعت اس طریقے سے پڑھے کہ ہر دو رکعت پر سلام پھیرے، آخر میں ایک وتر پڑھے۔ (مسنداحمد:6/215) گیارہ رکعت اس طرح بھی پڑھی جا سکتی ہیں کہ ہر چار رکعت ایک سلام سے ادا ہوں، آخر میں تین وتر پڑھے جائیں۔ (صحیح البخاری،التراویح،حدیث:2013) ان چار رکعت میں دو رکعت کے بعد تشہد کے لیے بیٹھے یا سیدھا کھڑا ہو جائے فی الحال ہمارے پاس اس کے لیے کوئی شافی جواب نہیں، البتہ تین رکعت وتر میں دو کے بعد تشہد بیٹھنا ثابت نہیں۔نوٹ: علامہ البانی رحمہ اللہ "صلاۃ التراویح" میں لکھتے ہیں: بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ چار رکعات پڑھتے وقت دو رکعت کے بعد تشہد کے لیے بیٹھے۔ واللہ اعلم۔گیارہ رکعات اس طرح بھی ادا کی جا سکتی ہیں کہ نمازی آٹھ رکعت ایک سلام کے ساتھ پڑھے جس کا طریقہ یہ ہے کہ آٹھویں رکعت میں تشہد کے لیے بیٹھے، درود پڑھنے کے بعد سلام پھیرے کے بجائے سیدھا کھڑا ہو جائے اور ایک رکعت وتر پڑھ کر سلام پھیرے، آخر میں دو رکعت بیٹھ کر ادا کرے۔ (مسنداحمد:6/54)٭ نو رکعات اس طرح ادا کرے کہ چھٹی رکعت میں بیٹھ کر تشہد اور درود پڑھے، پھر ساتویں رکعت کے لیے کھڑا ہو جائے اور اسے بطور وتر پڑھ کر سلام پھیر دے۔ اس کے بعد بیٹھ کر دو رکعت ادا کرے۔ (مسنداحمد:6/54)٭ بیٹھ کر دو رکعت پڑھنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ وتروں کے بعد دو رکعت کھڑے ہو کر پڑھیں جیسا کہ عام نفل نماز پڑھی جاتی ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مذکورہ کیفیات نص صریح سے ثابت ہیں۔ مزید صورتیں بھی ممکن ہیں، مثلاً: رکعات کم کی جا سکتی ہیں حتی کہ ایک رکعت پر اکتفا کرنا بھی جائز ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی پہلے گزر چکا ہے۔وتر پڑھنے والے کو پانچ یا تین یا ایک پڑھنے کا اختیار ہے۔ (المستدرک للحاکم:1/302) پانچ یا تین وتر ایک تشہد اور ایک سلام سے بھی پڑھ سکتا ہے اور دو رکعت کے بعد سلام پھیر دے پھر ایک رکعت الگ پڑھے تو بھی درست ہے اور مؤخر الذکر صورت افضل ہے۔ لیکن پانچ یا تین رکعت وتر میں دو رکعات کے بعد سلام کے بغیر بیٹھنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں، البتہ اصل کے اعتبار سے جواز کا شائبہ ہے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بایں طور وتر پڑھنے سے منع فرمایا ہے جس سے نماز مغرب کے ساتھ مشابہت ہو، فرمان نبوی ہے: "وتر پڑھتے وقت نماز مغرب سے مشابہت اختیار نہ کرو۔" (السنن الکبرٰی للبیھقی:3/31) اس مشابہت سے بچنے کی دو صورتیں ہیں:(1) دو رکعت کے بعد سلام پھیر دیا جائے، پھر ایک رکعت الگ طور پر ادا کی جائے۔ یہ صورت بہتر اور افضل ہے۔ (اسے طریقۂ فصل کہتے ہیں۔)(2) دو رکعت کے بعد تشہد کے لیے نہ بیٹھے بلکہ سیدھا کھڑا ہو جائے اور تیسری رکعت مکمل کرنے کے بعد سلام پھیرے۔ (اسے طریقہ وصل کہتے ہیں۔)ملحوظہ: ایک وتر کو بتيراء، یعنی دم کٹا کہنا بالکل بے اصل اور بے بنیاد ہے بلکہ سنت کے خلاف ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ایک وتر ادا کرتے تھے، ان سے کسی نے وتر کے متعلق پوچھا تو انہوں نے فرمایا: اسے الگ پڑھا کرو۔ سائل نے کہا: جسے اندیشہ ہے کہ لوگ اسے بتيراء کہیں گے؟ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر تو اللہ کے فیصلے اور سنت نبوی کا متلاشی ہے تو وہ یہی ہے۔ (صحیح ابن خزیمۃ:2/140)امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب صلاۃ التراویح میں چھ متصل احادیث بیان کی ہیں جن میں پانچ مرفوع اور ایک موقوف ہے۔ ان تمام احادیث پر ایک ہی عنوان قائم کیا ہے۔ "اس انسان کی فضیلت جو قیام رمضان کا اہتمام کرتا ہے۔" ان تمام احادیث پر ہم حسب سابق فوائد لکھیں اور ان کی وضاحت کریں گے۔ قارئین سے استدعا ہے کہ ان احادیث کا مطالعہ کرتے وقت شیخ مکرم محدث العصر علامہ البانی رحمہ اللہ کی مذکورہ تشریحات کو ضرور مدنظر رکھیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے علم و عمل میں برکت عطا فرمائے اور قیامت کے دن محدثین کے گروہ میں اٹھائے۔ آمین یا رب العالمین
حضرت ابو سلمہ بن عبد الرحمٰن سے روایت ہے، انھوں نے اُم المومنین حضرت عائشہ ؓ سے دریافت کیا کہ رسول اللہ ﷺ کی رمضان میں نماز کیسے ہوتی تھی؟انھوں نے جواب دیا کہ آپ رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعات سے زیادہ نہ پڑھتے تھے۔ آپ چار رکعات پڑھتے ان کےخوبصورت اور طویل ہونے کے متعلق مت سوال کرو۔ پھر چار رکعات ادا کرتے، ان کے بھی خوبصورت اور لمبی ہونے کے بارے میں مت پوچھو۔ پھر تین رکعات (وتر)پڑھتے۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ !آپ وتر پڑھنےسے پہلےسوجاتے ہیں؟آپ نے فرمایا: ’’عائشہ ؓ !میری آنکھیں سوتی ہیں البتہ میرا دل بیدار رہتا ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے امام بخاری ؒ نے تراویح کی تعداد کو ثابت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ رمضان میں کس قدر نماز تراویح پڑھنے کا اہتمام کرتے تھے، چنانچہ سائل نے حضرت عائشہ ؓ سے رمضان المبارک میں رسول اللہ ﷺ کی نماز تراویح کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعت ادا کرتے تھے اور ہر دو رکعت میں سلام پھیرتے تھے، آخر میں ایک وتر ادا کرتے۔ (صحیح مسلم، صلاةالمسافرین، حدیث:1718(736)) حضرت جابر ؓ کی روایت سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے آٹھ رکعت تراویح اور وتر پڑھائے تھے۔ (صحیح ابن خزیمة:138/2) اسی طرح حضرت ابی بن کعب ؓ سے روایت ہے، انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو بتایا کہ آج رات میرے ساتھ ایک واقعہ پیش آیا۔ آپ نے دریافت فرمایا: ’’وہ واقعہ کیا ہے؟‘‘ انہوں نے کہا کہ میرے گھرانے کی عورتوں نے کہا: ہم قرآن نہیں پڑھتیں، اس لیے تمہاری اقتدا میں نماز ادا کریں گی تو میں نے انہیں آٹھ رکعت پڑھائیں، اس کے بعد وتر ادا کیے۔ آپ خاموش رہے، اس پر کسی قسم کا تبصرہ نہ کیا، گویا اس پر رضا مندی کا اظہار کیا۔ (مسند أبي یعلیٰ:236/3) حضرت عمر ؓ نے بھی اس سنت کا احیاء کرتے ہوئے حضرت ابی بن کعب اور تمیم داری ؓ کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو گیارہ رکعت نماز تراویح پڑھائیں۔ (الموطأ للإمام مالك مع تنویرالحوالك:105/1) اس روایت کو بیان کرنے والے صرف امام مالک ہی نہیں بلکہ یحییٰ بن سعید القطان نے بھی اسے بیان کیا ہے جیسا کہ مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے۔ اسی طرح امام عبدالعزیز بن محمد نے بھی محمد بن یوسف سے اس روایت کو بیان کیا ہے، ان کی روایت کو سعید بن منصور نے اپنی سنن میں ذکر کیا ہے۔ (2) الغرض امام بخاری ؒ نے ثابت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے نماز تراویح کی مسنون تعداد گیارہ رکعت ہیں۔ واضح رہے کہ اس تعداد کے خلاف بیس رکعات تراویح کے اثبات میں پیش کی جانے والی تمام روایات کمزور اور ناقابل حجت ہیں۔ (تحفةالأحوذي:612/3 ،616)واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے سعید مقبری نے، ان سے ابوسلمہ بن عبدالرحمن نے کہ انہوں نے عائشہ ؓ سے پوچھا کہ رسول اللہ ﷺ ( تراویح یا تہجد کی نماز ) رمضان میں کتنی رکعتیں پڑھتے تھے؟ تو انہوں نے بتلایا کہ رمضان ہو یا کوئی اور مہینہ آپ گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ آپ ﷺ پہلی چار رکعت پڑھتے، تم ان کے حسن و خوبی اور طول کا حال نہ پوچھو، پھر چار رکعت پڑھتے، ان کے بھی حسن و خوبی اور طول کا حال نہ پوچھو، آخر میں تین رکعت ( وتر ) پڑھتے تھے۔ میں نے ایک بار پوچھا، یا رسول اللہ ! کیا اپ وتر پڑھنے سے پہلے سو جاتے ہیں؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا، عائشہ ! میری آنکھیں سوتی ہیں لیکن میرا دل نہیں سوتا۔
حدیث حاشیہ:
وَالتَّرَاوِيحُ جَمْعُ تَرْوِيحَةٍ وَهِيَ الْمَرَّةُ الْوَاحِدَةُ مِنَ الرَّاحَةِ كَتَسْلِيمَةٍ مِنَ السَّلَامِ سُمِّيَتِ الصَّلَاةُ فِي الْجَمَاعَةِ فِي لَيَالِي رَمَضَانَ التَّرَاوِيحَ لِأَنَّهُمْ أَوَّلَ مَا اجْتَمَعُوا عَلَيْهَا كَانُوا يَسْتَرِيحُونَ بَيْنَ كُلِّ تَسْلِيمَتَيْنِ وَقَدْ عَقَدَ مُحَمَّدُ بْنُ نَصْرٍ فِي قِيَامِ اللَّيْلِ بَابَيْنِ لِمَنِ اسْتَحَبَّ التَّطَوُّعَ لِنَفْسِهِ بَيْنَ كُلِّ تَرْوِيحَتَيْنِ وَلِمَنْ كَرِهَ ذَلِكَ وَحَكَى فِيهِ عَنْ يَحْيَى بْنِ بُكَيْرٍ عَنِ اللَّيْثِ أَنَّهُمْ كَانُوا يَسْتَرِيحُونَ قَدْرَ مَا يُصَلِّي الرَّجُلُ كَذَا كَذَا رَكْعَة۔خلاصہ مطلب یہ ہے کہتراویح ترویحة کی جمع ہے جو راحت سے مشتق ہے جیسے تسلیمۃ سلام سے مشتق ہے۔ رمضان کی راتوں میں جماعت سے نفل نماز پڑھنے کو تراویح کہا گیا، اس لیے کہ وہ شروع میں ہردورکعتوں کے درمیان تھوڑا سا آرام کیا کرتے تھے۔ علامہ محمدبن نصر نے قیام اللیل میں دوباب منعقد کئے ہیں۔ ایک ان کے متعلق جو اس راحت کو مستحب گردانتے ہیں۔ اورایک ان کے متعلق جو اس راحت کو اچھا نہیں جانتے۔ اور اس بارے میں یحییٰ بن بکیر نے لیث سے نقل کیا ہے کہ وہ اتنی اتنی رکعات کی ادائیگی کے بعد تھوڑی دیرآرام کیا کرتے تھے۔ اسی لیے اسے نمازتراویح سے موسوم کیا گیا۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ یہاں اس بارے میں پہلے اس نماز کی فضیلت سے متعلق حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت لائے، پھر حضرت ابوہریرہ ؓ کی دوسری روایت کے ساتھ حضرت ابن شہاب کی تشریح لائے جس میں اس نماز کا باجماعت ادا کیا جانا اوراس بارے میں حضرت عمر ؓ کا اقدام مذکور ہے۔ پھر حضرت امام ؒ نے حضرت عائشہ ؓ کی احادیث سے یہ ثابت فرمایا کہ نبی کریم ﷺ نے خود اس نماز کو تین راتوں تک باجماعت ادا فرماکر اس امت کے لیے مسنون قرار دیا۔ اس کے بعد اس کی تعداد کے بارے میں خود حضرت عائشہ ؓ کی زبان مبارک سے یہ نقل فرمایا کہ نبی کریم ﷺ رمضان یا غیررمضان میں اس نماز کو گیارہ رکعتوں کی تعداد میں پڑھا کرتے تھے۔ رمضان میں یہی نماز تراویح کے نام سے موسوم ہوئی اور غیررمضان میں تہجد کے نام سے، اور اس میں آٹھ رکعت سنت اور تین وتر۔ اس طرح کل گیارہ رکعتیں ہوا کرتی تھیں۔ حضرت عائشہ ؓ کی زبان مبارک سے یہ ایسی قطعی وضاحت ہے جس کی کوئی بھی تاویل یاتردید نہیں کی جاسکتی، اسی کی بناپر جماعت اہل حدیث کے نزدیک تراویح کی آٹھ رکعات سنت تسلیم کی گئی ہیں، جس کی تفصیل پارہ سوم میں ملاحظہ ہو۔
