باب:اگر ایک شخص نے کوئی چیز خریدی اور جدا ہونے سے پہلے ہی کسی اور کو للہ دے دی پھر بیچنے والے نے خریدنے والے کو اس پر نہیں ٹوکا، یا کوئی غلام خرید کر ( بیچنے والے سے جدائی سے پہلے ہی اسے ) آزاد کر دیا
)
Sahi-Bukhari:
Sales and Trade
(Chapter: To buy a thing and give it as a present)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
۔ طاؤس نے اس شخص کے متعلق کہا، جو ( فریق ثانی کی ) رضا مندی کے بعد کوئی سامان اس سے خریدے اور پھر اسے بیچ دے اور بائع انکار نہ کرے تو یہ بیع لازم ہو جائے گی۔ اور اس کا نفع بھی خریدار ہی کا ہوگا۔
2115.
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ ہم کسی سفر میں نبی ﷺ کے ہمراہ تھے اور میں حضرت عمر ؓ کے ایک سر کش اونٹ پر سوار تھا۔ وہ اونٹ میرے قابو میں نہ آتا تھا اور سب سے آگے بڑھ جاتا تھا۔ حضرت عمر ؓ اسے ڈانٹ کر پیچھے کردیتے مگر وہ پھر آگے بڑھ جاتا تھا۔ حضرت عمر ؓ اسے پھر ڈانٹ کر پیچھے کر دیتے۔ نبی ﷺ نے حضرت عمر ؓ سے فرمایا: ’’تم اسے میرے ہاتھ فروخت کردو۔‘‘ انھوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ !وہ آپ ہی کا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تم اسے میرے ہاتھ فروخت کردو۔‘‘ چنانچہ انھوں نے وہ اونٹ رسول اللہ ﷺ کو فروخت کردیا۔ اس کے بعد نبی ﷺ نے فرمایا: ’’عبد اللہ بن عمر! یہ اونٹ تمھاراہے اس کے ساتھ جو چاہو سلوک کرو۔‘‘
تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے عنوان میں شرط کے ساتھ اس کا جواب ذکر نہیں کیا کیونکہ مذکورہ مسئلے میں فقہاء کا اختلاف ہے۔ صورت مسئلہ یہ ہے کہ اگر کسی نے کوئی چیز خریدی اور جدا ہونے سے پہلے ہی فوراً کسی کو ہبہ کردی، اس پر بائع نے مشتری پر کوئی اعتراض نہ کیا بلکہ اس کے فعل پر خاموش رہ کر اپنی رضامندی کو ظاہر کیا تو بیع جائز ہے۔ اگر بائع نے انکار کردیا اور اس معاملے پر راضی نہ ہوا تو بیع جائز نہیں ہوگی کیونکہ انعقاد بیع کے لیے جسمانی علیحدگی ضروری تھی،لیکن مذکورہ صورت میں بائع کے خاموش رہنے سے خیار مجلس ختم ہوجاتا ہے۔اس حدیث میں صرف ہبہ کا ذکر ہے۔امام بخاری ؒ نے غلام آزاد کرنے کو ہبہ پر قیاس کیا کیونکہ دونوں عطیہ کرنے کی قسم سے ہیں۔(2) ابن بطال نے کہا ہے:جن حضرات کے نزدیک تفرق ابدان کے بغیر بیع پوری نہیں ہوتی اور وہ مشتری کا تصرف قبل ازتفرق جائز خیال نہیں کرتے یہ حدیث ان کے خلاف حجت ہے۔(فتح الباري424/4)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2054
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2115
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2115
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2115
تمہید کتاب
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اللہ نے تجارت کوحلال کیا ہے۔ اور سود کو حرام قراردیا ہے۔ "
نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا؛"ہاں جوتجارتی لین دین دست بدست تم لوگ کرتے ہو(اس کو نہ لکھا جائے تو کوئی حرج نہیں)"
