Sahi-Bukhari:
Hiring
(Chapter: It is legal if somebody hires someone to work for him)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
کام تین دن یا ایک مہینہ یا ایک سال کے بعد کرنا ہوگا تو جائز ہے اور جب وہ مقررہ وقت آجائے تو دونوں اپنی شرط پر قائم رہیں گے۔
تشریح : اس باب کے لانے سے حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی غرض یہ ہے کہ اجارہ میں یہ امر ضروری نہیں ہے کہ جس وقت سے اجارہ شروع ہو اسی وقت سے کام کرے۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی دیل کے مقرر کردہ نوکر سے تین رات بعد غار ثور پر آنے کا وعدہ لیا تھا۔
2264.
نبی کریم ﷺ کی زوجہ محترمہ (ام المومنین) حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اور ابو بکر ؓ نے بنو دیل کے ایک شخص کو، جو راستہ بتانے میں ماہر تھا، بطورگائیڈ (رہن) مقرر کیا، حالانکہ وہ کفارقریش کے دین پر تھا۔ ان دونوں نے ا پنی اونٹنیاں اس کے حوالے کردین اور اس سے یہ وعدہ لیا کہ وہ تین راتوں کے بعد (تیسری رات کی صبح کو اونٹنیاں لے کر) غارثور پرآئے، چنانچہ وہ (حسب وعدہ) تیسری رات کی صبح دونوں سواریاں لے کر وہاں آگیا۔
تشریح:
(1) امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ مزدور کے ساتھ مزدوری کا معاملہ طے کرنا اگرچہ کام کا وقت شروع ہونے سے پہلے ہے مگر اجرت اس وقت سے شروع ہوگی جب سے وہ طے شدہ کام کا آغاز کرے گا، اس سے امام بخاری نے اس وہم کو دور کیا ہے کہ عمل شروع کرنے سے مزدور کو پابند کیا گیا ہے، حالانکہ اس پابندی کی کوئی اجرت نہیں، شاید بغیر اجرت یہ معاملہ کرنا ممنوع ہو۔ امام موصوف نے اس روایت سے ثابت کیا ہے کہ مزدوری کا معاملہ پہلے طے کرنا جائز ہے اور اسے بلا معاوضہ کام کا پابند کرنا محض ایک وعدہ ہے عمل نہیں۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ طے شدہ معاوضہ کام اور کام کےلیے پابند کرنا دونوں کے عوض ہو۔ یہ بھی واضح ہے کہ اسے تو صرف راستہ بتانے کےلیے رکھا گیا تھا جس کا کام معاملہ طے ہونے کے تین دن بعد شروع ہوا۔ (2) امام بخاری ؒ نے عنوان میں مہینہ اور سال کی مدت کو اس پر قیاس کرکے ثابت کیا، یعنی زیادہ مدت کو تھوڑی مدت پر قیاس کیا کیونکہ کوئی مدت افضل نہیں ہے، نیز اونٹنیوں کے چرانے پر عامر بن فہیرہ مقرر تھا۔ (فتح الباري:560/4)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2192
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2264
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2264
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2264
تمہید کتاب
