باب : حربی کافر سے غلام لونڈی خریدنا اور اس کا آزاد کرنا اور ہبہ کرنا
)
Sahi-Bukhari:
Sales and Trade
(Chapter: The purchase of a slave from the enemy)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور نبی کریمﷺ نے سلمان فارسی ؓ سے فرمایا تھا کہ اپنے ( یہودی ) مالک سے ” مکاتبت “ کرلے۔ حالانکہ سلمان رضی اللہ عنہ اصل میں پہلے ہی سے آزاد تھے۔ لیکن کافروں نے ان پر ظلم کیا کہ بیچ دیا اور اس طرح وہ غلام بنادئے گئے۔ اسی طرح عمار، صہیب اور بلال رضی اللہ عنہم بھی قید کرکے ( غلام بنا لیے گئے تھے اور ان کے مالک مشرک تھے ) اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ” اللہ تعالیٰ ہی نے تم میں ایک کو ایک پر فضیلت دی ہے رزق میں۔ پھر جن کی روزی زیادہ ہے وہ اپنی لونڈی غلاموں کو دے کر اپنے برابر نہیں کردیتے۔ کیا یہ لوگ اللہ کا احسان نہیں مانتے۔ “ تشریح : کہ اس نے مختلف حالات کے لوگ پیدا کئے۔ کوئی غلام ہے کوئی بادشاہ، کوئی مالدار ہے کوئی محتاج، اگر سب برابر اور یکساں ہوتے تو کوئی کسی کا کام کا ہے کو کرتا۔ زندگی دوبھر ہوجاتی۔ پس یہ اختلاف حالات اور تفاوت درجات حق تعالیٰ کی ایک بڑی نعمت ہے۔ اس آیت سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ نکالا کہ کافر اپنی لونڈی غلاموں کے مالک ہیں اور ان کی ملک صحیح ہے کیوں کہ ان کی لونڈی غلاموں کو ماملکت ایمانہم فرمایا۔ جب ان کی ملک صحیح ہوئی تو ان سے مول لینا درست ہوگا۔ ( وحیدی ) کتابت اس کو کہتے ہیں کہ غلام مالک کو کچھ روپیہ کئی قسطوں میں دینا قبول کرے۔ کل روپیہ ادا کرنے کے بعد غلام آزاد ہو جاتا ہے۔ حضرت سلمان رضی اللہ عنہ کو کافروں نے غلام بنا رکھا تھا۔ مسلمانوں نے ان کو خرید کر آزاد کردیا۔ حدیث سلمان رضی اللہ عنہ میں مزید تفصیل یوں آئی ہے : ثم مر بی نفر من کلب تجار فحملونی معہم حتی اذا قدموا بی و ادی القری ظلمونی فباعونی من رجل یہودی الحدیث یعنی میں فارسی نسل سے متعلق ہوں۔ ہوا یہ کہ ایک دفعہ بنوکلب کے کچھ سوداگر میرے پاس سے گزرے اور انہوں نے مجھے اٹھا کر اپنے ساتھ لگالیا۔ اور آگے چل کر مزید ظلم مجھ پر انہوں نے یہ کیا کہ مجھ کو ایک یہودی کے ہاتھ بیچ کر اس کا غلام بنا دیا۔ حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ عربی عنسی ہیں مگر ان کو اس لیے غلاموں میں شمار کیا گیا ہے کہ ان کی والدہ سمیہ رضی اللہ عنہا نامی قریش کی لونڈدیوں میں سے تھیں۔ ان کے شکم سے یہ پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام یاسر رضی اللہ عنہ ہے۔ قریش نے ان سب کے ساتھ غلاموں جیسا معاملہ کیا۔ یاسرؓ بنی مخزوم کے حلیف تھے۔ مزید تفصیلی حالات یہ ہیں کہ حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ عنسی ہیں۔ بنی مخزوم کے آزاد کردہ اور حلیف ہیں۔ اس کی صورت یہ ہوئی کہ حضرت عمار رضی اللہ عنہ کے والد یاسر ؓ مکہ میں اپنے دو بھائیوں کے ساتھ جن کا نام حارث اور مالک تھا، اپنے چوتھے گم شدہ بھائی کی تلاش میں آئے۔ پھر حارث اور مالک تو اپنے ملک یمن کو واپس چلے گئے۔ مگر یاسر مکہ میں مقیم ہو گئے۔ اور ابوحذیفہ بن مغیرہ کے حلیف بن گئے۔ ابوحذیفہ نے ان کا نکاح اپنی باندی سمیہ رضی اللہ عنہا نامی سے کردیا۔ جن کے بطن سے حضرت عمار رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے۔ ابوحذیفہ نے حضرت عمار رضی اللہ عنہ کو آزاد کردیا۔ یہ ابتداءہی میں اسلام لے آئے تھے۔ اور ان کمزور مسلمانوں میں سے ہیں جن کو اسلام سے ہٹانے کے لیے بہت ستایا گیا یہاں تک کہ ان کو آگ میں بھی ڈال دیا جس سے انہیں اللہ نے مرنے سے بچا لیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب ان کی طرف سے گزرتے ہوئے ان کی تکالیف کو دیکھتے تو آپ کا دل بھر آتا۔ آپ ان کے جسم پر اپنا دست شفقت پھیرتے اور دعا کرتے کہ اے آگ تو عمار پر اسی طرح ٹھنڈی اور سلامتی والی ہو جا جس طرح تو حضرت ابراہیم علیہ السلام پر ہو گئی تھی۔ یہ مہاجرین اولین میں سے ہیں۔ غزوہ بدر اور جملہ غزوات میں شریک ہوئے۔ جنگ صفین میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے۔ 93 سال کی عمر میں37ھ میں جنگ صفین ہی میں شہید ہوئے۔ حضرت صہیب بن سنان عبداللہ بن جدعان تیمی کے آزاد کردہ ہیں۔ کنیت ابویحییٰ، شہر موصل کے باشندے تھے۔ رومیوں نے ان کو بچپن ہی میں قید کر لیا تھا۔ لہٰذا نشو و نما روم میں ہوئی۔ رومیوں سے ان کو ایک شخص کلب نامی خرید کر مکہ لے آیا۔ جہاں ان کو عبداللہ بن جدعان نے خرید کر آزاد کر دیا۔ پھر یہ عبداللہ بن جدعان ہی کے حلیف بن گئے۔ آنحضرتﷺ جب دار ارقم میں تھے تو عمارؓ نے اور انہوں نے ایک ہی دن اسلام قبول کیا۔ مکہ شریف میں ان کو بھی بہت تکلیف دی گئی، لہٰذا یہ مدینہ کو ہجرت کرگئے۔۔ 80ھ میں بعمر90 سال مدینہ ہی میں انتقال فرمایا۔ اور جنت البقیع میں دفن کئے گئے۔ حضرت بلال ؓ کے والد کا نام رباح ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے آزاد کردہ مشہور معزز صحابی بلکہ موذن رسول ﷺ ہیں۔ یہ بھی مومنین اولین میں سے ہیں۔ مکہ میں سخت تکالیف برداشت کیں مگر اسلام کا نشہ نہ اترا، بلکہ اور زیادہ اسلام کا اظہار کیا۔ تمام غزوات نبوی میں شریک رہے۔ ان کو ایذا پہنچانے والا امیہ بن خلف تھا جو بے حد سنگ دلی سے ان کو قسم قسم کے عذابوں میں مبتلا کیا کرتا تھا۔ اللہ کی مشیت دیکھئے کہ جنگ بدر میں امیہ بن خلف ملعون حضرت بلال رضی اللہ عنہ ہی کے ہاتھوں سے قتل ہوا۔ عمر کا آخری حصہ شام میں گزرا۔ 63 سال کی عمر میں 20ھ میں دمشق میں انتقال ہوا اور باب الصغیر میں دفن ہوئے۔ بعض حلب میں انتقال بتلاتے ہیں اور باب الاربعین میں مدفون ہونا لکھتے ہیں۔ ان کے مناقب بہت زیادہ ہیں۔ ان کے کوئی اولاد نہیں، تابعین کی ایک کثیر جماعت ان سے روایت کرتی ہے۔