فائدہ:سود، جوا اور رشوت لینے دینے میں بھی باہمی رضا مندی پائی جاتی ہے لیکن یہ حقیقی نہیں بلکہ اضطراری ہوتی ہے کیونکہ سود پر قرض لینے والے کو قرض حسنہ مل سکتا ہوتو وہ کبھی سود پر قرض نہ لے۔ جوا کھیلنے والا اس لیے رضا مند ہوتا ہے کہ ان میں سے ہرایک کو اپنے جیتنے کی امید ہوتی ہے اور اگر کسی کوہارنے کا اندیشہ ہوتو وہ کبھی جوا نہیں کھیلے گا۔ اسی طرح اگر رشوت دینے والے کو معلوم ہوکہ اسے رشوت دیے بغیر حق مل سکتاہے تو وہ کبھی رشوت نہ دے۔ اس کے علاوہ اگر سودے بازی میں ایک فریق کی پوری رضا مندی نہ ہو اور اسے اس پر مجبور کردیا جائے تو وہ بھی اس ضمن میں آتا ہے۔
انسانی معاشرے کو تعلقات کے اعتبار سے دوحصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے،چنانچہ انسان اپنے خالق سے تعلق قائم کرتا ہے اسے ہم عبادات سے تعبیر کرتے ہیں۔اقرار شہادتین، نماز، زکاۃ، حج اور روزہ وغیرہ اسی تعلق مع اللہ کے مظاہر ہیں۔دوسرے یہ کے انسان کو اپنے جیسے دوسرے انسانوں سے واسطہ پڑتا ہے اسے معاملات کا نام دیا جاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے عبادات سے فراغت کے بعد اب معاملات کا آغاز کیا ہے۔انسانوں کی فطری ساخت ایسی ہے کہ وہ زندگی گزارنے کے لیے باہمی تعاون اور ایک دوسرے سے لین دین کے محتاج ہیں۔معاشرتی طور پر ہر فرد اور ہر طبقے کی ضرورت دوسرے سے وابستہ ہے،چنانچہ ایک مزدور انسان جس کی ضروریات زندگی بہت مختصر ہیں،اسے بھی اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے ک لیے ایسے آدمی کی ضرورت ہے جس سے وہ غلہ وغیرہ لے سکے ،پھر کاشتکار کو اس مزدور کی ضرورت ہے جس سے وہ کھیتی باڑی کے کاموں میں مدد لے سکے ،پھر ان دونوں کو ایک ایسا آدمی درکار ہے جو ان کی ستر پوشی کے لیے کپڑا تیار کرے،پھر سر چھپانے کے لیے مکان اور بیماری کی صورت میں علاج معالجے کی ضرورت ہے۔الغرض اشیاء کی خریدو فروخت، محنت ومزدوری، صنعت وزراعت اور دیگر معاشی معاملات انسانی زندگی کے لوازم ہیں۔اللہ تعالیٰ نے اس سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے جس پر عمل پیرا ہوکر دنیا وآخرت میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ان احکام پر عمل کرنا دنیا نہیں بلکہ عین دین اور عین عبادت ہے اور اس پر اسی طرح اجرو ثواب کا وعدہ ہے جس طرح نماز، روزے اور دیگر عبادات کی ادائیگی پر ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے معاملات کا آغاز كتاب البيوع سے فرمایا ہے۔لفظ بيوع بيع کی جمع ہے ۔اس کے معنی فروخت کرنا ہیں۔بعض اوقات خریدنے کے معنی میں بھی یہ لفظ کا استعمال ہوتا ہے۔شرعی اصطلاح میں کسی چیز کا مالک بننے کے ارادے سے مال کا مال کے ساتھ تبادلہ کرنا بیع کہلاتا ہے۔یہ خریدوفروخت اور تجارت انسانی ضروریات پوری کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔تجارت کے حسب ذیل چار بنیادی اجزاء ہیں: (1) مشتری (خریدار)(2)بائع (فروخت کار)(3)بیع(مال تجارت)(4)بیع (معاہدۂ تجارت)۔قرآن کریم نے تجارت کے لیے باہمی رضامندی کو بنیادی اصول قرار دیا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ فریقین کا خریدو فروخت کے ہر پہلو پر مطلع ہو کر اپنے آزاد فیصلے سے معاہدۂ تجارت پر رضامند ہونا ضروری ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَن تَكُونَ تِجَارَةً عَن تَرَاضٍ مِّنكُمْ ۚ وَلَا تَقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا ﴿٢٩﴾) اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کا مال باطل طریقے سے مت کھاؤ مگریہ کے آپس کی رضامندی سے تجارت ہو،اور تم اپنے آپ کو قتل نہ کرو،بے شک اللہ تم پر بہت رحم کرنے والا ہے۔"