لغوی طور پر اجارہ مصدر ہے جو مزدوری کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ايجار اور استيجار کسی کو مزدور بنانے کےلیے بھی بولا جاتا ہے۔استيجار کے معنی گھر اُجرت پر لینا بھی ہیں۔مزدور کو اجير کہتے ہیں۔فقہاء کی اصطلاح میں طے شدہ معاوضے کے بدلے کسی چیز کی منفعت دوسرے کے حوالے کرنا جارہ کہلاتا ہے۔اس کے جواز میں کسی کو اختلاف نہیں۔اجرت، جنس (غلہ وغیرہ) اور نقد دونوں صورتوں میں دی جاسکتی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت مزدوری کے متعلق جملہ مسائل کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ اجرت کے متعلق تیس مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں پانچ معلق اور پچیس متصل سند سے ذکر کی ہیں۔ان میں سولہ مکرر اور چودہ خالص ہیں۔چار احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے مروی اٹھارہ آثار بھی پیش کیے ہیں جن سے مختلف مسائل واحکام کا استنباط کیا ہے۔ہمارے ہاں آئے دن مزدوروں اور مالکان کے درمیان ہنگامہ آرائی رہتی ہے۔ مالکان، مزدوروں کے خلاف استحصالی ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں جبکہ رد عمل کے طور پر مزدور بھی انھیں خوب بلیک میل کرتے ہیں۔لڑائی جھگڑے، ہنگامے اور ہڑتالیں معمول بن چکا ہے۔لیبر قوانین کے باوجود اخبارات میں قتل وغارت کی خبریں پڑھنے کو ملتی ہیں۔عالمی سطح پر یکم مئی کو یوم مزدوراں منایا جاتا ہے لیکن پھر بھی ہر طرف طوفان بدتمیزی بپا ہے ۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے احادیث وآثار کی روشنی میں مزدوروں اور مالکان کے متعلق ایک ضابطہ ہمارے سامنے رکھا ہے اور تقریباً بائیس مختلف عنوانات قائم کیے ہیں،جن کی مختصر تفصیل حسب ذیل ہے:(1)مزدوری کےلیے سنجیدہ اور نیک شخص کا انتخاب کرنا چاہیے تاکہ وہ ذمے داری کے ساتھ اپنے کام سرانجام دے۔(2) چند ٹکوں کی مزدوری پر کسی کی بکریاں چرانا۔(3) بوقت ضرورت اہل شرک سے مزدوری پر کام لینا بشرطیکہ وہ دیانت دار ہوں،دھوکے باز نہ ہوں۔(4) اہل شرک کے ہاں مزدوری کرنا۔(5) فریضۂ جہاد ادا کرتے وقت مزدور ساتھ رکھنا۔(6) مزدوری کے لیے وقت طے کرلیا جائے لیکن کام کی تفاصیل طے نہ کی جائیں،تو اس کا حکم۔(7) جز وقتی مزدور رکھنا۔(8) بلاوجہ مزدوری روک لینے کا گناہ۔(9)کسی شخص کی مزدوری میں اصلاح کی نیت سے تصرف کرنا۔(10) کچھ شرائط کے ساتھ کارخانوں، فیکٹریوں اور مختلف کمپنیوں کا ایجنٹ بننا اور ان کی مصنوعات فروخت کرنا۔(11) دم جھاڑ کرنے پر کچھ اجرتیں شرعاً ناجائز ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان میں سے کچھ کی نشاندہی کی ہے، مثلاً: قحبہ گری کرنا اور لونڈیوں سے پیشہ کرانا،سانڈی کی جفتی پر اجرت لینا۔ اس طرح اجرت ومزدوری کے متعلق کچھ مسائل واحکام کی بھی وضاحت کی ہے جن کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ امام صاحب کی مصالح عباد پر گہری نظر تھی لیکن نصوص کا دامن کبھی ہاتھ سے نہ چھوڑتے تھے۔ان عنوانات اور پیش کردہ احادیث کو صدق نیت سے پڑھ کر ان پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں قیامت کے دن محدثین کے ساتھ جنت الفردوس میں جگہ عنایت فرمائے۔آمين.
