Sahi-Bukhari:
Sales and Trade
(Chapter: What is said about the goldsmiths)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور طاؤس نے ابن عباس ؓ سے نقل کیا ہے کہ نبی کریمﷺ نے ( حجۃ الوداع کے موقع پر حرم کی حرمت بیان کرتے ہوئے ) فرمایا تھا کہ حرم کی گھاس نہ کاٹی جائے، اس پر عباس ؓ نے عرض کیا کہ اذخر ( ایک خاص قسم کی گھاس ) کی اجازت دے دیجئے۔ کیوں کہ یہ یہاں کے سوناروں اور لوہاروں اور گھروں کے کام آتی ہے، تو آپ نے فرمایا، اچھا اذخر کاٹ لیا کرو۔ اس حدیث سے امام بخاری نے یہ نکالا کہ سناری کا پیشہ آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں بھی تھا۔ اور آپﷺ نے اس سے منع نہیں فرمایا۔ تو یہ پیشہ جائز ہوا۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ باب لاکر اس حدیث کے ضعف کی طرف اشادہ فرمایا ہے جسے امام احمد نے نکالا ہے جس میں مذکور ہے کہ سب سے زیادہ جھوٹے سنار اور رنگریز ہوا کرتے ہیں اس کی سند میں اضطراب ہے۔
2089.
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ مال غنیمت میں سے مجھے ایک اونٹ حصے میں ملا اور نبی ﷺ نے مجھے ایک اور اونٹ خمس میں سےدیا۔ جب میں نے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بنت رسول اللہ ﷺ کی رخصتی کرانے کا ارادہ کیا تو بنو قینقاع کے ایک زرگر سے طے کیا کہ وہ میرے ساتھ چلے اور ہم اذخر کاٹ کر لائیں۔ میرا ارادہ یہ تھا کہ میں اسے سناروں کے پاس فروخت کرکے اپنی شادی کے ولیمے میں اس سے کچھ مدد حاصل کروں گا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2028
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2089
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2089
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2089
تمہید کتاب
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اللہ نے تجارت کوحلال کیا ہے۔ اور سود کو حرام قراردیا ہے۔ "
نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا؛"ہاں جوتجارتی لین دین دست بدست تم لوگ کرتے ہو(اس کو نہ لکھا جائے تو کوئی حرج نہیں)"
فائدہ:سود، جوا اور رشوت لینے دینے میں بھی باہمی رضا مندی پائی جاتی ہے لیکن یہ حقیقی نہیں بلکہ اضطراری ہوتی ہے کیونکہ سود پر قرض لینے والے کو قرض حسنہ مل سکتا ہوتو وہ کبھی سود پر قرض نہ لے۔ جوا کھیلنے والا اس لیے رضا مند ہوتا ہے کہ ان میں سے ہرایک کو اپنے جیتنے کی امید ہوتی ہے اور اگر کسی کوہارنے کا اندیشہ ہوتو وہ کبھی جوا نہیں کھیلے گا۔ اسی طرح اگر رشوت دینے والے کو معلوم ہوکہ اسے رشوت دیے بغیر حق مل سکتاہے تو وہ کبھی رشوت نہ دے۔ اس کے علاوہ اگر سودے بازی میں ایک فریق کی پوری رضا مندی نہ ہو اور اسے اس پر مجبور کردیا جائے تو وہ بھی اس ضمن میں آتا ہے۔
