Sahi-Bukhari:
Virtues of the Night of Qadr
(Chapter: Good deeds in the last ten days of Ramadan)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2024.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: جب رمضان کا آخری عشرہ ہوتا تونبی ﷺ (عبادت کے لیے)کمر بستہ ہو جاتے، شب بیداری فرماتے اور اپنے اہل خانہ کو بھی بیدار رکھتے تھے۔
تشریح:
(1) مقصد یہ ہے کہ آخری عشرہ خوب عبادت کرتے ہوئے گزارا جائے۔ رسول اللہ ﷺ اس عشرے میں اپنی بیویوں سے الگ ہو جاتے، بستر کو لپیٹ دیتے اور خوب کمر بستہ ہو کر ان راتوں کا اہتمام کرتے۔ حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں: رسول اللہ ﷺ آخری عشرے میں اتنی محنت کرتے کہ جتنی دوسرے دنوں میں نہیں کرتے تھے۔ (سنن ابن ماجة، الصوم، حدیث:1767) اس کوشش اور محنت کی تفصیل امام بخاری ؒ کی پیش کردہ حدیث میں بیان ہوئی ہے کہ عبادت کے لیے کمربستہ ہو جاتے، رات کو عبادت کر کے اسے زندہ رکھتے اور اپنے اہل و عیال کو عبادت کے لیے بیدار کرتے۔ حضرت زینب بنت ام سلمہ ؓ کا بیان ہے: رسول اللہ ﷺ کی عادت مبارکہ یہ تھی کہ جب رمضان ختم ہونے میں دس دن باقی رہ جاتے تو گھر میں ہر اس فرد کو نیند سے اٹھا دیتے جو قیام کی طاقت رکھتا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دل کی پاکیزگی اور بالیدگی اس وقت پیدا ہو سکتی ہے جب انسان کا دل مخلوق سے بے پروا ہو کر اللہ کی طرف متوجہ ہو۔ کثرت سے کھانے، پینے، گفتگو کرنے اور سونے سے دل منتشر اور غافل ہو جاتا ہے، ماہ مبارک میں ان تمام چیزوں پر کنٹرول ہوتا ہے جو قرب الٰہی میں رکاوٹ بنتی ہیں۔ اس مبارک مہینہ کی خصوصیت ہے کہ اس میں انسان کا دل اللہ کی طرف مائل ہوتا ہے اور اس ذات اقدس کے قرب خاص کو محسوس کرتا ہے۔ ویسے تو سارا مہینہ اللہ کی طرف سے خیرات و برکات اپنے جلو میں لے کر آتا ہے لیکن آخری عشرہ مخصوص انوار و تجلیات کا حامل ہوتا ہے، رسول اللہ ﷺ اس آخری عشرے میں عبادت کے لیے خصوصی اہتمام فرماتے تھے جیسا کہ مذکورہ احادیث میں بیان ہوا ہے۔ (2) ہمارے ہاں بدقسمتی سے انفرادی عبادت کے بجائے اجتماعی عبادت کا اہتمام کیا جاتا ہے، طاق راتوں میں تقاریر اور دروس ہوتے ہیں، سارا عشرہ بہترین ماکولات اور مشروبات کے دور کے لیے مخصوص کر دیا جاتا ہے، رسول اللہ ﷺ کے اسوۂ حسنہ میں ان چیزوں کا نشان تک نہیں ملتا۔ ہمیں اس آخری عشرے کے قیمتی دنوں اور سنہری راتوں کو سو کر یا کھانے پینے یا تقاریر سننے میں ضائع نہیں کرنا چاہیے بلکہ انفرادی عبادت کا خصوصی اہتمام کرنا چاہیے۔ (3) اس عشرے میں دو عمل اللہ کے ہاں بہت بلند مقام رکھتے ہیں، یعنی اعتکاف اور شب قدر کی تلاش۔ شب قدر کے متعلق پہلے بیان ہو چکا ہے کہ اس رات صرف بیدار رہنا کوئی عبادت نہیں بلکہ ذکر و فکر، نوافل، تلاوت قرآن اور رسول اللہ ﷺ پر درود پڑھنے میں مصروف رہنا عبادت ہے۔ اعتکاف کے متعلق کیا شرعی ہدایات ہیں اس کے لیے امام بخاری ؒ نے بڑے اہتمام کے ساتھ ایک بڑا عنوان قائم کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہماری عبادات قبول فرمائے اور اپنے ہاں اجر جزیل سے نوازے۔ آمین
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1965
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2024
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2024
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2024
تمہید کتاب
