باب : اگر کسی میت کا قرض کسی ( زندہ ) شخص کے حوالہ کیا جائے تو جائز ہے
)
Sahi-Bukhari:
Transferance of a Debt from One Person to Another (Al-Hawaala)
(Chapter: If the debts due on a dead person are transferred to somebody, the transference is legal)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2289.
حضرت سلمہ بن اکوع ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: ہم نبی ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک جنازہ لایا گیا۔ لوگوں نے عرض کیا: آپ اس پر نماز جنازہ پڑھیں۔ آپ نے فرمایا: ’’ کیا اس پر کوئی قرض ہے؟‘‘ لوگوں نےکہا: کوئی نہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’اس نے کچھ مال چھوڑا ہے؟‘‘ لوگوں نےعرض کیا: نہیں تو آپ نے اس پر نماز جنازہ پڑھی۔ پھر ایک اور جنازہ لایا گیا تو لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ !اس پر نماز جنازہ پڑھیں۔ آپ نے فرمایا: ’’ آیا اس کے ذمے قرض ہے؟‘‘ بتایا گیا: ہاں (یہ قرض دار ہے) آپ نے پوچھا: ’’اس نے کچھ مال چھوڑا ہے؟‘‘ لوگوں نے کہا: ہاں تین دینار۔ آپ نے اس پر بھی نماز جنازہ پڑھی۔ پھر تیسرا جنازہ لایا گیا: لوگوں نے عرض کیا: آپ اس پر نماز جنازہ پڑھیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ’’ کیا اس نے کوئی چیز چھوڑی ہے؟‘‘ انھوں نے کہا: نہیں۔ آپ نے فرمایا:’’ کیا اس پر قرض ہے؟‘‘ انھوں نے کہا: تین دینار۔ آپ نے فرمایا: ’’تم لوگ اپنے ساتھی کی نماز جنازہ خود پڑھ لو۔‘‘ حضرت ابو قتادہ ؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ !اس پر نماز جنازہ پڑھیں۔ میں اس کا قرض اپنےذمے لیتا ہوں۔ تب آپ نے اس کی نماز جنازہ پڑھی۔
تشریح:
(1) ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’میت کے قرض والے دودینار تیرے ذمے، تیرے مال میں سے ادا کرنا واجب ہیں اور میت ان سے بری ہوگئی۔‘‘ (المستدرک علی الصحیحین (طبع دارالمعرفة، بیروت):87/3) بظاہر یہ روایت متن میں مذکور روایت کے مخالف ہے کہ اس میں تین دینار کا ذکر ہے۔اس میں تطبیق یہ ہے کہ وہ قرض دو دینار سے زیادہ اور تین سے کم تھا۔ جس نے تین کہے اس نے کم پیسوں کا لحاظ کیے بغیر عدد پورا کردیا اور جس نے دو کہے اس نے اوپر والے پیسوں کو شمار نہیں کیا۔مقصد پورے قرض کی ادائیگی ہے۔ والله أعلم. اس سے امام بخاری ؒ نے اپنا دعویٰ ثابت کیا کہ میت پر جو قرض ہے اس کا حوالہ جائز ہے۔ (2) اس پر اعتراض کیا جاسکتا ہے کہ یہ تو ضمان ہے حوالہ نہیں جیسا کہ ابن ماجہ کی روایت میں صراحت ہے جبکہ عنوان میں حوالے کا ذکر ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ مفلس میت کی ضمان یہ ہے کہ اس کا قرض اس کے ذمے سے دوسرے ذمے کی طرف منتقل کیا جائے اور حوالے کے بھی یہی معنی ہیں۔ (3) امام ابو حنیفہ ؒ کا مؤقف ہے کہ اگر میت اپنے قرض کی مقدار جائیداد چھوڑ گیا ہے تو حوالہ صحیح ہے بصورت دیگر اس کی طرف سے ضمانت صحیح نہیں۔ یہ موقف مذکورہ حدیث کے صریح خلاف ہے۔ (4) واضح رہے کہ مذکورہ حدیث میں امام بخاری ؒ اور رسول اللہ ﷺ کے درمیان صرف تین واسطے ہیں، ایسی حدیث کو ثلاثی کہا جاتا ہے اور یہ ساتویں ثلاثی حدیث ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2217