انسانی معاشرے کو تعلقات کے اعتبار سے دوحصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے،چنانچہ انسان اپنے خالق سے تعلق قائم کرتا ہے اسے ہم عبادات سے تعبیر کرتے ہیں۔اقرار شہادتین، نماز، زکاۃ، حج اور روزہ وغیرہ اسی تعلق مع اللہ کے مظاہر ہیں۔دوسرے یہ کے انسان کو اپنے جیسے دوسرے انسانوں سے واسطہ پڑتا ہے اسے معاملات کا نام دیا جاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے عبادات سے فراغت کے بعد اب معاملات کا آغاز کیا ہے۔انسانوں کی فطری ساخت ایسی ہے کہ وہ زندگی گزارنے کے لیے باہمی تعاون اور ایک دوسرے سے لین دین کے محتاج ہیں۔معاشرتی طور پر ہر فرد اور ہر طبقے کی ضرورت دوسرے سے وابستہ ہے،چنانچہ ایک مزدور انسان جس کی ضروریات زندگی بہت مختصر ہیں،اسے بھی اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے ک لیے ایسے آدمی کی ضرورت ہے جس سے وہ غلہ وغیرہ لے سکے ،پھر کاشتکار کو اس مزدور کی ضرورت ہے جس سے وہ کھیتی باڑی کے کاموں میں مدد لے سکے ،پھر ان دونوں کو ایک ایسا آدمی درکار ہے جو ان کی ستر پوشی کے لیے کپڑا تیار کرے،پھر سر چھپانے کے لیے مکان اور بیماری کی صورت میں علاج معالجے کی ضرورت ہے۔الغرض اشیاء کی خریدو فروخت، محنت ومزدوری، صنعت وزراعت اور دیگر معاشی معاملات انسانی زندگی کے لوازم ہیں۔اللہ تعالیٰ نے اس سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے جس پر عمل پیرا ہوکر دنیا وآخرت میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ان احکام پر عمل کرنا دنیا نہیں بلکہ عین دین اور عین عبادت ہے اور اس پر اسی طرح اجرو ثواب کا وعدہ ہے جس طرح نماز، روزے اور دیگر عبادات کی ادائیگی پر ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے معاملات کا آغاز كتاب البيوع سے فرمایا ہے۔لفظ بيوع بيع کی جمع ہے ۔اس کے معنی فروخت کرنا ہیں۔بعض اوقات خریدنے کے معنی میں بھی یہ لفظ کا استعمال ہوتا ہے۔شرعی اصطلاح میں کسی چیز کا مالک بننے کے ارادے سے مال کا مال کے ساتھ تبادلہ کرنا بیع کہلاتا ہے۔یہ خریدوفروخت اور تجارت انسانی ضروریات پوری کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔تجارت کے حسب ذیل چار بنیادی اجزاء ہیں: (1) مشتری (خریدار)(2)بائع (فروخت کار)(3)بیع(مال تجارت)(4)بیع (معاہدۂ تجارت)۔قرآن کریم نے تجارت کے لیے باہمی رضامندی کو بنیادی اصول قرار دیا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ فریقین کا خریدو فروخت کے ہر پہلو پر مطلع ہو کر اپنے آزاد فیصلے سے معاہدۂ تجارت پر رضامند ہونا ضروری ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَن تَكُونَ تِجَارَةً عَن تَرَاضٍ مِّنكُمْ ۚ وَلَا تَقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا ﴿٢٩﴾) اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کا مال باطل طریقے سے مت کھاؤ مگریہ کے آپس کی رضامندی سے تجارت ہو،اور تم اپنے آپ کو قتل نہ کرو،بے شک اللہ تم پر بہت رحم کرنے والا ہے۔"