Sahi-Bukhari:
Hiring
(Chapter: (Charging for) the semen of a male animal)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2284.
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نےکہا: نبی ﷺ نے جفتی کرانے کا معاوضہ لینے سے منع فرمایا ہے۔
تشریح:
اس کی صورت یہ ہے کہ ایک ریوڑ والا اپنی ضرورت کے پیش نظر دوسرے ریوڑ والے سے سانڈ مانگے اور وہ اجرت لیے بغیر سانڈ نہ دے بلکہ اس پر کرایہ وصول کرے، اجارے کی یہ صورت ناجائز اور حرام ہے۔ ہاں،عاریتاً نر جانور کا دینا جائز ہے کیونکہ اسے بھی ناجائز قرار دیا جائے تو اس سے نسل ختم ہونے کا اندیشہ ہے، اسی طرح اگر مادہ والا غیر مشروط طور پر نر والے کو ہدیہ کے طور پر کچھ دے تو اس کے لینے میں کوئی قباحت نہیں، البتہ جفتی کرانے کا کرایہ وصول کرنا حرام ہے کیونکہ اس سے معلوم نہیں کہ مادہ جفتی سے بار آور ہوتی ہے یا نہیں،نیز حیوان کا نطفہ کوئی قیمتی چیز نہیں اور نہ اس کا دینا کسی کے بس میں ہے۔ (فتح الباري:582/4)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2212
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2284
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2284
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2284
تمہید کتاب
لغوی طور پر اجارہ مصدر ہے جو مزدوری کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ايجار اور استيجار کسی کو مزدور بنانے کےلیے بھی بولا جاتا ہے۔استيجار کے معنی گھر اُجرت پر لینا بھی ہیں۔مزدور کو اجير کہتے ہیں۔فقہاء کی اصطلاح میں طے شدہ معاوضے کے بدلے کسی چیز کی منفعت دوسرے کے حوالے کرنا جارہ کہلاتا ہے۔اس کے جواز میں کسی کو اختلاف نہیں۔اجرت، جنس (غلہ وغیرہ) اور نقد دونوں صورتوں میں دی جاسکتی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت مزدوری کے متعلق جملہ مسائل کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ اجرت کے متعلق تیس مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں پانچ معلق اور پچیس متصل سند سے ذکر کی ہیں۔ان میں سولہ مکرر اور چودہ خالص ہیں۔چار احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے مروی اٹھارہ آثار بھی پیش کیے ہیں جن سے مختلف مسائل واحکام کا استنباط کیا ہے۔ہمارے ہاں آئے دن مزدوروں اور مالکان کے درمیان ہنگامہ آرائی رہتی ہے۔ مالکان، مزدوروں کے خلاف استحصالی ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں جبکہ رد عمل کے طور پر مزدور بھی انھیں خوب بلیک میل کرتے ہیں۔لڑائی جھگڑے، ہنگامے اور ہڑتالیں معمول بن چکا ہے۔لیبر قوانین کے باوجود اخبارات میں قتل وغارت کی خبریں پڑھنے کو ملتی ہیں۔عالمی سطح پر یکم مئی کو یوم مزدوراں منایا جاتا ہے لیکن پھر بھی ہر طرف طوفان بدتمیزی بپا ہے ۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے احادیث وآثار کی روشنی میں مزدوروں اور مالکان کے متعلق ایک ضابطہ ہمارے سامنے رکھا ہے اور تقریباً بائیس مختلف عنوانات قائم کیے ہیں،جن کی مختصر تفصیل حسب ذیل ہے:(1)مزدوری کےلیے سنجیدہ اور نیک شخص کا انتخاب کرنا چاہیے تاکہ وہ ذمے داری کے ساتھ اپنے کام سرانجام دے۔(2) چند ٹکوں کی مزدوری پر کسی کی بکریاں چرانا۔(3) بوقت ضرورت اہل شرک سے مزدوری پر کام لینا بشرطیکہ وہ دیانت دار ہوں،دھوکے باز نہ ہوں۔(4) اہل شرک کے ہاں مزدوری کرنا۔(5) فریضۂ جہاد ادا کرتے وقت مزدور ساتھ رکھنا۔(6) مزدوری کے لیے وقت طے کرلیا جائے لیکن کام کی تفاصیل طے نہ کی جائیں،تو اس کا حکم۔(7) جز وقتی مزدور رکھنا۔(8) بلاوجہ مزدوری روک لینے کا گناہ۔(9)کسی شخص کی مزدوری میں اصلاح کی نیت سے تصرف کرنا۔(10) کچھ شرائط کے ساتھ کارخانوں، فیکٹریوں اور مختلف کمپنیوں کا ایجنٹ بننا اور ان کی مصنوعات فروخت کرنا۔(11) دم جھاڑ کرنے پر کچھ اجرتیں شرعاً ناجائز ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان میں سے کچھ کی نشاندہی کی ہے، مثلاً: قحبہ گری کرنا اور لونڈیوں سے پیشہ کرانا،سانڈی کی جفتی پر اجرت لینا۔ اس طرح اجرت ومزدوری کے متعلق کچھ مسائل واحکام کی بھی وضاحت کی ہے جن کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ امام صاحب کی مصالح عباد پر گہری نظر تھی لیکن نصوص کا دامن کبھی ہاتھ سے نہ چھوڑتے تھے۔ان عنوانات اور پیش کردہ احادیث کو صدق نیت سے پڑھ کر ان پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں قیامت کے دن محدثین کے ساتھ جنت الفردوس میں جگہ عنایت فرمائے۔آمين.
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نےکہا: نبی ﷺ نے جفتی کرانے کا معاوضہ لینے سے منع فرمایا ہے۔
حدیث حاشیہ:
اس کی صورت یہ ہے کہ ایک ریوڑ والا اپنی ضرورت کے پیش نظر دوسرے ریوڑ والے سے سانڈ مانگے اور وہ اجرت لیے بغیر سانڈ نہ دے بلکہ اس پر کرایہ وصول کرے، اجارے کی یہ صورت ناجائز اور حرام ہے۔ ہاں،عاریتاً نر جانور کا دینا جائز ہے کیونکہ اسے بھی ناجائز قرار دیا جائے تو اس سے نسل ختم ہونے کا اندیشہ ہے، اسی طرح اگر مادہ والا غیر مشروط طور پر نر والے کو ہدیہ کے طور پر کچھ دے تو اس کے لینے میں کوئی قباحت نہیں، البتہ جفتی کرانے کا کرایہ وصول کرنا حرام ہے کیونکہ اس سے معلوم نہیں کہ مادہ جفتی سے بار آور ہوتی ہے یا نہیں،نیز حیوان کا نطفہ کوئی قیمتی چیز نہیں اور نہ اس کا دینا کسی کے بس میں ہے۔ (فتح الباري:582/4)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالوارث اور اسماعیل بن ابراہیم نے بیان کیا، ان سے علی بن حکم نے، ان سے نافع نے اور ان سے ابن عمر ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے نر کدانے کی اجرت لینے سے منع فرمایا (حدیث اور باب میں مطابقت ظاہر ہے)
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Umar (RA): The Prophet (ﷺ) forbade taking a price for animal copulation