باب : شب قدر کو رمضان کی آخری طاق راتوں میں تلاش کرنا
)
Sahi-Bukhari:
Virtues of the Night of Qadr
(Chapter: To look for the night of Qadr in the last seven nights (of Ramadan))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2015.
حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کے چند صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو دوران خواب میں رمضان کی آخری سات راتوں میں شب قدر دکھائی گئی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’میں دیکھ رہا ہوں کہ تمھارےسب کے خواب آخری سات راتوں پر متفق ہوگئے ہیں۔ اس لیے جو اس کو تلاش کرنا چاہے وہ آخری ساتھ راتوں میں تلاش کرے۔‘‘
تشریح:
(1) حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے مروی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’میں دیکھ رہا ہوں کہ تمہارے خواب آخری عشرے پر متفق ہیں، اس لیے اگر کوئی شب قدر کو تلاش کرنا چاہے تو وہ آخری عشرے میں اسے تلاش کرے۔‘‘ (صحیح البخاري، التھجد، حدیث:1158) (2) حقیقت یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں شب قدر کے متعلق دو گروہوں نے خواب دیکھے۔ ایک گروہ کا خواب تھا کہ وہ آخری سات راتوں میں ہے اور دوسرے گروہ کا خواب تھا کہ وہ آخری عشرے میں ہے۔ اس کی تفصیل صحیح بخاری میں موجود ہے۔ (صحیح البخاري، التعبیر، حدیث:6991) آپ نے پہلے تو آخری عشرے میں شب قدر کا خواب دیکھنے والوں سے فرمایا: ’’تمہارا سب کا اتفاق ہے آخرے عشرے پر ہے، لہذا تم شب قدر اسی عشرے میں تلاش کرو۔‘‘ بلکہ ایک روایت کے مطابق آپ نے آخری عشرے کی طاق راتوں میں انہیں تلاش کرنے کا حکم دیا۔ (صحیح البخاري، فضل لیلةالقدر، حدیث:2017) پھر آپ نے دیکھا کہ آخری سات راتوں پر دونوں گروہوں کا اتفاق ہے تو آپ نے جزم کے ساتھ آخری سات راتوں میں اسے تلاش کرنے کے متعلق کہا جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے مروی مذکور روایت میں ہے۔ پھر آخری سات راتوں کے متعلق بھی اختلاف ہے۔ ظاہر حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تعداد چوبیسویں رات سے شروع ہو گی تو اس میں اکیسویں اور تئیسویں رات شامل نہیں ہو گی جبکہ بعض حضرات کا خیال ہے کہ بائیس سے شروع ہو کر اٹھائیس تک سات راتیں مراد ہیں، اس صورت میں انتیسویں رات اس میں شامل نہیں ہو گی۔ ہمارے نزدیک فیصلہ کن صحیح مسلم کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اسے آخری عشرے میں تلاش کرو۔ اگر کسی وجہ سے کمزور یا مغلوب ہو جاؤ تو باقی سات راتوں میں اسے تلاش کر کے غلبہ حاصل کرو۔‘‘ (صحیح مسلم، الصیام، حدیث:2765(1165)) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آخری سات راتوں سے مراد تئیس سے شروع کر کے آخر تک ہیں۔ (فتح الباري:325/4)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1956
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2015
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2015
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2015
تمہید کتاب
رمضان المبارک میں تین کام بڑی اہمیت کے حامل ہیں: نماز تراویح، لیلۃ القدر اور اعتکاف۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے رمضان کے عمومی احکام و مسائل بیان کرنے کے بعد اب تین خصوصی مسائل ذکر کیے ہیں، قبل ازیں نماز تراویح کے متعلق احادیث ذکر کی تھیں۔ اب لیلۃ القدر کی فضیلت اور اس سے متعلقہ احکام بیان کریں گے، اس کے بعد اعتکاف کا ذکر ہو گا۔ باذن اللہ تعالیٰ۔