( النساء29:4)باطل طریقے سے مراد لین دین کاروبار اور تجارت کے دو طریقے ہیں جن میں فریقین کی حقیقی رضامندی یکساں طور پر نہیں پائی جاتی بلکہ اس میں ایک فریق کا تو مفاد ملحوظ رہتا ہے جبکہ دوسرا دھوکے یا نقصان کا نشانہ بنتا ہے۔اگر کسی معاملے میں دھوکا پایا جائے یا اس میں ایک فریق کی بے بسی اور مجبوری کو دخل ہوتو اگرچہ وہ بظاہر اس پر راضی ہوں،تاہم شریعت کی رو سے یہ باطل طریقے ہیں جنھیں حرام ٹھہرایا گیا ہے،اس لیے لین دین اور باہمی تجارت نہ تو کسی دباؤ سے ہو اور نہ اس میں فریب اور ضرر ہی کو دخل ہو۔اگرچہ خریدوفروخت کی حلت قرآنی نص سے ثابت ہے لیکن ہر قسم کی خریدوفروخت حلال نہی بلکہ مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ اسے جائز قرار دیا گیا ہے:(1) فریقین باہمی رضامندی سے سودا کریں۔(2)خریدی ہوئی چیز اور اس کا معاوضہ مجہول نہ ہو۔(3)قابل فروخت چیز فرخت کرنے والے کی ملکیت ہو اور وہ اسے خریدار کے حوالے کرنے پر قادر ہو۔(4)فروخت ہونے والی چیز میں کسی قسم کا عیب چھپا ہوانہ ہو۔(5) کسی حرام چیز کی خریدوفروخت نہ ہو اور نہ اس میں سود کو بطور حیلہ جائز قرار دیا گیا ہو۔(6)اس خریدوفروخت اور تجارت میں کسی فریق کو دھوکا دینا مقصود نہ ہو۔ (7)اس تجارتی لین دین میں حق رجوع کو برقرار رکھا گیا ہو۔کتب حدیث میں خریدو فروخت کی تقریباً تیس اقسام کو انھی وجہ سے ھرام ٹھہرایا گیا ہے۔ ہم ان کی آئندہ وضاحت کریں گے۔علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :امام بخاری رحمہ اللہ نے عبادات کے بیان سے فراغت کے بعد معاملات کا آغاز فرمایا کیونکہ عبادات سے مراد فوائد اخروی حاصل کرنا ہے جبکہ معاملات سے دنیوی مفاد پیش نظر ہوتا ہے۔عبادات چونکہ اہم ہیں،اس لیے انھیں مقدم کیا۔معاملات کا تعلق ضروریات سے ہے،اس لیے انھیں عبادات کے بعد بیان کیا ہے،پھر معاملات میں سے خریدوفروخت کے مسائل کو پہلے بیان کیا ہے کیونکہ زندگی میں اکثر وبیشتر اس سے واسطہ پڑتا ہے۔( عمدۃ القاری:8/291)حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:تمام اہل اسلام نے خریدو فروخت کے جواز پر اتفاق کیا ہے اور عقل وحکمت بھی اس کے جواز کا تقاضا کرتی ہے کیونکہ انسانی ضروریات اس سے پوری ہوتی ہیں۔( فتح الباری:4/364) امام بخاری رحمہ اللہ نے خریدوفروخت کے مسائل پر مشتمل دوسوسینتالیس مرفوع احادیث بیان کی ہیں۔ان میں چھیالیس معلق ہیں جبکہ باقی احادیث کو متصل سند سے بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی باون آثار بھی بیان کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر ایک سوتیرہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو علم معیشت میں اساسی قواعد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ان قواعد واصول سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجارت کے نام پر لوٹ مار کے کھلے راستوں کے ساتھ ساتھ ان تمام پوشیدہ راہوں کو بھی بند کردیا ہے جو تجارت کو عدل وانصاف اور خیر خواہی سے ہٹا کر ظلم وزیادتی کے ساتھ دولت سمیٹنے کی طرف لے جانے والے ہیں،آپ نے انتہائی باریک بینی سے نظام تجارت کا جائزہ لیا اور اس کی حدود وقیود متعین فرما کر عمل تجارت کو ہر طرح کے ظلم اور استحصالی ہتھکنڈوں سے پاک کردیا۔ ہمیں چاہیے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے عنوانات کی روشنی میں اپنی تجارت کو ان اصولوں پر استوار کریں جو مکمل طور پر انسانی فلاح وبہبود کی ضمانت دیتے ہیں۔قارئین سے استدعا ہے کہ كتاب البيوع کا مطالعہ کرتے وقت ہماری معروضات کو ضرور پیش نظر رکھیں۔اللہ تعالیٰ حق بینی اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے ۔ آمين
سیاق وسباق اور پس منظر کے اعتبار سے پہلی آیت کفار کے جواب میں ہے جنہوں نے کہا تھا:" تجارت بھی تو آخر سود ہی جیسی چیز ہے" یعنی جب تجارت میں لگے ہوئے روپے کا منافع جائز ہے تو قرض پر دیے ہوئے روپے کا منافع کیوں ناجائز ہے۔اور دوسری آیت سے مقصود یہ ہے کہ اگرچہ روز مرہ کی خریدوفروخت میں بھی معاملۂ بیع کا تحریر میں آجانا بہتر ہے جیسا کہ آج کل کیش میمو لکھنے کا طریقہ رائج ہے،تاہم ایسا کرنا لازم نہیں بلکہ اسے تحریر میں لائے بغیر معاملہ طے کیا جاسکتا ہے لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے ان ہر دو آیات سے خریدوفروخت کی مشروعیت کو ثابت کیا ہے۔حافظ عینی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:انسان طبعی طور پر لالچی واقع ہوا ہے ،دوسروں کی چیز کو للچائی ہوئی نگاہوں سے دیکھنے کا عادی ہے، اگر اسے ضرورت ہو تو چوری، ڈکیتی، لوٹ، کھسوٹ اور دھوکا فریب سے اسے حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے اس کے حصول کے لیے خریدو فروخت کا معاملہ مشروع قرار دیا ہے تاکہ کسی پر ظلم اور زیادتی نہ ہو،امن اور آتشی کے ساتھ لوگ زندگی بسر کریں۔( عمدۃ القاری:8/292)
تمہید باب
عنوان میں بیان کردہ دونوں صورتوں میں بائع کو فسخ بیع کا اختیار نہ رہے گا کیونکہ اس نے مشتری کے تصرف پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ امام بخاری رحمہ اللہ کی اس عنوان سے غرض یہ ہے کہ ان احادیث سے خیار مجلس کی نفی نہیں ہوتی جس کا ثبوت حضرت ابن عمر اور حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہم سے مروی احادیث سے ملتا ہے۔ان احادیث کے اعتبار سے خیار اس لیے ختم ہوا کہ مشتری نے تصرف کیا اور بائع نے اس پر سکوت اختیار کیا۔گویا اس کے سکوت(خاموشی)نے اس کے خیار مجلس کو ختم کردیا ہے۔
۔ طاؤس نے اس شخص کے متعلق کہا، جو ( فریق ثانی کی ) رضا مندی کے بعد کوئی سامان اس سے خریدے اور پھر اسے بیچ دے اور بائع انکار نہ کرے تو یہ بیع لازم ہو جائے گی۔ اور اس کا نفع بھی خریدار ہی کا ہوگا۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ ہم کسی سفر میں نبی ﷺ کے ہمراہ تھے اور میں حضرت عمر ؓ کے ایک سر کش اونٹ پر سوار تھا۔ وہ اونٹ میرے قابو میں نہ آتا تھا اور سب سے آگے بڑھ جاتا تھا۔ حضرت عمر ؓ اسے ڈانٹ کر پیچھے کردیتے مگر وہ پھر آگے بڑھ جاتا تھا۔ حضرت عمر ؓ اسے پھر ڈانٹ کر پیچھے کر دیتے۔ نبی ﷺ نے حضرت عمر ؓ سے فرمایا: ’’تم اسے میرے ہاتھ فروخت کردو۔