رمضان المبارک میں تین کام بڑی اہمیت کے حامل ہیں: نماز تراویح، لیلۃ القدر اور اعتکاف۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے رمضان کے عمومی احکام و مسائل بیان کرنے کے بعد اب تین خصوصی مسائل ذکر کیے ہیں، قبل ازیں نماز تراویح کے متعلق احادیث ذکر کی تھیں۔ اب لیلۃ القدر کی فضیلت اور اس سے متعلقہ احکام بیان کریں گے، اس کے بعد اعتکاف کا ذکر ہو گا۔ باذن اللہ تعالیٰ۔اس رات کی فضیلت کے لیے یہی کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام مبارک قرآن مجید کو اس رات میں اتارا۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ ﴿١﴾) (القدر1:97) "بےشک ہم نے اس (قرآن) کو شب قدر میں نازل کیا ہے۔" ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ) (البقرۃ185:2) "رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا۔" اس سے معلوم ہوا کہ وہ رات جس میں پہلی مرتبہ اللہ کا فرشتہ غار حرا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وحی لے کر آیا تھا وہ رمضان المبارک ہی کی ایک رات تھی۔ اس رات کو شب قدر کہا گیا ہے۔ اور ایک دوسرے مقام پر اسے "بابرکت رات" سے تعبیر کیا گیا ہے، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُّبَارَكَةٍ) (الدخان3:44) "ہم نے اسے بہت برکت والی رات میں نازل کیا ہے۔"مفسرین نے قدر کے کئی ایک معانی لکھے ہیں۔ وہ سب اپنے اپنے مقام پر صحیح ہیں۔ قدر کے معنی تقدیر کے ہیں، یعنی وہ رات ہے جس میں اللہ تعالیٰ تقدیر کے فیصلے نافذ کرنے کے لیے فرشتوں کے سپرد کر دیتا ہے۔ اس کی تائید سورۂ دخان کی ایک آیت کریمہ سے ہوتی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ ﴿٤﴾) (الدخان5:44) "اُس رات میں ہر حکمت والے معاملے کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔"بالفاظ دیگر یہ رات کوئی عام راتوں جیسی نہیں بلکہ یہ قسمتوں کے بنانے اور بگاڑنے والی رات ہے۔ اس رات میں اس کتاب کا نزول ایسا کام ہے جو نہ صرف قریش، نہ صرف عرب بلکہ عام رنگ و بو کی تقدیر بدل کر رکھ دے گا۔ دوسرے معنی یہ ہیں کہ یہ بڑی قدرومنزلت اور عظمت و شرف رکھنے والی رات ہے، یعنی جس رات میں قرآن کریم کے نزول کا فیصلہ کیا گیا وہ اتنی خیروبرکت والی رات تھی کہ انسانی تاریخ میں کبھی انسان کی بھلائی کے لیے وہ کام نہیں ہوا جو اس رات میں کر دیا گیا۔ تیسرے معنی یہ ہیں کہ قدر، تنگی کے معنی میں ہے، یعنی اس کی تعیین لوگوں سے مخفی رکھی گئی ہے تاکہ اس کی تلاش میں خود کو تنگی میں ڈالیں اور مشقت برداشت کر کے اللہ کے ہاں اجروثواب کے حقدار ہوں۔ اس بنا پر بھی اسے تنگی کی رات کہا جاتا ہے کہ اس رات اللہ کی طرف سے اس قدر رحمت کے فرشتے اترتے ہیں کہ ان کی وجہ سے زمین تنگ ہو جاتی ہے۔ (فتح الباری:4/324،323)امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت صرف شب قدر کی فضیلت ہی بیان نہیں کی بلکہ اس کے متعلق کئی ایک حقائق اور مسائل و احکام سے بھی آگاہ کیا ہے، چنانچہ آپ نے گیارہ مرفوع متصل احادیث بیان کی ہیں اور ان پر پانچ چھوٹے چھوٹے ذیلی عنوان قائم کیے ہیں جن میں شب قدر کی فضیلت، آخری سات بالخصوص طاق راتوں میں اسے تلاش کرنا، لوگوں کے جھگڑے کی نحوست سے اس کی تعیین کا پس منظر میں چلے جانا اور رمضان کے آخری عشرے میں کیا کرنا چاہیے، نیز اس طرح کے دیگر اسنادی اسرارورموز سے ہمیں مطلع کیا ہے۔ قارئین کرام سے استدعا ہے کہ وہ ان احادیث کا مطالعہ کرتے وقت ہمیں اپنی مخلص دعاؤں میں ضرور یاد رکھیں اور اگر کسی کو ماہ رمضان میں شب قدر کا احساس ہو جائے تو دعا کرتے وقت اس امت کی کامیابی اور معافی کی اللہ کے ہاں درخواست کو فراموش نہ کرے۔
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: جب رمضان کا آخری عشرہ ہوتا تونبی ﷺ (عبادت کے لیے)کمر بستہ ہو جاتے، شب بیداری فرماتے اور اپنے اہل خانہ کو بھی بیدار رکھتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