2217.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’حضرت ابراہیم ؑ نے حضرت سارہ کے ساتھ ہجرت کی اور انھیں لے کر ایک شہر پہنچے جہاں ایک سخت گیر ظالم حکمران تھا۔ اسے اطلاع دی گئی کہ حضرت ابراہیم ؑ ایک خوبروعورت کو لے کر آئے ہیں۔ اس نے حضرت ابراہیم ؑ کو پیغام بھیجا کہ تمہارے ساتھ یہ عورت کون ہے؟ انھوں نے فرمایا: یہ میری بہن ہے، پھر حضرت سارہ کے پاس تشریف لے گئے اور ان سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ تم نے میری بات کو جھٹلانا نہیں کیونکہ میں نے ان لوگوں کو بتایا ہے کہ تو میری بہن ہے۔ اللہ کی قسم!اس سرزمین پر میرے اورتیرے علاوہ کوئی دوسرا مومن نہیں ہے۔ پھر انھوں نے حضرت سارہ کو اس ظالم کے پاس بھیج دیا۔ وہ بادشاہ حضرت سارہ کی طرف بڑھنے کے لیے اٹھا تو انہوں نے کھڑے ہوکر وضو کیا، پھر نماز پڑھنے لگیں، پھر دعا کی: اے اللہ!اگر میں تجھ پر اور تیرے رسول پر ایمان لائی ہوں اور میں نے اپنی شرمگاہ کو اپنے شوہر کے سوا محفوظ رکھا ہے تو اس کافر کو میرے اوپر مسلط نہ ہونے دے۔ اس پر بادشاہ کاسانس گلے میں پھنس گیا اور وہ گر کر ایڑیاں رگڑنے لگا۔‘‘ حضرت اعرج نے ابو سلمہ بن عبدالرحمان سے حضرت ابوہریرہ ؓ کابیان نقل کیا کہ حضرت سارہ نے دعاکی: اے اللہ!اگر یہ مرگیا تو کہا جائے گا کہ اسے اس (سارہ) نے قتل کیا ہے، چنانچہ وہ درست ہوگیا۔ پھر وہ (بُری نیت سے) اٹھ کر حضرت سارہ کی طرف جانے لگا تو وہ انھیں اور وضو کرنے کے بعد نماز شروع کردی، پھر دعا کی: اے اللہ!اگر میں تجھ پر اور تیرے رسول پر ایمان لائی ہوں اور اپنی شرمگاہ کی حفاظت کی ہے بجز اپنے خاوند کے کسی کو اجازت نہیں دی تو اس کافر کو مجھ پر مسلط نہ ہونے دے۔ اس پر وہ زمین پر گرا اور اس کا سانس حلق میں پھنس گیا حتیٰ کہ زمین پر ایڑیاں رگڑنے لگا۔‘‘ حضرت عبدالرحمان نے ابو سلمہ کے حوالے سے حضرت ابوہریرہ ؓ کابیان نقل کیا کہ حضرت سارہ ؓ نے دعاکی: اے اللہ!اگر یہ ظالم مر گیا تو کہا جائے کہ اس عورت نے اسے قتل کیا ہے تو وہ دوسری دفعہ بھی اچھا ہوگیا۔ پھر جب تیسری دفعہ بھی ایسا ہوا تو بادشاہ نے کہا: اللہ کی قسم!تم لوگوں نے ایک شیطان عورت کومیرے پاس بھیج دیا ہے۔ اسے حضرت ابراہیم ؑ کے پاس لے جاؤ اور اسے آجر (حضرت ہاجرہ ؑ ) بھی دے دو، چنانچہ حضرت سارہ حضرت ابراہیم ؑ کے پاس واپس آئیں اورفرمایا: تم دیکھتے نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کافر کو ذلیل وخوار کیا اور اس نے ایک لڑکی خدمت گزاری کے لیے بھی ساتھ دی ہے؟
تشریح:
(1) حضرت ابراہیم ؑ نے سر زمین کنعان سے مصر جانے کے لیے رخت سفر باندھا تھا کیونکہ کنعان ان دنوں سخت قحط سالی کی زد میں تھا۔ حضرت ابراہیم ؑ اپنی بیوی سارہ کے ہمراہ مصر پہنچے تو وہاں ایک ظالم حکمران تھا اور وہ انتہائی عاشق مزاج تھا،اس لیے وہ حسین وجمیل عورتوں کی تلاش میں رہتا تھا۔ جب اس نے حضرت سارہ ؓ کے حسن کا چرچا سنا تو انھیں بلایا اور ان سے بدکاری کا ارادہ کیا مگر حضرت سارہ کی بدعا سے برائی پر قادر نہ ہوسکا۔بالآخر اس کے دل میں، اس خاندان کی عظمت نقش ہوگئی اور حضرت سارہ کو واپس کردیا ، نیز اپنے خلوص وعقیدت کے پیش نظر اپنی بیٹی ہاجرہ کو ان کی نذر کردیا تاکہ وہ حضرت سارہ کی خدمت میں رہ کر تعلیم وتربیت حاصل کرے۔ (2)کتب یہود میں اس امر کی وضاحت ہے کہ حضرت ہاجرہ شاہ مصر کی بیٹی تھی۔ (3) امام بخاری ؒ کا استدلال یہ ہے کہ اس کافر بادشاہ نے اپنی شہزادی ہاجرہ بطور عطیہ پیش کی۔ حضرت سارہ نے اسے قبول فرمایا اور حضرت ابراہیم ؑ نے بھی اس پر کوئی اعتراض نہ کیا۔اس سے ثابت ہواکہ کافر کے ہدیے کا اعتبار کیا جائے گا۔امین احسن اصلاحی نے حسب عادت لکھا ہے کہ حدیث میں مذکورہ قصہ یہودیوں کا گھڑا ہوا ہے جسے امام بخاری ؒ نے اپنی صحیح میں ٹھونس دیا ہے۔ (تدبرحدیث:503/1)ہم قارئین کرام کو یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ فراہی فکر کے حاملین کی کوثر وتسنیم سے دھلی ہوئی زبان کا یہ ادنیٰ سانمونہ ہے۔ واضح رہے کہ مصلحین کے حلقۂ ارادت میں اصلاحی صاحب کو "الإمام" کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے جبکہ علمیت کا یہ حال ہے۔لکھتے ہیں:یہ روایت صحیح بخاری کے علاوہ، جہاں تک مجھے یاد ہے، اور کہیں نہیں ہے۔(تدبرحدیث:503/1) حالانکہ یہ روایت درج ذیل کتب حدیث میں دیکھی جاسکتی ہے:٭ (صحیح مسلم، الفضائل، حدیث :6145 (2371).٭ سنن أبي داود، الطلاق، حدیث:2212.٭ جامع الترمذي، التفسیر، حدیث:3166.٭مسند أحمد :403/2. اس مقام پر اصلاحی صاحب نے ایک اعتراض بایں الفاظ اٹھایا ہے:اس قصے میں حضرت ابراہیم ؑ کو ایک ایسا جھوٹ بولنے کا مرتکب گردانا گیا ہے جس کا زمین وآسمان میں کوئی فائدہ نہیں، حالانکہ محدثین کرام نے اس اعتراض کا جواب دیا ہے کہ اگر اس کافر کو پتہ چل جاتا کہ یہ ان کی بیوی ہے تو وہ اس کے حصول کے لیے طلاق کی ناپاک کوشش کرتا یا آپ کو قتل کرنے کی گندی جسارت کرتا، اس لیے آپ نے اپنی بیوی کو بہن کہا،چنانچہ علامہ قسطلانی نے لکھا ہے:اس جابر ظالم کی یہ عادت تھی کہ وہ خاوند والی عورت پر ہاتھ ڈالتا اور خاوند کو قتل کرکے اس کی بیوی پر قبضہ جمالیتا تھا۔ حضرت ابراہیم ؑ نے یہ ذو معنی لفظ استعمال فرمایا اور اس طرح اس ظالم کی ناپاک اور مذموم جسارت سے محفوظ رہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2151
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2217
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2217
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2217
تمہید کتاب
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اللہ نے تجارت کوحلال کیا ہے۔ اور سود کو حرام قراردیا ہے۔ "
نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا؛"ہاں جوتجارتی لین دین دست بدست تم لوگ کرتے ہو(اس کو نہ لکھا جائے تو کوئی حرج نہیں)"