کام تین دن یا ایک مہینہ یا ایک سال کے بعد کرنا ہوگا تو جائز ہے اور جب وہ مقررہ وقت آجائے تو دونوں اپنی شرط پر قائم رہیں گے۔
تشریح : اس باب کے لانے سے حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی غرض یہ ہے کہ اجارہ میں یہ امر ضروری نہیں ہے کہ جس وقت سے اجارہ شروع ہو اسی وقت سے کام کرے۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی دیل کے مقرر کردہ نوکر سے تین رات بعد غار ثور پر آنے کا وعدہ لیا تھا۔
حدیث ترجمہ:
نبی کریم ﷺ کی زوجہ محترمہ (ام المومنین) حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اور ابو بکر ؓ نے بنو دیل کے ایک شخص کو، جو راستہ بتانے میں ماہر تھا، بطورگائیڈ (رہن) مقرر کیا، حالانکہ وہ کفارقریش کے دین پر تھا۔ ان دونوں نے ا پنی اونٹنیاں اس کے حوالے کردین اور اس سے یہ وعدہ لیا کہ وہ تین راتوں کے بعد (تیسری رات کی صبح کو اونٹنیاں لے کر) غارثور پرآئے، چنانچہ وہ (حسب وعدہ) تیسری رات کی صبح دونوں سواریاں لے کر وہاں آگیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ مزدور کے ساتھ مزدوری کا معاملہ طے کرنا اگرچہ کام کا وقت شروع ہونے سے پہلے ہے مگر اجرت اس وقت سے شروع ہوگی جب سے وہ طے شدہ کام کا آغاز کرے گا، اس سے امام بخاری نے اس وہم کو دور کیا ہے کہ عمل شروع کرنے سے مزدور کو پابند کیا گیا ہے، حالانکہ اس پابندی کی کوئی اجرت نہیں، شاید بغیر اجرت یہ معاملہ کرنا ممنوع ہو۔ امام موصوف نے اس روایت سے ثابت کیا ہے کہ مزدوری کا معاملہ پہلے طے کرنا جائز ہے اور اسے بلا معاوضہ کام کا پابند کرنا محض ایک وعدہ ہے عمل نہیں۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ طے شدہ معاوضہ کام اور کام کےلیے پابند کرنا دونوں کے عوض ہو۔ یہ بھی واضح ہے کہ اسے تو صرف راستہ بتانے کےلیے رکھا گیا تھا جس کا کام معاملہ طے ہونے کے تین دن بعد شروع ہوا۔ (2) امام بخاری ؒ نے عنوان میں مہینہ اور سال کی مدت کو اس پر قیاس کرکے ثابت کیا، یعنی زیادہ مدت کو تھوڑی مدت پر قیاس کیا کیونکہ کوئی مدت افضل نہیں ہے، نیز اونٹنیوں کے چرانے پر عامر بن فہیرہ مقرر تھا۔ (فتح الباري:560/4)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے لیث نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عقیل نے کہ ابن شہاب نے بیان کیا کہ مجھے عروہ بن زبیر نے خبر دی اور ان سے نبی کریم ﷺ کی بیوی حضرت عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول کریم ﷺ اور ابوبکر ؓ نے بنو دیل کے ایک ماہر راہبر سے مزدوری طے کر لی تھی۔ وہ شخص کفار قریش کے دین پر تھا۔ ان دونوں حضرات نے اپنی دونوں اونٹنیاں اس کے حوالے کر دی تھیں اور کہہ دیا تھا کہ تین راتوں کے بعد صبح سویرے ہی سواروں کے ساتھ غار ثور پر آجائے۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں رسول کریم ﷺ کی ہجرت سے متعلق ایک جزوی ذکر ہے کہ آپ اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے شب ہجرت میں سفر شروع کرنے سے پہلے ایک ایسے شخص کو بطور راہبر مزدور مقرر فرما لیا تھا جو کفار قریش کے دین پر تھا اور یہ بنودیل میں سے تھا۔ آنحضرت ﷺ اور حضرت صدیق اکبر ؓ کو اس پر اعتماد تھا اس لیے اپنی ہر دو سواریوں کو اس کے حوالہ کرتے ہوئے اس سے وعدہ لے لیا کہ وہ تین راتیں گزر جانے کے بعد دونوں سواریوں کو لے کر غار ثور پر چلا آئے۔ چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا۔ اور آپ ہر دو نے سفر شروع کیا۔ یہ شخص بطور ایک ماہر راہبر کے تھا اور عامر بن فہیرہ کو ہر دو سواریوں کے لیے نگران کے طور پر مقرر کیا تھا۔ اگلے باب میں مذکور ہے کہ آنحضرت ﷺ نے اس شخص کو اس شرط پر مزدور مقرر کیا کہ وہ اپنا مقرر کام تین راتیں گزرنے کے بعد انجام دے۔ اسی طرح اگر ایک ماہ بعد یا سال بعد کی شرط پر کسی کو مزدور رکھا جائے اور ہر دو فریق راضی ہوں تو ایسا معاملہ کرنا درست ہے۔ اس حدیث سے بھی ضرورت کے وقت کسی معتمد غیر مسلم کو بطور مزدور رکھ لینا جائز ثابت ہوا۔ و هذا هو المراد الحمد للہ کہ کعبہ شریف میں غار ثور کی طرف بیٹھے ہوئے یہ حدیث اور اس کی یہ تشریح حوالہ قلم کر رہا ہوں، چودہ سو سال گزررہے ہیں مگر حیات طیبہ کا ایک ایک ورق ہر طرح سے اتنامحفوظ ہے کہ اس سے زیادہ ممکن نہیں۔ یہی وہ غار ثور ہے جس کو آج جبل الثور کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ اسی میں آنحضرت ﷺ نے اپنے یار غار حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے ہمراہ تین راتوں تک قیام فرمایا تھا۔ صلی اللہ علیه وسلم۔
اس باب کے ذیل میں حضرت مولانا وحیدالزماں مرحوم کا تشریحی نوٹ یہ ہے کہ اس باب کے لانے سے حضرت امام بخارى ؒ کی غرض یہ ہے کہ اجارہ میں یہ امر ضروری نہیں کہ جس وقت سے اجارہ شروع ہو اسی وقت سے کام شروع کرے۔ اسماعیلی نے اعتراض کیا ہے کہ باب کی حدیث سے یہ نہیں نکلتا کہ ابوبکر صدیق ؓ اور آنحضرت ﷺ نے اس شخص سے یہ شرط لگائی تھی کہ وہ تین دن کے بعد اپنا کام شروع کرے، مگر یہ اعتراض صحیح نہیں کیوں کہ حدیث مذکورہ میں باب کی مطابقت واضح طور پر موجود ہے۔ بہ ثبوت اجارہ صاحب المہذب لکھتے ہیں: فقد ثبت أن رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم و أبابکر استأجر عبداللہ بن الأریقط الدیلي و کان حزینا و هو أخبر بمسالك الصحراء و الوهاد العالم بجغرافیة بلاد العرب علی الطبیعة لیکون هادیا و مرشدا لهما في هجرتهما من مکة إلی المدینة۔ تحقیق ثابت ہو گیا کہ رسول کریم ﷺ اور حضرت ابوبکر ؓ نے عبداللہ بن اریقط دیلی کو مزدور بنایا۔ وہ صحرائی راستے کا بہت بڑا ماہر تھا۔ و ہ بلاد عرب کے طبعی جغرافیہ سے پورے طور پر واقف تھا۔ اس کو اس لیے مزدور رکھا تھا تاکہ وہ بوقت ہجرت مکہ سے مدینہ تک آنحضرت ﷺ اور حضرت ا بوبکر صدیق ؓ کے لیے رہنمائی کا فر ض انجام دے۔ جس سے غیر مسلم کو جس پر اعتماد ہو مزدور بنا کر رکھنا ثابت ہوا۔ آج 29ذی الحجہ1389ھ کو بوقت مغرب مقام ابراہیم کے پاس بیٹھ کر یہ نوٹ لکھا گیا۔ والحمد للہ علی ذلك اور2صفر یوم جمعہ کو مسجد نبوی جنت کی کیاری میں بیٹھ کر اس پر نظر ثانی کی گی۔ والحمد للہ علی ذلك۔
غار ثور پر حاضری : اس حدیث کو لکھتے ہوئے دل میں خیال آیا تھا کہ مکۃ المکرمہ میں موجود ہونے پر مناسب ہوگا کہ ہجرت نبوی کی اولین منزل یعنی غار ثور کو خو داپنی آنکھوں سے دیکھ کر عبرت حاصل کی جائے۔ اگرچہ یہاں جانا نہ کوئی رکن حج ہے نہ اس کے لیے کوئی شرعی حکم ہے مگر سیروا في الأرض کے تحت بتاریخ 16محرم 1390ھ دیگر رفقاءحجاج کرام کے ہمراہ غار ثور پر جانے کا عزم کرلیا۔ حرم شریف سے کئی میل کا فاصلہ ہے اور وہاں جانے پر چاروں طرف پہاڑوں کی خوفناک مناظر سامنے آتے ہیں۔ چنانچہ ہندوستان ٹائم کے مطابق اندازا دن کے گیارہ بجے ہمارا قافلہ دامن کوہ ثور میں پہنچ گیا۔ پہاڑ کی چوٹی پر نظر ڈالی گئی تو ہمت نے جواب دے دیا۔ مگر رفقاءکرام کے عزم کو دیکھ کر چڑھائی شروع کی گئی۔ حال یہ تھا کہ جس قدر اوپر چڑھتے جاتے وہ مقام دور ہی نظر آتا جا رہا تھا۔ آخر بیٹھ بیٹھ کر بصد مشکل تقریباً گھنٹہ بھر کی محنت کے بعد غار ثور تک رسائی ہو سکی۔ یہاں اس قسم کے کئی غار ہیں جن کے اوپر عظیم پتھروں کی چھت قدرتی طور پر بنی ہوئی ہیں۔ ایک غار پر غار ثور لکھا ہوا تھا یہی وہ غار ثور ہے جس کے اندر بیٹھ کر رسول اللہ ﷺ نے اپنے یار غار حضرت صدیق اکبر ؓ سے فرمایا تھا ما ظنكَ باثنین اللہ ثالثهُمَا جب صدیق اکبر ؓ کو دشمنوں کا خوف محسوس ہوا تو آنحضرت ﷺ نے آپ کو مذکورہ بالا لفظوں میں تسلی دلائی تھی کہ اے ابوبکر ! تمہارا ان دو کے بارے میں کیا گمان ہے جن کے ساتھ تیسرا خود اللہ پاک ہے۔ ( اللہ پاک کے خود ساتھ ہونے سے اس کی مدد و نصرت مراد ہے، جب کہ وہ خو داپنی ذات سے عرش عظیم پر ہے ) مطلب یہ تھا کہ خود اللہ ہمارا محافظ و ناصر ہے۔ پھر ہم کو دشمنوں کی طرف سے کیا غم ہو سکتا ہے اور اللہ پاک نے اپنے ہر دو محبوب بندوں کو بچا لیا۔ غار کے اندر دو آدمیوں کے بیٹھنے لیٹے کی جگہ ہے ایک طرف سے بیٹھ کر داخل ہو ا جاسکتا ہے میں اور ہمارے رفیق اندر داخل ہوئے اور سارا منظر دیکھا۔ اور بار بار قدرت الٰہی یاد آتی رہی۔ اور تاریخ اسلام کے عظیم واقعہ کی یاد تازہ ہوتی رہی۔ چند الفاظ یاد داشت غار کے اندر ہی بیٹھ کر حوالہ قلم کئے گئے۔ جی چاہتا ہے کہ یہا ں کافی دیر ٹھہرا جائے کیوں کہ منظر بہت ہی روح افزا تھا۔ مگر نیچے گاڑی والا منتظر تھا۔ اس لیے دوستوں کے ساتھ واپسی کا مرحلہ طے کیا گیا۔ غار اونچائی اور راستہ پر خطر ہونے کے لحاظ سے اس قابل نہیں ہے کہ ہر شخص وہاں تک جاسکے۔ چڑھنا بھی خطرناک اور اترنا اس سے زیادہ خطرناک ہے، چنانچہ اترنے میں دو گنا وقت صرف ہوا اور نماز ظہر کا وقت بھی اترتے اترتے ہی ہوگیا۔ بصد مشکل نیچے اتر کر گاڑی پکڑی اور حرم شریف میں ایسے وقت حاضری ہوئی کہ ظہر کی نماز ہو چکی تھی مگر الحمد للہ کہ زندگی کی ایک حسرت تھی کہ رسول کریم ﷺ کی ہجرت کی اولین منزل کو دیکھا جائے سو اللہ پاک نے یہ موقع نصیب فرمایا۔ و الحمد للہ أولا و آخرا و الصلوة و السلام علی رسول اللہ و علی صاحبه الصدیق رضي اللہ عنه۔ (محترم حاجی اللہ بخش صاحب بیجا پوری اور محترم حاجی منشی حقیق اللہ صاحب ناظر مدرسہ دار الہدی یوسف پور، یوپی ساتھ تھے جن کی ہمت سے مجھ جیسے ضعیف کمزور نے بھی اس منزل تک رسائی حاصل کی۔ جزاهم اللہ)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Aisha (RA): (the wife of the Prophet) Allah's Apostle (ﷺ) and Abu Bakr (RA) hired a man from the tribe of Bani-Ad-Dil as an expert guide who was a pagan (follower of the religion of the pagans of Quraish). The Prophet (ﷺ) and Abu Bakr (RA) gave him their two riding camels and took a promise from him to bring their riding camels in the morning of the third day to the Cave of Thaur.