Sahi-Bukhari:
Sales and Trade
(Chapter: Explanation of doubtful (unclear) things)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور حسان بن ابی سنان نے کہا کہ ” ورع “ ( پرہیزگاری ) سے زیادہ آسان کوئی چیز میں نے نہیں دیکھی، بس شبہ کی چیزوں کو چھوڑ اور وہ راستہ اختیار کر جس میں کوئی شبہ نہ ہو۔
2052.
حضرت عقبہ بن حارث ؓ سے روایت ہے کہ ایک سیاہ فام عورت آئی اور کہنے لگی کہ میں نے تم دونوں (میاں بیوی) کو دودھ پلایا ہے۔ اس نے نبی کریم ﷺ سے ذکر کیا تو آپ نے اس سے منہ پھیر لیا اور مسکراتے ہوئے فرمایا: ’’تم اس عورت کو (بطور بیوی) کیسے رکھ سکتے ہوجبکہ تمہارے بارے میں ایسا کہا گیا ہے؟‘‘ حضرت عقبہ بن حارث ؓ کی بیوی ابو اہاب تمیمی کی بیٹی تھی۔
تشریح:
(1) اس عنوان سے مقصود شبہ اور وسوسے کے درمیان فرق کی وضاحت کرتا ہے کہ شبہ کو چھوڑ دینا مستحب ہے جبکہ وسوسے کا اعتبار نہیں کرنا چاہیے۔(2) شبہ کسی قوی یا کمزور دلیل سے پیدا ہوتا ہے جیسا کہ حدیث مذکور سے پتہ چلتا ہے کہ دودھ پلانے کے سلسلے میں اگر کسی عورت نے گواہی دی تو اسے تسلیم کیا جائے گا کیونکہ خبر دینے والی مسلمان ہے اور مسلمان ہمیشہ سچ بولتا ہے ،چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عقبہ بن حارث ؓ کو شبہ سے بچنے کے لیے فرمایا:’’تم اپنی بیوی سے علیحدگی اختیار کرلو۔‘‘ اگرچہ ایک عورت کے کہنے سے حتمی حکم ثابت نہیں ہوتا، تاہم شبہ کے لیے ایک عورت کی شہادت ہی کافی ہے،اس لیے تقوے کے طور پر اس عورت کو نکاح میں رکھنے سے پرہیز کرنا اچھا ہے۔ وسوسے کی مثال یہ ہے کہ ایک شخص خراسان کا رہنے والا ہے وہ بغداد جائے جبکہ اس کا والد بغداد میں رہ چکا ہوتو وہ بغداد میں شادی کرنے سے اس لیے پرہیز کرے کہ شاید اس کے باپ نے بغداد میں شادی کی ہو اور جس عورت سے یہ خراسانی شادی کرنا چاہتا ہے وہ اس کے باپ کی بیٹی اور اس کی بہن ہو۔ شریعت میں اس طرح کے وسوسوں کی کوئی حیثیت نہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1992
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2052
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2052
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2052
تمہید کتاب
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اللہ نے تجارت کوحلال کیا ہے۔ اور سود کو حرام قراردیا ہے۔ "
نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا؛"ہاں جوتجارتی لین دین دست بدست تم لوگ کرتے ہو(اس کو نہ لکھا جائے تو کوئی حرج نہیں)"
فائدہ:سود، جوا اور رشوت لینے دینے میں بھی باہمی رضا مندی پائی جاتی ہے لیکن یہ حقیقی نہیں بلکہ اضطراری ہوتی ہے کیونکہ سود پر قرض لینے والے کو قرض حسنہ مل سکتا ہوتو وہ کبھی سود پر قرض نہ لے۔ جوا کھیلنے والا اس لیے رضا مند ہوتا ہے کہ ان میں سے ہرایک کو اپنے جیتنے کی امید ہوتی ہے اور اگر کسی کوہارنے کا اندیشہ ہوتو وہ کبھی جوا نہیں کھیلے گا۔ اسی طرح اگر رشوت دینے والے کو معلوم ہوکہ اسے رشوت دیے بغیر حق مل سکتاہے تو وہ کبھی رشوت نہ دے۔ اس کے علاوہ اگر سودے بازی میں ایک فریق کی پوری رضا مندی نہ ہو اور اسے اس پر مجبور کردیا جائے تو وہ بھی اس ضمن میں آتا ہے۔