فائدہ:سود، جوا اور رشوت لینے دینے میں بھی باہمی رضا مندی پائی جاتی ہے لیکن یہ حقیقی نہیں بلکہ اضطراری ہوتی ہے کیونکہ سود پر قرض لینے والے کو قرض حسنہ مل سکتا ہوتو وہ کبھی سود پر قرض نہ لے۔ جوا کھیلنے والا اس لیے رضا مند ہوتا ہے کہ ان میں سے ہرایک کو اپنے جیتنے کی امید ہوتی ہے اور اگر کسی کوہارنے کا اندیشہ ہوتو وہ کبھی جوا نہیں کھیلے گا۔ اسی طرح اگر رشوت دینے والے کو معلوم ہوکہ اسے رشوت دیے بغیر حق مل سکتاہے تو وہ کبھی رشوت نہ دے۔ اس کے علاوہ اگر سودے بازی میں ایک فریق کی پوری رضا مندی نہ ہو اور اسے اس پر مجبور کردیا جائے تو وہ بھی اس ضمن میں آتا ہے۔
انسانی معاشرے کو تعلقات کے اعتبار سے دوحصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے،چنانچہ انسان اپنے خالق سے تعلق قائم کرتا ہے اسے ہم عبادات سے تعبیر کرتے ہیں۔اقرار شہادتین، نماز، زکاۃ، حج اور روزہ وغیرہ اسی تعلق مع اللہ کے مظاہر ہیں۔دوسرے یہ کے انسان کو اپنے جیسے دوسرے انسانوں سے واسطہ پڑتا ہے اسے معاملات کا نام دیا جاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے عبادات سے فراغت کے بعد اب معاملات کا آغاز کیا ہے۔انسانوں کی فطری ساخت ایسی ہے کہ وہ زندگی گزارنے کے لیے باہمی تعاون اور ایک دوسرے سے لین دین کے محتاج ہیں۔معاشرتی طور پر ہر فرد اور ہر طبقے کی ضرورت دوسرے سے وابستہ ہے،چنانچہ ایک مزدور انسان جس کی ضروریات زندگی بہت مختصر ہیں،اسے بھی اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے ک لیے ایسے آدمی کی ضرورت ہے جس سے وہ غلہ وغیرہ لے سکے ،پھر کاشتکار کو اس مزدور کی ضرورت ہے جس سے وہ کھیتی باڑی کے کاموں میں مدد لے سکے ،پھر ان دونوں کو ایک ایسا آدمی درکار ہے جو ان کی ستر پوشی کے لیے کپڑا تیار کرے،پھر سر چھپانے کے لیے مکان اور بیماری کی صورت میں علاج معالجے کی ضرورت ہے۔الغرض اشیاء کی خریدو فروخت، محنت ومزدوری، صنعت وزراعت اور دیگر معاشی معاملات انسانی زندگی کے لوازم ہیں۔اللہ تعالیٰ نے اس سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے جس پر عمل پیرا ہوکر دنیا وآخرت میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ان احکام پر عمل کرنا دنیا نہیں بلکہ عین دین اور عین عبادت ہے اور اس پر اسی طرح اجرو ثواب کا وعدہ ہے جس طرح نماز، روزے اور دیگر عبادات کی ادائیگی پر ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے معاملات کا آغاز كتاب البيوع سے فرمایا ہے۔لفظ بيوع بيع کی جمع ہے ۔اس کے معنی فروخت کرنا ہیں۔بعض اوقات خریدنے کے معنی میں بھی یہ لفظ کا استعمال ہوتا ہے۔شرعی اصطلاح میں کسی چیز کا مالک بننے کے ارادے سے مال کا مال کے ساتھ تبادلہ کرنا بیع کہلاتا ہے۔یہ خریدوفروخت اور تجارت انسانی ضروریات پوری کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔تجارت کے حسب ذیل چار بنیادی اجزاء ہیں: (1) مشتری (خریدار)(2)بائع (فروخت کار)(3)بیع(مال تجارت)(4)بیع (معاہدۂ تجارت)۔قرآن کریم نے تجارت کے لیے باہمی رضامندی کو بنیادی اصول قرار دیا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ فریقین کا خریدو فروخت کے ہر پہلو پر مطلع ہو کر اپنے آزاد فیصلے سے معاہدۂ تجارت پر رضامند ہونا ضروری ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَن تَكُونَ تِجَارَةً عَن تَرَاضٍ مِّنكُمْ ۚ وَلَا تَقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا ﴿٢٩﴾) اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کا مال باطل طریقے سے مت کھاؤ مگریہ کے آپس کی رضامندی سے تجارت ہو،اور تم اپنے آپ کو قتل نہ کرو،بے شک اللہ تم پر بہت رحم کرنے والا ہے۔"( النساء29:4)باطل طریقے سے مراد لین دین کاروبار اور تجارت کے دو طریقے ہیں جن میں فریقین کی حقیقی رضامندی یکساں طور پر نہیں پائی جاتی بلکہ اس میں ایک فریق کا تو مفاد ملحوظ رہتا ہے جبکہ دوسرا دھوکے یا نقصان کا نشانہ بنتا ہے۔اگر کسی معاملے میں دھوکا پایا جائے یا اس میں ایک فریق کی بے بسی اور مجبوری کو دخل ہوتو اگرچہ وہ بظاہر اس پر راضی ہوں،تاہم شریعت کی رو سے یہ باطل طریقے ہیں جنھیں حرام ٹھہرایا گیا ہے،اس لیے لین دین اور باہمی تجارت نہ تو کسی دباؤ سے ہو اور نہ اس میں فریب اور ضرر ہی کو دخل ہو۔اگرچہ خریدوفروخت کی حلت قرآنی نص سے ثابت ہے لیکن ہر قسم کی خریدوفروخت حلال نہی بلکہ مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ اسے جائز قرار دیا گیا ہے:(1) فریقین باہمی رضامندی سے سودا کریں۔(2)خریدی ہوئی چیز اور اس کا معاوضہ مجہول نہ ہو۔(3)قابل فروخت چیز فرخت کرنے والے کی ملکیت ہو اور وہ اسے خریدار کے حوالے کرنے پر قادر ہو۔(4)فروخت ہونے والی چیز میں کسی قسم کا عیب چھپا ہوانہ ہو۔(5) کسی حرام چیز کی خریدوفروخت نہ ہو اور نہ اس میں سود کو بطور حیلہ جائز قرار دیا گیا ہو۔(6)اس خریدوفروخت اور تجارت میں کسی فریق کو دھوکا دینا مقصود نہ ہو۔ (7)اس تجارتی لین دین میں حق رجوع کو برقرار رکھا گیا ہو۔کتب حدیث میں خریدو فروخت کی تقریباً تیس اقسام کو انھی وجہ سے ھرام ٹھہرایا گیا ہے۔ ہم ان کی آئندہ وضاحت کریں گے۔علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :امام بخاری رحمہ اللہ نے عبادات کے بیان سے فراغت کے بعد معاملات کا آغاز فرمایا کیونکہ عبادات سے مراد فوائد اخروی حاصل کرنا ہے جبکہ معاملات سے دنیوی مفاد پیش نظر ہوتا ہے۔عبادات چونکہ اہم ہیں،اس لیے انھیں مقدم کیا۔معاملات کا تعلق ضروریات سے ہے،اس لیے انھیں عبادات کے بعد بیان کیا ہے،پھر معاملات میں سے خریدوفروخت کے مسائل کو پہلے بیان کیا ہے کیونکہ زندگی میں اکثر وبیشتر اس سے واسطہ پڑتا ہے۔( عمدۃ القاری:8/291)حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:تمام اہل اسلام نے خریدو فروخت کے جواز پر اتفاق کیا ہے اور عقل وحکمت بھی اس کے جواز کا تقاضا کرتی ہے کیونکہ انسانی ضروریات اس سے پوری ہوتی ہیں۔( فتح الباری:4/364) امام بخاری رحمہ اللہ نے خریدوفروخت کے مسائل پر مشتمل دوسوسینتالیس مرفوع احادیث بیان کی ہیں۔