مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
امام مالک نے کہا کہ عریہ یہ ہے کہ کوئی شخص ( کسی باغ کا مالک اپنے باغ میں ) دوسرے شخص کو کھجور کا درخت ( ہبہ کے طور پر ) دے دے، پھر اس شخص کا باغ میں آنا اچھا نہ معلوم ہو، تو اس صورت میں وہ شخص ٹوٹی ہوئی کھجور کے بدلے میں اپنا درخت ( جسے وہ ہبہ کرچکا ہے ) خرید لے اس کی اس کے لیے رخصت دی گئی ہے اور ابن ادریس ( اما م شافعی ) نے کہا کہ عریہ جائز نہیں ہوتا مگر ( پانچ وسق سے کم میں ) سوکھی کھجور ناپ کر ہاتھوں ہاتھ دے دے یہ نہیں کہ دونوں طرف اندازہ ہو۔ اور اس کی تائید سہل بن ابی حثمہ ؓ کے قول سے بھی ہوتی ہے کہ وسق سے ناپ کر کھجور دی جائے۔ ابن اسحاق ہ نے اپنی حدیث میں نافع سے بیان کیا او رانہوں نے ابن عمر ؓ سے بیان کیا کہ عریہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے باغ میں کھجور کے ایک دو درخت کسی کو عاریتاً دے دے اور یزید نے سفیان بن حسین سے بیان کی کہ عریہ کھجور کے اس درخت کو کہتے ہیں جو مسکینوں کو للہ دے دیا جائے، لیکن وہ کھجور کے پکنے کا انتظار نہیں کرسکتے تو آنحضرت ﷺنے انہیں اس کی اجازت دی کہ جس قدر سوکھی کھجور کے بدل چاہیں اور جس کے ہاتھ چاہیں بیچ سکتے ہیں۔
2192.
حضرت زید بن ثابت ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عرایا کے متعلق اجازت دی کہ انھیں اندازے سے ناپ کر فروخت کیاجائے۔ حضرت موسیٰ بن عقبہ کہتے ہیں کہ عرایا چند معین کھجوریں ہیں جن کا پھل اتری ہوئی کھجوروں کے عوض خریدا جاتا ہے۔
تشریح:
راوی نے عرایا کی تفسیر میں اختصار سے کام لیا ہے کیونکہ اس میں درخت پر لگی ہوئی کھجوروں کو خشک کھجوروں کے عوض خریدا جاتا ہے۔ چونکہ عرایا میں یہ امر معروف ہے، اس لیےاس کا ذکر نہیں کیا گیا۔ والله أعلم.
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2128
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2192
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2192
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2192
تمہید کتاب
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اللہ نے تجارت کوحلال کیا ہے۔ اور سود کو حرام قراردیا ہے۔ "
نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا؛"ہاں جوتجارتی لین دین دست بدست تم لوگ کرتے ہو(اس کو نہ لکھا جائے تو کوئی حرج نہیں)"
فائدہ:سود، جوا اور رشوت لینے دینے میں بھی باہمی رضا مندی پائی جاتی ہے لیکن یہ حقیقی نہیں بلکہ اضطراری ہوتی ہے کیونکہ سود پر قرض لینے والے کو قرض حسنہ مل سکتا ہوتو وہ کبھی سود پر قرض نہ لے۔ جوا کھیلنے والا اس لیے رضا مند ہوتا ہے کہ ان میں سے ہرایک کو اپنے جیتنے کی امید ہوتی ہے اور اگر کسی کوہارنے کا اندیشہ ہوتو وہ کبھی جوا نہیں کھیلے گا۔ اسی طرح اگر رشوت دینے والے کو معلوم ہوکہ اسے رشوت دیے بغیر حق مل سکتاہے تو وہ کبھی رشوت نہ دے۔ اس کے علاوہ اگر سودے بازی میں ایک فریق کی پوری رضا مندی نہ ہو اور اسے اس پر مجبور کردیا جائے تو وہ بھی اس ضمن میں آتا ہے۔
