Sahi-Bukhari:
Hiring
(Chapter: To shepherd sheep for Qirat)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2262.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے کوئی نبی ایسا نہیں بھیجا جس نے بکریاں نہ چرائی ہوں۔‘‘ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے عرض کیا: آپ نے بھی؟آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ہاں! میں بھی چند قیراط کے عوض اہل مکہ کی بکریاں چرایا کرتا تھا۔‘‘
تشریح:
(1) امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ مزدوری کے طور پر بکریاں چرانا ایک حلال پیشہ ہے بلکہ انبیاء ؑ کی سنت ہے۔ پیغمبروں سے بکریاں چروانے میں یہ حکمت ہے کہ اس سے ابتدا ہی میں دوسروں پر رحمت وشفقت کرنے کی عادت پڑتی ہے جو انسانوں کی نگہبانی کےلیے بہت ضروری ہے تاکہ رفتہ رفتہ یہ حضرات انسانوں کی قیادت کرنے سے متعارف ہوجائیں اور آئندہ جب انھیں نبوت کا منصب جلیلہ ملے تو نرمی وہمدردی کی بنا پر وہ انسانوں کو راہ راست پر لاسکیں۔ اس اصول کی بنا پر جملہ انبیاء ؑ میں انسانوں سے خیر خواہی کا جذبہ بدرجۂ اتم نظر آتا ہے۔ وہ کبھی لوگوں کو اِدھر اُدھر بھاگنے سے رنجیدہ خاطر نہیں ہوتے بلکہ انھیں اکٹھا کرنے کی مشقت خندہ پیشانی سے برداشت کرتے ہیں۔بکریاں چرانا گویا سیاستِ معاملات اور قیادت اقوام کا پیش خیمہ ہے،اس طرح لوگوں کے امور کا اہتمام اور ان کے احوال کی نگرانی کرنے کا رسوخ پیدا ہوتا ہے۔ حضرت موسیٰ ؑ کا بکریاں چرانا صریح نص سے ثابت ہے۔ (مسند أحمد:96/3) (2) اصلاحی لکھتے ہیں کہ میرے نزدیک درایت کے اصولوں پر یہ روایت ٹھیک نہیں اترتی۔ (تدبرحدیث:550/1) اصلاحی نے درایت کی درانتی سے بہت سی صحیح احادیث کو سبوتاژ کیا ہے، حالانکہ اس روایت میں کوئی ایسی بات نہیں ہے جو عقل و درایت کے خلاف ہو۔ رسول الله ﷺ کا بکریاں چرانا دیگر دلائل سے بھی ثابت ہے۔ حضرت جابر ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ سفر سے واپس آرہے تھے کہ راستے میں پیلو کے درخت آئے تو ہم اس کے پھل چننے لگے، آپ نے فرمایا:’’سیاہ دانوں کا انتخاب کرنا کیونکہ یہ عمدہ ہوتے ہیں۔‘‘ صحابۂ کرام ؓ نے پوچھا: کیا آپ بکریاں چراتے رہے ہیں؟ فرمایا:’’ہاں! ہر نبی نے بکریاں چرائی ہیں۔‘‘(مسند أحمد:326/3)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2190
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2262
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2262
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2262
تمہید کتاب
لغوی طور پر اجارہ مصدر ہے جو مزدوری کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ايجار اور استيجار کسی کو مزدور بنانے کےلیے بھی بولا جاتا ہے۔استيجار کے معنی گھر اُجرت پر لینا بھی ہیں۔مزدور کو اجير کہتے ہیں۔فقہاء کی اصطلاح میں طے شدہ معاوضے کے بدلے کسی چیز کی منفعت دوسرے کے حوالے کرنا جارہ کہلاتا ہے۔اس کے جواز میں کسی کو اختلاف نہیں۔