انسانی معاشرے کو تعلقات کے اعتبار سے دوحصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے،چنانچہ انسان اپنے خالق سے تعلق قائم کرتا ہے اسے ہم عبادات سے تعبیر کرتے ہیں۔اقرار شہادتین، نماز، زکاۃ، حج اور روزہ وغیرہ اسی تعلق مع اللہ کے مظاہر ہیں۔دوسرے یہ کے انسان کو اپنے جیسے دوسرے انسانوں سے واسطہ پڑتا ہے اسے معاملات کا نام دیا جاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے عبادات سے فراغت کے بعد اب معاملات کا آغاز کیا ہے۔انسانوں کی فطری ساخت ایسی ہے کہ وہ زندگی گزارنے کے لیے باہمی تعاون اور ایک دوسرے سے لین دین کے محتاج ہیں۔معاشرتی طور پر ہر فرد اور ہر طبقے کی ضرورت دوسرے سے وابستہ ہے،چنانچہ ایک مزدور انسان جس کی ضروریات زندگی بہت مختصر ہیں،اسے بھی اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے ک لیے ایسے آدمی کی ضرورت ہے جس سے وہ غلہ وغیرہ لے سکے ،پھر کاشتکار کو اس مزدور کی ضرورت ہے جس سے وہ کھیتی باڑی کے کاموں میں مدد لے سکے ،پھر ان دونوں کو ایک ایسا آدمی درکار ہے جو ان کی ستر پوشی کے لیے کپڑا تیار کرے،پھر سر چھپانے کے لیے مکان اور بیماری کی صورت میں علاج معالجے کی ضرورت ہے۔الغرض اشیاء کی خریدو فروخت، محنت ومزدوری، صنعت وزراعت اور دیگر معاشی معاملات انسانی زندگی کے لوازم ہیں۔اللہ تعالیٰ نے اس سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے جس پر عمل پیرا ہوکر دنیا وآخرت میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ان احکام پر عمل کرنا دنیا نہیں بلکہ عین دین اور عین عبادت ہے اور اس پر اسی طرح اجرو ثواب کا وعدہ ہے جس طرح نماز، روزے اور دیگر عبادات کی ادائیگی پر ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے معاملات کا آغاز كتاب البيوع سے فرمایا ہے۔لفظ بيوع بيع کی جمع ہے ۔اس کے معنی فروخت کرنا ہیں۔بعض اوقات خریدنے کے معنی میں بھی یہ لفظ کا استعمال ہوتا ہے۔شرعی اصطلاح میں کسی چیز کا مالک بننے کے ارادے سے مال کا مال کے ساتھ تبادلہ کرنا بیع کہلاتا ہے۔یہ خریدوفروخت اور تجارت انسانی ضروریات پوری کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔تجارت کے حسب ذیل چار بنیادی اجزاء ہیں: (1) مشتری (خریدار)(2)بائع (فروخت کار)(3)بیع(مال تجارت)(4)بیع (معاہدۂ تجارت)۔قرآن کریم نے تجارت کے لیے باہمی رضامندی کو بنیادی اصول قرار دیا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ فریقین کا خریدو فروخت کے ہر پہلو پر مطلع ہو کر اپنے آزاد فیصلے سے معاہدۂ تجارت پر رضامند ہونا ضروری ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَن تَكُونَ تِجَارَةً عَن تَرَاضٍ مِّنكُمْ ۚ وَلَا تَقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا ﴿٢٩﴾) اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کا مال باطل طریقے سے مت کھاؤ مگریہ کے آپس کی رضامندی سے تجارت ہو،اور تم اپنے آپ کو قتل نہ کرو،بے شک اللہ تم پر بہت رحم کرنے والا ہے۔"( النساء29:4)باطل طریقے سے مراد لین دین کاروبار اور تجارت کے دو طریقے ہیں جن میں فریقین کی حقیقی رضامندی یکساں طور پر نہیں پائی جاتی بلکہ اس میں ایک فریق کا تو مفاد ملحوظ رہتا ہے جبکہ دوسرا دھوکے یا نقصان کا نشانہ بنتا ہے۔اگر کسی معاملے میں دھوکا پایا جائے یا اس میں ایک فریق کی بے بسی اور مجبوری کو دخل ہوتو اگرچہ وہ بظاہر اس پر راضی ہوں،تاہم شریعت کی رو سے یہ باطل طریقے ہیں جنھیں حرام ٹھہرایا گیا ہے،اس لیے لین دین اور باہمی تجارت نہ تو کسی دباؤ سے ہو اور نہ اس میں فریب اور ضرر ہی کو دخل ہو۔