انسانی معاشرے کو تعلقات کے اعتبار سے دوحصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے،چنانچہ انسان اپنے خالق سے تعلق قائم کرتا ہے اسے ہم عبادات سے تعبیر کرتے ہیں۔اقرار شہادتین، نماز، زکاۃ، حج اور روزہ وغیرہ اسی تعلق مع اللہ کے مظاہر ہیں۔دوسرے یہ کے انسان کو اپنے جیسے دوسرے انسانوں سے واسطہ پڑتا ہے اسے معاملات کا نام دیا جاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے عبادات سے فراغت کے بعد اب معاملات کا آغاز کیا ہے۔انسانوں کی فطری ساخت ایسی ہے کہ وہ زندگی گزارنے کے لیے باہمی تعاون اور ایک دوسرے سے لین دین کے محتاج ہیں۔معاشرتی طور پر ہر فرد اور ہر طبقے کی ضرورت دوسرے سے وابستہ ہے،چنانچہ ایک مزدور انسان جس کی ضروریات زندگی بہت مختصر ہیں،اسے بھی اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے ک لیے ایسے آدمی کی ضرورت ہے جس سے وہ غلہ وغیرہ لے سکے ،پھر کاشتکار کو اس مزدور کی ضرورت ہے جس سے وہ کھیتی باڑی کے کاموں میں مدد لے سکے ،پھر ان دونوں کو ایک ایسا آدمی درکار ہے جو ان کی ستر پوشی کے لیے کپڑا تیار کرے،پھر سر چھپانے کے لیے مکان اور بیماری کی صورت میں علاج معالجے کی ضرورت ہے۔الغرض اشیاء کی خریدو فروخت، محنت ومزدوری، صنعت وزراعت اور دیگر معاشی معاملات انسانی زندگی کے لوازم ہیں۔اللہ تعالیٰ نے اس سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے جس پر عمل پیرا ہوکر دنیا وآخرت میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ان احکام پر عمل کرنا دنیا نہیں بلکہ عین دین اور عین عبادت ہے اور اس پر اسی طرح اجرو ثواب کا وعدہ ہے جس طرح نماز، روزے اور دیگر عبادات کی ادائیگی پر ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے معاملات کا آغاز كتاب البيوع سے فرمایا ہے۔لفظ بيوع بيع کی جمع ہے ۔اس کے معنی فروخت کرنا ہیں۔بعض اوقات خریدنے کے معنی میں بھی یہ لفظ کا استعمال ہوتا ہے۔شرعی اصطلاح میں کسی چیز کا مالک بننے کے ارادے سے مال کا مال کے ساتھ تبادلہ کرنا بیع کہلاتا ہے۔یہ خریدوفروخت اور تجارت انسانی ضروریات پوری کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔تجارت کے حسب ذیل چار بنیادی اجزاء ہیں: (1) مشتری (خریدار)(2)بائع (فروخت کار)(3)بیع(مال تجارت)(4)بیع (معاہدۂ تجارت)۔قرآن کریم نے تجارت کے لیے باہمی رضامندی کو بنیادی اصول قرار دیا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ فریقین کا خریدو فروخت کے ہر پہلو پر مطلع ہو کر اپنے آزاد فیصلے سے معاہدۂ تجارت پر رضامند ہونا ضروری ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَن تَكُونَ تِجَارَةً عَن تَرَاضٍ مِّنكُمْ ۚ وَلَا تَقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا ﴿٢٩﴾) اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کا مال باطل طریقے سے مت کھاؤ مگریہ کے آپس کی رضامندی سے تجارت ہو،اور تم اپنے آپ کو قتل نہ کرو،بے شک اللہ تم پر بہت رحم کرنے والا ہے۔"( النساء29:4)باطل طریقے سے مراد لین دین کاروبار اور تجارت کے دو طریقے ہیں جن میں فریقین کی حقیقی رضامندی یکساں طور پر نہیں پائی جاتی بلکہ اس میں ایک فریق کا تو مفاد ملحوظ رہتا ہے جبکہ دوسرا دھوکے یا نقصان کا نشانہ بنتا ہے۔