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2289
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2289
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2289
تمہید کتاب
لغوی اعتبار سے حوالات، حوالہ کی جمع ہے جو تحول سے مشتق ہے۔اس کے معنی انتقال،یعنی پھیر دینے کے ہیں۔فقہاء کی اصطلاح میں کسی کے فرض کو دوسرے کی طرف منتقل کردینا حوالہ کہلاتا ہے۔ جس طرح ایک ضرورت مند آدمی کی حاجت روئی کے لیے اسلامی شریعت نے قرض لینے کی اجازت دی ہے اور جس طرح مقروض کے بوجھ کو ہلکا کرنے کے لیے اس نے کفالت کا طریقہ بتایا ہے،اسی طرح قرض میں پھنسے ہوئے آدمی کے لیے آسانی کی ایک اور صورت پیدا کی ہے جسے حوالہ کہا جاتا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آسودہ حال افراد کو حکم دیا ہے کہ اگر کوئی اپنے قرض کی ذمہ داری اس پر ڈالے تو اسے قبول کرلینی چاہیے جیسا کہ آئندہ حدیث میں اس کا ذکر آئے گا۔اس سلسلے میں چند ضروری اصطلاحات کی وضاحت حسب ذیل ہے:(1)صاحب دین، یعنی قرض خواہ کو محتال یا محال لہ کہا جاتا ہے۔(2) جس پر قرض ہو اور وہ اپنے ذمے کی رقم دوسرے کے ذمے ڈالنا چاہتا ہو اسے محیل یا مدیون کہتے ہیں۔(3) جس شخص نے مقروض کی رقم اپنے ذمے لےلی ہے،اسے محتال علیہ یا محال علیہ کہا جاتا ہے۔(4) وہ رقم جس کا حوالہ کیا گیا ہے اسے محتال بہ یا محال بہ کہتے ہیں۔مثال کے طور پر محمد کے ذمے احمد کے ایک ہزار روپے ہیں۔اب محمد نے ایک تیسرے شخص حامد سے کہا کہ آپ احمد کی رقم جو میرے ذمے ہے،اس کی ادائیگی کریں،میں اس وقت ادا نہیں کرسکتا۔حامد نے اسے قبول کرلیا تو محمد کو محیل، احمد کو محتال،حامد کو محتال علیہ،ایک ہزار کو محتال بہ اور اس پورے معاملے کو حوالہ کہا جائے گا۔کفالت اور حوالہ میں فرق یہ ہے کہ کفالت میں حق دار اصل مقروض اور کفیل دونوں سے مطالبہ کرسکتا ہے جبکہ حوالے میں مقروض سے اب کوئی واسطہ نہیں رہا بلکہ حق دار صرف محتال علیہ،جس نے ذمہ داری قبول کی ہے صرف اس سے مطالبہ کرنے کا روادار ہے۔حوالے کی عام طور پر دو قسمیں ہیں:(1) حوالہ مقیدہ: محیل، یعنی مقروض کا جو روپیہ کسی دوسرے کے ذمے ہے وہ اپنے قرض میں محتال، یعنی قرض خواہ کو لادے۔(2) حوالہ مطلقہ: محیل:یعنی مقروض کا کسی کے ذمے کچھ نہیں ہوتا بلکہ وہ اپنے قرض کی ادائیگی کسی دوسرے کے حوالے کرتا ہے۔حوالے کے لیے ضروری ہے کہ جس رقم کو دلانا ہے اور جس سے دلانا ہے،دونوں کو خبر ہو اور دونوں اس پر راضی ہوں،اگر ان میں سے کسی کو خبر نہ ہوتو پھر حوالہ صحیح نہیں ہوگا۔ بہر حال حوالے کے ذریعے سے مقروض کو اپنے معاشی حالات درست کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔روز مرہ کی ضروریات کے علاوہ غیر ملکی تجارتوں میں تبادلۂ زر اور تبادلۂ جنس دونوں میں حوالے سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔آج کل رقم کی ادائیگی کا طریقہ منی آرڈر، چیک، ڈرافت اور ہنڈی وغیرہ ہے۔وہ بھی حوالے کی صورتیں ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت اس کا جواز ثابت کیا ہے اور اس سلسلے میں تین مرفوع احادیث اور تین آثار پیش کیے ہیں،پھر ان احادیث وآثار پر تین چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:(1)کسی دوسرے کی طرف اپنا قرض منتقل کرنا،نیز کیا کوئی آدمی حوالے میں رجوع کرسکتا ہے؟(2) اگر مال دار پر قرض کا حوالہ کیا جائے تو اس کا رد کرنا جائز نہیں۔(3) میت کے ذمے جو قرض ہو اس کا حوالہ کسی زندہ شخص پر کرنا جائز اور درست ہے۔ الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے لوگوں کی ایک ضرورت کو صریح نصوص سے ثابت کیا ہے، نیز حوالہ اور اس کے متعلقات کے بارے میں بحث کی ہے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کریں تاکہ یہ ان کی علمی بصیرت میں اضافے کا باعث ہو۔
حضرت سلمہ بن اکوع ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: ہم نبی ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک جنازہ لایا گیا۔ لوگوں نے عرض کیا: آپ اس پر نماز جنازہ پڑھیں۔ آپ نے فرمایا: ’’ کیا اس پر کوئی قرض ہے؟‘‘ لوگوں نےکہا: کوئی نہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’اس نے کچھ مال چھوڑا ہے؟‘‘ لوگوں نےعرض کیا: نہیں تو آپ نے اس پر نماز جنازہ پڑھی۔ پھر ایک اور جنازہ لایا گیا تو لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ !اس پر نماز جنازہ پڑھیں۔ آپ نے فرمایا: ’’ آیا اس کے ذمے قرض ہے؟‘‘ بتایا گیا: ہاں (یہ قرض دار ہے) آپ نے پوچھا: ’’اس نے کچھ مال چھوڑا ہے؟‘‘ لوگوں نے کہا: ہاں تین دینار۔ آپ نے اس پر بھی نماز جنازہ پڑھی۔ پھر تیسرا جنازہ لایا گیا: لوگوں نے عرض کیا: آپ اس پر نماز جنازہ پڑھیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ’’ کیا اس نے کوئی چیز چھوڑی ہے؟‘‘ انھوں نے کہا: نہیں۔ آپ نے فرمایا:’’ کیا اس پر قرض ہے؟‘‘ انھوں نے کہا: تین دینار۔ آپ نے فرمایا: ’’تم لوگ اپنے ساتھی کی نماز جنازہ خود پڑھ لو۔‘‘ حضرت ابو قتادہ ؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ !اس پر نماز جنازہ پڑھیں۔ میں اس کا قرض اپنےذمے لیتا ہوں۔ تب آپ نے اس کی نماز جنازہ پڑھی۔
حدیث حاشیہ:
(1) ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’میت کے قرض والے دودینار تیرے ذمے، تیرے مال میں سے ادا کرنا واجب ہیں اور میت ان سے بری ہوگئی۔‘‘ (المستدرک علی الصحیحین (طبع دارالمعرفة، بیروت):87/3) بظاہر یہ روایت متن میں مذکور روایت کے مخالف ہے کہ اس میں تین دینار کا ذکر ہے۔اس میں تطبیق یہ ہے کہ وہ قرض دو دینار سے زیادہ اور تین سے کم تھا۔ جس نے تین کہے اس نے کم پیسوں کا لحاظ کیے بغیر عدد پورا کردیا اور جس نے دو کہے اس نے اوپر والے پیسوں کو شمار نہیں کیا۔