(1) مقصد یہ ہے کہ آخری عشرہ خوب عبادت کرتے ہوئے گزارا جائے۔ رسول اللہ ﷺ اس عشرے میں اپنی بیویوں سے الگ ہو جاتے، بستر کو لپیٹ دیتے اور خوب کمر بستہ ہو کر ان راتوں کا اہتمام کرتے۔ حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں: رسول اللہ ﷺ آخری عشرے میں اتنی محنت کرتے کہ جتنی دوسرے دنوں میں نہیں کرتے تھے۔ (سنن ابن ماجة، الصوم، حدیث:1767) اس کوشش اور محنت کی تفصیل امام بخاری ؒ کی پیش کردہ حدیث میں بیان ہوئی ہے کہ عبادت کے لیے کمربستہ ہو جاتے، رات کو عبادت کر کے اسے زندہ رکھتے اور اپنے اہل و عیال کو عبادت کے لیے بیدار کرتے۔ حضرت زینب بنت ام سلمہ ؓ کا بیان ہے: رسول اللہ ﷺ کی عادت مبارکہ یہ تھی کہ جب رمضان ختم ہونے میں دس دن باقی رہ جاتے تو گھر میں ہر اس فرد کو نیند سے اٹھا دیتے جو قیام کی طاقت رکھتا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دل کی پاکیزگی اور بالیدگی اس وقت پیدا ہو سکتی ہے جب انسان کا دل مخلوق سے بے پروا ہو کر اللہ کی طرف متوجہ ہو۔ کثرت سے کھانے، پینے، گفتگو کرنے اور سونے سے دل منتشر اور غافل ہو جاتا ہے، ماہ مبارک میں ان تمام چیزوں پر کنٹرول ہوتا ہے جو قرب الٰہی میں رکاوٹ بنتی ہیں۔ اس مبارک مہینہ کی خصوصیت ہے کہ اس میں انسان کا دل اللہ کی طرف مائل ہوتا ہے اور اس ذات اقدس کے قرب خاص کو محسوس کرتا ہے۔ ویسے تو سارا مہینہ اللہ کی طرف سے خیرات و برکات اپنے جلو میں لے کر آتا ہے لیکن آخری عشرہ مخصوص انوار و تجلیات کا حامل ہوتا ہے، رسول اللہ ﷺ اس آخری عشرے میں عبادت کے لیے خصوصی اہتمام فرماتے تھے جیسا کہ مذکورہ احادیث میں بیان ہوا ہے۔ (2) ہمارے ہاں بدقسمتی سے انفرادی عبادت کے بجائے اجتماعی عبادت کا اہتمام کیا جاتا ہے، طاق راتوں میں تقاریر اور دروس ہوتے ہیں، سارا عشرہ بہترین ماکولات اور مشروبات کے دور کے لیے مخصوص کر دیا جاتا ہے، رسول اللہ ﷺ کے اسوۂ حسنہ میں ان چیزوں کا نشان تک نہیں ملتا۔ ہمیں اس آخری عشرے کے قیمتی دنوں اور سنہری راتوں کو سو کر یا کھانے پینے یا تقاریر سننے میں ضائع نہیں کرنا چاہیے بلکہ انفرادی عبادت کا خصوصی اہتمام کرنا چاہیے۔ (3) اس عشرے میں دو عمل اللہ کے ہاں بہت بلند مقام رکھتے ہیں، یعنی اعتکاف اور شب قدر کی تلاش۔ شب قدر کے متعلق پہلے بیان ہو چکا ہے کہ اس رات صرف بیدار رہنا کوئی عبادت نہیں بلکہ ذکر و فکر، نوافل، تلاوت قرآن اور رسول اللہ ﷺ پر درود پڑھنے میں مصروف رہنا عبادت ہے۔ اعتکاف کے متعلق کیا شرعی ہدایات ہیں اس کے لیے امام بخاری ؒ نے بڑے اہتمام کے ساتھ ایک بڑا عنوان قائم کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہماری عبادات قبول فرمائے اور اپنے ہاں اجر جزیل سے نوازے۔ آمین
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے ابویعفور نے بیان کیا، ان سے ابوالضحیٰ نے، ان سے مسروق نے اور ان سے عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ جب ( رمضان کا ) آخری عشرہ آتا تو نبی کریم ﷺ اپنا تہبند مضبوط باندھتے ( یعنی اپنی کمر پوری طرح کس لیتے ) اور ان راتوں میں آپ خود بھی جاگتے اور اپنے گھر والوں کو بھی جگایا کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
کمر کس لینے کا مطلب یہ کہ آپ اس عشرہ میں عبادت الٰہی کے لیے خاص محنت کرتے، خود جاگتے گھر والوں کو جگاتے اور رات بھر عبادت الٰہی میں مشغول رہتے۔ اور آنحضرت ﷺ کا یہ سارا عمل تعلیم امت کے لیے تھا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ﴿لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ﴾(الأحزاب :21)اے ایمان والو ! اللہ کے رسول تمہارے لیے بہترین نمونہ ہیں ان کی اقتداءکرنا تمہاری سعادت مندی ہے۔ یوں تو ہمیشہ ہی عبادت الٰہی کرنا بڑا کار ثواب ہے لیکن رمضان کے آخری عشرہ میں عبادت الٰہی کرنا بہت ہی بڑا کار ثواب ہے۔ لہٰذا ان ایام میں جس قدر بھی عبادت ہو سکے غنیمت ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Aisha (RA): With the start of the last ten days of Ramadan, the Prophet (ﷺ) used to tighten his waist belt (i.e. work hard) and used to pray all the night, and used to keep his family awake for the prayers.