اگر کسی معاملے میں دھوکا پایا جائے یا اس میں ایک فریق کی بے بسی اور مجبوری کو دخل ہوتو اگرچہ وہ بظاہر اس پر راضی ہوں،تاہم شریعت کی رو سے یہ باطل طریقے ہیں جنھیں حرام ٹھہرایا گیا ہے،اس لیے لین دین اور باہمی تجارت نہ تو کسی دباؤ سے ہو اور نہ اس میں فریب اور ضرر ہی کو دخل ہو۔اگرچہ خریدوفروخت کی حلت قرآنی نص سے ثابت ہے لیکن ہر قسم کی خریدوفروخت حلال نہی بلکہ مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ اسے جائز قرار دیا گیا ہے:(1) فریقین باہمی رضامندی سے سودا کریں۔(2)خریدی ہوئی چیز اور اس کا معاوضہ مجہول نہ ہو۔(3)قابل فروخت چیز فرخت کرنے والے کی ملکیت ہو اور وہ اسے خریدار کے حوالے کرنے پر قادر ہو۔(4)فروخت ہونے والی چیز میں کسی قسم کا عیب چھپا ہوانہ ہو۔(5) کسی حرام چیز کی خریدوفروخت نہ ہو اور نہ اس میں سود کو بطور حیلہ جائز قرار دیا گیا ہو۔(6)اس خریدوفروخت اور تجارت میں کسی فریق کو دھوکا دینا مقصود نہ ہو۔ (7)اس تجارتی لین دین میں حق رجوع کو برقرار رکھا گیا ہو۔کتب حدیث میں خریدو فروخت کی تقریباً تیس اقسام کو انھی وجہ سے ھرام ٹھہرایا گیا ہے۔ ہم ان کی آئندہ وضاحت کریں گے۔علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :امام بخاری رحمہ اللہ نے عبادات کے بیان سے فراغت کے بعد معاملات کا آغاز فرمایا کیونکہ عبادات سے مراد فوائد اخروی حاصل کرنا ہے جبکہ معاملات سے دنیوی مفاد پیش نظر ہوتا ہے۔عبادات چونکہ اہم ہیں،اس لیے انھیں مقدم کیا۔معاملات کا تعلق ضروریات سے ہے،اس لیے انھیں عبادات کے بعد بیان کیا ہے،پھر معاملات میں سے خریدوفروخت کے مسائل کو پہلے بیان کیا ہے کیونکہ زندگی میں اکثر وبیشتر اس سے واسطہ پڑتا ہے۔( عمدۃ القاری:8/291)حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:تمام اہل اسلام نے خریدو فروخت کے جواز پر اتفاق کیا ہے اور عقل وحکمت بھی اس کے جواز کا تقاضا کرتی ہے کیونکہ انسانی ضروریات اس سے پوری ہوتی ہیں۔( فتح الباری:4/364) امام بخاری رحمہ اللہ نے خریدوفروخت کے مسائل پر مشتمل دوسوسینتالیس مرفوع احادیث بیان کی ہیں۔ان میں چھیالیس معلق ہیں جبکہ باقی احادیث کو متصل سند سے بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی باون آثار بھی بیان کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر ایک سوتیرہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو علم معیشت میں اساسی قواعد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ان قواعد واصول سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجارت کے نام پر لوٹ مار کے کھلے راستوں کے ساتھ ساتھ ان تمام پوشیدہ راہوں کو بھی بند کردیا ہے جو تجارت کو عدل وانصاف اور خیر خواہی سے ہٹا کر ظلم وزیادتی کے ساتھ دولت سمیٹنے کی طرف لے جانے والے ہیں،آپ نے انتہائی باریک بینی سے نظام تجارت کا جائزہ لیا اور اس کی حدود وقیود متعین فرما کر عمل تجارت کو ہر طرح کے ظلم اور استحصالی ہتھکنڈوں سے پاک کردیا۔ ہمیں چاہیے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے عنوانات کی روشنی میں اپنی تجارت کو ان اصولوں پر استوار کریں جو مکمل طور پر انسانی فلاح وبہبود کی ضمانت دیتے ہیں۔قارئین سے استدعا ہے کہ كتاب البيوع کا مطالعہ کرتے وقت ہماری معروضات کو ضرور پیش نظر رکھیں۔اللہ تعالیٰ حق بینی اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے ۔ آمين