عجیب دلیری : حضرت عائشہ ؓ کی یہ حدیث اورموطا امام مالک میں یہ وضاحت کہ حضرت عمر ؓ نے حضرت ابی بن کعب ؓ کی اقتدا ءمیں مسلمانوں کی جماعت قائم فرمائی اورانھوں نے سنت نبوی کے مطابق یہ نماز گیارہ رکعتوں میں ادا فرمائی تھی۔ اس کے باوجود علمائے احناف کی دلیری اورجرات قابل داد ہے، جوآٹھ رکعات تراویح کے نہ صرف منکر بلکہ اسے ناجائز اوربدعت قراردینے سے بھی نہیں چوکتے۔ اورتقریباً ہرسال ان کی طرف سے آٹھ رکعات تراویح والوں کے خلاف اشتہارات، پوسٹر، کتابچے شائع ہوتے رہتے ہیں۔ ہمارے سامنے دیوبند سے شائع شدہ بخاری شریف کا ترجمہ تفہیم البخاری کے نام سے رکھا ہواہے۔ اس کے مترجم وشارح صاحب بڑی دلیری کے ساتھ تحریر فرماتے ہیں : ”جولوگ صرف آٹھ رکعات تراویح پراکتفا کرتے اور سنت پرعمل کا دعویٰ کرتے ہیں وہ درحقیقت سواداعظم سے شذوذ اختیار کرتے ہیں اور ساری امت پر بدعت کا الزام لگاکر خود اپنے پر ظلم کرتے ہیں۔ “ (تفہیم البخاری، پ8، ص:30) یہاں علامہ مترجم صاحب دعویٰ فرمارہے ہیں کہ بیس رکعات تراویح سواد اعظم کا عمل ہے۔ آٹھ رکعات پر اکتفا کرنے والوں کا دعویٰ سنت غلط ہے۔ جذبہ حمایت میں انسان کتنا بہک سکتاہے یہاں یہ نمونہ نظر آرہاہے۔ یہی حضرت آگے خود اپنی اسی کتاب میں خود اپنے ہی قلم سے خود اپنی ہی تردید فرمارہے ہیں۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں : ”ابن عباس ؓ کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ رمضان میں بیس رکعات پڑھتے تھے، اوروتر اس کے علاوہ ہوتے تھے۔ عائشہ ؓ کی حدیث اس سے مختلف ہے بہرحال دونوں احادیث پر ائمہ کا عمل ہے۔ امام ابوحنیفہ ؒ کا مسلک بیس رکعات تراویح کا ہے اورامام شافعی ؒ کا گیارہ رکعات والی روایت پر عمل ہے۔ “(تفہیم البخاری، پ8، ص:31) اس بیان سے موصوف کے پیچھے کے بیان کی تردید جن واضح لفظوں میں ہورہی ہے وہ سورج کی طرح عیاں ہے جس سے معلوم ہوا کہ آٹھ رکعات پڑھنے والے بھی حق بجانب ہیں اور بیس رکعات پر سواداعظم کے عمل کا دعویٰ صحیح نہیں ہے۔ حدیث ابن عباس ؓ جس کی طرف مترجم صاحب نے اشارہ فرمایاہے یہ حدیث سنن کبریٰ بیہقی ص496، جلد2 پر بایں الفاظ مروی ہے : عن ابن عباس قال کان النبيُ صلی اللہ علیه وسلم یُصلِي في شهر رمضانَ في غیرجماعة بعشرین رکعة والوتر۔تفردبه أبوشبیة إبراهیم بن عثمان العبسي الکوفي وهوضعیف۔یعنی حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے مروی ہے کہ آنحضرت ﷺ رمضان میں جماعت کے بغیر بیس رکعات اوروتر پڑھا کرتے تھے۔ اس بیان میں راوی ابوشیبہ ابراہیم بن عثمان عبسی کوفی تنہا ہے اوروہ ضعیف ہے۔ لہٰذا یہ روایت حضرت عائشہ ؓ کی روایت کے مقابلہ پر ہرگز قابل حجت نہیں ہے۔ امام سیوطی ؒ اس حدیث کی بابت فرماتے ہیں : هذا الحدیث ضعیف جدا لاتقوم به الحجة۔