( النساء29:4)باطل طریقے سے مراد لین دین کاروبار اور تجارت کے دو طریقے ہیں جن میں فریقین کی حقیقی رضامندی یکساں طور پر نہیں پائی جاتی بلکہ اس میں ایک فریق کا تو مفاد ملحوظ رہتا ہے جبکہ دوسرا دھوکے یا نقصان کا نشانہ بنتا ہے۔اگر کسی معاملے میں دھوکا پایا جائے یا اس میں ایک فریق کی بے بسی اور مجبوری کو دخل ہوتو اگرچہ وہ بظاہر اس پر راضی ہوں،تاہم شریعت کی رو سے یہ باطل طریقے ہیں جنھیں حرام ٹھہرایا گیا ہے،اس لیے لین دین اور باہمی تجارت نہ تو کسی دباؤ سے ہو اور نہ اس میں فریب اور ضرر ہی کو دخل ہو۔اگرچہ خریدوفروخت کی حلت قرآنی نص سے ثابت ہے لیکن ہر قسم کی خریدوفروخت حلال نہی بلکہ مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ اسے جائز قرار دیا گیا ہے:(1) فریقین باہمی رضامندی سے سودا کریں۔(2)خریدی ہوئی چیز اور اس کا معاوضہ مجہول نہ ہو۔(3)قابل فروخت چیز فرخت کرنے والے کی ملکیت ہو اور وہ اسے خریدار کے حوالے کرنے پر قادر ہو۔(4)فروخت ہونے والی چیز میں کسی قسم کا عیب چھپا ہوانہ ہو۔(5) کسی حرام چیز کی خریدوفروخت نہ ہو اور نہ اس میں سود کو بطور حیلہ جائز قرار دیا گیا ہو۔(6)اس خریدوفروخت اور تجارت میں کسی فریق کو دھوکا دینا مقصود نہ ہو۔ (7)اس تجارتی لین دین میں حق رجوع کو برقرار رکھا گیا ہو۔کتب حدیث میں خریدو فروخت کی تقریباً تیس اقسام کو انھی وجہ سے ھرام ٹھہرایا گیا ہے۔ ہم ان کی آئندہ وضاحت کریں گے۔علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :امام بخاری رحمہ اللہ نے عبادات کے بیان سے فراغت کے بعد معاملات کا آغاز فرمایا کیونکہ عبادات سے مراد فوائد اخروی حاصل کرنا ہے جبکہ معاملات سے دنیوی مفاد پیش نظر ہوتا ہے۔عبادات چونکہ اہم ہیں،اس لیے انھیں مقدم کیا۔معاملات کا تعلق ضروریات سے ہے،اس لیے انھیں عبادات کے بعد بیان کیا ہے،پھر معاملات میں سے خریدوفروخت کے مسائل کو پہلے بیان کیا ہے کیونکہ زندگی میں اکثر وبیشتر اس سے واسطہ پڑتا ہے۔( عمدۃ القاری:8/291)حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:تمام اہل اسلام نے خریدو فروخت کے جواز پر اتفاق کیا ہے اور عقل وحکمت بھی اس کے جواز کا تقاضا کرتی ہے کیونکہ انسانی ضروریات اس سے پوری ہوتی ہیں۔( فتح الباری:4/364) امام بخاری رحمہ اللہ نے خریدوفروخت کے مسائل پر مشتمل دوسوسینتالیس مرفوع احادیث بیان کی ہیں۔ان میں چھیالیس معلق ہیں جبکہ باقی احادیث کو متصل سند سے بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی باون آثار بھی بیان کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر ایک سوتیرہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو علم معیشت میں اساسی قواعد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ان قواعد واصول سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجارت کے نام پر لوٹ مار کے کھلے راستوں کے ساتھ ساتھ ان تمام پوشیدہ راہوں کو بھی بند کردیا ہے جو تجارت کو عدل وانصاف اور خیر خواہی سے ہٹا کر ظلم وزیادتی کے ساتھ دولت سمیٹنے کی طرف لے جانے والے ہیں،آپ نے انتہائی باریک بینی سے نظام تجارت کا جائزہ لیا اور اس کی حدود وقیود متعین فرما کر عمل تجارت کو ہر طرح کے ظلم اور استحصالی ہتھکنڈوں سے پاک کردیا۔ ہمیں چاہیے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے عنوانات کی روشنی میں اپنی تجارت کو ان اصولوں پر استوار کریں جو مکمل طور پر انسانی فلاح وبہبود کی ضمانت دیتے ہیں۔قارئین سے استدعا ہے کہ كتاب البيوع کا مطالعہ کرتے وقت ہماری معروضات کو ضرور پیش نظر رکھیں۔اللہ تعالیٰ حق بینی اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے ۔ آمين
سیاق وسباق اور پس منظر کے اعتبار سے پہلی آیت کفار کے جواب میں ہے جنہوں نے کہا تھا:" تجارت بھی تو آخر سود ہی جیسی چیز ہے" یعنی جب تجارت میں لگے ہوئے روپے کا منافع جائز ہے تو قرض پر دیے ہوئے روپے کا منافع کیوں ناجائز ہے۔اور دوسری آیت سے مقصود یہ ہے کہ اگرچہ روز مرہ کی خریدوفروخت میں بھی معاملۂ بیع کا تحریر میں آجانا بہتر ہے جیسا کہ آج کل کیش میمو لکھنے کا طریقہ رائج ہے،تاہم ایسا کرنا لازم نہیں بلکہ اسے تحریر میں لائے بغیر معاملہ طے کیا جاسکتا ہے لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے ان ہر دو آیات سے خریدوفروخت کی مشروعیت کو ثابت کیا ہے۔حافظ عینی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:انسان طبعی طور پر لالچی واقع ہوا ہے ،دوسروں کی چیز کو للچائی ہوئی نگاہوں سے دیکھنے کا عادی ہے، اگر اسے ضرورت ہو تو چوری، ڈکیتی، لوٹ، کھسوٹ اور دھوکا فریب سے اسے حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے اس کے حصول کے لیے خریدو فروخت کا معاملہ مشروع قرار دیا ہے تاکہ کسی پر ظلم اور زیادتی نہ ہو،امن اور آتشی کے ساتھ لوگ زندگی بسر کریں۔( عمدۃ القاری:8/292)
تمہید باب
یہ روایت خود امام بخاری رحمہ اللہ نے متصل سند سے بیان کی ہے۔( صحیح البخاری،البیوع،حدیث:2090)عنوان کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں یہ پیشہ موجود تھا اور آپ نے اس پر کسی قسم کا انکار نہیں فرمایا،اس لیے یہ پیشہ اختیار کرنا جائز ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے شاید ایک حدیث کے ضعف کی طرف اشارہ کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"لوگوں میں سب زیادہ جھوٹ بولنے والے رنگ سازاور زرگر ہیں۔"اسے امام احمد رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے لیکن اس کی سند مضطرب ہے،لہٰذا قابل حجت نہیں۔( مسند احمد:2/292،وفتح الباری:4/401) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس قسم کی احادیث پر مختلف عنوانات قائم کرکے یہ رہنمائی فرمائی ہےکہ دست کاری کی یہ کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ہوا کرتے تھے اور آپ نے ان کے متعلق کوئی امتناعی حکم جاری نہیں فرمایا۔اس طرز عمل سے ان صنعتوں کا جواز ثابت ہوتا ہے۔ والله اعلم.