اجرت، جنس (غلہ وغیرہ) اور نقد دونوں صورتوں میں دی جاسکتی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت مزدوری کے متعلق جملہ مسائل کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ اجرت کے متعلق تیس مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں پانچ معلق اور پچیس متصل سند سے ذکر کی ہیں۔ان میں سولہ مکرر اور چودہ خالص ہیں۔چار احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے مروی اٹھارہ آثار بھی پیش کیے ہیں جن سے مختلف مسائل واحکام کا استنباط کیا ہے۔ہمارے ہاں آئے دن مزدوروں اور مالکان کے درمیان ہنگامہ آرائی رہتی ہے۔ مالکان، مزدوروں کے خلاف استحصالی ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں جبکہ رد عمل کے طور پر مزدور بھی انھیں خوب بلیک میل کرتے ہیں۔لڑائی جھگڑے، ہنگامے اور ہڑتالیں معمول بن چکا ہے۔لیبر قوانین کے باوجود اخبارات میں قتل وغارت کی خبریں پڑھنے کو ملتی ہیں۔عالمی سطح پر یکم مئی کو یوم مزدوراں منایا جاتا ہے لیکن پھر بھی ہر طرف طوفان بدتمیزی بپا ہے ۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے احادیث وآثار کی روشنی میں مزدوروں اور مالکان کے متعلق ایک ضابطہ ہمارے سامنے رکھا ہے اور تقریباً بائیس مختلف عنوانات قائم کیے ہیں،جن کی مختصر تفصیل حسب ذیل ہے:(1)مزدوری کےلیے سنجیدہ اور نیک شخص کا انتخاب کرنا چاہیے تاکہ وہ ذمے داری کے ساتھ اپنے کام سرانجام دے۔(2) چند ٹکوں کی مزدوری پر کسی کی بکریاں چرانا۔(3) بوقت ضرورت اہل شرک سے مزدوری پر کام لینا بشرطیکہ وہ دیانت دار ہوں،دھوکے باز نہ ہوں۔(4) اہل شرک کے ہاں مزدوری کرنا۔(5) فریضۂ جہاد ادا کرتے وقت مزدور ساتھ رکھنا۔(6) مزدوری کے لیے وقت طے کرلیا جائے لیکن کام کی تفاصیل طے نہ کی جائیں،تو اس کا حکم۔(7) جز وقتی مزدور رکھنا۔(8) بلاوجہ مزدوری روک لینے کا گناہ۔(9)کسی شخص کی مزدوری میں اصلاح کی نیت سے تصرف کرنا۔(10) کچھ شرائط کے ساتھ کارخانوں، فیکٹریوں اور مختلف کمپنیوں کا ایجنٹ بننا اور ان کی مصنوعات فروخت کرنا۔(11) دم جھاڑ کرنے پر کچھ اجرتیں شرعاً ناجائز ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان میں سے کچھ کی نشاندہی کی ہے، مثلاً: قحبہ گری کرنا اور لونڈیوں سے پیشہ کرانا،سانڈی کی جفتی پر اجرت لینا۔ اس طرح اجرت ومزدوری کے متعلق کچھ مسائل واحکام کی بھی وضاحت کی ہے جن کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ امام صاحب کی مصالح عباد پر گہری نظر تھی لیکن نصوص کا دامن کبھی ہاتھ سے نہ چھوڑتے تھے۔ان عنوانات اور پیش کردہ احادیث کو صدق نیت سے پڑھ کر ان پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں قیامت کے دن محدثین کے ساتھ جنت الفردوس میں جگہ عنایت فرمائے۔آمين.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے کوئی نبی ایسا نہیں بھیجا جس نے بکریاں نہ چرائی ہوں۔‘‘ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے عرض کیا: آپ نے بھی؟آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ہاں! میں بھی چند قیراط کے عوض اہل مکہ کی بکریاں چرایا کرتا تھا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ مزدوری کے طور پر بکریاں چرانا ایک حلال پیشہ ہے بلکہ انبیاء ؑ کی سنت ہے۔ پیغمبروں سے بکریاں چروانے میں یہ حکمت ہے کہ اس سے ابتدا ہی میں دوسروں پر رحمت وشفقت کرنے کی عادت پڑتی ہے جو انسانوں کی نگہبانی کےلیے بہت ضروری ہے تاکہ رفتہ رفتہ یہ حضرات انسانوں کی قیادت کرنے سے متعارف ہوجائیں اور آئندہ جب انھیں نبوت کا منصب جلیلہ ملے تو نرمی وہمدردی کی بنا پر وہ انسانوں کو راہ راست پر لاسکیں۔ اس اصول کی بنا پر جملہ انبیاء ؑ میں انسانوں سے خیر خواہی کا جذبہ بدرجۂ اتم نظر آتا ہے۔ وہ کبھی لوگوں کو اِدھر اُدھر بھاگنے سے رنجیدہ خاطر نہیں ہوتے بلکہ انھیں اکٹھا کرنے کی مشقت خندہ پیشانی سے برداشت کرتے ہیں۔بکریاں چرانا گویا سیاستِ معاملات اور قیادت اقوام کا پیش خیمہ ہے،اس طرح لوگوں کے امور کا اہتمام اور ان کے احوال کی نگرانی کرنے کا رسوخ پیدا ہوتا ہے۔ حضرت موسیٰ ؑ کا بکریاں چرانا صریح نص سے ثابت ہے۔ (مسند أحمد:96/3) (2) اصلاحی لکھتے ہیں کہ میرے نزدیک درایت کے اصولوں پر یہ روایت ٹھیک نہیں اترتی۔ (تدبرحدیث:550/1) اصلاحی نے درایت کی درانتی سے بہت سی صحیح احادیث کو سبوتاژ کیا ہے، حالانکہ اس روایت میں کوئی ایسی بات نہیں ہے جو عقل و درایت کے خلاف ہو۔ رسول الله ﷺ کا بکریاں چرانا دیگر دلائل سے بھی ثابت ہے۔ حضرت جابر ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ سفر سے واپس آرہے تھے کہ راستے میں پیلو کے درخت آئے تو ہم اس کے پھل چننے لگے، آپ نے فرمایا:’’سیاہ دانوں کا انتخاب کرنا کیونکہ یہ عمدہ ہوتے ہیں۔‘‘ صحابۂ کرام ؓ نے پوچھا: کیا آپ بکریاں چراتے رہے ہیں؟ فرمایا:’’ہاں! ہر نبی نے بکریاں چرائی ہیں۔‘‘(مسند أحمد:326/3)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے احمد بن محمد مکی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عمرو بن یحییٰ نے بیان کیا، ان سے ان کے دادا سعید بن عمرو نے اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے کوئی ایسا نبی نہیں بھیجا جس نے بکریاں نہ چرائی ہوں۔ اس پر آپ ﷺ کے نے پوچھا کیا آپ نے بھی بکریاں چرائی ہیں؟ فرمایا کہ ہاں ! کبھی میں بھی مکہ والوں کی بکریاں چند قیراط کی تنخواہ پر چرایا کرتا تھا۔
حدیث حاشیہ:
امیر المحدثین حضرت امام بخاری ؒ کا مقصد باب یہ ہے کہ مزدوری کے طور پر بکریاں چرانا بھی ایک حلال پیشہ ہے۔ بلکہ انبیاء ؑ کی سنت ہے۔ بکریوں پر گائے بھینس، بھیڑوں اور اونٹوں کو بھی قیاس کیا جاسکتا ہے کہ ان کو مزدوری پر چرانا چگانا جائز اور درست ہے۔ ہر پیغمبر نے بکریاں چرائی ہیں اس میں حکمت یہ ہے کہ بکریوں پر رحم اور شفقت کرنے کی ابتدائے عمر ہی سے عادت ہو اور رفتہ رفتہ بنی نوع انسان کی قیادت کرنے سے بھی وہ متعارف ہوجائیں۔ اور جب اللہ ان کو یہ منصب جلیلہ بخشے تو رحمت اور شفقت سے وہ ابن آدم کو راہ راست پر لاسکیں۔ اس اصول کے تحت جملہ انبیاءکرام کی زندگیوں میں آپ کو رحمت اور شفقت کی جھلک نظر آئے گی۔ حضرت موسیٰ ؑ کو فرعون کی ہدایت کے لیے بھیجا جارہا ہے۔ ساتھ ہی تاکید کی جاری ہے ﴿فَقُولَا لَهُ قَوْلًا لَيِّنًا لَعَلَّهُ يَتَذَكَّرُ أَوْ يَخْشَى﴾(طہ :44)یعنی دونو ں بھائی فرعون کے ہاں جاکر اس کو نہایت ہی نرمی سے سمجھانا۔ شاید وہ نصیحت پکڑ سکے یا وہ اللہ سے ڈر سکے۔ اسی نرمی کا نتیجہ تھا کہ حضرت موسیٰ ؑ نے جادو گروں پر فتح عظیم حاصل فرمائی۔ ہمارے رسول کریم ﷺ نے بھی اپنے بچپن میں مکہ والوں کی بکریاں اجرت پر چرائی ہیں۔ اس لیے بکری چرانا ایک طرح سے ہمارے رسول کریم ﷺ کی سنت بھی ہے۔ آپ اہل مکہ کی بکریاں چند قیراط اجرت پر چرایا کرتے تھے۔ قیراط آدھے ودانق کو کہتے ہیں جس کا وزن 5جو کے برابر ہوتا ہے۔ الحمد للہ ! آج مکہ شریف کے اطراف میں وادی منیٰ میں بیٹھ کر یہ سطریں لکھ رہا ہوں اور اطراف کی پہاڑیوں پر نظر ڈال رہا ہوں اور یاد کر رہا ہوں کہ ایک زمانہ وہ بھی تھا جس میں رسول کریم رحمۃ للعالمین ﷺ ان پہاڑوں میں مکہ والوں کی بکریاں چرایا کرتے تھے۔ کاش ! میں اتنی طاقت رکھتا کہ ان پہاڑوں کے چپہ چپہ پر پیدل چل کر آنحضرت ﷺ کے نقوش اقدام کی یاد تازہ کرسکتا۔ صلی اللہ علیه و علی آله و أصحابه و سلم۔ بعض لوگوں نے کہا کہ اطراف مکہ میں قراریط نام سے ایک موضع تھا۔ جہاں آنحضرت ﷺ مکہ والوں کی بکریاں چرایا کرتے تھے۔ حافظ فرماتے ہیں: لکن رجح الأول لأن أهل مکة لا یعرفون بها مکانا یقال له قراریط۔یعنی قول اول کہ قراریط سے درہم اور دینار کے بعض اجزاءمراد ہیں اسی کو ترجیح حاصل ہے اس لیے کہ مکہ والے کسی ایسے مکان سے ناواقف تھے جسے قراریط کے نام سے پکارا جاتا ہو۔و قال العلماء الحکمة في الهام الأنبیاء من رعی الغنم قبل النبوة أن یحصل لهم التمرن برعیها علی ما یکلفونه من القیام بأمر أمتهمیعنی علماءنے کہا ہے کہ انبیاءکو بکری چرانے کے الہام کے بارے میں حکمت یہ ہے کہ ان کو نبوت سے پہلے ہی ان کو چرا کر امت کی قیادت کے لیے مشق ہو جائے۔ بکری خود ایک ایسا بابرکت جانور ہے کہ اللہ پاک کا فضل ہو تو بکری پالنے میں چند ہی دنوں میں وارے کے نیارے ہو جائیں۔ اسی لیے فتنوں کے زمانوں میں ایک ایسے شخص کی تعریف کی گئی ہے جو سب فتنوں سے دور رہ کر جنگلوں میں بکریاں پالے۔ اور ان سے گزران کرکے جنگوں ہی میں اللہ کی عبادت کرے۔ ایسے وقت میں یہ بہترین قسم کا مسلمان ہے۔ اس وقت مسجد نبوی روضة من ریاض الجنة مدینہ منورہ میں بہ سلسلہ نظر ثانی اس مقام پر پہنچتا ہوا حرمین شریفین کے ماحول پر نظر ڈال کر حدیث ہذا پر غور کر رہا ہوں اور دیکھ رہا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے اس عظیم ملک میں بکریوں کے مزاج کے موافق کتنے مواقع پیدا کر رکھے ہیں۔ مکہ شریف میں ایک مخلص دوست کے ہاں ایک بکری دیکھی جو2 کلو وزن سے زیادہ دودھ دیتی تھی۔ صدق رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم ما من نبي إلا رعی الغنم آج صفر1390ھ مقام مبارک مذکورہ میں یہ چند الفاظ لکھے گئے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): The Prophet (ﷺ) said, "Allah did not send any prophet but shepherded sheep." His companions asked him, "Did you do the same?" The Prophet (ﷺ) replied, "Yes, I used to shepherd the sheep of the people of Makkah for some Qirats."