(المصابیح للسیوطي) آگے علامہ سیوطی ؒ ابوشیبہ مذکورپر محدثین کبار کی جرحیں نقل فرماکر لکھتے ہیں : ومن اتفق هولاء الأئمة علی تضعیفه لایحل الاحتجاج بحدیثه۔ یعنی جس شخص کی تضعیف پر یہ تمام ائمہ حدیث متفق ہوں اس کی حدیث سے حجت پکڑنا حلال نہیں ہے۔ علامہ ابن حجر ؒ نے بھی ایسا ہی لکھاہے۔ علامہ زیلعی حنفی لکھتے ہیں : وهومعلول بأبي شیبة إبراهیم بن عثمان جدا لإمام أبي بکر بن أبي شیبة و هومتفق علی ضعفه ولینه ابن عدي في الکامل ثم إنه مخالف للحدیث الصحیح عن أبي سلمة بن عبدالرحمن أنه سأل عائشة الحدیث(نصب الرایة، ص493)یعنی ابوشیبہ کی وجہ سے یہ حدیث معلول ضعیف ہے ۔ اوراس کے ضعف پر سب محدثین کرام کا اتفاق ہے۔ اورابن عدی نے اسے لین کہاہے۔ اوریہ حدیث حضرت عائشہ ؓ کی حدیث جو صحیح ہے، اس کے بھی خلاف ہے۔ لہٰذا یہ قابل قبول نہیں ہے۔ علامہ ابن ہمام حنفی ؒ نے فتح القدیر جلداول، ص333 طبع مصر پر بھی ایسا ہی لکھاہے۔ اورعلامہ عینی ؒ حنفی نے عمدۃ القاری، طبع مصر، ص359، جلد5 پر بھی یہی لکھاہے۔ علامہ سندھی حنفی نے بھی اپنی شرح ترمذی، ص : 423، جلداوّل میں یہی لکھاہے۔ اسی لیے مولانا انورشاہ صاحب کشمیری ؒ فرماتے ہیں : وأما النبي صلی اللہ علیه وسلم فصح عنه ثمان رکعات وأماعشرون رکعة فهوعنه بسند ضعیف وعلی ضعفه اتفاق۔(العرف الشذي)یعنی نبی ﷺ سے تراویح کی آٹھ ہی رکعات صحیح سند سے ثابت ہیں۔ بیس رکعات والی روایت کی سند ضعیف ہے جس کے ضعف پر سب کا اتفاق ہے۔ اوجزالمسالک، جلداول، ص : 3 پر حضرت مولانا زکریا کاندھلوی حنفی لکھتے ہیں : لاشك في أن تحدیدالتراویح في عشرین رکعة لم یثبت مرفوعاً عن النبي صلی اللہ علیه وسلم بطریق صحیح علی أصول المحدثین وماورد فیه من روایة ابن عباس فمتکلم فیها علی أصولهم انتهی۔یعنی اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ تراویح کی بیس رکعتوں کی تحدید تعیین نبی کریم ﷺ سے اصول محدثین کے طریق پر ثابت نہیں ہے۔ اورجو روایت ابن عباس ؓ سے بیس رکعات کے متعلق مروی ہے وہ باصول محدثین مجروح اورضعیف ہے۔ یہ تفصیل اس لیے دی گئی تاکہ علمائے احناف کے دعویٰ بیس رکعات تراویح کی سنّیت کی حقیقت خود علمائے محققین احناف ہی کی قلم سے ظاہر ہوجائے۔ باقی تفصیل مزید کے لیے ہمارے استاذ العلماءحضرت مولانانذیراحمد صاحب رحمانی ؒ کی کتاب مستطاب ”انوارالمصابیح“ کا مطالعہ کیا جائے جو اس موضوع کے ماله وماعلیه پر اس قدر جامع مدلل کتاب ہے کہ اب اس کی نظیر ممکن نہیں۔ جزی اللہ عناخیر الجزاء وغفراللہ له آمین۔ مزیدتفصیلات پ3 میں دی جاچکی ہیں وہاں دیکھی جاسکتی ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Salama bin 'Abdur Rahman (RA): that he asked 'Aisha (RA) "How was the prayer of Allah's Apostle (ﷺ) in Ramadan?" She replied, "He did not pray more than eleven Rakat in Ramadan or in any other month. He used to pray four Rakat ---- let alone their beauty and length----and then he would pray four ----let alone their beauty and length ----and then he would pray three Rakat (Witr)." She added, "I asked, 'O Allah's Apostle (ﷺ) ! Do you sleep before praying the Witr?' He replied, 'O 'Aisha! My eyes sleep but my heart does not sleep."