‘‘ انھوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ !وہ آپ ہی کا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تم اسے میرے ہاتھ فروخت کردو۔‘‘ چنانچہ انھوں نے وہ اونٹ رسول اللہ ﷺ کو فروخت کردیا۔ اس کے بعد نبی ﷺ نے فرمایا: ’’عبد اللہ بن عمر! یہ اونٹ تمھاراہے اس کے ساتھ جو چاہو سلوک کرو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری ؒ نے عنوان میں شرط کے ساتھ اس کا جواب ذکر نہیں کیا کیونکہ مذکورہ مسئلے میں فقہاء کا اختلاف ہے۔ صورت مسئلہ یہ ہے کہ اگر کسی نے کوئی چیز خریدی اور جدا ہونے سے پہلے ہی فوراً کسی کو ہبہ کردی، اس پر بائع نے مشتری پر کوئی اعتراض نہ کیا بلکہ اس کے فعل پر خاموش رہ کر اپنی رضامندی کو ظاہر کیا تو بیع جائز ہے۔ اگر بائع نے انکار کردیا اور اس معاملے پر راضی نہ ہوا تو بیع جائز نہیں ہوگی کیونکہ انعقاد بیع کے لیے جسمانی علیحدگی ضروری تھی،لیکن مذکورہ صورت میں بائع کے خاموش رہنے سے خیار مجلس ختم ہوجاتا ہے۔اس حدیث میں صرف ہبہ کا ذکر ہے۔امام بخاری ؒ نے غلام آزاد کرنے کو ہبہ پر قیاس کیا کیونکہ دونوں عطیہ کرنے کی قسم سے ہیں۔(2) ابن بطال نے کہا ہے:جن حضرات کے نزدیک تفرق ابدان کے بغیر بیع پوری نہیں ہوتی اور وہ مشتری کا تصرف قبل ازتفرق جائز خیال نہیں کرتے یہ حدیث ان کے خلاف حجت ہے۔(فتح الباري424/4)
ترجمۃ الباب:
حضرت طاؤس نے اس شخص کے متعلق کہا: جو(فریق ثانی کی)رضا مندی سے کوئی سامان خریدے پھر(جداہونے سے قبل)اسے فروخت کردے تو یہ بیع لازم ہوجائےگی۔ اور اس کا نفع بھی خریدارہی کا ہو گا
حدیث ترجمہ:
حمیدی نے کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عمرو نے بیان کیا اور ان سے ابن عمر ؓ نے کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھے۔ میں حضرت عمر ؓ کے ایک نئے اور سرکش اونٹ پر سوار تھا۔ اکثر وہ مجھے مغلوب کرکے سب سے آگے نکل جاتا، لیکن حضرت عمر ؓ اسے ڈانٹ کر پیچھے واپس کردیتے۔ وہ پھر آگے بڑھ جاتا۔ آخر نبی کریم ﷺ نے حضرت عمر ؓ سے فرمایا کہ یہ اونٹ مجھے بیچ ڈال۔ حضرت عمر ؓ نے کہا یا رسول اللہ ! یہ تو آپ ہی کا ہے۔ لیکن آپ نے فرمایا کہ نہیں مجھے یہ اونٹ دے دے۔ چنانچہ عمر ؓ نے رسول اللہ ﷺ کو وہ اونٹ بیچ ڈالا۔ اس کے بعد آنحضرت ﷺ نے فرمایا، عبداللہ بن عمر ! اب یہ اونٹ تیرا ہوگیا جس طرح تو چاہے اسے استعمال کر۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Umar (ra) : We were accompanying the Prophet (ﷺ) on a journey and I was riding an unmanageable camel belonging to 'Umar (ra), and I could not bring it under my control. So, it used to go ahead of the party and 'Umar would check it and force it to retreat, and again it went ahead and again 'Umar forced it to retreat. The Prophet (ﷺ) asked 'Umar to sell that camel to him. 'Umar replied, "It is for you O Allah's Messenger !" Allah's Messenger (ﷺ) told 'Umar to sell that camel to him (not to give it as gift). So, 'Umar sold it to Allah's Messenger (ﷺ) Then the Prophet (ﷺ) said to 'Abdullah bin 'Umar "This camel is for you O 'Abdullah (as a present) and you could do with it whatever you like."