اگرچہ خریدوفروخت کی حلت قرآنی نص سے ثابت ہے لیکن ہر قسم کی خریدوفروخت حلال نہی بلکہ مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ اسے جائز قرار دیا گیا ہے:(1) فریقین باہمی رضامندی سے سودا کریں۔(2)خریدی ہوئی چیز اور اس کا معاوضہ مجہول نہ ہو۔(3)قابل فروخت چیز فرخت کرنے والے کی ملکیت ہو اور وہ اسے خریدار کے حوالے کرنے پر قادر ہو۔(4)فروخت ہونے والی چیز میں کسی قسم کا عیب چھپا ہوانہ ہو۔(5) کسی حرام چیز کی خریدوفروخت نہ ہو اور نہ اس میں سود کو بطور حیلہ جائز قرار دیا گیا ہو۔(6)اس خریدوفروخت اور تجارت میں کسی فریق کو دھوکا دینا مقصود نہ ہو۔ (7)اس تجارتی لین دین میں حق رجوع کو برقرار رکھا گیا ہو۔کتب حدیث میں خریدو فروخت کی تقریباً تیس اقسام کو انھی وجہ سے ھرام ٹھہرایا گیا ہے۔ ہم ان کی آئندہ وضاحت کریں گے۔علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :امام بخاری رحمہ اللہ نے عبادات کے بیان سے فراغت کے بعد معاملات کا آغاز فرمایا کیونکہ عبادات سے مراد فوائد اخروی حاصل کرنا ہے جبکہ معاملات سے دنیوی مفاد پیش نظر ہوتا ہے۔عبادات چونکہ اہم ہیں،اس لیے انھیں مقدم کیا۔معاملات کا تعلق ضروریات سے ہے،اس لیے انھیں عبادات کے بعد بیان کیا ہے،پھر معاملات میں سے خریدوفروخت کے مسائل کو پہلے بیان کیا ہے کیونکہ زندگی میں اکثر وبیشتر اس سے واسطہ پڑتا ہے۔( عمدۃ القاری:8/291)حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:تمام اہل اسلام نے خریدو فروخت کے جواز پر اتفاق کیا ہے اور عقل وحکمت بھی اس کے جواز کا تقاضا کرتی ہے کیونکہ انسانی ضروریات اس سے پوری ہوتی ہیں۔( فتح الباری:4/364) امام بخاری رحمہ اللہ نے خریدوفروخت کے مسائل پر مشتمل دوسوسینتالیس مرفوع احادیث بیان کی ہیں۔ان میں چھیالیس معلق ہیں جبکہ باقی احادیث کو متصل سند سے بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی باون آثار بھی بیان کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر ایک سوتیرہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو علم معیشت میں اساسی قواعد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ان قواعد واصول سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجارت کے نام پر لوٹ مار کے کھلے راستوں کے ساتھ ساتھ ان تمام پوشیدہ راہوں کو بھی بند کردیا ہے جو تجارت کو عدل وانصاف اور خیر خواہی سے ہٹا کر ظلم وزیادتی کے ساتھ دولت سمیٹنے کی طرف لے جانے والے ہیں،آپ نے انتہائی باریک بینی سے نظام تجارت کا جائزہ لیا اور اس کی حدود وقیود متعین فرما کر عمل تجارت کو ہر طرح کے ظلم اور استحصالی ہتھکنڈوں سے پاک کردیا۔ ہمیں چاہیے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے عنوانات کی روشنی میں اپنی تجارت کو ان اصولوں پر استوار کریں جو مکمل طور پر انسانی فلاح وبہبود کی ضمانت دیتے ہیں۔قارئین سے استدعا ہے کہ كتاب البيوع کا مطالعہ کرتے وقت ہماری معروضات کو ضرور پیش نظر رکھیں۔اللہ تعالیٰ حق بینی اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے ۔ آمين