سیاق وسباق اور پس منظر کے اعتبار سے پہلی آیت کفار کے جواب میں ہے جنہوں نے کہا تھا:" تجارت بھی تو آخر سود ہی جیسی چیز ہے" یعنی جب تجارت میں لگے ہوئے روپے کا منافع جائز ہے تو قرض پر دیے ہوئے روپے کا منافع کیوں ناجائز ہے۔اور دوسری آیت سے مقصود یہ ہے کہ اگرچہ روز مرہ کی خریدوفروخت میں بھی معاملۂ بیع کا تحریر میں آجانا بہتر ہے جیسا کہ آج کل کیش میمو لکھنے کا طریقہ رائج ہے،تاہم ایسا کرنا لازم نہیں بلکہ اسے تحریر میں لائے بغیر معاملہ طے کیا جاسکتا ہے لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے ان ہر دو آیات سے خریدوفروخت کی مشروعیت کو ثابت کیا ہے۔حافظ عینی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:انسان طبعی طور پر لالچی واقع ہوا ہے ،دوسروں کی چیز کو للچائی ہوئی نگاہوں سے دیکھنے کا عادی ہے، اگر اسے ضرورت ہو تو چوری، ڈکیتی، لوٹ، کھسوٹ اور دھوکا فریب سے اسے حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے اس کے حصول کے لیے خریدو فروخت کا معاملہ مشروع قرار دیا ہے تاکہ کسی پر ظلم اور زیادتی نہ ہو،امن اور آتشی کے ساتھ لوگ زندگی بسر کریں۔( عمدۃ القاری:8/292)
تمہید باب
عربوں کے ہاں یہ عادت تھی کہ وہ ایک کھجور وں کا پھل مسکین ومحتاج کو ہبہ کردیتے جیسا کہ بکری اور اونٹ وغیرہ کسی کو صرف دودھ پینے کے لیے دے دیتے تھے،پھر بعض اوقات مساکین کو تنگ دستی کی وجہ سے ان کھجوروں کے پختہ ہونے کی تاب نہ ہوتی تو انھیں خشک کھجوروں کے عوض بیچنے کی اجازت دی گئی۔اور بعض اوقات خود مالک ان کے باغ میں آنے جانے سے تکلیف محسوس کرتا تو اسے اجازت دی گئی کہ وہ اپنے پاس سے خشک کھجوریں دے کر وہ درخت ان سے خرید لے۔ امام مالک اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے اقوال ملتے جلتے ہیں۔فرق صرف یہ ہے کہ امام مالک کی تفسیر کے مطابق ہبہ کرنے والا ہبہ شدہ درختوں کا پھل خرید لیتا اور ابو حنیفہ کی تفسیر کے مطابق ہبہ کرنے والا اس کا بدل دے کر اپنا وعدہ پورا کرتا تھا،لیکن اس سلسلے میں امام شافعی رحمہ اللہ کا موقف ان حضرات سے مختلف ہے۔ وہ کہتے ہیں کے پھل کی مقدار معلوم ہونا ضروری ہے،اس میں اندازہ لگانا صحیح نہیں۔احادیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے کہ پانچ وسق یا اس سے کم مقدار میں یہ بیع کرنے کی اجازت ہے،مطلق طور پر رخصت نہیں دی گئی ۔بہر حال بیع عرایاکے جواز میں اہم پہلو غرباء اور مساکین کا مفاد ہے جو اپنی تنگ دستی کی وجہ سے پھل کے پختہ ہونے کا انتظار کرنے سے معذور ہیں لیکن انھیں پیٹ پالنے کی ضرورت ہوتی ہے، اس لیے انھیں محدود پیمانے پر اس بیع کی اجازت دی گئی عقل صحیح بھی اس کے جواز کا تقاضا کرتی ہے۔عام طور پر اس خریدو فروخت کی اجازت نہیں ہے۔