اور طاؤس نے ابن عباس ؓ سے نقل کیا ہے کہ نبی کریمﷺ نے ( حجۃ الوداع کے موقع پر حرم کی حرمت بیان کرتے ہوئے ) فرمایا تھا کہ حرم کی گھاس نہ کاٹی جائے، اس پر عباس ؓ نے عرض کیا کہ اذخر ( ایک خاص قسم کی گھاس ) کی اجازت دے دیجئے۔ کیوں کہ یہ یہاں کے سوناروں اور لوہاروں اور گھروں کے کام آتی ہے، تو آپ نے فرمایا، اچھا اذخر کاٹ لیا کرو۔ اس حدیث سے امام بخاری نے یہ نکالا کہ سناری کا پیشہ آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں بھی تھا۔ اور آپﷺ نے اس سے منع نہیں فرمایا۔ تو یہ پیشہ جائز ہوا۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ باب لاکر اس حدیث کے ضعف کی طرف اشادہ فرمایا ہے جسے امام احمد نے نکالا ہے جس میں مذکور ہے کہ سب سے زیادہ جھوٹے سنار اور رنگریز ہوا کرتے ہیں اس کی سند میں اضطراب ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ مال غنیمت میں سے مجھے ایک اونٹ حصے میں ملا اور نبی ﷺ نے مجھے ایک اور اونٹ خمس میں سےدیا۔ جب میں نے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بنت رسول اللہ ﷺ کی رخصتی کرانے کا ارادہ کیا تو بنو قینقاع کے ایک زرگر سے طے کیا کہ وہ میرے ساتھ چلے اور ہم اذخر کاٹ کر لائیں۔ میرا ارادہ یہ تھا کہ میں اسے سناروں کے پاس فروخت کرکے اپنی شادی کے ولیمے میں اس سے کچھ مدد حاصل کروں گا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: "حرم کی گھاس نہ کاٹی جائے۔ "تو حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا: مگر اذخر! کیونکہ وہ ان کے(ہمارے)زرگروں اور گھروں کے کام آتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہاں اذخر کاٹنے میں کوئی حرج نہیں۔ "
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبدان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ ہمیں یونس نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابن شہاب نے، انہوں نے کہا کہ ہمیں زین العابدین علی بن حسین ؓ نے خبر دی، انہیں حسین بن علی ؓ نے خبر دی کہ علی ؓ نے فرمایا کہ غنیمت کے مال میں سے میرے حصے میں ایک اونٹ آیا تھا اور ایک دوسرا اونٹ مجھے نبی کریم ﷺ نے ” خمس “ میں سے دیا تھا۔ پھر جب میرا ارادہ رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی فاطمہ ؓاکی رخصتی کراکے لانے کا ہوا تو میں نے بنی قینقاع کے ایک سنار سے طے کیا کہ وہ میرے ساتھ چلے اور ہم دونوں مل کر اذخر گھاس ( جمع کرکے ) لائیں کیوں کہ میرا ارادہ تھا کہ اسے سناروں کے ہاتھ بیچ کر اپنی شادمی کے ولیمہ میں اس کی قیمت کو لگاؤں۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں بھی سناروں کا ذکر ہے۔ جس سے عہد رسالت میں اس پیشہ کا ثبوت ملتا ہے اور یہ بھی ثابت ہوا کہ رزق حلال تلاش کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہ ہونی چاہئے۔ جیسا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خود جاکر جنگل سے اذخر گھاس جمع کرکے فروخت کی اور یہ بھی معلوم ہوا کہ ولیمہ دولہا کی طرف سے ہوتا ہے۔ بنی قینقاع مدینہ میں یہودیوںکے ایک خاندان کا نام تھا۔ علی بن حسین امام زین العابدین کا نام ہے جو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے بیٹے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پوتے ہیں۔ کنیت ابوالحسن ہے۔ اکابر سادات میں سے تھے۔ تابعین میں جلیل القدر اور شہرت یافتہ تھے۔ امام زہری نے فرمایا کہ قریش میں کسی کو میں نے ان سے بہتر نہیں پایا۔ 94ھ میں اتنقال فرمایا۔ بعض لوگوں نے اعتراض کیا ہے کہ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ائمہ اثنا عشرہ کی روایتیں نہیں لی ہیں۔ ان معترضین کے جواب میں امام زین العابدین کی یہ روایت موجو دہے جو ائمہ اثنا عشر میں بڑا مقام رکھتے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Ali (RA): I got an old she-camel as my share from the booty, and the Prophet (ﷺ) had given me another from Al-Khumus. And when I intended to marry Fatima (daughter of the Prophet), I arranged that a goldsmith from the tribe of Bani Qainuqa' would accompany me in order to bring Idhkhir and then sell it to the goldsmiths and use its price for my marriage banquet. ________