سیاق وسباق اور پس منظر کے اعتبار سے پہلی آیت کفار کے جواب میں ہے جنہوں نے کہا تھا:" تجارت بھی تو آخر سود ہی جیسی چیز ہے" یعنی جب تجارت میں لگے ہوئے روپے کا منافع جائز ہے تو قرض پر دیے ہوئے روپے کا منافع کیوں ناجائز ہے۔اور دوسری آیت سے مقصود یہ ہے کہ اگرچہ روز مرہ کی خریدوفروخت میں بھی معاملۂ بیع کا تحریر میں آجانا بہتر ہے جیسا کہ آج کل کیش میمو لکھنے کا طریقہ رائج ہے،تاہم ایسا کرنا لازم نہیں بلکہ اسے تحریر میں لائے بغیر معاملہ طے کیا جاسکتا ہے لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے ان ہر دو آیات سے خریدوفروخت کی مشروعیت کو ثابت کیا ہے۔حافظ عینی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:انسان طبعی طور پر لالچی واقع ہوا ہے ،دوسروں کی چیز کو للچائی ہوئی نگاہوں سے دیکھنے کا عادی ہے، اگر اسے ضرورت ہو تو چوری، ڈکیتی، لوٹ، کھسوٹ اور دھوکا فریب سے اسے حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے اس کے حصول کے لیے خریدو فروخت کا معاملہ مشروع قرار دیا ہے تاکہ کسی پر ظلم اور زیادتی نہ ہو،امن اور آتشی کے ساتھ لوگ زندگی بسر کریں۔( عمدۃ القاری:8/292)
تمہید باب
اس تعلیق کو امام مروزی نے کتاب الورع،-----احمد بن حنبل میں متصل سند سے بیان کیا ہے (کتاب الودع،ص83) بعض روایات کے مطابق انھوں نے فرمایا:جس چیز کے متعلق تمھیں شک پڑجائے اسے ترک کردو۔حضرت حسان رحمہ اللہ کا فرمان کہ جو شک میں ڈالے اسے چھوڑ دو۔یہ دراصل ایک مرفوع حدیث ہے جسے امام ترمذی، نسائی، احمد، ابن حبان اور امام حاکم رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے۔( جامع الترمذی،صفۃ القیامۃ،حدیث:2518) امام بخاری رحمہ اللہ کی قبل ازیں بیان کردہ حدیث سے معلوم ہوتا تھا کہ اکثر لوگ مشتبہ چیزوں کو نہیں جانتے، اس کامطلب یہ ہے کہ کچھ لوگ اس کے متعلق معلومات رکھتے ہیں،اس بنا پر امام بخاری رحمہ اللہ نے ضروری خیال کیا کہ مشتبہ چیزوں کے متعلق کوئی ضابطہ بیان کیا جائے جس کے ذریعے سے انھیں پہچانا جاسکے تاکہ ان سے بچنا آسان ہو۔
اور حسان بن ابی سنان نے کہا کہ ” ورع “ ( پرہیزگاری ) سے زیادہ آسان کوئی چیز میں نے نہیں دیکھی، بس شبہ کی چیزوں کو چھوڑ اور وہ راستہ اختیار کر جس میں کوئی شبہ نہ ہو۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عقبہ بن حارث ؓ سے روایت ہے کہ ایک سیاہ فام عورت آئی اور کہنے لگی کہ میں نے تم دونوں (میاں بیوی) کو دودھ پلایا ہے۔ اس نے نبی کریم ﷺ سے ذکر کیا تو آپ نے اس سے منہ پھیر لیا اور مسکراتے ہوئے فرمایا: ’’تم اس عورت کو (بطور بیوی) کیسے رکھ سکتے ہوجبکہ تمہارے بارے میں ایسا کہا گیا ہے؟‘‘ حضرت عقبہ بن حارث ؓ کی بیوی ابو اہاب تمیمی کی بیٹی تھی۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس عنوان سے مقصود شبہ اور وسوسے کے درمیان فرق کی وضاحت کرتا ہے کہ شبہ کو چھوڑ دینا مستحب ہے جبکہ وسوسے کا اعتبار نہیں کرنا چاہیے۔(2) شبہ کسی قوی یا کمزور دلیل سے پیدا ہوتا ہے جیسا کہ حدیث مذکور سے پتہ چلتا ہے کہ دودھ پلانے کے سلسلے میں اگر کسی عورت نے گواہی دی تو اسے تسلیم کیا جائے گا کیونکہ خبر دینے والی مسلمان ہے اور مسلمان ہمیشہ سچ بولتا ہے ،چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عقبہ بن حارث ؓ کو شبہ سے بچنے کے لیے فرمایا:’’تم اپنی بیوی سے علیحدگی اختیار کرلو۔‘‘ اگرچہ ایک عورت کے کہنے سے حتمی حکم ثابت نہیں ہوتا، تاہم شبہ کے لیے ایک عورت کی شہادت ہی کافی ہے،اس لیے تقوے کے طور پر اس عورت کو نکاح میں رکھنے سے پرہیز کرنا اچھا ہے۔ وسوسے کی مثال یہ ہے کہ ایک شخص خراسان کا رہنے والا ہے وہ بغداد جائے جبکہ اس کا والد بغداد میں رہ چکا ہوتو وہ بغداد میں شادی کرنے سے اس لیے پرہیز کرے کہ شاید اس کے باپ نے بغداد میں شادی کی ہو اور جس عورت سے یہ خراسانی شادی کرنا چاہتا ہے وہ اس کے باپ کی بیٹی اور اس کی بہن ہو۔ شریعت میں اس طرح کے وسوسوں کی کوئی حیثیت نہیں۔