امام مالک نے کہا کہ عریہ یہ ہے کہ کوئی شخص ( کسی باغ کا مالک اپنے باغ میں ) دوسرے شخص کو کھجور کا درخت ( ہبہ کے طور پر ) دے دے، پھر اس شخص کا باغ میں آنا اچھا نہ معلوم ہو، تو اس صورت میں وہ شخص ٹوٹی ہوئی کھجور کے بدلے میں اپنا درخت ( جسے وہ ہبہ کرچکا ہے ) خرید لے اس کی اس کے لیے رخصت دی گئی ہے اور ابن ادریس ( اما م شافعی ) نے کہا کہ عریہ جائز نہیں ہوتا مگر ( پانچ وسق سے کم میں ) سوکھی کھجور ناپ کر ہاتھوں ہاتھ دے دے یہ نہیں کہ دونوں طرف اندازہ ہو۔ اور اس کی تائید سہل بن ابی حثمہ ؓ کے قول سے بھی ہوتی ہے کہ وسق سے ناپ کر کھجور دی جائے۔ ابن اسحاق ہ نے اپنی حدیث میں نافع سے بیان کیا او رانہوں نے ابن عمر ؓ سے بیان کیا کہ عریہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے باغ میں کھجور کے ایک دو درخت کسی کو عاریتاً دے دے اور یزید نے سفیان بن حسین سے بیان کی کہ عریہ کھجور کے اس درخت کو کہتے ہیں جو مسکینوں کو للہ دے دیا جائے، لیکن وہ کھجور کے پکنے کا انتظار نہیں کرسکتے تو آنحضرت ﷺنے انہیں اس کی اجازت دی کہ جس قدر سوکھی کھجور کے بدل چاہیں اور جس کے ہاتھ چاہیں بیچ سکتے ہیں۔
حدیث ترجمہ:
حضرت زید بن ثابت ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عرایا کے متعلق اجازت دی کہ انھیں اندازے سے ناپ کر فروخت کیاجائے۔ حضرت موسیٰ بن عقبہ کہتے ہیں کہ عرایا چند معین کھجوریں ہیں جن کا پھل اتری ہوئی کھجوروں کے عوض خریدا جاتا ہے۔
حدیث حاشیہ:
راوی نے عرایا کی تفسیر میں اختصار سے کام لیا ہے کیونکہ اس میں درخت پر لگی ہوئی کھجوروں کو خشک کھجوروں کے عوض خریدا جاتا ہے۔ چونکہ عرایا میں یہ امر معروف ہے، اس لیےاس کا ذکر نہیں کیا گیا۔ والله أعلم.
ترجمۃ الباب:
امام مالک بیان کرتے ہیں کہ"عریہ"یہ ہے کہ کوئی شخص کسی کے لیے اپنے باغ میں سے ایک دو کھجوریں ہبہ کردیتا ہے۔ پھر باغ میں اس کے آنے جانے سے اذیت محسوس کرتاہے تو اسے اجازت ہے کہ خشک کھجور دے کر اس سے درخت خرید لے۔ابن ادریس(امام شافعی ) نے کہا کہ عریہ کی بیع خشک کھجور کے عوض ناپ کردست بدست ہوتی ہے، اندازے سے نہیں ہوتی۔حضرت سہیل بن ابی حشمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کاقول اس کی تائید کرتا ہے کہ عریہ کی بیع وسق کے ذریعے سے ناپ تول کر ہوتی ہے۔ابن اسحاق نے اپنی حدیث میں حضرت نافع سے، انھوں نے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت کیا کہ بیع عرایا یہ ہے : کوئی شخص اپنے مال میں سے کھجور کے ایک یا دو درخت کسی کو دے دے۔
یزید نے حضرت سفیان بن حسین سے روایت کرتے ہوئے کہا کہ عرایا کھجوروں کے درخت ہوتے تھے جو مساکین کو ہبہ کیے جاتے اور وہ ان کے پختہ ہونے کا انتظار نہ کرسکتے تھے تو انھیں اجازت دی گئی کہ وہ خشک کھجور کے عوض جتنی چاہیں بیچ لیں۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو امام عبداللہ بن مبارک نے خبردی، انہوں نے کہا کہ ہمیں موسیٰ بن عقبہ نے، انہیں نافع نے، انہیں عبداللہ بن عمر ؓ نے، انہیں زید بن ثابت ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ نے عریہ کی اجازت دی کہ وہ اندازے سے بیچی جاسکتی ہے۔ موسیٰ بن عقبہ نے کہا کہ عرایا کچھ معین درخت جن کا میوہ تو اترے ہوئے میوے کے بدل خریدے۔
حدیث حاشیہ:
علامہ شوکانی ؒ عرایا کی تفصیل ان لفظوں میں پیش فرماتے ہیں:جمع عریة قال في الفتح و هي في الأصل عطیة ثمر النخل دون الرقبة کانت العرب في الجدب تتطوع بذلك علی من لا ثمر له کما یتطوع صاحب الشاة أو الإبل بالمنیحة وهي عطیة اللبن دون الرقبة۔ (نیل) یعنی عرایا عریہ کی جمع ہے اور دراصل یہ کھجور کا صرف پھل کسی محتاج مسکین کو عاریتاً بخشش کے طور پر دے دینا ہے۔ عربوں کا طریقہ تھا کہ وہ فقراء مساکین کو فصل میں کسی درخت کا پھل بطور بخشش دے دیا کرتے تھے جیسا کہ بکری اوراونٹ والوں کابھی طریقہ رہا ہے کہ کسی غریب مسکین کے حوالہ صرف دودھ پینے کے لیے بکری یا اونٹ کردیا کرتے تھے۔ آگے حضرت علامہ ؒ فرماتے ہیں:و أخرج الإمام أحمد عن سفیان بن حسین أن العرایا نخل توهب للمساکین فلا یستطیعون أن ینتظروا بها فرخص لهم أن یبیعوها بما شاء و امن التمر۔ یعنی عرایا ان کھجوروں کو کہا جاتا ہے جو مساکین کو عاریتاً بخشش کے طور پر دے دی جاتی ہیں۔ پھر ان مساکین کو تنگ دستی کی وجہ سے ان کھجوروں کا پھل پختہ ہونے کا انتظار کرنے کی تاب نہیں ہوتی۔ پس ان کو رخصت دی گئی کہ وہ جیسے مناسب جانیں سوکھی کھجوروں سے ان کا تبادلہ کرسکتے ہیں۔وقال الجوهري هي النخلة التي یعریها صحابها رجلا محتاجا بأن یعجل له ثمرها عاماً۔یعنی جوہری نے کہا کہ یہ وہ کھجور ہیں جس کے پھلوں کو ان کے مالک کسی محتاج کو عاریتاً محض بطور بخشش سال بھر کے لیے دے دیا کرتے ہیں۔ عرایا کی اور بھی بہت سی صورتیں بیان کی گئی ہیں تفصیل کے لیے فتح الباری کا مطالعہ ضروری ہے۔ علامہ شوکانی آخر میں فرماتے ہیں و الحاصل أن کل صورة من صور العرایا ورد بها حدیث صحیح أو ثبت عن أهل الشرع أو أهل اللغة فهي جائزة لدخولها تحت مطلق الإذن و التخصیص في بعض الأحادیث علی بعض الصور لا ینافي ما ثبت في غیرہ۔یعنی بیع عرایا کی جتنی بھی صورتیں صحیح حدیث میں وارد ہیں یا اہل شرع یا اہل لغت سے وہ ثابت ہیں وہ سب جائز ہیں۔ اس لیے کہ وہ مطلق اذن کے تحت داخل ہیں۔ اور بعض احادیث بعض صورتوں میں جو بطور نص وارد ہیں وہ ان کے منافی نہیں ہیں جو بعض ان کے غیر سے ثابت ہیں۔ بیع عرایا کے جواز میں اہم پہلو غرباءمساکین کا مفاد ہے جو اپنی تنگ دستی کی وجہ سے پھلوں کے پختہ ہونے کا انتظار کرنے سے معذور ہیں۔ ان کو فی الحال شکم پری کی ضرورت ہے اس لیے ان کو اس بیع کے لیے اجازت دی گئی۔ ثابت ہوا کہ عقل صحیح بھی اس کے جواز کی تائید کرتی ہے۔ سند میں مذکور بزرگ حضرت نافع سرجس کے بیٹے عبداللہ بن عمر ؓ کے آزاد کردہ ہیں۔ یہ دیلمی تھے اور اکابرتابعین میں سے ہیں۔ ابن عمر ؓ اور ابوسعید ؓ سے حدیث کی سماعت کی ہے۔ ان سے بہت لوگوں نے جن میں زہری اور امام مالک بھی ہیں، روایت کی ہے۔ حدیث کے بارے میں شہرت یافتہ لوگوں میں سے ہیں۔ نیز ان ثقہ راویوں میں سے ہیں جن کی روایت پر مکمل اعتماد ہوتا ہے اور جن کی روایت کردہ احادیث پر عمل کیا جاتاہے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کی حدیثوں کا بڑا حصہ ان ہی پر موقوف ہے۔ امام مالک ؒ فرماتے ہیں کہ جب میں نافع کے واسطہ سے حدیث سن لیتا ہوں تو پھر کسی اور راوی سے سننے کی لیے بے فکر ہو جاتا ہوں۔ 117ھ میں وفات پائی۔ رحمه اللہ
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Umar (RA) from Zaid bin Thabit (RA): Allah's Apostle (ﷺ) allowed the sale of 'Araya by estimating the dates on them for measured amounts of dried dates. Musa bin 'Uqba said, "Al- 'Araya were distinguished date palms; one could come and buy them (i.e. their fruits)."