ان میں چھیالیس معلق ہیں جبکہ باقی احادیث کو متصل سند سے بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی باون آثار بھی بیان کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر ایک سوتیرہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو علم معیشت میں اساسی قواعد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ان قواعد واصول سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجارت کے نام پر لوٹ مار کے کھلے راستوں کے ساتھ ساتھ ان تمام پوشیدہ راہوں کو بھی بند کردیا ہے جو تجارت کو عدل وانصاف اور خیر خواہی سے ہٹا کر ظلم وزیادتی کے ساتھ دولت سمیٹنے کی طرف لے جانے والے ہیں،آپ نے انتہائی باریک بینی سے نظام تجارت کا جائزہ لیا اور اس کی حدود وقیود متعین فرما کر عمل تجارت کو ہر طرح کے ظلم اور استحصالی ہتھکنڈوں سے پاک کردیا۔ ہمیں چاہیے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے عنوانات کی روشنی میں اپنی تجارت کو ان اصولوں پر استوار کریں جو مکمل طور پر انسانی فلاح وبہبود کی ضمانت دیتے ہیں۔قارئین سے استدعا ہے کہ كتاب البيوع کا مطالعہ کرتے وقت ہماری معروضات کو ضرور پیش نظر رکھیں۔اللہ تعالیٰ حق بینی اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے ۔ آمين
سیاق وسباق اور پس منظر کے اعتبار سے پہلی آیت کفار کے جواب میں ہے جنہوں نے کہا تھا:" تجارت بھی تو آخر سود ہی جیسی چیز ہے" یعنی جب تجارت میں لگے ہوئے روپے کا منافع جائز ہے تو قرض پر دیے ہوئے روپے کا منافع کیوں ناجائز ہے۔اور دوسری آیت سے مقصود یہ ہے کہ اگرچہ روز مرہ کی خریدوفروخت میں بھی معاملۂ بیع کا تحریر میں آجانا بہتر ہے جیسا کہ آج کل کیش میمو لکھنے کا طریقہ رائج ہے،تاہم ایسا کرنا لازم نہیں بلکہ اسے تحریر میں لائے بغیر معاملہ طے کیا جاسکتا ہے لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے ان ہر دو آیات سے خریدوفروخت کی مشروعیت کو ثابت کیا ہے۔حافظ عینی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:انسان طبعی طور پر لالچی واقع ہوا ہے ،دوسروں کی چیز کو للچائی ہوئی نگاہوں سے دیکھنے کا عادی ہے، اگر اسے ضرورت ہو تو چوری، ڈکیتی، لوٹ، کھسوٹ اور دھوکا فریب سے اسے حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے اس کے حصول کے لیے خریدو فروخت کا معاملہ مشروع قرار دیا ہے تاکہ کسی پر ظلم اور زیادتی نہ ہو،امن اور آتشی کے ساتھ لوگ زندگی بسر کریں۔( عمدۃ القاری:8/292)
تمہید باب
امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ کافر،خواہ حربی ہی کیوں نہ ہو اس کا بھی حق ملکیت تسلیم کیا جائے گا۔وہ لینے کے لیے قانون کے تقاضوں کو پورا کیا جائے گا۔اسی طرح حربی سے غلام خریدنا اور اس کا آزاد یا ہبہ کرنا معتبر ہوگا۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کا واقعہ نقل کیا ہے کہ وہ آزاد تھے۔ان پر ظلم کیا گیا اور انھیں پکڑ کر فروخت کردیا گیا۔اس طرح وہ غلام بن گئے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں مشورہ دیا کہ وہ اپنے آقاؤں کے کچھ رقم دے آزادی حاصل کرنے کا معاملہ طے کرلیں،پھر اس رقم کا بندوبست کیا جائے۔یہ واقعہ امام احمد رحمہ اللہ نے اپنی متصل سند سے بیان کیا ہے۔( مسند احمد:5/442) حضرت عمار بن یاسر،حضرت صہیب رومی اور حضرت بلال رضی اللہ عنہم کابھی یہی حال تھا۔یہ سب آزاد تھے لیکن کافروں نے انھیں قید کرکے غلام بنا رکھا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت رائج قانون کے تقاضوں کو پورا کیا اور ان کے حق ملکیت کو تسلیم کیا۔ آخر میں امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک قرآنی آیت کا حوالہ دیا ہے جس میں کفار ومشرکین کے ملک یمین کو تسلیم کیا گیا ہے۔جب کفار کی ملک یمین صحیح ہے اور قرآن کریم نے اسے تسلیم کیا ہے تو ان سے خریدوفروخت کرنا بھی جائز ثابت ہوا۔اس کے علاوہ حربی کافر کا اپنا غلام آزاد کرنا یا کسی کو ہبہ کرنا بھی صحیح ہے۔ مکاتبت یہ ہے کہ غلام اپنے آقا کو کچھ رقم قسطوں کی شکل میں ادا کرنا قبول کرلے۔طے شدہ کل رقم ادا کرنے کے بعد غلام خود بخود آزاد ہوجاتا ہے۔اس طرح غلام کو خرید کر اسے آزاد کرنے کی بہت فضیلت ہے۔بہر حال امام بخاری رحمہ اللہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ کفار ومشرکین بحیثیت انسان اپنا حق ملکیت رکھتے ہیں،ان کی خریدوفروخت کا اعتبار ہوگا۔
اور نبی کریمﷺ نے سلمان فارسی ؓ سے فرمایا تھا کہ اپنے ( یہودی ) مالک سے ” مکاتبت “ کرلے۔ حالانکہ سلمان رضی اللہ عنہ اصل میں پہلے ہی سے آزاد تھے۔ لیکن کافروں نے ان پر ظلم کیا کہ بیچ دیا اور اس طرح وہ غلام بنادئے گئے۔ اسی طرح عمار، صہیب اور بلال رضی اللہ عنہم بھی قید کرکے ( غلام بنا لیے گئے تھے اور ان کے مالک مشرک تھے ) اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ” اللہ تعالیٰ ہی نے تم میں ایک کو ایک پر فضیلت دی ہے رزق میں۔ پھر جن کی روزی زیادہ ہے وہ اپنی لونڈی غلاموں کو دے کر اپنے برابر نہیں کردیتے۔ کیا یہ لوگ اللہ کا احسان نہیں مانتے۔ “ تشریح : کہ اس نے مختلف حالات کے لوگ پیدا کئے۔ کوئی غلام ہے کوئی بادشاہ، کوئی مالدار ہے کوئی محتاج، اگر سب برابر اور یکساں ہوتے تو کوئی کسی کا کام کا ہے کو کرتا۔ زندگی دوبھر ہوجاتی۔ پس یہ اختلاف حالات اور تفاوت درجات حق تعالیٰ کی ایک بڑی نعمت ہے۔ اس آیت سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ نکالا کہ کافر اپنی لونڈی غلاموں کے مالک ہیں اور ان کی ملک صحیح ہے کیوں کہ ان کی لونڈی غلاموں کو ماملکت ایمانہم فرمایا۔ جب ان کی ملک صحیح ہوئی تو ان سے مول لینا درست ہوگا۔ ( وحیدی ) کتابت اس کو کہتے ہیں کہ غلام مالک کو کچھ روپیہ کئی قسطوں میں دینا قبول کرے۔ کل روپیہ ادا کرنے کے بعد غلام آزاد ہو جاتا ہے۔ حضرت سلمان رضی اللہ عنہ کو کافروں نے غلام بنا رکھا تھا۔ مسلمانوں نے ان کو خرید کر آزاد کردیا۔ حدیث سلمان رضی اللہ عنہ میں مزید تفصیل یوں آئی ہے : ثم مر بی نفر من کلب تجار فحملونی معہم حتی اذا قدموا بی و ادی القری ظلمونی فباعونی من رجل یہودی الحدیث یعنی میں فارسی نسل سے متعلق ہوں۔ ہوا یہ کہ ایک دفعہ بنوکلب کے کچھ سوداگر میرے پاس سے گزرے اور انہوں نے مجھے اٹھا کر اپنے ساتھ لگالیا۔ اور آگے چل کر مزید ظلم مجھ پر انہوں نے یہ کیا کہ مجھ کو ایک یہودی کے ہاتھ بیچ کر اس کا غلام بنا دیا۔ حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ عربی عنسی ہیں مگر ان کو اس لیے غلاموں میں شمار کیا گیا ہے کہ ان کی والدہ سمیہ رضی اللہ عنہا نامی قریش کی لونڈدیوں میں سے تھیں۔ ان کے شکم سے یہ پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام یاسر رضی اللہ عنہ ہے۔ قریش نے ان سب کے ساتھ غلاموں جیسا معاملہ کیا۔ یاسرؓ بنی مخزوم کے حلیف تھے۔ مزید تفصیلی حالات یہ ہیں کہ حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ عنسی ہیں۔ بنی مخزوم کے آزاد کردہ اور حلیف ہیں۔ اس کی صورت یہ ہوئی کہ حضرت عمار رضی اللہ عنہ کے والد یاسر ؓ مکہ میں اپنے دو بھائیوں کے ساتھ جن کا نام حارث اور مالک تھا، اپنے چوتھے گم شدہ بھائی کی تلاش میں آئے۔ پھر حارث اور مالک تو اپنے ملک یمن کو واپس چلے گئے۔ مگر یاسر مکہ میں مقیم ہو گئے۔ اور ابوحذیفہ بن مغیرہ کے حلیف بن گئے۔ ابوحذیفہ نے ان کا نکاح اپنی باندی سمیہ رضی اللہ عنہا نامی سے کردیا۔ جن کے بطن سے حضرت عمار رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے۔ ابوحذیفہ نے حضرت عمار رضی اللہ عنہ کو آزاد کردیا۔ یہ ابتداءہی میں اسلام لے آئے تھے۔ اور ان کمزور مسلمانوں میں سے ہیں جن کو اسلام سے ہٹانے کے لیے بہت ستایا گیا یہاں تک کہ ان کو آگ میں بھی ڈال دیا جس سے انہیں اللہ نے مرنے سے بچا لیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب ان کی طرف سے گزرتے ہوئے ان کی تکالیف کو دیکھتے تو آپ کا دل بھر آتا۔ آپ ان کے جسم پر اپنا دست شفقت پھیرتے اور دعا کرتے کہ اے آگ تو عمار پر اسی طرح ٹھنڈی اور سلامتی والی ہو جا جس طرح تو حضرت ابراہیم علیہ السلام پر ہو گئی تھی۔ یہ مہاجرین اولین میں سے ہیں۔ غزوہ بدر اور جملہ غزوات میں شریک ہوئے۔ جنگ صفین میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے۔ 93 سال کی عمر میں37ھ میں جنگ صفین ہی میں شہید ہوئے۔ حضرت صہیب بن سنان عبداللہ بن جدعان تیمی کے آزاد کردہ ہیں۔ کنیت ابویحییٰ، شہر موصل کے باشندے تھے۔ رومیوں نے ان کو بچپن ہی میں قید کر لیا تھا۔ لہٰذا نشو و نما روم میں ہوئی۔ رومیوں سے ان کو ایک شخص کلب نامی خرید کر مکہ لے آیا۔ جہاں ان کو عبداللہ بن جدعان نے خرید کر آزاد کر دیا۔ پھر یہ عبداللہ بن جدعان ہی کے حلیف بن گئے۔ آنحضرتﷺ جب دار ارقم میں تھے تو عمارؓ نے اور انہوں نے ایک ہی دن اسلام قبول کیا۔ مکہ شریف میں ان کو بھی بہت تکلیف دی گئی، لہٰذا یہ مدینہ کو ہجرت کرگئے۔۔ 80ھ میں بعمر90 سال مدینہ ہی میں انتقال فرمایا۔ اور جنت البقیع میں دفن کئے گئے۔ حضرت بلال ؓ کے والد کا نام رباح ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے آزاد کردہ مشہور معزز صحابی بلکہ موذن رسول ﷺ ہیں۔ یہ بھی مومنین اولین میں سے ہیں۔ مکہ میں سخت تکالیف برداشت کیں مگر اسلام کا نشہ نہ اترا، بلکہ اور زیادہ اسلام کا اظہار کیا۔ تمام غزوات نبوی میں شریک رہے۔ ان کو ایذا پہنچانے والا امیہ بن خلف تھا جو بے حد سنگ دلی سے ان کو قسم قسم کے عذابوں میں مبتلا کیا کرتا تھا۔ اللہ کی مشیت دیکھئے کہ جنگ بدر میں امیہ بن خلف ملعون حضرت بلال رضی اللہ عنہ ہی کے ہاتھوں سے قتل ہوا۔ عمر کا آخری حصہ شام میں گزرا۔ 63 سال کی عمر میں 20ھ میں دمشق میں انتقال ہوا اور باب الصغیر میں دفن ہوئے۔ بعض حلب میں انتقال بتلاتے ہیں اور باب الاربعین میں مدفون ہونا لکھتے ہیں۔ ان کے مناقب بہت زیادہ ہیں۔ ان کے کوئی اولاد نہیں، تابعین کی ایک کثیر جماعت ان سے روایت کرتی ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’حضرت ابراہیم ؑ نے حضرت سارہ کے ساتھ ہجرت کی اور انھیں لے کر ایک شہر پہنچے جہاں ایک سخت گیر ظالم حکمران تھا۔ اسے اطلاع دی گئی کہ حضرت ابراہیم ؑ ایک خوبروعورت کو لے کر آئے ہیں۔ اس نے حضرت ابراہیم ؑ کو پیغام بھیجا کہ تمہارے ساتھ یہ عورت کون ہے؟ انھوں نے فرمایا: یہ میری بہن ہے، پھر حضرت سارہ کے پاس تشریف لے گئے اور ان سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ تم نے میری بات کو جھٹلانا نہیں کیونکہ میں نے ان لوگوں کو بتایا ہے کہ تو میری بہن ہے۔ اللہ کی قسم!اس سرزمین پر میرے اورتیرے علاوہ کوئی دوسرا مومن نہیں ہے۔ پھر انھوں نے حضرت سارہ کو اس ظالم کے پاس بھیج دیا۔ وہ بادشاہ حضرت سارہ کی طرف بڑھنے کے لیے اٹھا تو انہوں نے کھڑے ہوکر وضو کیا، پھر نماز پڑھنے لگیں، پھر دعا کی: اے اللہ!اگر میں تجھ پر اور تیرے رسول پر ایمان لائی ہوں اور میں نے اپنی شرمگاہ کو اپنے شوہر کے سوا محفوظ رکھا ہے تو اس کافر کو میرے اوپر مسلط نہ ہونے دے۔ اس پر بادشاہ کاسانس گلے میں پھنس گیا اور وہ گر کر ایڑیاں رگڑنے لگا۔‘‘ حضرت اعرج نے ابو سلمہ بن عبدالرحمان سے حضرت ابوہریرہ ؓ کابیان نقل کیا کہ حضرت سارہ نے دعاکی: اے اللہ!اگر یہ مرگیا تو کہا جائے گا کہ اسے اس (سارہ) نے قتل کیا ہے، چنانچہ وہ درست ہوگیا۔ پھر وہ (بُری نیت سے) اٹھ کر حضرت سارہ کی طرف جانے لگا تو وہ انھیں اور وضو کرنے کے بعد نماز شروع کردی، پھر دعا کی: اے اللہ!اگر میں تجھ پر اور تیرے رسول پر ایمان لائی ہوں اور اپنی شرمگاہ کی حفاظت کی ہے بجز اپنے خاوند کے کسی کو اجازت نہیں دی تو اس کافر کو مجھ پر مسلط نہ ہونے دے۔ اس پر وہ زمین پر گرا اور اس کا سانس حلق میں پھنس گیا حتیٰ کہ زمین پر ایڑیاں رگڑنے لگا۔‘‘ حضرت عبدالرحمان نے ابو سلمہ کے حوالے سے حضرت ابوہریرہ ؓ کابیان نقل کیا کہ حضرت سارہ ؓ نے دعاکی: اے اللہ!اگر یہ ظالم مر گیا تو کہا جائے کہ اس عورت نے اسے قتل کیا ہے تو وہ دوسری دفعہ بھی اچھا ہوگیا۔ پھر جب تیسری دفعہ بھی ایسا ہوا تو بادشاہ نے کہا: اللہ کی قسم!تم لوگوں نے ایک شیطان عورت کومیرے پاس بھیج دیا ہے۔ اسے حضرت ابراہیم ؑ کے پاس لے جاؤ اور اسے آجر (حضرت ہاجرہ ؑ ) بھی دے دو، چنانچہ حضرت سارہ حضرت ابراہیم ؑ کے پاس واپس آئیں اورفرمایا: تم دیکھتے نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کافر کو ذلیل وخوار کیا اور اس نے ایک لڑکی خدمت گزاری کے لیے بھی ساتھ دی ہے؟