ترجمۃ الباب:
حسان بن ابو سنان بیان کرتے ہیں کہ میں نے پرہیز گاری سے زیادہ آسان کوئی چیز نہیں دیکھی، جو شک میں ڈالے اسے چھوڑ دو اور اس چیز کو اختیار کروجو شک میں نہ ڈالے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو سفیان ثوری نے خبر دی، انہیں عبداللہ بن عبدالرحمن بن ابی حسین نے خبر دی، ان سے عبداللہ بن ابی ملیکہ نے بیان کیا، ان سے عقبہ بن حارث ؓ نے کہ ایک سیاہ فام خاتون آئیں اور دعویٰ کیا کہ انہوں نے ان دونوں ( عقبہ اور ان کی بیوی ) کو دودھ پلایا ہے۔ عقبہ نے اس امر کا ذکر رسول اللہ ﷺ سے کیا تو آپ ﷺ نے اپنا چہرہ مبارک پھیر لیا اور مسکرا کر فرمایا۔ اب جب کہ ایک بات کہہ دی گئی تو تم دونوں ایک ساتھ کس طرح رہ سکتے ہو۔ ان کے نکاح میں ابواہاب تمیمی کی صاحب زادی تھیں۔
حدیث حاشیہ:
ترمذی کی روایت میں ہے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! وہ جھوٹی ہے، آپ نے منہ پھیر لیا، پھر آپ کے منہ کے سامنے آیا اور عرض کی یا رسول اللہ ! وہ جھوٹی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا، اب تو اس عورت کو کیسے رکھ سکتا ہے جب یہ کہا جاتا ہے کہ ایک عورت نے تم دونوں کو دودھ پلایا ہے۔ یہ حدیث اوپر کتاب العلم میں گزر چکی ہے۔ یہاں حضرت امام بخاری ؒ اس لیے لائے کہ گو اکثر علماء کے نزدیک رضاع ایک عورت کی شہادت سے ثابت نہیں ہوسکتا مگر شبہ تو ہو جاتا ہے اور آنحضرت ﷺ نے شبہ کی بنا پر عقبہ ؓ کو یہ صلاح دی کہ اس عورت کو چھوڑ دے۔ معلوم ہوا کہ اگر شہادت کامل نہ ہو یا شہاد ت کے شرائط میں نقص ہو تو معاملہ مشتبہ رہتا ہے لیکن مشتبہ سے بچے رہنا تقویٰ اور پرہیزگاری ہے۔ ہمارے امام احمد بن حنبل ؒ کے نزدیک تو رضاع صرف مرضعہ کی شہادت سے ثابت ہو جاتا ہے۔ (وحیدی) حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں: و وجه الدلالة منه قوله کیف و قد قیل یشعر بأن أمرہ بفراق امرأته إنما کان لأجل قول المرأة إنها رضعتهما فاحتمل أن یکون صحیحاً فیرتکب الحرام فأمرہ بفراقها احتیاطا علی قول الأکثر و قیل بل قبل شهادة المراة وحدها علی ذلك۔ یعنی ارشاد نبوی کیف قیل سے مقصد باب ثابت ہوتاہے جس سے ظاہرہے کہ آپ ﷺ نے عقبہ ؓ کو اس عورت سے جدائی کا حکم صادر فرمایا۔ دودھ پلانے کی دعوے دار عورت کے اس بیان پر کہ میں نے ان دونوں کو دودھ پلایا ہے۔ احتمال ہے کہ اس عورت کا بیان صحیح ہو اور عقبہ حرام کا مرتکب ہو۔ اس لیے احتیاطاً جدائی کا حکم دے دیا۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ آپ نے اس عورت کی شہادت کو قبول فرما لیا، اور اس بارے میں ایک ہی شہادت کو کافی سمجھا۔ حضرت امام ؒنے اس واقعہ سے بھی یہ ثابت فرمایا ہے کہ مشتبہ امور میں ان سے پرہیز ہی کا راستہ سلامتی اور احتیاط کا راستہ ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abdullah bin Abu Mulaika (RA): y the same woman)?" His wife was the daughter of Abu Ihab-al-Tamimi. ________