اس رات کی فضیلت کے لیے یہی کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام مبارک قرآن مجید کو اس رات میں اتارا۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ ﴿١﴾) (القدر1:97) "بےشک ہم نے اس (قرآن) کو شب قدر میں نازل کیا ہے۔" ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ) (البقرۃ185:2) "رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا۔" اس سے معلوم ہوا کہ وہ رات جس میں پہلی مرتبہ اللہ کا فرشتہ غار حرا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وحی لے کر آیا تھا وہ رمضان المبارک ہی کی ایک رات تھی۔ اس رات کو شب قدر کہا گیا ہے۔ اور ایک دوسرے مقام پر اسے "بابرکت رات" سے تعبیر کیا گیا ہے، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُّبَارَكَةٍ) (الدخان3:44) "ہم نے اسے بہت برکت والی رات میں نازل کیا ہے۔"مفسرین نے قدر کے کئی ایک معانی لکھے ہیں۔ وہ سب اپنے اپنے مقام پر صحیح ہیں۔ قدر کے معنی تقدیر کے ہیں، یعنی وہ رات ہے جس میں اللہ تعالیٰ تقدیر کے فیصلے نافذ کرنے کے لیے فرشتوں کے سپرد کر دیتا ہے۔ اس کی تائید سورۂ دخان کی ایک آیت کریمہ سے ہوتی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ ﴿٤﴾) (الدخان5:44) "اُس رات میں ہر حکمت والے معاملے کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔"بالفاظ دیگر یہ رات کوئی عام راتوں جیسی نہیں بلکہ یہ قسمتوں کے بنانے اور بگاڑنے والی رات ہے۔ اس رات میں اس کتاب کا نزول ایسا کام ہے جو نہ صرف قریش، نہ صرف عرب بلکہ عام رنگ و بو کی تقدیر بدل کر رکھ دے گا۔ دوسرے معنی یہ ہیں کہ یہ بڑی قدرومنزلت اور عظمت و شرف رکھنے والی رات ہے، یعنی جس رات میں قرآن کریم کے نزول کا فیصلہ کیا گیا وہ اتنی خیروبرکت والی رات تھی کہ انسانی تاریخ میں کبھی انسان کی بھلائی کے لیے وہ کام نہیں ہوا جو اس رات میں کر دیا گیا۔ تیسرے معنی یہ ہیں کہ قدر، تنگی کے معنی میں ہے، یعنی اس کی تعیین لوگوں سے مخفی رکھی گئی ہے تاکہ اس کی تلاش میں خود کو تنگی میں ڈالیں اور مشقت برداشت کر کے اللہ کے ہاں اجروثواب کے حقدار ہوں۔ اس بنا پر بھی اسے تنگی کی رات کہا جاتا ہے کہ اس رات اللہ کی طرف سے اس قدر رحمت کے فرشتے اترتے ہیں کہ ان کی وجہ سے زمین تنگ ہو جاتی ہے۔ (فتح الباری:4/324،323)امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت صرف شب قدر کی فضیلت ہی بیان نہیں کی بلکہ اس کے متعلق کئی ایک حقائق اور مسائل و احکام سے بھی آگاہ کیا ہے، چنانچہ آپ نے گیارہ مرفوع متصل احادیث بیان کی ہیں اور ان پر پانچ چھوٹے چھوٹے ذیلی عنوان قائم کیے ہیں جن میں شب قدر کی فضیلت، آخری سات بالخصوص طاق راتوں میں اسے تلاش کرنا، لوگوں کے جھگڑے کی نحوست سے اس کی تعیین کا پس منظر میں چلے جانا اور رمضان کے آخری عشرے میں کیا کرنا چاہیے، نیز اس طرح کے دیگر اسنادی اسرارورموز سے ہمیں مطلع کیا ہے۔ قارئین کرام سے استدعا ہے کہ وہ ان احادیث کا مطالعہ کرتے وقت ہمیں اپنی مخلص دعاؤں میں ضرور یاد رکھیں اور اگر کسی کو ماہ رمضان میں شب قدر کا احساس ہو جائے تو دعا کرتے وقت اس امت کی کامیابی اور معافی کی اللہ کے ہاں درخواست کو فراموش نہ کرے۔
حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کے چند صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو دوران خواب میں رمضان کی آخری سات راتوں میں شب قدر دکھائی گئی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’میں دیکھ رہا ہوں کہ تمھارےسب کے خواب آخری سات راتوں پر متفق ہوگئے ہیں۔ اس لیے جو اس کو تلاش کرنا چاہے وہ آخری ساتھ راتوں میں تلاش کرے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے مروی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’میں دیکھ رہا ہوں کہ تمہارے خواب آخری عشرے پر متفق ہیں، اس لیے اگر کوئی شب قدر کو تلاش کرنا چاہے تو وہ آخری عشرے میں اسے تلاش کرے۔