حدیث حاشیہ:
(1) حضرت ابراہیم ؑ نے سر زمین کنعان سے مصر جانے کے لیے رخت سفر باندھا تھا کیونکہ کنعان ان دنوں سخت قحط سالی کی زد میں تھا۔ حضرت ابراہیم ؑ اپنی بیوی سارہ کے ہمراہ مصر پہنچے تو وہاں ایک ظالم حکمران تھا اور وہ انتہائی عاشق مزاج تھا،اس لیے وہ حسین وجمیل عورتوں کی تلاش میں رہتا تھا۔ جب اس نے حضرت سارہ ؓ کے حسن کا چرچا سنا تو انھیں بلایا اور ان سے بدکاری کا ارادہ کیا مگر حضرت سارہ کی بدعا سے برائی پر قادر نہ ہوسکا۔بالآخر اس کے دل میں، اس خاندان کی عظمت نقش ہوگئی اور حضرت سارہ کو واپس کردیا ، نیز اپنے خلوص وعقیدت کے پیش نظر اپنی بیٹی ہاجرہ کو ان کی نذر کردیا تاکہ وہ حضرت سارہ کی خدمت میں رہ کر تعلیم وتربیت حاصل کرے۔ (2)کتب یہود میں اس امر کی وضاحت ہے کہ حضرت ہاجرہ شاہ مصر کی بیٹی تھی۔ (3) امام بخاری ؒ کا استدلال یہ ہے کہ اس کافر بادشاہ نے اپنی شہزادی ہاجرہ بطور عطیہ پیش کی۔ حضرت سارہ نے اسے قبول فرمایا اور حضرت ابراہیم ؑ نے بھی اس پر کوئی اعتراض نہ کیا۔اس سے ثابت ہواکہ کافر کے ہدیے کا اعتبار کیا جائے گا۔امین احسن اصلاحی نے حسب عادت لکھا ہے کہ حدیث میں مذکورہ قصہ یہودیوں کا گھڑا ہوا ہے جسے امام بخاری ؒ نے اپنی صحیح میں ٹھونس دیا ہے۔ (تدبرحدیث:503/1)ہم قارئین کرام کو یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ فراہی فکر کے حاملین کی کوثر وتسنیم سے دھلی ہوئی زبان کا یہ ادنیٰ سانمونہ ہے۔ واضح رہے کہ مصلحین کے حلقۂ ارادت میں اصلاحی صاحب کو "الإمام" کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے جبکہ علمیت کا یہ حال ہے۔لکھتے ہیں:یہ روایت صحیح بخاری کے علاوہ، جہاں تک مجھے یاد ہے، اور کہیں نہیں ہے۔(تدبرحدیث:503/1) حالانکہ یہ روایت درج ذیل کتب حدیث میں دیکھی جاسکتی ہے:٭ (صحیح مسلم، الفضائل، حدیث :6145 (2371).٭ سنن أبي داود، الطلاق، حدیث:2212.٭ جامع الترمذي، التفسیر، حدیث:3166.٭مسند أحمد :403/2. اس مقام پر اصلاحی صاحب نے ایک اعتراض بایں الفاظ اٹھایا ہے:اس قصے میں حضرت ابراہیم ؑ کو ایک ایسا جھوٹ بولنے کا مرتکب گردانا گیا ہے جس کا زمین وآسمان میں کوئی فائدہ نہیں، حالانکہ محدثین کرام نے اس اعتراض کا جواب دیا ہے کہ اگر اس کافر کو پتہ چل جاتا کہ یہ ان کی بیوی ہے تو وہ اس کے حصول کے لیے طلاق کی ناپاک کوشش کرتا یا آپ کو قتل کرنے کی گندی جسارت کرتا، اس لیے آپ نے اپنی بیوی کو بہن کہا،چنانچہ علامہ قسطلانی نے لکھا ہے:اس جابر ظالم کی یہ عادت تھی کہ وہ خاوند والی عورت پر ہاتھ ڈالتا اور خاوند کو قتل کرکے اس کی بیوی پر قبضہ جمالیتا تھا۔ حضرت ابراہیم ؑ نے یہ ذو معنی لفظ استعمال فرمایا اور اس طرح اس ظالم کی ناپاک اور مذموم جسارت سے محفوظ رہے۔
ترجمۃ الباب:
نبی کریمﷺ نے حضرت سلمان فارسیؓ سے فرمایا: "تم (اپنے مکان سے) مکاتبت کرلو"حالانکہ آپ آزاد تھے لیکن کافروں نے ان پر ظلم کیا اور پکڑ کر انھیں بیچ دیاتھا۔ حضرت عمار، حضرت صہیب اور حضرت بلال رضوان اللہ عنھم اجمعین یہ سب قید کرلیے گئے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اللہ تعالیٰ نے رزق کے معاملے میں تمھیں ایک کو دوسرے پر برتری دی ہے۔ پھرجن لوگوں کو برتری دی گئی ہے وہ اپنا رزق اپنے غلاموں کو دینے کےلیے تیار نہیں(کہ آقا اور غلام سب برابر ہوجائیں) تو کیا وہ اللہ کی نعمتوں کا انکار کرتے ہی رہیں گے۔ "
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے ابوالزناد نے بیان کیا، ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، ابراہیم ؑ نے سارہ ؓ کے ساتھ ( نمرود کے ملک سے ) ہجرت کی تو ایک ایسے شہر میں پہنچے جہاں ایک بادشاہ رہتا تھا یا ( یہ فرمایا کہ ) ایک ظالم بادشاہ رہتا تھا۔ اس سے ابراہیم ؑ کے متعلق کسی نے کہہ دیا کہ وہ ایک نہایت ہی خوبصورت عورت لے کر یہاں آئے ہیں۔ بادشاہ نے آپ ؑ سے پچھوا بھیجا کہ ابراہیم ! یہ عورت جو تمہارے ساتھ ہے تمہاری کیا ہوتی ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ یہ میری بہن ہے۔ پھر جب ابراہیم ؑ سارہ ؓ کے یہاں آئے تو ان سے کہا کہ میری بات نہ جھٹلانا، میں تمہیں اپنی بہن کہہ آیا ہوں۔ خدا کی قسم ! آج روئے زمین پر میرے اور تمہارے سوا کوئی مومن نہیں ہے۔ چنانچہ آپ ؑ نے سارہ ؓ کو بادشاہ کے یہاں بھیجا، یا بادشاہ حضرت سارہ ؓ کے پاس گیا۔ اس وقت حضرت سارہ ؓ وضو کرکے نماز پڑھنے کھڑی ہوگئی تھیں۔ انہوں نے اللہ کے حضور میں یہ دعا کی کہ ’’اے اللہ ! اگر میں تجھ پر اور تیرے رسول (ابراہیم ؑ) پر ایمان رکھتی ہوں اور اگر میں نے اپنے شوہر کے سوا اپنی شرمگاہ کی حفاظت کی ہے، تو تو مجھ پر ایک کافر کو مسلط نہ کر۔‘‘ اتنے میں بادشاہ تھرایا اور اس کا پاؤں زمین میں دھنس گیا۔ اعرج نے کہا کہ ابوسلمہ بن عبدالرحمن نے بیان کیا، ان سے ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا، کہ حضرت سارہ ؓ نے اللہ کے حضور میں دعا کی کہ اے اللہ ! اگر یہ مرگیا تو لوگ کہیں گے کہ اسی نے مارا ہے۔ چنانچہ وہ پھر چھوٹ گیا اور حضرت سارہ ؓ کی طرف بڑھا۔ حضرت سارہ ؓ وضو کرکے پھر نماز پڑھنے لگی تھیں اور یہ دعا کرتی جاتی تھیں ’’اے اللہ ! اگر میں تجھ پر اور تیرے رسول پر ایمان رکھتی ہوں اور اپنے شوہر (حضرت ابراہیم ؑ) کے سوا اور ہر موقع پر میں نے اپنی شرمگاہ کی حفاظت کی ہے تو تو مجھ پر اس کافر کو مسلط نہ کر۔‘‘ چنانچہ وہ پھر تھرایا، کانپا اور اس کے پاؤس زمین میں دھنس گئے۔ عبدالرحمن نے بیان کیا کہ ابوسلمہ نے بیان کیا ابوہریرہ ؓ سے کہ حضرت سارہ ؓ نے پھر وہی دعا کی کہ اے اللہ ! اگر یہ مر گیا تو لوگ کہیں گے کہ اسی نے مارا ہے۔‘‘ اب دوسری مرتبہ یا تیسری مرتبہ بھی وہ بادشاہ چھوڑ دیا گیا۔ آخر وہ کہنے لگا کہ تم لوگوں نے میرے یہاں ایک شیطان بھیج دیا۔ اسے ابراہیم ( ؑ ) کے پاس لے جاؤ اور انہیں آجر ( حضرت ہاجرہ ) کو بھی دے دو۔ پھر حضرت سارہ ابراہیم ؑ کے پاس آئیں اور ان سے کہا کہ دیکھتے نہیں اللہ نے کافر کو کس طرح ذلیل کیا اور ساتھ میں ایک لڑکی بھی دلوا دی۔