مقصد پورے قرض کی ادائیگی ہے۔ والله أعلم. اس سے امام بخاری ؒ نے اپنا دعویٰ ثابت کیا کہ میت پر جو قرض ہے اس کا حوالہ جائز ہے۔ (2) اس پر اعتراض کیا جاسکتا ہے کہ یہ تو ضمان ہے حوالہ نہیں جیسا کہ ابن ماجہ کی روایت میں صراحت ہے جبکہ عنوان میں حوالے کا ذکر ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ مفلس میت کی ضمان یہ ہے کہ اس کا قرض اس کے ذمے سے دوسرے ذمے کی طرف منتقل کیا جائے اور حوالے کے بھی یہی معنی ہیں۔ (3) امام ابو حنیفہ ؒ کا مؤقف ہے کہ اگر میت اپنے قرض کی مقدار جائیداد چھوڑ گیا ہے تو حوالہ صحیح ہے بصورت دیگر اس کی طرف سے ضمانت صحیح نہیں۔ یہ موقف مذکورہ حدیث کے صریح خلاف ہے۔ (4) واضح رہے کہ مذکورہ حدیث میں امام بخاری ؒ اور رسول اللہ ﷺ کے درمیان صرف تین واسطے ہیں، ایسی حدیث کو ثلاثی کہا جاتا ہے اور یہ ساتویں ثلاثی حدیث ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے مکی بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یزید بن ابی عبید نے بیان کیا، ان سے سلمہ بن اکوع ؓ نے کہ ہم نبی کریم ﷺ کی خدمت میں موجود تھے کہ ایک جنازہ لایا گیا۔ لوگوں نے آپ سے عرض کیا کہ اس کی نماز پڑھا دیجئے۔ اس پر آپ نے پوچھا کیا اس پر کوئی قرض ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ نہیں کوئی قرض نہیں ہے۔ آپ نے دریافت فرمایا کہ میت نے کچھ مال بھی چھوڑا ہے؟ لوگوں نے عرض کیا کوئی مال بھی نہیں چھوڑا۔ آپ نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی۔ اس کے بعد ایک دوسرا جنازہ لایا گیا لوگوں نے عرض کیا یارسول اللہ ! آپ ان کی بھی نماز جنازہ پڑھا دیجئے۔ آنحضرت ﷺ نے دریافت فرمایا، کسی کا قرض بھی میت پرہے؟ عرض کیا گیا کہ ہے۔ پھر آپ ﷺ نے دریافت فرمایا، کچھ مال بھی چھوڑا ہے؟ لوگو ں نے کہا کہ تین دینار چھوڑے ہیں۔ آپ نے ان کی بھی نماز جنازہ پڑھائی۔ پھر تیسرا جنازہ لایا گیا۔ لوگو ں نے آپ کی خدمت میں عرض کیا کہ اس کی نماز پڑھا دیجئے۔ آنحضرت ﷺ نے ان کے متعلق بھی وہی دریافت فرمایا، کیا کوئی مال ترکہ چھوڑا ہے؟ لوگو ں نے کہا کہ نہیں۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا، اور اس پر کسی کا قرض بھی ہے؟ لوگوں نے کہا کہ ہاں تین دینار ہیں۔ آپ نے اس پر فرمایا کہ پھر اپنے ساتھی کی تم ہی لوگ نماز پڑھ لو۔ ابوقتادۃ ؓ بولے، یا رسول اللہ ! آپ ﷺ ان کی نماز پڑھا دیجئے، ان کا قرض میں ادا کردوں گا۔ تب آپ نے اس پر نماز پڑھائی۔
حدیث حاشیہ:
ابن ماجہ کی روایت میں یوں ہے میں اس کا ضامن ہوں۔ حاکم کی روایت میں یوں ہے آنحضرت ﷺ نے یوں فرمایا، وہ اشرفیاں تجھ پر ہیں اور میت بری ہو گیا۔ جمہور علماءنے اس سے استدلال کیا ہے کہ ایسی کفالت صحیح ہے اور کفیل کو پھر میت کے مال میں رجوع کا حق نہیں پہنچتا۔ اور امام مالک ؒ کے نزدیک اگر رجوع کی شرط کر لے تو رجوع کرسکتاہے۔ اوراگر ضامن کو یہ معلوم ہو کہ میت نادار ہے تو رجوع نہیں کرسکتا۔ حضرت امام ابوحنیفہ ؒ فرماتے ہیں اگر میت بقدر قرض کے جائیداد چھوڑ گیا ہے تب تو ضمانت درست ہوگی ورنہ ضمانت درست نہ ہوگی۔ امام صاحب کا یہ قول صراحتاً حدیث کے خلاف ہے۔ (وحیدی) اور خود حضرت امام ؒ کی وصیت ہے کہ حدیث نبوی کے خلاف میرا کوئی قول ہو اسے چھوڑ دو۔ جو لوگ حضرت امام ابوحنیفہ کے اس فرمان کے خلاف کرتے ہیں وہ سوچیں کہ قیامت کے دن حضرت امام کو کیا منہ دکھلائیں گے۔ ہر مسلمان کو یہ اصول ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ و رسول کے بعد جملہ ائمہ دین، مجتہدین، اولیاءکاملین، فقہائے کرام، بزرگان اسلام کا ماننا یہی ہے کہ ان کا احترام کامل دل میں رکھا جائے۔ ان کی عزت کی جائے، ان کی شان میں گستاخی کا کوئی لفظ نہ نکالا جائے۔ اور ان کے کلمات و ارشادات جو کتاب و سنت سے نہ ٹکرائیں وہ سر آنکھوں پر رکھے جائیں۔ ان کو دل و جان سے تسلیم کیا جائے اور اگر خدانخواستہ ان کا کوئی فرمان ظاہر آیت قرآن یا حدیث مرفوع کے خلاف ہو تو خود ان ہی کی وصیت کے تحت اسے چھوڑ کر قرآن و حدیث کی اتبا ع کی جائے۔ یہی راہ نجات اور صراط مستقیم ہے اگر ایسا نہ کیا گیا اور ان کے کلمات ہی کو بنیاد دین ٹھہرا لیا گیا تو یہ اس آیت کے تحت ہوگا۔ ﴿أَمْ لَهُمْ شُرَكَاءُ شَرَعُوا لَهُمْ مِنَ الدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَنْ بِهِ اللَّهُ﴾(الشوری:21) کیا ان کے ایسے بھی شریک ہیں ( جو شریعت سازی میں خدا کی شرکت رکھتے ہیں۔ کیوں کہ شریعت سازی دراصل محض ایک اللہ پاک کا کام ہے۔ ) جنہو ںنے دین کے نام پر ان کے لیے ایسی ایسی چیزوں کو شریعت کا نام دے دیا ہے جن کا اللہ پاک نے کوئی اذن نہیں دیا۔ صد افسوس کہ امت اس مرض میں ہزار سال سے بھی زائد عرصہ سے گرفتار ہے اور ابھی تک اس وباءسے شفائے کامل کے آثار نظر نہیں آتے۔ اللهم ارحم علی أمة حبیبك صلی اللہ علیه وسلم خود ہندو پاکستان میں دیکھ لیجئے ! کونے کونے میں نئی نئی بدعات، عجیب عجیب رسومات نظر آئیں گی۔ کہیں محرم میں تعزیہ سازی ہو رہی ہے تو کہیں کاغذی گھوڑے دوڑائے جارہے ہیں۔ کہیں قبروں پر غلافوں کے جلوس نکالے جارہے ہیں تو کہیں علم اٹھائے جارہے ہیں تعجب مزیدیہ کہ یہ سب کچھ اسلام کے نام پر ہو رہا ہے۔ اس طرح اسلام کو بدنام کیا جارہا ہے۔ علماءہیں کہ منہ میں لگام لگائے بیٹھے ہیں۔ کچھ جواز تلاش کرنے کی دھن میں لگے رہتے ہیں کیوں کہ اس طرح باآسانی ان کی دکان چل سکتی ہے۔ ان اللہ و انا الیہ راجعون۔ حافظ ابن حجر کہتے ہیں : زاد الحاکم في حدیث جابرفقال هُمَا عَلَيَّ فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «هُمَا عَلَيْكَ وَفِي مَالِكَ وَالْمَيِّتُ مِنْهُمَا بَرِيءٌ» فَقَالَ: نَعَمْ فَصَلَّى عَلَيْهِ فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا لَقِيَ أَبَا قَتَادَةَ يَقُولُ: «مَا صَنَعَتِ الدِّينَارَانِ؟» حَتَّى كَانَ آخِرَ ذَلِكَ قَالَ: قَدْ قَضَيْتُهُمَا يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ: «الْآنَ حِينَ بَرَدَتْ عَلَيْهِ جِلْدُهُ»و قد وقعت هذہ القصة مرة أخری فرویالدار قطني من حدیث عليعَنْ عَلِيٍّ , قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أُتِيَ بِالْجِنَازَةِ لَمْ يَسْئَلْ عَنْ شَيْءٍ مِنْ عَمَلِ الرَّجُلِ وَيَسْأَلُ عَنْ دَيْنِهِ , فَإِنْ قِيلَ: عَلَيْهِ دَيْنٌ كَفَّ عَنِ الصَّلَاةِ عَلَيْهِ , وَإِنْ قِيلَ: لَيْسَ عَلَيْهِ دَيْنٌ صَلَّى عَلَيْهِ , فَأُتِيَ بِجِنَازَةٍ فَلَمَّا قَامَ لِيُكَبِّرَ سَأَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَصْحَابَهُ: «هَلْ عَلَى صَاحِبِكُمْ دَيْنٌ؟» , قَالُوا: دِينَارَانِ , فَعَدَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْهُ وَقَالَ: «صَلُّوا عَلَى صَاحِبِكُمْ» , فَقَالَ عَلِيُّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: هُمَا عَلَيَّ يَا رَسُولَ اللَّهِ بَرِئَ مِنْهُمَا , فَتَقَدَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ لِعَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ: «جَزَاكَ اللَّهُ خَيْرًا , فَكَّ اللَّهُ رِهَانَكَ(فتح الباري)یعنی حدیث جابر میں حاکم نے یوں زیادہ کیا ہے کہ میت کے قرض والے وہ دو دینار تیرے اوپر تیرے مال میں سے ادا کرنے واجب ہو گئے۔ اور میت ان سے بری ہو گیا۔ اس پرصحابہ نے کہا، ہاں یا رسول اللہ واقعہ یہی ہے۔ پھر آپ ﷺ نے اس میت پر نماز جنازہ پڑھائی۔ پس جب بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابوقتادہ سے ملاقات فرماتے آپ دریافت کرتے تھے کہ اے ابوقتادہ ! تمہارے ان دو دیناروں کا وعدہ کیا ہوا؟ یہاں تک کہ ابوقتادہ نے کہہ دیا کہ حضور ان کو میں ادا کر چکا ہوں۔ آپ نے فرمایا اب تم نے اس میت کی کھال کو ٹھنڈا کردیا۔ ایسا ہی واقعہ ایک مرتبہ اور بھی ہوا ہے جسے دارقطنی نے حضرت علی ؓ سے روایت کیا کہ آنحضرت ﷺ کے پاس جب کوئی جنازہ لایا جاتا آپ اس کے کسی عمل کے بارے میں نہ پوچھتے مگر قرض سے متعلق ضرور پوچھتے۔ اگر اسے مقروض بتلایا جاتا تو آپ اس کا جنازہ نہ پڑھتے اور اگراس کے خلاف ہوتا تو آپ جناز پڑھا دیتے۔ پس ایک دن ایک جنازہ لایا گیا۔ جب آپ نماز کی تکبیر کہنے لگے تو پوچھا کہ کیا یہ مقروض ہے؟ کہا گیا کہ ہاں دو دینار کا مقروض ہے۔ پس آپ جنازہ پڑھنے سے رک گئے۔ یہاں تک کہ حضرت علی ؓ نے کہا کہ حضور وہ دو دینار میرے ذمہ ہیں۔ میں ادا کردوں گا۔ اور یہ میت ان سے بری ہے۔ پھر آپ ﷺ نے نماز جنازہ پڑھائی۔ اور فرمایا کہ اے علی ! اللہ تم کو جزائے خیر دے، اللہ تم کو بھی تمہارے رہن سے آزاد کرے یعنی تم کو جنت عطا کرے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کوئی میت مقروض ہو اور اس وجہ سے اس کے جنازے کی نماز نہ پڑھائی جارہی ہو تو اگرکوئی مسلمان اس کی مدد کرے اور اس کا قرضہ اپنے سر لے لے تو یہ بہت بڑا ثواب اور باعث رضائے خدا اور رسول ہے اور ا س حدیث کے ذیل میں داخل ہے کہ جو شخص اپنے کسی مسلمان بھائی کی مدد کرے گا اللہ اس کی مدد کرے گا۔ خاص طور پر جب کہ وہ دنیا سے کوچ کر رہا ہے۔ ایسے وقت ایسی امداد بڑی اہمیت رکھتی ہے مگر بعض نام نہاد مسلمانوں کی عقلوں کا یہ حال ہے کہ وہ ایسی امداد پر ایک کوڑی خرچ کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ ویسے نام نمود کے لیے مردہ کی فاتحہ، تیجہ، چالیسواں، من گھڑت رسموں میں کتنا ہی روپیہ پانی کی طرح بہا دیتے ہیں۔ حالانکہ وہ رسوم ہیں جن کا قرآن وحدیث و اقوال صحابہ حتی کہ امام ابوحنیفہ ؒ سے بھی کوئی ثبوت نہیں ہے۔ مگر شکم پرور علماءنے ایسی رسموں کی حمایت میں ایک طوفان جدال کھڑا کر رکھا ہے۔ اور ان رسمو ں کو عین خوشنودی خدا و رسول ﷺ قرار دیتے ہیں اور ان کے اثبات کے لیے آیا ت قرآنی و احادیث نبوی میں وہ وہ تاویلات فاسدہ کرتے ہیں کہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے سچ ہے خود بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں رسول کریم ﷺ نے صاف لفظوں میں فرمایا تھا۔ «مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ فِيهِ، فَهُوَ رَدٌّ»جو ہمارے دین میں ایسی نئی چیز نکالے جس کا ثبوت ہماری شریعت سے نہ ہو، وہ مردود ہے۔ ظاہر ہے کہ رسوم مروجہ نہ عہد رسالت میں تھیں نہ عہد صحابہ و تابعین میں جب کہ ان زمانوں میں مسلمان وفات پاتے تھے، شہید ہوتے تھے مگر ان میں کسی کے بھی تیجہ چالیسویں کا ثبوت نہیں حتی کہ خود حضرت امام ابوحنیفہ کے لیے بھی ثبوت نہیں کہ ان کا تیجہ، چالیسواں کیا گیا ہو۔ نہ امام شافعی ؒ کا تیجہ فاتحہ ثابت ہے۔ جب حقیقت یہ ہے تو اپنی طرف سے شریعت میں کمی بیشی کرنا، خود لعنت خداوندی میں گرفتار ہونا ہے۔ أعاذنا اللہ منها آمین۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Salama bin Al-Akwa (RA): Once, while we were sitting in the company of Prophet, a dead man was brought. The Prophet (ﷺ) was requested to lead the funeral prayer for the deceased. He said, "Is he in debt?" The people replied in the negative. He said, "Has he left any wealth?" They said, "No." So, he led his funeral prayer. Another dead man was brought and the people said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! Lead his funeral prayer." The Prophet (ﷺ) said, "Is he in debt?" They said, "Yes." He said, "Has he left any wealth?" They said, ''Three Dinars." So, he led the prayer. Then a third dead man was brought and the people said (to the Prophet (ﷺ) ), Please lead his funeral prayer." He said, "Has he left any wealth?" They said, "No." He asked, "Is he in debt?" They said, ("Yes! He has to pay) three Diners.', He (refused to pray and) said, "Then pray for your (dead) companion." Abu Qatada said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! Lead his funeral prayer, and I will pay his debt." So, he led the prayer.