‘‘ (صحیح البخاري، التھجد، حدیث:1158) (2) حقیقت یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں شب قدر کے متعلق دو گروہوں نے خواب دیکھے۔ ایک گروہ کا خواب تھا کہ وہ آخری سات راتوں میں ہے اور دوسرے گروہ کا خواب تھا کہ وہ آخری عشرے میں ہے۔ اس کی تفصیل صحیح بخاری میں موجود ہے۔ (صحیح البخاري، التعبیر، حدیث:6991) آپ نے پہلے تو آخری عشرے میں شب قدر کا خواب دیکھنے والوں سے فرمایا: ’’تمہارا سب کا اتفاق ہے آخرے عشرے پر ہے، لہذا تم شب قدر اسی عشرے میں تلاش کرو۔‘‘ بلکہ ایک روایت کے مطابق آپ نے آخری عشرے کی طاق راتوں میں انہیں تلاش کرنے کا حکم دیا۔ (صحیح البخاري، فضل لیلةالقدر، حدیث:2017) پھر آپ نے دیکھا کہ آخری سات راتوں پر دونوں گروہوں کا اتفاق ہے تو آپ نے جزم کے ساتھ آخری سات راتوں میں اسے تلاش کرنے کے متعلق کہا جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے مروی مذکور روایت میں ہے۔ پھر آخری سات راتوں کے متعلق بھی اختلاف ہے۔ ظاہر حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تعداد چوبیسویں رات سے شروع ہو گی تو اس میں اکیسویں اور تئیسویں رات شامل نہیں ہو گی جبکہ بعض حضرات کا خیال ہے کہ بائیس سے شروع ہو کر اٹھائیس تک سات راتیں مراد ہیں، اس صورت میں انتیسویں رات اس میں شامل نہیں ہو گی۔ ہمارے نزدیک فیصلہ کن صحیح مسلم کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اسے آخری عشرے میں تلاش کرو۔ اگر کسی وجہ سے کمزور یا مغلوب ہو جاؤ تو باقی سات راتوں میں اسے تلاش کر کے غلبہ حاصل کرو۔‘‘ (صحیح مسلم، الصیام، حدیث:2765(1165)) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آخری سات راتوں سے مراد تئیس سے شروع کر کے آخر تک ہیں۔ (فتح الباري:325/4)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو امام مالک نے خبردی، انہیں نافع نے، اور انہیں حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ کے چند اصحاب کو شب قدر خواب میں ( رمضان کی ) سات آخری تاریخوں میں دکھائی گئی تھی۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں دیکھ رہا ہوں کہ تمہارے سب کے خواب سات آخری تاریخوں پر متفق ہو گئے ہیں۔ اس لیے جسے اس کی تلاش ہو وہ اسی ہفتہ کی آخری ( طاق ) راتوں میں تلاش کرے۔ آخری عشرہ کی طاق راتیں 21-23-25-27-29 مراد ہیں۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کے تحت حافظ صاحب ؒ فرماتے ہیں: و في هذا الحدیث دلالة علی عظم قدر الرؤیاء و جواز الاستناد إلیها في الاستدلال علی الأمور الوجودیة بشرط أن لا یخالف القواعد الشرعیة۔ ( فتح ) یعنی اس حدیث سے خوابوں کی قدر و منزلت ظاہر ہوتی ہے اور یہ بھی کہ ان میں امور وجودیہ کے لیے استناد کے جواز کی دلیل ہے بشرطیکہ وہ شرعی قواعد کے خلاف نہ ہو، فی الواقع مطابق حدیث دیگر مومن کا خواب نبوت کے ستر حصوں میں سے ایک حصہ ہے۔ قرآن مجید کی آیت شریفہ ألا إِن أولیاءَ اللہ الخ میں بشریٰ سے مراد نیک خواب بھی ہیں، جو وہ خود دیکھے یا اس کے لیے دوسرے لوگ دیکھیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Umar (RA): Some men amongst the companions of the Prophet (ﷺ) were shown in their dreams that the night of Qadr was in the last seven nights of Ramadan. Allah's Apostle (ﷺ) said, "It seems that all your dreams agree that (the Night of Qadr) is in the last seven nights, and whoever wants to search for it (i.e. the Night of Qadr) should search in the last seven (nights of Ramadan)."