حدیث حاشیہ:
زمین کنعان سے مصر کا یہ سفر اس لیے ہوا کہ کنعان ان دنوں سخت قحط سالی کی زد میں آگیاتھا۔ حضرت ابراہیم ؑ مجبور ہو کر اپنی بیوی حضرت سارہ ؓ اور بھتیجے لوط ؑ اور بھیڑ بکریوں سمیت مصر میں پہنچ گئے۔ ان دنوں مصر میں فرعون رقیون نامی حکمرانی کر رہا تھا۔ ابراہیم ؑ کی بیوی سارہ ؓ بے حد حسین تھیں۔ اور وہ بادشاہ ایسی حسین عورتوں کی جستجومیں رہا کرتا تھا۔ اس لیے حضرت ابراہیم ؑ نے حضرت سارہ ؓ کو ہدایت فرمائی کہ وہ اپنے آپ کو ابراہیم ؑ کی بہن ظاہر کریں۔ جب فرعون مصر نے حضرت سارہ ؓ کے حسن کا چرچا سنا تب اس نے ان کو بلوابھیجا اور فعل بد کا ارادہ کیا مگر حضرت سارہ ؓ کی بد دعا سے وہ برائی پر قادر نہ ہوسکا۔ بلکہ زمین میں غرق ہونے لگا۔ آخر اس کے دل پر ان کی عظمت نقش ہو گئی اور حضرت ابراہیم ؑ سے معافی مانگی اور حضرت سارہ ؓ کو واپس کر دیا اور اپنے خلوص اور عقیدت کے اظہار میں اپنی بیٹی ہاجرہ ؓ کو ان کی نذر کر دیا تاکہ وہ سارہ ؓ جیسا خدا رسیدہ خاتون کی خدمت میں رہ کر تعلیم اور تربیت حاصل کرے اور کسی وقت اس کو حضرت ابراہیم ؑ جیسے نبی کی بیوی بننے کا شرف حاصل ہو۔ یہودیوں کی کتاب برشیث لیامیں ذکر ہے کہ ہاجرہ شاہ مصر کی بیٹی تھیں۔ ایسا ہی طبری، خمیس اور قسطلانی نے ذکر کیا ہے مگر یہ نہایت ہی قابل افسوس ہے کہ بعض بد باطن یہود کی حاسدانہ تحریرات میں ان کو لونڈی کہا گیا ہے اور کچھ لوگوں نے ان تحریروں سے متاثر ہو کر اس حدیث میں وارد لفظ ''ولیدۃ'' کا ترجمہ لونڈی کر دیا ہے حالانکہ قرآن و حدیث کی اصطلاح عام میں غلام اور لونڈی کے لیے ملک یمین کا لفظ ہے جیسا کہ آیت قرآن وما ملکت أیمانکم سے ظاہر ہے۔ لغت عرب میں جاریہ اور ولیدہ کے الفاظ عام لڑکی کے معنوں میں آتے ہیں۔ عربی کی بائیبل میں سب جگہ حضرت ہاجرہ کے واسطے جاریہ کا لفظ استعمال ہوا ہے انگریزی بائیبل میں سب مقامات میں میڈ کا لفظ ہے جس کے معنی وہی ہیں جو ''جاریہ'' اور ''ولیدۃ'' کے ہیں یعنی لڑکی۔ ابی سلومر اسحاق جو ایک یہودی عالم ہیں وہ پیدائش1-16 میں لکھتے ہیں کہ جب فرعون مصری نے نبی کی کرامتوں کو جو سارہ کی وجہ سے ظاہر ہوئیں، دیکھا تو اس نے کہا کہ بہتر ہے میری بیٹی اس کے گھر میں خادمہ ہو کر رہے وہ اس سے بہتر ہوگی کہ کسی دوسرے گھر میں وہ ملکہ بن کر رہے۔ چنانچہ حضرت ہاجرہ نے ابراہیمی گھرانہ میں پوری تربیت حاصل کی اور پچاسی سال کی عمر میں جب کہ آپ اولاد سے مایوس ہو رہے تھے حضرت سارہ نے ان سے خود کہا کہ ہاجرہ سے شای کر لو شاید اللہ پاک ان ہی کے ذریعہ تم کو اولاد عطا کرے چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ شادی کے بعد حضرت ہاجرہ حاملہ ہو گئیں اور ان کو خواب میں فرشتہ نے بشارت دی کہ تو ایک بیٹا جنے گی اس کا نام اسماعیل رکھنا کہ اللہ تعالیٰ نے تیرا دکھ سن لیا۔ وہ عربی ہوگا ا س کا ہاتھ سب کے خلاف ہوگا اور سب کے ہاتھ اس کے برخلاف ہوں گے اور وہ اپنے سب بھائیوں کے سامنے بود و باش کرے گا۔ (تورات پیدائش 12-11-16) خداوند نے یہ بھی فرمایا کہ دیکھ ہاجرہ کے بطن سے پیدا ہونے والے بچے اسماعیل کے حق میں میں نے تیری دعا سن لی دیکھو میں اس کو برکت دوں گا اور اسے آبرو مند کروں گا اور اسے بہت بڑھاؤں گا اور اس سے بارہ سردار پیدا ہوں گے اور میں اسے بڑی قوم بناؤں گا۔ (تورات پیدائش 20-15-17) حضرت ابراہیم ؑ کی چھیاسی سال کی عمر تھی کہ ان کے بیٹے حضرت اسماعیل پیدا ہوئے۔ حضرت اسماعیل کے حق میں یہ بشارت توراۃ سفر تکوین باب 17درس 20 میں موجود ہے۔ یہودیوں نے حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا کے لونڈی ہونے پر حضرت سارہ رضی اللہ عنہا کے اس قول سے دلیل لی ہے جو توراۃ میں مذکور ہے کہ جب حضرت سارہ ؓ حضرت ہاجرہ ؓ سے ناراض ہو گئیں تو انہوں نے اس ڈر سے کہ کہیں حضرت ہاجرہ کا فرزند اسماعیل ؑ ان کے فرزند اسحاق ؑ کے ساتھ ابراہیمی ترکہ کا وارث بن جائے یہ کہا کہ اس لونڈی کو اور اس کے بچے کو یہاں سے نکال دے۔ یہ لفظ حضرت سارہ ؓ نے خفگی کے طور پر استعمال کیا تھا ورنہ ان کو معلوم تھا کہ شریعت ابراہیمی میں لونڈی غلام مالک کے ترکہ میں وارث نہیں ہوا کرتے ہیں۔ اگر حضرت ہاجرہ ؓ واقعی لونڈی ہوتی تو حضرت سارہ ؓ ایسا غلط بیانی کیوں کرتی جب کہ وہ ابراہیمی شریعت کے احکامات سے پورے طور پر واقف تھیں۔ پس خود توراۃ کے اس بیان سے واضح ہے کہ حضرت ہاجرہ لونڈی نہ تھی بلکہ آزاد تھی۔ اسی لیے حضرت سارہ کو ان کے لڑکے کے وارث ہونے کا خطرہ ہوا اور ان کو دور کرنے کا مطالبہ کیا۔ خلاصہ یہی ہے کہ حضرت ہاجرہ شاہ مصر کی بیٹی تھی جسے بطور خادمہ تعلیم و تربیت حاصل کرکے حرم نبوت میں بیوی بنانے کے لیے حضرت سارہ ؓ کے حوالہ کیا گیا تھا۔ حضرت امام بخاری ؒ کے منعقدہ باب میں جس کے تحت یہ حدیث آئی ہے کئی باتیں ملحوظ کی گئی ہیں جس کی تشریح علامہ قسطلانی یوں فرماتے ہیں: آجر بهمزة ممدودة بدل الهاء و جیم مفتوحة فراء و کان أبو آجر من ملوك القبط یعنی آجر ہمزہ ممدوہ کے ساتھ ہا کے بدلہ میں ہے اور جیم مفتوحہ کے بعد را ہے۔ اور آجر کا باپ فرعون مصر قبطی بادشاہوں میں سے تھا۔ یہاں علامہ قسطلانی نے صاف لفظوں میں بتلایا ہے کہ حضرت ہاجرہ فرعون مصر کی بیٹی تھی۔ ولیدہ کی تحقیق میں آپ فرماتے ہیں: و الولیدة الجاریة للخدمة سواء کانت کبیرة أو صغیرة و في الأصل الولید لطفل و الأنثی ولیدة و الجمع و لائد و المراد بها آجر المذکورہ۔یعنی لفظ ولیدہ لڑکی پر بولا جاتا ہے جو بطور خادمہ ہو عمر میں وہ صغیر ہو یا کبیر اور دراصل ولید لڑکے کو اور ولیدہ لڑکی کو کہتے ہیں۔ اس کی جمع ولائد آتی ہے اور یہاں اس لڑکی سے مراد آجر مذکور ہیں جو ہاجرہ ؑ سے مشہور ہیں۔ آگے علامہ فرماتے ہیں: و موضع الترجمة أعطوها آجر و قبول سارة منه و أمضاء إبراهیم ذلك ففیه صحة هبة الکافر و قبول هدیة السلطان الظالم و ابتلاء الصالحین لرفع درجاتهم و فیه إباحة المعاربض و إنها مندوحة عن الکذب و هذا الحدیث أخرجه أیضا في الهبة و الإکراہ و أحادیث الأنبیاء۔(قسطلانی)یعنی یہاں ترجمۃ الباب الفاظ اعطوھاآجر سے نکلتا ہے کہ ا س کافر بادشاہ نے اپنی شہزادی ہاجرہ علیہا السلام کو بطور عطیہ پیش کرنے کا حکم دیا اور سارہ علیہا السلام نے اسے قبول کرلیا اور حضرت ابراہیم ؑ نے بھی اس معاملہ کو منظور فرمایا۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ کافر کسی چیز کو بطور ہبہ کسی کو دے تو اس کا یہ ہبہ کرنا صحیح مانا جائے گا اور ظالم بادشاہ کا ہدیہ قبول کرنا بھی ثابت ہوا۔ اور نیک لوگوں کا ظالم بادشاہوں کی طرف سے ابتلا میں ڈالا جانا بھی ثابت ہوا۔ اس سے ان کے درجات بلند ہوتے ہیں۔ اور یہ بھی ثابت ہوا کہ ایسے آزمائشی مواقع پر بعض غیر مباح کنایات و تعریضات کا استعمال مباح ہوجاتا ہے اور ان کو جھوٹ میں شمار نہیں کیا جاسکتا۔ سید المحدثین حضرت امام بخاری نے اس حدیث کو اپنی جامع الصحیح میں اور بھی کئی مقامات پر نقل فرمایا ہے اور اس سے بہت سے مسائل کا استنباط کیا ہے۔ خلاصۃ المرام یہ کہ حدیث ہذا میں وارد لفظ ولیدہ لونڈی کے معنی میں نہیں، بلکہ لڑکی کے معنی میں ہے۔ حضرت ہاجرہ ؑ شاہ مصر کی بیٹی تھیں جسے اس نے حضرت سارہ ؓ کو برکت کے لیے دے دیا تھا، لہٰذا یہود کا حضرت اسماعیلؑ کو لونڈی کا بچہ کہنا محض جھوٹ اور الزام ہے۔ یہاں سر سید نے خطبات احمدیہ میں کلکتہ کے ایک مناظرہ کا ذکر کیا ہے جو اسی موضوع پر ہوا جس میں علماءیہود نے بالاتفاق تسلیم کیا تھا کہ حضرت ہاجرہ لونڈی نہ تھیں بلکہ شاہ مصر کی بیٹی تھیں۔ حضرت مولانا وحید الزماں مرحوم نے یہاں لفظ ولیدہ کا ترجمہ لونڈی کیا ہے جو لڑکی ہی کے معنوں میں ہے، ہندوستان کے بعض مقامات پر لڑکی کو لونڈیاں اور لڑکے کو لونڈا بولتے ہیں۔ ترجمۃ الباب میں چوں کہ لفظ ہبہ آیا ہے لہٰذا معلوم ہوا کہ ہبہ لغوی طور پر مطلق بخشش کو کہتے ہیں۔ اللہ پاک کا ایک صفاتی نام وہاب بھی ہے۔ یعنی بے حساب بخشش کرنے والا۔ شرع محمدی میں ہبہ کی تعریف یہ ہے کہ کسی جائیداد منقولہ یا غیر منقولہ کو برضا و رغبت اور بلا معاوضہ منتقل کردینا، منتقل کرنے والے کو واہب اور جس کے نام منتقل کیا جائے اسے موہوب لہ کہتے ہیں۔ ضروری ہے کہ اس انتقال کو خود موہوب لہ یا اس کی طرف سے کوئی اس کا ذمہ دار آدمی واہب کی زندگی ہی میں قبول کرلے۔ نیز ضروری ہے کہ ہبہ کرنے والا عاقل بالغ ہو اور یہ بھی ضروری ہے کہ شئے موہوب اس شخص کے قبضہ میں دی جائے جس کے نام پر ہبہ کیا جارہا ہے۔ ہبہ کے بارے میں بہت سی شرعی تفصیلات ہیں جو کتب فقہ میں تفصیل سے موجود ہیں۔ اردو زبان میں آنریبل مولوی سید امیر علی صاحب ایم، اے بیرسٹرایٹ لاءنے جامع الأحکام في فقه الإسلام کے نام سے ایک مفصل کتاب مسلمانوں کے قوانین مذہبی پر لکھی ہے اس میں ہبہ کے متعلق پوری تفصیلات حوالہ قلم کی گئی ہیں اور عدالت ہندیہ میں جو پرسنل لاءآف دی محمڈنس مسلمانوں کے لیے منظور شدہ ہے ہر ہر جزئی میں پوری وضاحت سے احکام ہبہ کو بتلایا گیا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): The Prophet (ﷺ) said, "The Prophet (ﷺ) Abraham emigrated with Sarah and entered a village where there was a king or a tyrant. (The king) was told that Abraham had entered (the village) accompanied by a woman who was one of the most charming women. So, the king sent for Abraham and asked, 'O Abraham! Who is this lady accompanying you?' Abraham replied, 'She is my sister (i.e. in religion).' Then Abraham returned to her and said, 'Do not contradict my statement, for I have informed them that you are my sister. By Allah, there are no true believers on this land except you and 1.' Then Abraham sent her to the king. When the king got to her, she got up and performed ablution, prayed and said, 'O Allah! If I have believed in You and Your Apostle, and have saved my private parts from everybody except my husband, then please do not let this pagan overpower me.' On that the king fell in a mood of agitation and started moving his legs. Seeing the condition of the king, Sarah said, 'O Allah! If he should die, the people will say that I have killed him.' The king regained his power, and proceeded towards her but she got up again and performed ablution, prayed and said, 'O Allah! If I have believed in You and Your Apostle (ﷺ) and have kept my private parts safe from all except my husband, then please do not let this pagan overpower me.' The king again fell in a mood of agitation and started moving his legs. On seeing that state of the king, Sarah said, 'O Allah! If he should die, the people will say that I have killed him.' The king got either two or three attacks, and after recovering from the last attack he said, 'By Allah! You have sent a satan to me. Take her to Abraham and give her Ajar.' So she came back to Abraham and said, 'Allah humiliated the pagan and gave us a slavegirl for service."